(جادو جنات اور علاج قسط نمبرA7)

*کتاب:شریر جادوگروں کا قلع قمع کرنے والی تلوار* *مئولف: الشیخ وحید عبدالسلام بالی حفظٰہ للہ*' *ترجمہ: ڈاکٹر حافظ محمد اسحٰق زاھد*-              *مکتبہ اسلامیہ* *یونیکوڈ فارمیٹ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان*
*کتاب:شریر جادوگروں کا قلع قمع کرنے والی تلوار*
*مئولف: الشیخ وحید عبدالسلام بالی حفظٰہ للہ*'
*ترجمہ: ڈاکٹر حافظ محمد اسحٰق زاھد*-
*مکتبہ اسلامیہ*
*یونیکوڈ فارمیٹ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان*

اعتراض اور اس کا جواب:

المازریؒ کہتے ہیں: مبتد عین نے اس حدیث کا انکار کیا ہے کیونکہ ان کے خیال کے مطابق یہ حدیث منصبِ نبوت کی توہین اور اس میں شکوک و شبہات پیدہ کرتی ہے اور اسے درست ماننے سے شریعت پر اعتماد اٹھ جاتا ہے، ہو سکتا ہےکہ آپﷺ کو خیال آتا ہو کہ جبریلؑ آئے حالانکہ وہ نہ آئے ہوں اور یہ کہ آپﷺ کی طرف وحی کی گئی ہےحالانکہ وحی نہ کی گئی ہو!!
پھر کہتے ہیں کہ مبتدعین کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کیونکہ معجزات نبوت اس بات کی خبر دیتے ہیں کہ آپﷺ تبلیغِ وحی کے سلسلے میں معصوم اور سچے تھے۔ آپﷺ کی عصمت جب معجزات جیسے قوی دلائل سےثابت شدہ حقیقت ہے تو اس کے خلاف جو بات بھی ہو گی وہ بے جا تصور کی جائے گی۔(زادالمسلم:ج4ص221)
ابوالجکنیی الیوسفیؒ کا کہنا ہے:
“جہاں تک جادو سے نبی کریمﷺ کے متاثر ہونے کا تعلق ہے، تو اس سے منصبِ نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا، کیونکہ دنیا میں انبیاءؑ پر بیماری آ سکتی ہے جو آخرت میں ان کے درجات کی بلندی کا باعث بنتی ہے، لہٰذا جادو کی بیماری کی وجہ سے اگرآپﷺ کو خیال ہوتا تھا کہ آپﷺ نے دنیاوی امور میں سے کوئی کام کر لیا ہے حالانکہ آپﷺ نے اسے نہیں کیا ہوتا تھا، اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دے دی کہ آپﷺ پر جادو کیا گیا ہے اور فلاں جگہ پر ہے، اور آپﷺ نے اسے وہاں سے نکال کر دفن بھی کروا دیا تھا تو اس بناء پر رسالت میں کوئی نقص نہیں آتا، کیونکہ یہ دوسری بیماریوں کی طرح ایک بیماری یہ تھی، جس سے آپﷺ کی عقل متاثر نہیں ہوئی۔ صرف اتنی بات تھی کہ آپ کا خیال ہوتا کہ شاید آپﷺ اپنی کسی بیوی کے قریب گئے ہیں جبکہ آپﷺ نے ایسا نہیں کیا ہوتا تھا، سو اتنا اثر بیماری کی حالت میں کسی بھی انسان پر ہو سکتا ہے۔”
پھر کہتے ہیں:
“حیرت اس شخص پر ہوتی ہے کہ جو جادو کی وجہ سے آپﷺ کے بیمار ہونے کو رسالت میں ایک عیب تصور کرتا ہے حالانکہ قرآنِ مجید میں فرعون کے جادوگروں کے ساتھ حضرت موسیٰؑ کا جو قصہ بیان کیا گیا ہے، اس میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ جناب موسیٰؑ کو بھی ان کے جادوکی وجہ سے یہ خیال ہونے لگا تھا کہ ان کے پھینکے ہوئے ڈنڈے دوڑ رہے ہیں۔۔۔۔۔لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ثابت قدم رکھا اور نہ ڈرنے کی تلقین کی۔” (سورۃ طہ کی آیات 66-69، جن کا ترجمہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے)
