*کیا رسول اللہ ﷺ پر جادو ہوا تھا ؟* (قسط نمبر 42)
(imran shahzad tarar, mandu bhauddin)
ایک تحقیقی رپورٹ کی رسول اللہ ﷺ پر جادو ہوا تها؟ |
|
*از:قلم غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری*
نبی اکرم ﷺ پر جادو ہوا تھا ، جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت
ہے:
"بنو زریق کے لبید بن الاعصم نامی ایک آدمی نے اللہ کے رسول ﷺ پر جادو
کردیا، آپکو خیال ہوتا تھا کہ آپ کسی کام کو کررہے ہیں، حالانکہ کیا نہ
ہوتا تھا، حتی کہ ایک دن یا ایک رات جب کہ آپ ﷺ میرے پاس تھے ، آپ نے بار
بار دعا کی ، پھر فرمایا ، اے عائشہ! کیا تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے
مجھے وہ بات بتا دی ہے ، جو میں اس سے پوچھ رہا تھا؟ میرے پاس دو آدمی آئے،
ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا، ان میں سے ایک نے
اپنے دوسرے ساتھی سے پوچھا، اس آدمی کو کیا تکلیف ہے ؟ اس نے کہا ، اس پر
جادو کیا گیا ہے ، اس نے کہا ، کس نے کیا ہے ؟، اس نے کہا ، لبید بن اعصم
نے، اس نے کہا ، کس چیز میں ؟ ، کہا، کنگھی ، بالو ں اور نَر کھجور کے
شگوفے میں، اس نے کہا ، وہ کہا ں ہے ، کہا ، بئر ذروان میں ، آپ ﷺ کچھ
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ وہاں گئے ، پھر واپس آئے اور
فرمایا ، اے عائشہ ! اس کنویں کا پانی گویا کہ مہندی ملا ہوا تھا اور اس کی
کھجوریں گویا شیطانوں کے سر تھے ، (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں)
میں نے کہا ، کیا آپ نے اسے نکالا ہے ،فرمایا، نہیں، مجھے تو اللہ تعالیٰ
نے عافیت و شفا دے دی ہے ، میں اس بات سے ڈر گیا کہ اس کا شر لوگوں میں
اٹھاؤں۔"
(صحیح بخاری: ۸۵۸/۲، ح: ۵۷۶۶، صحیح مسلم : ۲۲۱/۲، ح: ۲۱۸۹) یہ متفق علیہ
حدیث دلیل قاطع اور برہانِ عظیم ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو ہواتھا، واضح
رہے کہ جادو ایک مرض ہے ، دیگر امراض کی طرح یہ بھی انبیاء کو لاحق ہوسکتا
تھا، قرآن و حدیث میں کہیں یہ ذکر نہیں ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر جادو
نہیں ہوسکتا۔ یہ حدیث بالاجماع "صحیح" ہے ، ہاں وہ معتزلہ فرقہ اس کا
انکاری ہے، جو قرآن کو مخلوق کہتا ہے ، وہ نہ صرف اس حدیث کا منکر ہے ،
بلکہ اور بھی بہت ساری احادیث صحیحہ کا منکر ہے۔جیسا کہ امام نعیم بن حماد
الخزاعی رحمہ اللہ (م ۲۲۸ھ) فرماتے ہیں: المعتزلۃ تردون ألفی حدیث من حدیث
النبی ﷺ أو نحو ألفی حدیث. "معتزلہ احادیثِ نبویہ میں سے دو ہزار یا اس کے
لگ بھگ احادیث کا انکار کرتے ہیں۔"(سنن ابی داود: تحت حدیث: ۴۷۷۲، وسندہ
صحیح )
ہمارے دور کے بعض معتزلہ نے اس حدیث پر عقلی و نقلی اعتراضات وارد کیے ہیں
، آئیے ان اعتراضات کا علمی و تحقیقی جائزہ لیتے ہیں:
اعتراض نمبر ۱ :
اس کا راوی ہشام بن عروہ "مدلس" ہے ۔
جواب: (۱) ہشام بن عروہ کے "ثقہ" ہونے پر اجماع و اتفاق ہے ، ان پر امام
مالک کی جرح کا راوی ابنِ خراش خود "ضعیف" ہے،لہٰذا وہ قول مردود ہے-
اگرچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کو طبقہ اولیٰ کے "مدلسین" میں ذکر کیا
ہے ،لیکن ان کا "مدلس" ہونا ثابت نہیں ہے ، جس قول (معرفۃ علوم الحدیث
للحاکم : ص ۱۰۴، ۱۰۵) کی وجہ سے انہیں "مدلس" قرار دیا گیا ہے ، وہ قول
ثابت نہیں ہے ، اس قصہ کے راوی عبداللہ بن علی بن المدینی کی "توثیق" ثابت
نہیں ہے ۔
(۲)ہشام بن عروہ بن عروہ بن زبیر نے صحیح بخاری (۴۵۰/۱، ح : ۳۱۷۵) اور مسند
احمد (۵۰/۶) میں حدثنی کہہ کر اپنے والد سے سماع کی تصریح کردی ہے ۔ والحمد
للہ علی ذلک!
