ایسی ویسی سچائیاں

کافی عرصہ پہلے کی بات ہے پاکستان میں ہماری ایک جاننے والی افغانی خاتون نے ایک مرتبہ ایک قصہ سنایا تھا ۔ ان کے رشتہ داروں میں ایک شخص کی شادی ایک ایسی لڑکی سے ہوئی جو کہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی ۔ اس سے پہلے اور بعد میں کئی بچے فوت ہو چکے تھے ۔ تب اس کے باپ نے منّت مانی کہ " اگر میری یہ بیٹی مرنے سے بچ گئی اور زندہ رہی تو میں اس کی شادی کے موقع پر لڑکے سے پیسے نہیں لوں گا اور اسے ایسے ہی یعنی فی سبیل اللہ دے دوں گا ۔"

شادی کے بعد کسی وقت باہر بارش ہو رہی تھی اور سردی بڑھ رہی تھی تو اس شخص نے اپنی بیوی سے اپنا باہر بندھا ہؤا گدھا کھول کر خیال سے اندر لانے کے لئے کہا تاکہ اسے کہیں ٹھنڈ نہ لگ جائے ۔

بیوی نے کہا " تجھے اپنے گدھے کا تو اتنا خیال ہے میرا کوئی خیال نہیں ہے کہ مجھے بھی ٹھنڈ لگ سکتی ہے "

شوہر نے جواب دیا " گدھا میں پانچ سو روپے میں لایا تھا تُو تو مجھے مفت میں ملی ہے ۔"
*****
یہاں امریکا میں ایسے برصغیری گھرانوں کی کمی نہیں ہے جنہوں نے یہاں بھی اپنا وہی دیسی روایتی ماحول مچا رکھا ہے ۔ جوائنٹ فیملی سسٹم اور ایک بہو کی ویسے ہی ذمہ داریاں جیسی کہ اکثر ہی اپنے پاکستان اور پڑوسی ملکوں میں ہؤا کرتی ہیں ۔ اور شوہر یا سسرال والوں کے ساتھ اختلافات کے باعث طلاق کے واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں ۔ بس فرق صرف اتنا ہے یہاں کی عورت معاشی طور پر مرد کی محتاج نہیں ہوتی ۔ طلاق کے بعد فٹ پاتھ پر نہیں آجاتی ۔ بعض اوقات تو گھر سے عورت کو نہیں مرد کو نکلنا پڑتا ہے ۔
*****
جاہل اور بزدل مرد ہی اپنی عورت پر ہاتھ اٹھاتے ہیں ۔ جن میں تمیز تہذیب اور تعلیم ہوتی ہے وہ وہاں بھی صبر کرتے ہیں جہاں واقعی عورت اس لائق ہوتی ہے کہ اس کی خاطر تواضع کی جائے ۔ شوہر کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہونے والی عورتیں آگے اپنے فرزند ارجمند کی تربیت کچھ اس نہج پر کرتی ہیں کہ وہ بھی اپنے والد ماجد کے نقش قدم پر چلے ۔ کیونکہ اکثر ہی عورت یہ سوچتی ہے کہ وہ آنے والی کیوں سکون سے رہے میرا لعل کیوں اسے حلوے کی طرح تھالی میں رکھ کر ملے ۔ جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ اس کے ساتھ کیوں نہ ہو ۔ مرد کو بگاڑنے اور اس کا دماغ خراب کرنے میں ایک عورت کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے خواہ وہ اس کی ماں ہو یا بیوی ۔
*****
کچھ لوگ وطن بدل لیتے ہیں مگر ان کے ذہن نہیں بدلتے ۔ ان کی جہالت اور پست ذہنیت ان کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے ۔ نت نئی سرزمینیں بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ پاتیں ۔ ان کے رسوم و رواج نظریات ایک بیٹی کے لئے اپنے پائے ثبات میں لغزش نہیں آنے دیتے ۔ دور جدید کی تمام رعایتیں اور کشادگیاں بیٹے کے لئے جائز اور بیٹی کے لئے اس کے حقوق بھی قابل شرم ۔ اور پھر بھی پتہ نہیں کیوں منہ اٹھائے امریکا یورپ چلے آتے ہیں اور اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ بیٹی کی زندگی بھی خود جینا بڑے فخر کی بات سمجھتے ہیں ۔
*****
ہر دوسرے تو نہیں مگر بہت سے پاکستانیوں کی یہ کہانی ہے کہ ماں کا زیور بہنوں کا جہیز اور باپ کی زمین یا دوکان بکوا کر بیرون ملک پہنچتے ہیں ۔ پھر جو لوگ غیر قانونی طور سے مقیم ہوتے ہیں ان کی زندگی کسی دھوبی کے کتے والی ہوتی ہے ۔ انہیں کوئی ڈھنگ کی نوکری نہیں ملتی بےحد کم تنخواہ پر انتہا درجے کی محنت و مشقت آمیز کام بھی چوروں کی طرح چُھپ کر کرتے ہیں گاڑی نہیں چلا سکتے ۔ جہاں پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہوتی وہاں سواری لینے کے لئے انہیں کسی مقامی یا قانونی ہموطن کی خوشامدیں کرنی پڑتی ہیں ۔ اسکی بے اعتنائی یا سردمہری کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ اور پھر ان کٹھنائیوں سے دلبرداشتہ ہو کر نجات کا واحد راستہ وطن واپسی نہیں بلکہ کسی مقامی خاتون سے شادی ہی کی صورت میں نکلتا ہے ۔ مگر امتحان ختم نہیں ہوتا ۔ اب اپنا مطلب پورا ہونے تک اس گوری شہزوری سے ہر ناگوار ترین صورتحال میں بھی بنا کر رکھنا ہوتا ہے بلکہ کسی کُتے ہی کی طرح اس کے آگے پیچھے دُم ہلانا پڑتا ہے ۔ ہر لمحہ طلاق کی تلوار سر پر لٹکی رہتی ہے ۔ ڈی پورٹ ہو جانے کا دھڑکا دل کو دہلائے دیتا ہے ۔ پھر جناب ایسی بھی کوئی شام ہے کہ جس کی سحر نہیں ۔ اس گوری آقا کے طفیل جب دیار غیر کی شہریت حاصل ہو جاتی ہے تو اسے لات مار کرکھسکنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے ۔ مگر کچھ لوگ اس رشتے کو تا دیر نبھاتے ہیں ۔ زندگی بھر ساتھ نبھنے کی مثالیں شاذ و نادر ہی ملتی ہیں ۔

 
Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854353 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.