65ء کی پاک بھارت جنگ کے حیرت انگیز واقعات

 ہر طرف رات کا سناٹا تھا ٗ چاند بادلوں کی اوٹ آنکھ مچولی کھیل رہا تھا ۔ نہ سردی اور نہ ہی گرمی کی تلخی تھی ٗموسم خوشگوار اور معتدل تھا ۔ دیہاتوں کے لوگ گھروں سے باہر چارپائیاں بچھا کرسو رہے تھے ۔ بھینسوں کے گلے میں بندھی ہوئی پیتل کی گھنٹیاں جب آپس میں ٹکراتی تو رات کے سکوت میں ایک پرکیف آواز پیدا ہوتی جو سرحدی علاقے کے ویرانے میں دور دور تک پھیلتی چلی جاتی ۔ بی آر بی نہر کاپانی چاند کی روشنی میں ایک خوبصورت اور خوشنما منظر پیش کررہا تھا ۔ان پرکیف لمحات میں میجر شفقت بلوچ 17 پنجاب کی ڈی کمپنی کے ہمراہ قدم اٹھاتے ہوئے ہڈیارہ ڈرین کی جانب بڑھ رہے تھے جو سرحد سے آٹھ دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔جب پاک فوج کی ایک سو دس جوانوں پر مشتمل یہ کمپنی ہڈیارہ ڈرین کے کنارے پہنچی تو اس وقت رات کا پچھلا پہر شروع ہوچکا تھااور چاند سفر تمام کرتے ہوئے اپنی منزل کی جانب بڑھ رہا تھا ۔ میجر شفقت بلوچ نے ایک کنویں کے نزدیک بڑ کے درخت کے نیچے اپنا سامان رکھا اور جوانوں کو آرام کرنے کا حکم دے دیا ۔

ستمبر کی یہ خنک رات خاموش تھی ۔ نالے کے اس پار ہڈیارہ گاؤں کے لوگ گہری نیند سو رہے تھے ۔آسمان صاف تھا اور چاندنی فضا میں جھولا جھول رہی تھی ۔ ڈرین میں بہنے والے پانی کی مترنم آواز لوریاں سنا رہی تھی جبکہ ان لمحات میں سرحد کے اس پار بھارتی فوج کا ایک بریگیڈ ٗ ٹینکوں ٗ توپوں اور جدید ترین سامان جنگ سے لیس پاکستان پر حملہ آور ہونے کے لیے تیار کھڑا تھا ۔رن آف کچھ میں شکست کے بعد بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے اپنی پسند کا محاذ کھولنے کی دھمکی دے رکھی تھی ۔ بھارتی فوج کے جنرل چودھری نے لاہور کامحاذ منتخب کرکے اپنے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کل صبح نو بجے ہم لاہور جم خانہ کلب میں شراب کے جام ٹکرا کر فتح کا جشن منائیں گے ۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بھارت نے تین ڈویژن فوج لاہورکے محاذ پر تعینات کی تھی اس میں 35 ہزار نفری شامل تھی جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان کے پاس پانچ ہزار جوانوں پر مشتمل فوج تھی جس کے ذمے لاہور کا دفاع تھا۔

اذان فجر کی صدا جونہی فضا میں بلند ہوئی تو یکدم فائرنگ اور دھماکوں کی آواز سنائی دی۔ میجر شفقت بلوچ اور ان کی کمانڈ میں ایک سو دس جوان ہمہ تن گوش ہوئے اور یہ اندازہ کرنے لگے یہ فائرنگ کی آواز کس سمت سے آرہی ہے ۔ میجر صاحب کے حکم پر وائر لیس آپریٹر نے رینجر سے رابطہ کیا تو دوسری جانب سے یہ آواز سنائی کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا ہے اور بھارتی فوج تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ۔ حملے کی اس اچانک خبر نے میجر شفقت بلوچ کو پریشان کردیا کیونکہ سرحد پر پاکستانی فوج تعینات نہیں تھی صرف میجر شفقت بلوچ کی کمپنی کو ہی چند گھنٹے پہلے ہڈیارہ ڈرین پہنچنے کا حکم ملا تھا اور جنگ کی تیاری اور اسلحہ ان کے پاس بھی نہیں تھا ۔انہوں نے بریگیڈہیڈکوارٹر اطلاع دی تو وہ بھی سکتے کی حالت میں آگئے کیونکہ پاکستانی انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج جالندھر کے نزدیک تھی اور اسے بین الاقوامی سرحد پر پہنچ کر حملہ آور ہونے کے لیے کم ازکم 48 گھنٹے کا وقت مزید درکار تھا۔