مگر حضرت موسیٰؑ کے متعلق کسی نے یہ نہیں کہا کہ جادو گروں کے جادو کی وجہ سے انہیں جو خیال آ رہا تھا وہ ان کے منصبِ نبوت کے لئے عیب تھا، (سو اگر وہ عیب نہیں تھا تو جو کچھ آپﷺ کے ساتھ پیش آیا وہ بھی عیب نہیں ہو سکتا کیونکہ) اس طرح کی بیماری انبیاءؑ پر آ سکتی ہے جس سے ان کی ایمانی قوت میں اضافہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں ان کے دشمنوں پر فتح نصیب کرتا ہے۔ خلافِ عادت معجزات عطا کرتا ہے، جادو گروں اور کافروں کو ذلیل و رسوا کرتا ہے اور بہترین انجام متقی لوگوں کے لئے خاص کر دیتا ہے۔” (زاد المسلم:ج4ص22)
2۔ حضرت ابو ہریرہؓ رسول اکرمﷺ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:“ سات ہلاک کرنے والے کاموں سے بچو”
صحابہ کرامؓ نے کہا : اے اللہ کے رسولﷺ! وہ سات کام کونسے ہیں؟
آپﷺ نے فرمایا: “اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، کسی شخص کو بغیر حق کے قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دوران پیٹھ پھیرلینا اور پاک دامن، مئومنہ اور بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگانا۔” (البخاری:ج5ص393، مسلم:ج2ص73)
اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے جادو سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اسے ہلاک کر دینے والے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے، تو یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے، محض خام خیالی نہیں۔
3۔ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
“جس نے ستاروں کا علم سیکھا گویا اس نے جادو کا ایک حصہ سیکھ لیا، پھر وہ ستاروں کے علم میں جتنا آگے جائے گا، اتنا اس کے جادو کے علم میں اضافہ ہو گا۔”
(ابوداود:3905، ابنِ ماجہ3726، الصحیحۃ للالبانی:793)
اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے جادوسیکھنے کا ایک راستہ بتایا ہے تاکہ مسلمان اس راستے سے بچ سکیں، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جادو ایک حقیقی علم ہے جسے باقاعدہ طور پر حاصل کیا جاتا ہے۔ اور یہی بات اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے بھی معلوم ہوتی ہے:
فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجہ
“پھر وہ ان دونوں سے اس چیز کا علم حاصل کرتے ہیں جس سے وہ خاوند بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتے ہیں۔”
مذکورہ حدیث اور آیت دونوں جادو کا علم حاصل کرنے کی مذمت کے ضمن میں آئی ہیں، جس سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ جادو دوسرے علوم کی طرح ایک علم ہے اور اس کے چند اصول ہیں جن پر اس کی بنیاد ہے۔
4۔ عمران بن حصین سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
“وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے فال نکالی یا اس کے لئے فال نکالی گئی، اور جس نے غیب کو جاننے کا دعویٰ کیا یا وہ غیب کا دعویٰ کرنے والے کے پاس گیا، اور جس نے جادو کیا یا اس کے لئے جادو کیا گیا۔”
“اور جو شخص نجومی کے پاس آیا اور وہ جو کچھ کہتا ہے اس نے تصدیق کر دی تو اس نے نبی محمدﷺ کی شریعت سے کفر کیا۔”
(قال الھیشمی فی مجمع الزوائد ج5 ص20: رواہ البزار ورجالہ رجال البخاری سوی اسحق بن الربیع وھو ثٖقہ، وقال المنذریؒ فی الترغیب ج4 ص52 إسنادہ جید، وقال الالبانی فی تخریج الحلال والحرام (289) حدیث حسن لغیرہٖ)
اس حدیث میں آپﷺ نے جادو سے اور جادوگر کے پاس جانے سے منع فرمایا ہے اور نبیﷺ کسی ایسی چیز سے ہی منع کرتے ہیں جو حقیقتاً موجود ہو۔