(۳) صحیحین میں "مدلسین " کی روایات سماع پر محمول ہیں۔
اعتراض نمبر ۲ :
مشہور معتزلی حبیب الرحمٰن کاندھلوی حیاتی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
"یہ روایت ہشام کے علاوہ کوئی بیان نہیں کرتا اور ہشام کا ۱۳۲ھ میں دماغ
جواب دے گیا تھا، بلکہ حافظ عقیلی تو لکھتے ہیں: قد خرف فی آخر عمرہ. آخر
عمر میں سٹھیا گئے تھے ،تو اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ روایت سٹھیانے سے پہلے
کی ہے؟"
(مذھبی داستانیں اور ان کی حقیقت:۹۱/۲)
جواب:
یہ محض تراشیدہ الزام ہے ، حافظ عقیلی کا قول نہیں مل سکا ، متقدمین ائمہ
میں سے کسی نے ان پر اختلاط کا الزام نہیں لگایا، دوسری بات یہ ہے کہ صحیح
بخاری و مسلم میں تمام مختلط راویوں کی روایات اختلاط سے پہلے پر محمول
ہیں۔جیساکہ حافظ نووی رحمہ اللہ ایک مختلط راوی کے بارے میں لکھتے ہیں:وما
کان فی الصحیحین عنہ محمول علی الأخذ عنہ قبل اختلاطہ."اور جو کچھ صحیحین
میں ان سے منقول ہے ، وہ ان سے اختلاط سے قبل لے لیے جانے پر محمول ہے
۔"(تہذیب الاسماء و اللغات للنووی: ۲۲۱/۱)
تنبیہ:
حافظ ابن القطان رحمہ اللہ (م ۶۲۸ھ) نے ہشام کو "مختلط" کہا ہے ۔ (بیان
الوہم والایھام: ۵۰۸/۴ ح ۲۷۲۶) اس کے رد و جواب میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ
لکھتے ہیں: ولم نرلہ فی ذلک سلفا.
"ہم نے اس بارے میں ان کا کوئی سلف (ان سے پہلے یہ بات کہنے والا) نہیں
دیکھا۔"(تہذیب التہذیب لابن حجر: ۵۱/۱۱)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:وھشام ، فلم یختلط قط، ھذا أمر مقطوع بہ.
"ہشام کبھی بھی مختلط نہیں ہوئے ، یہ بات قطعی ہے ۔(سیر اعلام
النبلاءللذھبی: ۲۶/۶)
نیز فرماتے ہیں: فقول ابن القطان : أنہ مختلط، قول مردود و مرذول."ابن
القطان کا انہیں مختلط کہنا مردود اور ناقابل التفات ہے۔" (سیر اعلام
النبلاء للذھبی : ۳۶/۶)
مزید فرماتے ہیں:ولا عبرۃ. "اس کا کوئی اعتبار نہیں" (میزان الاعتدال
للذھبی : ۳۰۱/۴) اس تصریح کے بعد معلوم ہوا کہ حافظ ابن القطان الفاسی رحمہ
اللہ کا قول ناقابل التفات ہے ۔
اعتراض نمبر ۳:حبیب الرحمن کاندھلوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:‘‘ہشام کے
مشہور شاگردوں میں سے امام مالک یہ روایت نقل نہیں کرتے، بلکہ کوئی بھی اہل
مدینہ یہ روایت نقل نہیں کرتا، ہشام سے جتنے بھی راوی ہیں، سب عراقی ہیں،
اور اتفاق سے عراق پہنچنے کے چند روز بعد ہشام کا دماغ سٹھیا گیا
تھا۔''(مذھبی داستانیں اور ان کی حقیقت از کاندھلوی:۲؍۹۱)
جواب:یہ جھوٹی داستان ہے، ‘‘ہشام کا دماغ سٹھیا گیا تھا'' اس پر کیا دلیل
ہے؟ حافظ ابنِ حجر ؒ کی تصریحات آپ نے ملاحظہ فرمالی ہیں، دوسری بات یہ ہے
کہ ہشام سے روایت ان کے دو مدنی شاگردوں نے بھی بیان کی ہے:۱۔ انس بن عیاض
المدنی (صحیح بخاری:۶۳۹۱)۲۔ عبدالرحمن بن ابی الزناد المدنی (ثقہ عند
الجمھور) (صحیح بخاری: ۵۷۶۳)لہٰذا کاندھلوی صاحب کا یہ کہنا کہ ‘‘ کوئی بھی
اہل مدینہ یہ روایت نقل نہیں کرتا'' زبردست جھوٹی داستان ہے۔
والحمد للہ!
حدیث رسول ﷺ کے خلاف ایسی واہی تباہی مچانے والے کبھی یومِ حساب کو یاد کر
لیا کریں۔
اعتراض نمبر ۴:
مشہور منکر حدیث شبیر احمد ازہر میرٹھی صاحب لکھتے ہیں:‘‘ہشام کی بیان کی
ہوئی روایات میں سے کسی بھی روایت کی اسناد میں یہ ذکر نہیں ہے کہ عروہ نے
حضرت ام المؤمنین عائشہ ؓ سے یہ حدیث سنی تھی۔'' (صحیح بخاری کا مطالعہ از
میرٹھی: ۲/۸۷)
جواب:۱۔ جب راوی کی اپنے استاد سے ملاقات ثابت ہو اور وہ راوی ‘‘مدلس'' نہ
ہو تو اس کی ‘‘ عن '' والی روایت محدثین مؤمنین کے نزدیک متصل اور سماع پر
محمول شمار ہوتی ہے، عروہ کا سیدہ عائشہ ؓ سے ملاقات و سماع ثابت ہے۔
دیکھیں (صحیح بخاری: ۳۲۷۷، صحیح مسلم ۲۴۱۸)
امام عروہ رحمہ اللہ ‘‘ مدلس'' بھی نہیں ہیں، لہٰذا سند متصل ہے۔
قارئین کرام ۔ جادو والی حدیث کے متعلق منکرین حدیث کی یہ کل کائنات تھی،
جس کا حشر آپ نے دیکھ لیا ہے۔بعض لوگ اس حدیثِ عائشہ ؓ کو قرآن کریم کے