ایک جانب ہماری انٹیلی جنس ایجنسی کی یہ رپورٹ تو دوسری جانب 5 اور 6ستمبر کی رات مسجد نبوی میں ایک شخص نوافل کی ادائیگی میں مصروف تھا کہ اسے اونگھ آگئی ۔ خواب کی حالت میں اس نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ صحابہ کرام کے ساتھ خوبصورت سفید گھوڑے پر سوار تیزرفتاری سے کہیں جارہے ہیں ۔ اس شخص نے قدم بوسی کرتے ہوئے پوچھا۔ یا رسول ﷺ آپ اتنی عجلت میں کہاں تشریف لے جارہے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا پاکستان پر حملہ ہونے والا ہے اور ہم پاکستان کے دفاع کے لیے جارہے ہیں۔( عمار صدیقی کی کتاب مجاہدین بت شکن سے اقتباس)

اسی طرح کا ایک اور واقعہ حضرت اسمعیل شاہ بخاری المعروف کرماں والے کے بارے میں مشہور ہوا۔انہی دنوں میوہسپتال میں آپ کا پرسٹیٹ کا آپریشن ہوا تھا ۔ زخموں سے ابھی خون رس رہا تھا اس لیے ڈاکٹروں نے انہیں سفر سے منع کررکھا تھا لیکن 2 ستمبر کی صبح آپ ؒ گاڑی پر سوار ہوکر واہگہ بارڈر جا پہنچے ۔ وہاں ایک چارپائی پر بیٹھ کر زمین سے مٹھی بھر مٹی اٹھائی اور اس پر چند قرآنی آیات پڑھی ۔ اﷲ اکبر اور یا علی کا نعرہ لگا کر بھارت کی جانب سے پھینک دی ۔اسی طرح دوسری صبح پھر برکی سیکٹر جاپہنچے اور یہی عمل دھرایا ۔تیسرے دن آپ گاڑی پر سوار ہوکر قصور کے جنوب میں واقع گنڈا سنگھ بارڈ جا پہنچے اور مٹی پر قرآنی پڑھ کر بھارت کی جانب پھینک کر خوشی خوشی واپس لاہور پہنچے تو آپریشن کے زخموں سے خون مزید بہنے لگا ۔تکلیف اور درد میں حد درجہ اضافہ ہوا تو مریدوں نے کہا حضور ڈاکٹروں نے آپ کو سفر سے منع کیا ہے پھر کونسی ضرورت تھی کہ آپ مسلسل تین دن سے گاڑی پر بیٹھ کر سرحدپر جارہے ہیں ۔ حضرت اسمعیل شاہ بخاری ؒ نے فرمایا مجھے نبی کریم ﷺ کی جانب سے حکم ملا تھا جس کی تعمیل کرنا بہت ضروری تھا الحمد اﷲ اب پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہیں ۔(کتاب کرماں والوں کی کراماتیں سے اقتباس )۔

حسن اتفاق سے 65 کی پاک بھارت میں بھارتی فوج ابتدائی طور پر انہی مقامات پر حملہ آور ہوئی اور اپنی تمام تر طاقت کے باوجود بی آر بی سے آگے نہ بڑھ سکی۔