5۔ ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا:
“شراب پینے والا، جادو پر یقین رکھنے والا، اور قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا”
(رواہ ابن حنان، وقال الابانی فی تخریج الحلال والحرام(291): حدیث حسن)
اس حدیث میں نبی کریمﷺ نے یہ عقیدہ رکھنے سے منع فرمایا ہے کہ جادو بذات خود اثر انداز ہوتا ہے، سو ہر مؤمن پر یہ عقیدہ رکھنا لازم ہے کہ جادو یا کوئی اور چیز سوائے اللہ کی مرضی کے کچھ نہیں کر سکتی۔
فرمانِ الٰہی ہے:
﴿ وَمَا ھُمْ بِضَا رِّ یْنَ بَہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ﴾
“اور وہ جادوگر کسی کو جادو کے ذریعے نقصان نہیں پہنچا سکتے، سوائے اس کے کہ اللہ کا حکم ہو”
6۔ حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ جو شخص علم غیب کا دعویٰ کرنے والے کے پاس یا جادوگر کے پاس یا نجومی کے پاس آیا اور اس نے کچھ پوچھا اور پھر اس نے جو کچھ کہا اس نے تصدیق کر دی، تو اس نے نبی کریمﷺ پر اتارے گئے دین سے کفر کیا”
(قال المنذری فی الترغیب ج4 ص53: روأہ البذار وابویعلی بإسناد جید)
علماء کے اقوال:
1۔ امام خطابی کہتے ہیں:
“کچھ لوگوں نے جادو کا انکار کیا ہے اور اس کی حقیقت کو باطل قرار دیا ہے، اور اس کا جواب یہ ہے کہ جادو ثابت اور حقیقتاً موجود ہے، اس کے ثبوت پر عرب، فارس، ہند اور بعض روم کی اکثر قوموں کا اتفاق ہے، اور یہی قومیں صفحۂ ہستی پر بسنے والے لوگوں میں افضل ہیں اور انہی میں علم و حکمت زیادہ ہے۔ اور فرمان الٰہی ہے:
﴿ یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ﴾
“وہ لوگوں کو جادو سکھاتے ہیں”
اور اس سے پناہ طلب کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے:
﴿ وَمِنْ شَرِّ النَّفَّا ثٰتِ فِیْ الْعُقَدِ ﴾
جبکہ جادو کے بارے میں رسول اللہﷺ کی احادیث ثابت ہیں جن کا انکار وہی شخص کر سکتا ہے جو دیکھی ہوئی چیزوں اور بدیہی باتوں کو نہ مانتا ہو۔۔۔۔۔۔۔ سو جادو کی نفی کرنا جہالت اور نفی کرنے والے پر رد کرنا بے سود اور فضول کام ہے۔” (شرح السنہ:ج12صا88)
2۔ امام قرطبی کا کہنا ہے:
“اہل السنہ کا مذہب یہ ہے کہ جادو ثابت اور فی الواقع موجود ہے، جبکہ معتزلہ اور امام شافعی کے شاگردوں میں سے ابواسحٰق الاسترابادی کا مذہب یہ ہے کہ جادو حقیقتاً موجود نہیں ہے اور یہ محض ایک ملمع سازی، حقیقت پر پردہ پوشی اور وہم و گمان ہے اور شعبدہ بازی کی قسموں میں سے ایک ہے، اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بھی اس کے متعلق یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ
﴿ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِ ھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی ﴾
یعنی کہ حضرت موسیٰؑ کو ایسے خیال آیا کہ جادو گروں کے پھینکے ہوئے ڈنڈے دوڑ رہے ہیں اور یوں نہیں فرمایا کہ وہ فی الواقع دوڑ رہے تھے، اور اسی طرح سے فرمایا:
﴿ سَحَرُوْا اَعْیُنَ النَّاسِ ﴾
یعنی انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا۔
“ان آیات میں معتزلہ وغیرہ کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ ہمیں اس بات سے انکار نہیں کہ خود تخیل یعنی کسی کو وہم و گمان میں مبتلا کر دینا بھی جادو کا ایک حصہ ہے، اور اس کے علاوہ دیگر عقلی و نقلی دلائل سے بھی جادو کا فیالواقع موجود ہونا ثابت ہے، ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