خلاف گردانتے ہیں، ہمارا جواب یہ ہے کہ بالاجماع صحیح حدیث قرآن مقدس کے
خلاف نہیں ہے، وہ کونسی آیتِ کریمہ ہے، جو پتا دیتی ہے کہ نبی پر جادو نہیں
ہو سکتا؟ یہ تو کافروں کا نظریہ تھا کہ نبی پر جادو نہیں ہو سکتا، اس لئے
انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت کو جادو سے تعبیر کیا تھا۔
دوسری بات یہ ہے کہ موسیٰ علیہ پر جادو کا ثبوت قرآن کریم نے فراہم کیا ہے،
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:قَالَ بَلۡ اَلۡقُوۡا ۚ فَاِذَا حِبَالُہُمۡ وَ
عِصِیُّہُمۡ یُخَیَّلُ اِلَیۡہِ مِنۡ سِحۡرِہِمۡ اَنَّہَا
تَسۡعٰی(طٰہٰ:۶۶)‘‘ان
(جادوگروں کے اس جادو کے بارے میں قرآن کریم نے اعلان کیا ہے کہ :ترجمہ:
‘‘اور وہ بہت بڑا جادو لے کر آئے تھے۔ (الاعراف: ۱۱۶)
نبی اکرم ﷺ پر جادو کا ثبوت حدیث نے انہی قرآنی الفاظ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ
کے ساتھ دیا ہے۔جو جواب منکرین حدیث اس آیت کے بارے میں دیں گے ، وہی جواب
ہمارا جادو والی حدیث کے بارے میں ہو گا۔
اس پر سہاگہ یہ کہ اس حدیث ِ عائشہ ؓ سے محدثین مؤمنین نے یہی مسئلہ سمجھا
ہے کہ نبی کریم ﷺ پر جادو ہوا تھا، جسے معتزلہ ماننے سے انکاری ہیں۔
عالمِ ربانی شیخ الاسلام ثانی علامہ ابن قیم الجوزیہ ؒ لکھتے ہیں:(عربی
عبارت کاٹ دیا گیا صرف ترجمہ پیش کیا جارہا ہے)
حدیث کا علم رکھنے والے لوگوں کے نزدیک یہ حدیث صحیح ثابت ہے، و ہ اسے
قبولیت سے لیتے ہیں اور اس کی صحت میں ان کا اختلاف نہیں ہے، اکثر اہل کلام
اور دیگر کئی لوگوں نے اعتراض کیاہے اور انہوں نے اس کا سخت انکار کیا، اس
کو جھوٹ قرار دیا اور ان میں سے بعض نے اس بارے میں مستقل کتاب لکھی، اس
میں انہوں نے ہشام بن عروہ پر اعتراض کیا ہے، اس بارے میں سب سے بڑی بات جو
کسی نے کہی ہے، وہ یہ ہے کہ ہشام بن عروہ نے غلطی کی ہے اور ان پر معاملہ
مشتبہ ہو گیا تھا، ان کا کہنا ہے، اس لئے کہ نبی کریم ﷺ پر جادو ہونا ممکن
نہیں ہے، کیونکہ ایسا کہنا کافروں کے قول کی تصدیق ہے، انہوں نے (مسلمانوں
سے) کہا تھا: ترجمہ : تم تو ایک جادو زدہ شخص کی پیروی کرتے ہو۔
(الاسراء:۴۷)
یہی بات فرعون نے موسیٰ ؑ سے کہی تھی:
ترجمہ:اے موسیٰ ، میں تجھے جادو زدہ سمجھتا ہوں(الاسراء: ۱۰۱)
صالح کی قوم نے ان سے کہا: ترجمہ:یقیناً تو جادو زدہ لوگوں میں سے
ہے(الشعراء ۱۵۳)
اور شعیب ؑ کی قوم نے ان سے کہا: ترجمہ: بلا شبہ تو جادو زدہ لوگوں میں سے
ہے(الشعراء ۱۸۵)
نیز ان (منکرینِ حدیث) کا کہنا ہے کہ انبیاء پر جادو
اس لئے بھی ممکن نہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ان کی حمایت اور شیاطین سے ان
کی حفاظت کے منافی ہے۔یہ بات جو انہوں نے کہی ہے، اہل علم کے ہاں مردود ہے،
کیونکہ ہشام بن عروہ (اپنے دور کے ) تمام لوگوں سے بڑھ کر عالم اور ثقہ
تھے، کسی امام نے بھی ان کے بارے میں ایسی بات نہیں کہی، جس کی وجہ سے ان
حدیث کو رد کرنا ضروری ہو، متکلمین کو اس فن(حدیث) سے کیا تعلق (یعنی ان کی
ہشام پر جرح حیثیت نہیں رکھتی) ،
نیز ہشام کے علاوہ دوسرے راویوں نے بھی یہ حدیث سیدہ عائشہ ؓ سے بیان کی
ہے، امام بخاری و مسلم ؓ نے اس حدیث کی صحت پر اتفاق کیا ہے، محدثین میں سے
کسی نے اس حدیث کے (ضعف کے ) بارے میں ایک کلمہ بھی نہیں کہا، یہ واقعہ
مفسرین، محدثین ، مؤرخین اور فقہاء کے ہاں مشہور ہے، اور یہ لوگ متکلمین سے
بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کے حالات و واقعات سے آگاہ ہیں۔ ''(بدائع الفوائد لابن
القیم:۲؍۲۲۳)
حافظ ابنِ حجر ؒ علامہ مازری سے نقل کرتے ہیں:
ترجمہ: ماذری کا کہنا ہے کہ بعض بدعتی لوگوں نے اس حدیث کا انکار کر دیا ہے
اور یہ گمان کیا ہے کہ یہ حدیث مقامِ نبوت کو گراتی اور اس میں شکوک و
شبہات پیدا کرتی ہے، ان کے بقول ہر وہ چیز جو اس طرف لے جائے، وہ باطل ہے
اور انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انبیاء پر جادو کو ممکن سمجھنا ان کی بیان
کردہ شرعیتوں پر سے اعتماد کو ختم کر دیتا ہے، کیونکہ احتمال ہے کہ وہ