بہرکیف کمانڈ نگ آفیسر کرنل قریشی اور بریگیڈ کمانڈر اصغر نے میجر شفقت سے کہا اگر تم بھارتی فوج کو صرف دو گھنٹے روک لو تو ہمیں تیاری کا موقع مل جائے گااور پوری پاکستانی قوم آپ کی مشکور ہوگی ۔ میجر شفقت بلوچ نے وائر لیس پر پیغام دیا۔" سر میں آخری سپاہی اور آخری گولی تک لڑوں گا "۔ یہ کہہ کر میجر شفقت بلوچ ہڈیارہ ڈرین کے کنارے پر کھڑے ہوکر دور بین سے بھارتی فوج کو بڑھتا ہوا دیکھنے لگے ۔ جونہی بھارتی فوج ہڈیارہ گاؤں میں داخل ہوئی تھی گاؤں کی عورتیں بچے اور بڑے اپنا گھر بار اور سب کچھ چھوڑ کر لاہور کی طرف بھاگے ۔ اب بھارتی فوج اور ہڈیارہ ڈرین پر 17 پنجاب کی ڈی کمپنی کے ایک دس جوان موجود تھے جو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر بھارتی فوج کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے ۔ 33 لاکھ کا شہر لاہور بھارتی فوج سے صرف 20 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔میجر شفقت بلوچ کے لیے یہ لمحات بہت مشکل تھے جب ہڈیارہ گاؤں کے لوگ پل عبور کرکے اس پار دیوانہ وار بھاگ رہے تھے جبکہ بھارتی ٹینک اگر پل کراس کر جاتے تو لاہور تک پہنچنے کے لیے میں ان کے راستے میں اورکوئی رکاوٹ نہ تھی ۔ جب بھارتی ٹینک 200 میٹر کے فاصلے پر پہنچے تو میجر صاحب نے ہڈیارہ ڈرین کے پل کو تباہ کرنے کے لیے دھماکہ خیز مواد نصب کروا کر اڑا دیا۔ اس کے باوجود کہ پل تباہ ہو گیا تھالیکن وہ کچھ اس طرح بیٹھ گیا کہ اس پر سے باآسانی پیدل فوج گزر سکتی تھی ۔ جب بھارتی ٹینک صرف 200 میٹر دور آگئے تو میجر شفقت بلوچ نے جیپ پر نصب آر آر فائر کرنے کا حکم دیا ۔ جونہی آر آر کے گولے بھارتی ٹینکوں پر برسے تو ان کی پیش قدمی وقتی طور پر رک گئی اور بھارتی فوج کے بڑھتے ہوئے قدم ٹھہر گئے ۔میجر شفقت بلوچ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ہم اگر دس گولیاں چلاتے تھے تو بھارتی فوج کی جانب سے ہم پر ایک ہزار گولیاں اور بم فائرہوتے ۔قدرت کا یہ معجزہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ہماری گولی ٹھیک نشانے پر لگتی جبکہ ان کی گولیاں اور گولے ہمارے کسی سپاہی کو نہیں لگے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ میں ہڈیارہ ڈرین کے اس بلند کنارے پر کھڑا بھارتی فوج پر فائرکروا رہا تھا جہاں ٹینکوں میں بیٹھے ہوئے بھارتی فوجی مجھے صاف دکھائی دے رہے تھے لیکن وہ سامنے دیکھنے کے باوجود مجھے نقصان پہنچانے میں کامیاب نہ ہوسکے ۔ حالات اس قدر تشویش ناک تھے کہ میں کنارے سے نیچے نہیں اتر سکتا تھا اگر میں اپنی جان کی حفاظت کرتا ہوا نیچے اتر جاتا تو شاید بھارتی فوج ہمیں کچلتے ہوئے گزر جاتی ۔بریگیڈ کمانڈر نے دو گھنٹے بھارتی فوج کو روکنے کی درخواست کی تھی لیکن قدرت کا کرشمہ دیکھیئے کہ صرف ایک سو دس جوانوں پر مشتمل کمپنی نے بھارتی بریگیڈ جس میں ایک ہزار سے زائد نفری ہوتی ہے نہ صرف دس گھنٹے تک روکے رکھا بلکہ اسے اس قدر نقصان پہنچایا کہ بھارتی فوج کو اس سیکٹر پر دوبارہ حملہ آور ہونے کے لیے نیا بریگیڈ لانا پڑا ۔ بھارتی فوج نے سر ٹکرانے کے بعد جب شکست کھائی تو انہوں نے ایک اور جانب سے پیش قدمی کرتے ہوئے میجر شفقت کی کمپنی کو گھیرے میں لینا شروع کردیا۔ اسی اثنا میں میجر عزیز بھٹی کی کمپنی بی آر بی کے مغربی کنارے پر پوزیشنیں سنبھال چکی تھی ۔ اس لمحے میجر شفقت بلوچ کو واپس آنے کا حکم ملا ۔ جب میجر شفقت بریگیڈہیڈکوارٹر پہنچے تو بریگیڈ اصغر نے پوچھا کتنے جوان شہید ہوئے ہیں میجر شفقت نے بتایا سر ہمارا کوئی جوان بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید نہیں ہوا۔ لیکن واپسی پر اپنی ہی بچھائی ہوئی باروی سرنگوں سے ٹکرا کر دو سپاہی شہید ہوئے ہیں۔کیا یہ معجزات کی جنگ نہیں تھی ۔