1۔ آیت﴿وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوْا الشَّیَاطِیْنُ عَلَیٰ مُلْکِ سُلَیْمَانَ۔۔۔۔۔﴾میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ وہ جادو کا علم سکھاتے تھے، چنانچہ علمِ جادو اگر حقیقت میں موجود نہ ہوتا تو اس کی تعلیم ممکن نہ ہوتی اور نہ ہی اللہ تعالیٰ اس بات کی خبر دیتے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔
۲۔ فرعون کے بلائے ہوئے جادوگروں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں﴿ وَجَاءُوْا بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ﴾ یعنی وہ عظیم جادو لے کر آئے۔
3۔ سورہ الفلق کے سببِ نزول پر مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ لبید بن اعصم کے جادو کی وجہ سے نازل ہوئی۔
4۔ صحیحین (بخاری و مسلم) میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ یہودیوں کے قبیلہ بنو زُریق سے تعلق رکھنے والے لبید بن اعصم نے آپﷺ پر جادو کر دیا تھا۔۔۔۔۔ اوراس میں یہ بات بھی موجود ہے کہ جب آپ پر کیے گئے جادو کا اثرختم ہوا تو آپﷺ نے فرمایا تھا: (إن اللہ شفانی) “بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دے دی ہے” اور شفا اسی وقت ہوتی ہے جب بیماری ختم ہوجائے، سو اس سے ثابت ہوا کہ واقعتاً جادو کا اثر آپﷺ پر ہوا تھا۔
مذکورہ آیات و احادیث جادو کے فی الواقع موجود ہونے کے یقینی اور قطعی دلائل ہیں۔ اور اسی پر ان علماء کا اتفاق ہے جن کے اتفاق کو اِجماع کہتے ہیں، رہے معتزلہ وغیرہ کو تو ان کی مخالفت ناقابل اعتبار ہے۔”
امام قرطبیؒ مزید کہتے ہیں:
“جادو کا علم مختلف زبانوں میں منتشر رہا ہے اور لوگ اس کے بارے میں گفتگو کرتےرہے ہیں، سو یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے اور صحابہ و تابعین کرامؓ میں سے کسی ایک سے اس کا انکار ثابت نہیں۔” (تفسیر قرطبی:6/46)
3۔ امام مازریؒ کا کہنا ہے:
“جادوثابت اور فی الواقع موجود ہے، جس پر جادو کیا جاتا ہے اس پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ اور کچھ لوگوں کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ جادو حقیقتاً موجود نہیں ہے اور محض وہم و گمان ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے کہ جادو ان چیزوں میں سے ہے جن کا علم باقاعدہ طور پر سیکھا جاتا ہے، جادو کی وجہ سے جادوگر کافر ہوجاتا ہے اور یہ کہ جادو کر کے میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالی جا سکتی ہے، چنانچہ یہ ساری باتیں کسی ایسی چیز کے متعلق ہی ہو سکتی ہیں جو فی الواقع موجود ہو۔ اور آپﷺ پر جادو والی حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ چند چیزوں کو دفن کیا گیا تھا اور پھر انہیں نکال دیا گیا، تو کیا یہ سب کچھ جادو کی حقیقت کو ثابت کرنے کےلئے کافی نہیں؟ اور یہ بات عقلاً بعید نہیں ہے کہ باطل سے مزین کئے ہوئے کلام کو بولتے وقت یا چند چیزوں کو آپس میں ملاتے وقت یا کچھ طاقتوں کو اکٹھا کرتے وقت جس کا طریقۂ کار جادوگر کو ہی معلوم ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کسی خلافِ عادت کام کو واقع کردے۔