جبریل کو دیکھنے کا گمان کریں ، حالانکہ وہاں جبریل نہ ہو، نیز اس کی طرف
وحی کی جائے اور وہ یہ سمجھے کہ اس کی طرف کوئی وحی نہیں آئی۔یہ سب شبہات
مردود ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم ﷺ کے اپنی تبلیغ میں سچے
ہونے اور غلطی سے معصوم ہونے کی دلیل آ چکی ہے، پھر آپ کے معجزات اس بات کے
گواہ ہیں، لہذا جس بات پر دلیل قائم ہو چکی ہے، اس کے خلاف امکانات پیش
کرنا باطل ہے،
رہے وہ معاملات جو دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو
ان کے لئے مبعوث ہی نہیں فرمایا، نہ ہی رسالت کا ان سے تعلق ہے ، لہٰذا نبی
کریم ﷺ بھی ان معاملات سے عام انسانوں کی طرح دوچار ہوتے ہیں، جیسا کہ
بیماریاں ہیں، لہٰذا دنیاوی معاملات میں کسی بے حقیقت چیز کا آپ کو خیال آ
جانا کوئی بعید بات نہیں ہے،
جبکہ آپ ﷺ دینی معاملات میں اس سے بالکل محفوظ ہیں، بعض لوگوں کا کہنا ہے
کہ حدیث کی مراد یہ ہے کہ آپ کو یہ خیال آتا تھا کہ میں نے اپنی بیویوں سے
مباشرت کی ہے، حالانکہ ایسا ہوا نہ ہوتا تھا، یہ بات تو اکثر انسانوں کو
خواب میں بھی لاحق ہوتی رہتی ہے، اس صورت حال کا آپ کو بیداری میں پیش آ
جانا کوئی بعید نہیں۔۔۔''(فتح الباری لابن حجر: ۱۰؍۲۲۶۔۲۲۷)
اس بات کی صراحت حدیث کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے:حتیٰ کان یری أنہ یأتی
النساء، ولا یأتیھن۔ ‘‘حتی کہ آپ یہ سمجھتے کہ آپ ﷺ اپنی بیویوں کے پاس آتے
ہیں، حالانکہ آپ آتے نہ تھے۔ ''(صحیح بخاری:۲؍۵۸۵، ح:۵۷۶۵)
نیز حافظ ابنِ حجر ؒ مہلب سے ذکر کرتے ہیں:
ترجمہ۔‘‘نبی کریم ﷺ کا شیطانوں سے محفوظ ہونا ان کے آپ ﷺ کے بارے میں بری
تدبیر کے ارادے کی نفی نہیں کرتا، صحیح بخاری ہی میں یہ بات بھی گزری ہے کہ
ایک شیطان نے آپ ﷺ کی نماز خراب کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ
کو اس پر قدرت دے دی، اسی طرح جادو کا معاملہ ہے، آپ ﷺ نے اس سے کوئی ایسا
نقصان نہیں اٹھایا جو تبلیغ دین کے متعلق ہو، بلکہ آپ نے اس سے ویسی ہی
تکلیف اٹھائی ہے، جیسی باقی امراض سے آپ کو ہو جاتی تھی، مثلاً بول چال سے
عاجز آنا، بعض کاموں سے رک جانا یا عارضی طور پر کوئی خیال آ جانا، اللہ
تعالیٰ آپ ﷺ سے شیاطین کی تدبیر باطل وزائل کر دیتا تھا۔ ''(فتح الباری:
۱۰؍۲۲۷)
دیو بندیوں کے ‘‘ مفتی اعظم '' محمد شفیع دیوبندی کراچوی صاحب لکھتے ہیں:
‘‘ کسی نبی یا پیغمبر پرجادو کا اثر ہو جانا ایسا ہی ممکن ہے ، جیسا کہ
بیماری کا اثر ہو جاتا، اس لئے کہ انبیاء ؑ بشری خواص سے الگ نہیں ہوتے،
جیسے ان کو زخم لگ سکتا ہے، بخار اور درد ہو سکتا ہے، ایسے ہی جادو کا اثر
بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ بھی خاص اسباب ، طبعیہ جنات وغیرہ کے اثر سے
ہوتا ہے، اور حدیث ثابت بھی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ پرجادو کا اثر ہو
گیا تھا، آخری آیت میں جو کفار نے آپ کو ‘ مسحور' کہا اور قرآن نے اس کی
تردید کی ، اس کا حاصل وہ ہے جس کی طرف خلاصۃ تفسیر میں اشارہ کر دیا گیا
ہے، ان کی مراد در حقیقت ‘مسحور' کہنے سے مجنون کہنا تھا، اس کی تردید قرآن
نے فرمائی ہے، اس لئے حدیث ِ سحر اس کے خلاف اور متعارض نہیں۔ ''(معارف
القرآن: ۵؍۴۹۰۔۴۹۱)
شبیر احمد عثمانی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں: ‘‘ لفظِ مسحور سے جو مطلب وہ
(کفار ) لیتے تھے، اس کی نفی سے یہ لازم نہیں آتا کہ نبی پر کسی قسم کا سحر
(جادو) کا کسی درجہ میں عارضی طور پر بھی اثر نہ ہو سکے، یہ آیت مکی ہے،
مدینہ میں آپ پریہود نے جادو کرانے کا واقعہ صحاح میں مذکور ہے، جس کا اثر
چند روز تک اتنا رہا کہ بعض دنیاوی کاموں میں کبھی کبھی ذہول (بھول) ہو
جاتا تھا۔''(تفسیر عثمانی)
جناب محمد حسین نیلوی مماتی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں: ‘‘ ایک یہودی نے آپ پر
جادو بھی کیا تھا۔'' (الادلۃ المنصوصۃ از نیلوی:۹۴)
احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب لکھتے ہیں: ‘‘ جادو اور اس کی تاثیر حق ہے،