اس جنگ کا اگلا اورآخری مرحلہ میجر عزیز بھٹی نے کچھ اس انداز سے لڑا کہ حیرت گم رہ جاتی ہے ۔ وہ بی آر بی کے مغربی کنارے پر رہنے کی بجائے دشمن کے درمیان سے گزرتے ہوئے ہڈیارہ گاؤں میں واقعہ اس چوبارے پر جاپہنچے جہاں سے بھارتی ٹینکوں اور توپوں پر گولہ باری کروانا زیادہ آسان تھا ۔ حالانکہ یہ کام او پی کا تھا لیکن میجر عزیز بھٹی جو کمپنی کمانڈر بھی تھے ٗنے بہت مہارت اور جانفشانی سے اوپی کے فرائض انجام دیتے ہوئے بھارتی فوج کی پیش قدمی روکے رکھا ۔ جس چوبارے پر میجر عزیز بھٹی اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ موجود تھے اس پر بھارتی ٹینکوں کی گولہ باری اور فضائی حملے بھی ہوئے لیکن جس کی حفاظت خود اﷲ تعالی کرتا ہے اس کو نقصان کون پہنچاسکتا ہے ۔ میجر عزیز بھٹی اس وقت چوبارے سے اترے جب وہ بھارتی فوج کے محاصرے میں آچکے تھے لیکن بھارتی فوج کی آنکھوں کے سامنے وہ اپنے ساتھیوں سمیت پیدل ہی چلتے ہوئے بی آر بی کے مغربی کنارے پر آگئے جہاں انہوں نے دفاع پاکستان کا آخری معرکہ اس قدر بے جگری سے لڑا کہ انہیں شہادت کے بعد پاک فوج کی جانب سے نشان حیدر عطا کیاگیا۔ آپ پانچ دن اورپانچ راتیں مسلسل دشمن سے برسرپیکار رہے ۔ جگراتے کی وجہ سے میجر عزیز بھٹی کی آنکھیں سوجھ چکی تھیں پلکیں جھپکنے میں دقت محسوس ہوتی ۔اسی اثنا میں ٹینک کا ایک گولہ شیشم کے درخت کو چیرتا ہوا ان کے قریب آگرا ۔ زبردست غبار اٹھا میجر عزیز بھٹی اس گردو غبار میں بھی صحیح سلامت کھڑے دکھائی دیئے ۔ انہوں نے اس لمحے ساتھیوں سے کہا یہ گولہ میرے لیے نہیں تھا۔شاید ان کی مراد ایسے گولے سے تھی جو ان کا حوصلہ ختم کرسکے ۔ ابھی چندلمحا ت مزید گزرے تھے ایک اور گولہ قریب آکر گرا جس کا ایک ٹکڑا میجر عزیز بھٹی کے فولادی سینے سے پار ہوگیا ۔ وہ گرے اور جام شہادت نوش کرگئے ۔لیکن وہ بھارتی فوج کے سامنے ایک ایسی دیوار کھڑی کر گئے جسے پار کرنا شاید قیامت تک بھی ناممکن بن گیا ۔