اور یہ بات تو ہر شخص کے مشاہدے میں موجود ہے کہ کچھ چیزیں انسان کی موت کاسبب بن جاتی ہیں مثلاًزہر وغیرہ۔ اور کچھ چیزیں انسان کو بیمار کر دیتی ہیں، مثلاً گرم دوائیاں۔ اور کچھ چیزیں انسان کو تندرست بنا دیتی ہیں مثلاً وہ دوائیاں جو بیماری کے الٹ ہوتی ہیں۔ سواس طرح کا مشاہدہ کرنے والا آدمی اس بات کو بھی عقلاً بعید نہیں سمجھتا کہ جادوگر کو چند ایسی چیزوں کا علم ہو جو موت کا سبب بنتی ہوں یا اسے ایسا کلام معلوم ہوجو تباہ کن ثابت ہو یا میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتا ہو” (زادالمسلم:ص225،ج4)
4۔ امام نوویؒ کہتے ہیں:
“صحیح یہ ہے کہ جادو حقیقتاً موجود ہے۔ اور اسی موقف کو اکثر و بیشتر علماء نے اختیار کیا ہے اور کتاب و سنت سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔” (فتح الباری:ص222،ج10)
5۔ امام ابن قدامہؒ فرماتے ہیں:
“جادو فی الواقع موجود ہے اور اس کی کئی اقسام ہیں، وہ جو کہ مار دیتا ہے، وہ جو کہ بیمار کر دیتا ہے، وہ جو کہ خاوند کو بیوی کے قریب جانے سے روک دیتا ہے، اور وہ جو کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتا ہے۔ اور یہ بات تو لوگوں کے ہاں بہت مشہور ہے کہ جادو کی وجہ سے شوہر اپنی بیوی سے جماع کرنے پر قادرنہیں ہوتا، پھر جب اس سے جادو کا اثر ختم ہو جاتا ہے تو وہ جماع کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اور یہ بات تو اتر کی حد تک پہنچ چکی ہے جس کا انکارکرنا ناممکن ہے۔ اور اس سلسلے میں جادوگروں کے قصے اتنی کثرت سے موجود ہیں کہ ان سب کو جھوٹا قرار دینا ناممکن ہے۔” (المغنی:ج10،ص102)
وہ مزید کہتے ہیں:
“جادو جھاڑ پھونک اور گرہیں لگانے کا نام ہے، جس سے دل و جان پر اثر ہوتا ہے، بیماری کی شکل میں، یا موت کی شکل میں، یا میاں بیوی کے درمیان جدائی کی شکل میں، فرمانِ الٰہی ہے:
﴿فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْھُمَا مَا یُفَرِّ قُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِہٖ ﴾
“وہ لوگ ان دونوں فرشتوں سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے والا علم سیکھنے لگے۔”
اور فرمایا: ﴿ وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴾ یعنی وہ جادوگر عورتیں جو اپنے جادو پر گرہیں لگاتی ہیں اور ان پر پھونک مارتی ہیں ان سے تیری پناہ مانگتا ہوں، لہذا جادو کی اگر کچھ حقیقت نہ ہوتی تو اس سےپناہ طلب کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔” (فتح المجید:ص314)
6۔ علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
“فرمانِ الٰہی﴿ وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴾ اور حدیث عائشہؓ اس بات کے دلائل ہیں کہ جادو اثر انداز ہوتا ہے اور واقعتاً موجود ہے۔” (بدائع الفوائد: ج2،ص227)
7۔ امام ابن ابی العزحنفیؒ فرماتے ہیں:
“علماء نے حقیقتِ جادو اور اس کی اقسام میں اختلاف کیا ہے، ان میں سے اکثر یہ کہتے ہیں کہ جادو کبھی جادو کئےگئے آدمی کی موت کا سبب بنتا ہے اور کبھی اسکی بیماری کا” (شرح العقیدہ الطحاویہ:ص505)
جاری ہے....
imran shahzad tarar
About the Author: imran shahzad tarar Read More Articles by imran shahzad tarar: 43 Articles with 38766 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.