دوسرے یہ کہ نبی کے جسم پر جادو کا اثر ہو سکتا ہے۔ ''(تفسیر نور العرفان:ص
۹۶۵)
آخر میں ہم علامہ عینی حنفی کی عبارت پیش کرتے ہیں، جس سے تمام شکوک و
شبہات دور ہو جاتے ہیں، عینی حنفی لکھتے ہیں:
ترجمہ‘‘ بلا شک و شبہ اس جادو نے نبی اکرم ﷺ کو ضرر پہنچایا، کیونکہ وحی
میں سے کوئی چیز متغیر نہیں ہوئی، نہ ہی شریعت میں کوئی مداخلت ہوئی، پس
تخیل و وہم میں سے ایک چیز رسول اللہ ﷺ کو لاحق ہوئی ، پھر اللہ تعالیٰ نے
آپ ﷺ کو اسی حالت پر نہیں چھوڑا، بلکہ اس کو اس سے محفوظ رکھنے کے ساتھ
ساتھ اس کا تدارک بھی کیا، آپ کو جادو کی جگہ بھی بتائی ، اس کو نکالنے کا
بھی پتا دیا اور آپ سے اس کو ختم کیا، جس طرح کہ بکری کے شانے کے گوشت کے
بولنے کے ساتھ اس کے زہر کو آپ سے دور کیا تھا، تیسری بات یہ ہے کہ جادو آپ
کے ظاہر پر ہوا تھا، دل و دماغ اور اعتقاد پر نہیں، جادو امراض میں سے ایک
مرض ہے اور بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے، دوسری بیماریوں کی طرح آپ کو اس
کا لاحق ہونا بھی ممکن ہے ،
لہٰذا یہ بات آپ کی نبوت میں کوئی عیب پیدا نہیں کرتی، دنیاوی معاملات میں
آپ پر اس کا اثر ممکن ہے، دوسرے انسانوں کی طرح دنیاوی معاملات میں آپ ﷺ پر
بھی آفات آ سکتی ہیں۔ ''(عمدۃ القاری ازعینی:۱۶؍۹۸)
نیز لکھتے ہیں:
ترجمہ‘بعض ملحدین (بے دین لوگوں نے سیدہ عائشہ ؓ کی حدیث پر اعتراض کیا ہے
اور کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیسے ہو سکتا ہے، حالانکہ یہ تو کفر ہے
اور شیطان کے اعمال میں سے ایک عمل ہے؟ اللہ کے نبی کو اس کا نقصان کیسے
پہنچ سکتا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کی تھی ، فرشتوں کے
ذریعے آپ کی رہنمائی کی تھی اور وحی کو شیطان سے محفوظ کیا تھا؟ اس کا جواب
یہ دیا گیا ہے کہ یہ اعتراض فاسد اور قرآن کے خلاف بغض پر مبنی ہے، کیونکہ
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو سورہ فلق سکھائی تھی، اس میں النفاثات کا
معنی گرہوں میں جادو کرنے والی عورتیں ہے، جس طرح کہ جادو کرنے والا شخ
کرتا ہے اس جادو کو نبی پر ممکن کہنے میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے معلوم
ہو کہ وہ آپ کے ساتھ ہمیشہ لازم رہا تھا یا آپ کی ذات یا شریعت میں کوئی
خلل آیا تھا، آپ کو جادو کے اثر سے اسی طرح کی تکلیف پہنچی تھی، جس طرح کی
تکلیف بیمار کو بخار کی وجہ سے پہنچتی ہے، یعنی کلام کا کمزور ہونا ،
خیالات کا فاسد ہونا وغیرہ پھر یہ چیز آپ سے ذائل ہو گئی اور اللہ تعالیٰ
نے آپ سے جادو کی تکلیف کو ختم کر دیا، اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ آپ ﷺ
کی رسالت ( اس جادو کے اثر سے محفوظ رہی ہے ۔''(عمدۃ القاری: ۱۶؍۹۸)
شبہ:بعض لوگ یہ شبہ ظاہر کرتے ہیں کہ خبرِ واحد عقیدہ میں حجت نہیں ہے،
لہٰذا اس مسئلہ میں بھی خبرِ واحد حجت نہیں ہے۔
ازالہ: یہ مسئلہ عقیدہ سے تعلق نہیں رکھتا، ہاں جادو کی حقیقت اور تاثیر
عقیدہ سے تعلق رکھتی ہے۔عقیدہ میں بھی خبرِ واحد حجت اور دلیل ہے، حافظ
ابنِ قیم الجوزیہ ؒ فرماتے ہیں:وھذا التفریق باطل باجماع الأمۃ۔ ‘‘اس تفریق
کے باطل ہونے پر اجماع ہے (کہ خبر واحد عمل میں حجت ہے، عقیدہ میں نہیں)۔
''(مختصر الصواعق المرسلۃ: ۲؍۴۱۲)
نبی پر جادو کا اثر ہو جانا قرآن سے ثابت ہے ، لہذا خوا مخواہ حدیث پر
اعتراض بے بنیاد ہے۔
الحاصل:جنون کے مرض کے علاوہ جس طرح نبی کو ہر مرض لگ سکتا ہے، اسی طرح
امورِ دنیا میں جادو بھی ہو سکتا ہے، اس پر امت کا اجماع ہے، اہل سنت و
الجماعت میں سے کوئی بھی اس کا منکر نہیں ہے۔
یہاں پر غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری کی بات ختم ہوئی-
-----------------------
مولانا مودودیؒ علی فرماتے ہیں:
رسول اللہﷺ پر جادو چل گیا تھا۔ تو جہاں تک رسول اللہﷺ پر جادو کے ذکر پر
احادیث صحیحہ کی کثرت، ثبوت اور اس واقعہ کی تاریخی حیثیت کا تعلق ہے تو یہ
واقعہ قطعی طور پر ثابت ہے اور بقول مولانا مودودیؒ علی تنقید سے اس کو اگر
غلط ثابت کیا جا سکتا ہو تو پھر دنیا کا کوئی تاریخی واقعہ بھی صحیح ثابت
نہیں کیا جا سکتا۔غرض راقم السطور کے مطالعہ اور تصفح کے مطابق حضرت عائشہ
صدیقہ، حضرت زید بن ارقم اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے صحیح
البخاری، صحیح مسلم، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، مسند احمد، مسند عبدالرزاق،
مسند حمیدی، سنن بیہقی، طبرانی، ابن سعد، ابن مروویہ، مصنف ابن ابی شیبہ،
حاکم، عبد بن حمید وغیرہم محدثین نے اتنی مختلف اور کثیر تعداد سند اسناد
نقل فرمائی ہیں کہ کہ اس کا نفس مضمون تواتر کی حد تک پہنچا ہوا ہے۔ان کتب
احادیث کے علاوہ تفسیر ابن کثیر، ج:۴سورۃ الفلق،ص:۶۱۲۔ تفسیر احسن
التفاسیر، جض۷،ص:۳۳۲۔ تفسیر روح المعانی، ج:۵،ص:۳۰، ص:۳۲۵،۳۲۶۔ تیسیر
الکریم الرحمٰن، ج:۱ص:۵۷۔ تفہیم القرآن، ضیاء القرآن، توضیح البیان، ص:۸۴۸
اور شرح العقیدہ الطحاویہ، ص۷۶۴ وغیرہ میں نہ صرف یہ واقعہ مفصل منقول ہے
بلکہ دورِ قدیم وجدید کے معتزلہ اور دور ماضی اور حاضر کے منکرین حدیث کے
جملہ اعتراضات باردہ اور خدشات کا شافی، کافی اور مدلل جواب بھی موجود
ہے۔مولانا مودودی نے اس کی تمام تفصیلات جو فتح الباری شرح صحیح البخاری
باب السحر ولکن الشیطین کفروایعلمون الناس السحر، ج:۱۰، ص:۲۲۱ و۲۲۵ تا ۲۲۸
وباب ھل یستخرج السحر، ج:۱۰، ص۲۳۲ میں آئی ہیں۔ ان کو مجموعی طور پر مرتب
کر کے ایک واقعہ کی صورت اچھوتے اسلوب میں بڑی خوبی کے ساتھ ی پیش فرمایا
ہے۔جس کے لیے سابقہ قسط نمبر40اور 41کا مطالعہ کریں-
مولان مودودی صاحب اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:یہ سارا قصہ اس
جادو کا۔ اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو آپ کے منصب نبوت میں قادح ہو۔
ذاتی حیثیت سے اگر آپ کو زخمی کیا جا سکتا تھا جیسا کہ جنگ احد میں ہوا۔
اگر گھوڑے سے گر کر چوٹ کھا سکتے تھے، جسا کہ جنگ احد میں ہوا۔ اگر گھوڑے
سے گر کر چوٹ کھا سکتے تھے جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ اگر آپﷺ کو بچھو کاٹ
سکتا تھا، جیسا کہ کچھ اور احادیث میں وارد ہوا ہے اور ان میں سے کوئی چیز
بھی امن وتحفظ (عصمت) کے منافی نہیں ہے جس کا نبی ہونے کی حیثیت سے اللہ
تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کیا تھا تو آپﷺ پر اپنی ذات حیثیت میں جادو کے اثر سے
بیمار بھی ہو سکتے تھے۔ نبی پر جادو کا اثر ہو سکتا ہے۔ یہ بات تو قرآن
مجید بھی ثابت ہے۔ سورۂ اعراف میں فرعون کے جادوگروں کے متعلق بیان ہوا ہے
کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں جب وہ آئے تو انہوں نے ہزار ہا
آدمیوں کے اس پورے مجمع کی نگاہوں پر جادو کر دیا جو وہاں دونوں کا مقابلہ
دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
سَحَرُوْا اَعْیُنَ النَّاسِ [آیت:۱۱۶]
اور سورۃ طٰہ میں بھی ہے کہ جو لاٹھیاں اور رسیاں انہوں نے پھینکیں تھیں،
ان کے متعلق بیان ہوا کہ عام لوگوں نے ہی نہی بلکہ حضرت موسیٰ نے بھی یہی
سمجھا کہ وہ ان کی طرف سانپوں کی طرح دوڑی چلی آ رہی ہیں۔ اور اس سے حضرت
موسیٰ علیہ السلام خوف زدہ وہ گئے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی
نازل کی خوف نہ کرو تم ہی غالب رہو گے ذرا اپنا عصا پھینکو۔﴿فَإِذا
حِبالُهُم وَعِصِيُّهُم يُخَيَّلُ إِلَيهِ مِن سِحرِهِم أَنَّها تَسعىٰ
﴿٦٦﴾فَأَوجَسَ فى نَفسِهِ خيفَةً موسىٰ ﴿٦٧﴾ قُلنا لا تَخَف إِنَّكَ أَنتَ
الأَعلىٰ﴿٦٨﴾ وَأَلقِ ما فى يَمينِكَ ...٦٩﴾...سورة طه’’یکایک ان کی رسیاں
اور لاٹھیاں ان کے جادو کے زور سے موسی کودوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں اور
موسیٰ اپنے دل میں ڈر گئے۔ ہم نے کہا مت ڈرو، تو ہی غالب رہے گا۔ پھینک جو
کچھ تیرے ہاتھ میں ہے ابھی ان کی ساری بناوٹی چیزوں کو نگلنے لگ جاتا
ہے۔‘‘رہا یہ اعتراج کہ یہ تو کفار مکہ کے اس الزام کی تصدیق ہو گئی کہ نبیﷺ
کو سحر زدہ آدمی کہتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کفار آپ کو سحر زدہ آدمی
اس معنی میں نہیں کہتے تھے کہ آپ کسی جادوگر کے اثر سے بیمار ہو گئے ہیں۔
بلکہ اس معنی میں کہتے تھے کہ کس جادوگر نے معاذ اللہ آپ کو پاگل کر دیا
ہے۔ اور اسی پاگل پن میں آپ نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے ہیں اور جنت ودوزخ کے
افسانے سنا رہے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ یہ اعتراض ایسے معاملہ پر سرے سے چپساں
ہی نہیں ہوتا جس کے متعلق تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ جادو کا اثر صرف ذاتِ
محمدﷺ پر تھا، نبوت محمدﷺ اس سے بالکل غیر متاثر رہی۔ تفہیم القرآن پیر کرم
شاہ صاحب معترضین کے جواب میں فرماتے ہیں۔ان کے اعتراضات اور شکوک کے بارے
میں اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ کی دو حیثیتیں تھیں۔ ایک حیثیت نبوت اور
دوسری حیثیت بشریت۔ عوارض بشری کا ورود ذات اقدس پر ہوتا رہتا تھا۔ بخار،
درد، چوٹ کا لگنا، دندانِ مبارک کا شہید ہونا، طائف میں پنڈلیوں کا لہولہان
ہوتا اور احدمیں جبین سعادت کازخمی ہونا۔ یہ سب واقعال تاریخ کے صفحات کی
زینت ہیں۔ یہ لوگ (معترضین) بھی ان سے انکار کی جرأت نہیں کر سکتے اور ان
عوارض سے حضور کی شانِ رسالت کا کوئی پہلو اس سے متاثر نہ تھا۔ اگر ایسا
ہوتا کہ اس جادو سے حضور کوئی آیت بھول جاتے یا الفاظ میں تقدیم وتاخیر کر
دیتے یا قرآن میں اپنی طرف سے کوئی جملہ بڑھا دیتے یا ارکان نماز میں
ردوبدل ہوجاتا تو اسلام کے بد خواہ اتنا شوروغل مچاتے کے الامان
والحفیظ۔بطلان رسالت کے لیے یہی مہلک ہتھیار کافی تھا۔ انہیں دعوت اسلامی
کو ناکام کرنے کے لیے مزید کسی ہتھیار کی ضرورت نہ رہتی۔ لیکن اس قسم کا
کوئی واقعہ کسی حدیث اور تاریخ کی کتاب میں موجود نہیں۔ دشمنانِ اسلام نے
آج تک جتنی کتابیں پیغمبر اسلامﷺ کے بارہ میں لکھی ہیں ان میں بھی اس قسم
کا کوئی واقعہ درج نہیں۔ (ضیاء القرآن،۵ ص۷۲۵)
شیخ الاسلام ابن قیم جواب دیتے ہیں:قد انکر ھذا طائفۃ من الناس وقالوا لا
یجوز ھذا علیہ وظنوہ تقاصا وعیبا ولیس الامر کما زعموا بل ھو من جنس ما کان
یعتریہ من الاسقام والاوجاع وھو مرض من الامراض واصابتہ بہ کاصابتہ بالسم
ولا فرق بینھا وقال القاضی عیاض والسحر مرض من الامراض وعارض من العلل یجوز
علیہ کانواع الامراض مما لا ینکرولا یقدح فی نبوتہ واما کونہ یخیل الیہ انہ
فعل الشیء ولم یفعلہ فلیس ھذا ما یدخل علیہ داخلۃ فی شیء من صدقہ لقیام
الدلیل والاجماع علی عصمتہ من ھذا وانما ھذا فی ما یجوز طروہ علیہ فی امر
دنیاہ التی لم یبعث لسببھا ولا فضل من اجلھا وھو فیھا عرضۃ للافات کسائر
فغیر بعید ان یخیل اللہ من امورھا مالا حقیقۃ لہ ثم ینجلی عنہ کما کان۔
(زاد المعاد، ج۴ ص۱۲۴۔ وروح المعانی، ج۱۵، ص۲۲۶و۲۲۷)کچھ لوگ (معتزلہ اور
منکرین حدیث منصب نبوت کے حق میں نقص اور عیب سمجھتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے
نبیﷺ پر جادو چل جانے کا انکار کیا ہے۔ مگر ان کا یہ زعم صحیح نہیں کیوں کہ
جادو ایک مرض ہے۔ جس طرح آپ کو بحثیت بشر دوسری امراض اور عوارض لاحق ہوتے
رہے اسی طرح آپ جادو کی مرض کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔ یعنی جس طرح آپ پر زہر
اثر کر گیا تھا اسی طرح آپ جادو کی زد میں آ گئے اور جس طرح بخار اور دوسرے
امراض بقول قاضی عیاض منصب نبوت کے منافی نہیں، اسی طرح جادو بھی قادح
نہیں۔ رہا آپ کا کسی کام کے لیے یہ فرمانا کہ میں یہ کام کر چکا ہوں مگر
نہیں کیا ہوتا تھا تویہ خیال منصب نبوت میں کسی خلل کا باعث ہرگز نہیں۔
کیونکہ میں آپ کی نبوت اور صداقت نہ صرف ناقابل تردید بکثرت دلائل قائم ہیں
بلکہ اس پہلو سے آپ کی عصمت پر اجماع ہو چکا ہے۔ اور یہ چیز ان امور میں سے
ہے جو دنیوی امور میں آپ پر واقع ہو سکتے ہیں، کیون کہ آپ ان کی وجہ سے
مبعوث نہیں ہوئے اور نہ آپ کا فضل وکمال ان اسباب کا مرہون منت ہے۔ چوں کہ
آپ بحثیت بشر دوسرے انسانوں کی طرح آفات کی زد میں ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی بعید
از عقل بات نہیں کہ آپ کو کوئی ایسا خیال آ جائے جس کی کوئی حقیقت نہ ہو
بعدازاں وہ خیال ختم بھی ہو جائے۔۵۔۔۔۔ سید احمد محدث دہلوی فرماتے ہیں:اہل
سنت کا یہ مذہب ہے کہ جادو کا اثر حقیقی طور پر دنیا میں ہوتا ہے۔ فرقہ
معتزلہ اس کا مخالف کیونکہ اس اثر کو خیالی بتاتے ہیں، مگر اہل سنت نے اپنے
مذہب کو بہت سی آیتوں اور حدیثوں سے ثابت کیا ہے۔ (تفسیر احسن التفاسیر،
ج۷، ص۳۳۳)۶۔۔۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کے اثر اور علاج
کو معوذتین کا شان نزول قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:"حضرت جبرائیل ؑ امین
سورتیں پڑھنے لگے ،ایک ایک آیت پر ایک ایک گرہ کھل گئی۔چنانچہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کو بالکل شفا ہوگئی۔
۔صاحب کشف الاسراء نے دو آراء نقل کی ہیں۔اُن کے نزدیک اگرچہ کچھ لوگوں نے
سحر کو تسلیم نہیں کیا لیکن جمہور علماء ومفسرین کا مسلک یہ ہے کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہوا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو
کے اثر کی نوعیت:علامہ آلوسی ؒ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تاثیر
سحر کو تسلیم کرتے ہیں۔
قاضی عیاض ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں:"
ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کاتجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں
کہ:جادو کا اثر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد مبارک اور اعضاء پر
ہوا عقل ،قلب،اوراعتقاد پر نہیں ہوا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے
محسوسات میں جو تبدیلی ہوئی وہ محض نگاہوں تک محدود تھی۔اس سے مراد عقل میں
خلل واقع ہونا ہرگز نہیں ہے۔اور اس سے منصب رسالت پر اشتباہ یا گمراہ لوگوں
کی طرف سے طعن کا پہلو نہیں نکلتا۔"
عبد الماجد ؒ دریا آبادی لکھتے ہیں:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سحر
سے(جو مادیات ہی کی ایک قسم ہے) متاثر ہوجانا بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے
ذات الجنب سے ملیریا سے درر اعصاب سے متاثر ہوجانا اور اس میں منفی نوبت
ہونے کا کوئی ادنیٰ پہلو بھی نہیں۔"
مفتی محمد شفیع مرحوم لکھتے ہیں:"سحر کا اثر بھی اسباب طبیعہ کا اثر ہوتا
ہے جیسے آگ سے جلنا یاگرم ہونا،پانی سے سر د ہونا،بعض اسباب طبیعہ سے
بخارآجانا،یامختلف قسم کے درودامراض کا پیدا ہوجانا ایک امر طبعی ہے۔
مفسرین کی اکثریت نے ان آیات کا یہ مفہوم لیا ہے،جو بزرگ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم پر سحر کی نفی کی دلیل میں معوذتین کو مکی دور کی سورتیں قرار
دیتے ہیں۔وہ یہ نہیں مانتے کہ ان سورتوں کا نزول مدینہ میں ہوا اگر یہ بات
صحیح مان لی جائے۔
تب بھی معوذتین کے ذریعے جادو کے علاج کی نفی نہیں کی جاسکتی۔تطبیق کی یہ
صورت ممکن ہے۔
یہ سورتیں تو مکہ ہی میں نازل ہوئیں۔البتہ اس موقع پر جبرئیل امین ؑ نے اُن
کو پڑھ کر جادو کے اثرات کو زائل کرنے اور علاج کے لئے رہنمائی فرمائی ہو-
خلاصۂ کلام:
ائمہ لغت قرآنِ مجید، احادیث صحیحہ، فقہائے مذاہب، ائمہ محدثین اور جمہور
علمائے اسلام کی تصریحات کے مطابق جادو ایک ٹھوس حقیقت ہے اور دیگر امراض
وادوجاع کی طرح ایک مرض مگر بذاتِ خود مؤثر نہیں، بلکہ مشیت الٰہی کے ساتھ
مشروط ہے۔ اہل سنت کے نزدیک رسول اللہﷺ کی دو حیثیتیں تھیں۔ ایک حیثیت
بشریت اور دوسری حیثیت نبوت۔ عوارض بشری بخار وغیرہ کا ورود ذاتِ اقدسﷺ پر
ہوتا رہتا تھا۔ منکرین جادو بھی ذاتِ اقدس پر عوارض بشری کے ورود کے قائل
ہیں۔ اور ان عوارض سے رسول اللہﷺ کی شانِ رسالت اور حیثیت نبوت پر قطعاً
کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہاں بھی جادو کا اثر رسول اللہﷺ کی
جسمانی صحت تک محدود رہا۔ آپ کی عقل، قلب اور اعتقاد وغیرہ رسالت کا کوئی
پہلو اس سے متاثر نہ تھا۔ بالفاظ دیگر اس جادو کا اثر ذاتِ محمدﷺ پر تھا۔
نبوت محمدﷺ اس سے بالکل غیر متاثر رہی، یعنی آپ کی عقل، تمیز، قلب اور
اعتقاد بالکل محفوظ رہے۔
اور بهی بیسیوں اقوال ہیں لیکن ہم انہیں پر اکتفا کرتے ہیں- |
|