اسی جنگ کے دوران آسمان پر ایک تلوار نمودار ہوئی جس کی نوک بھارت کی جانب اور ہتھی پاکستان کی طرف تھی ۔جو رات کے اندھیرے میں فتح کا نشان بن کر سامنے آئی ۔ جن افراد نے 65ء کی پاک بھارت جنگ کو اپنی ہوش میں دیکھا ہے وہ اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں ۔میری عمر اس وقت بمشکل دس سال تھی اور میں بھی جوش و خروش میں کسی سے کم نہیں تھا ۔ ریلوے اسٹیشن لاہورکینٹ کے قریب بہت بڑا مجمع جمع تھا ۔ وہاں ایک شخص ایک بینڈ کا ریڈیو لیے کھڑا تھا جس پر صدر پاکستان جنرل محمدایوب خان خطاب کررہے تھے ۔ میں نے بھی اپنے کان ریڈیو سے نکلتی ہوئی آواز پر لگا دیئے ۔صدر ایوب خان شیروں کی طرح دھاڑ رہے تھے وہ کہہ رہے تھے "پاکستان کے دس کروڑ عوام جن کے دلوں میں لاالہ الا اﷲ محمد الرسول اﷲ کے مقدس کلمات بسے ہیں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک بھارتی توپوں کے دہانے ہمیشہ کے لیے خاموش نہیں ہو جاتے۔ بھارتی حکمران نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے ۔ پاکستانی عوام جواپنے عقائد کی سربلندی اور اپنے مقصد کی صداقت پر کامل ایمان رکھتے ہیں اﷲ کے نام پر فرد واحد کی طرح مستعد ہوکر دشمن کے خلاف جنگ آزما ہوں گے ۔ نوع انسانی کو اﷲ تعالی کی بشارت ہے کہ حق کاہمیشہ بول بالا ہوگا ۔"

صدر پاکستان کی ولولہ انگیز تقریر نے نہ صرف پاکستانی قوم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا بلکہ افواج پاکستان کے تمام شعبوں سے متعلقہ سرفرشوں کے جسم میں بجلیاں دوڑا دیں ۔ایک جم غفیر تھا جو ریلوے لائن کے دونوں اطراف صبح سے شام تک جمع تھا جونہی فوجی جوانوں سے بھری ہوئی ٹرین لاہور سے قصور کی جانب جاتی دکھائی دیتی تو سینہ تان کر کھڑے فوجی جوانوں کو دیکھ کر پاک فوج زندہ باد کے نعروں سے فضا گونج جاتی ۔اس نعرے بازی میں ہر چھوٹا بڑا عورتیں اور بچے سبھی شامل تھے ۔ عوام کے نعروں کا جواب پاک فوج کے جوان برابر دیتے ۔ لاہور میں ناکامی کے بعد بھارتی فوج نے قصور سیکٹر پر حملہ کردیا تھا ۔اﷲ تعالی کے فضل و کرم سے پاک فوج کے جوانوں نے قصور سیکٹر پر بھی بھارتی فوج کے پرخچے اڑا دیئے اور دس میل اندر ایڈوانس کرتے ہوئے بھارتی ریلوے اسٹیشن کھیم کرن پر قبضہ کرلیا ۔ کھیم کرن پر سبز ہلالی پرچم لہراتا ہوا دیکھنے کے لیے لاہور سے ہزاروں لوگ وہاں گئے اور یادگاری تصویریں بنوائی۔ میرے بڑے بھائی محمد اکرم لودھی کھیم کرن گئے لیکن والدہ نے حفاظتی نقطہ نگاہ سے مجھے وہاں نہ جانے دیا ۔

6 ستمبر کی شام میں لاہور کی فضا جنگی طیاروں کی گھن گرج سے گونج اٹھی ۔پاک فضائیہ کے طیارے بھارت پر کامیاب حملہ کرکے واپس سرگودھا جاتے دکھائی دیئے ۔ جب ان کی آواز سے لاہور کی فضا گونجی تو تمام لاہوریے داد تحسین دینے کے لیے اپنے گھر کی چھتوں پر چڑھ گئے ۔ بعد میں شکیل احمد نے ریڈیو پاکستان پر خبریں پڑھتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ پاک فضائیہ کے شاہینوں نے بھارت کے پانچ ہوائی تباہ کردیئے اور وہاں کھڑے تمام جنگی جہازوں کو اڑنے سے پہلے ہی راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ اس خبر نے ہر پاکستانی کے خون کوگرما دیا اور ہرشخص اپنے شاہینوں پر بلاشبہ نازاں دکھائی دیا ۔ونگ کمانڈ ر سجاد حیدر ٗ عباس خٹک ٗدلاور حسین ٗ اور فلائٹ لیفٹیننٹ فاروق عمر ایک بار پھر پٹھانکوٹ پر حملہ ہوئے اور اپنا مشن کامیاب کرکے واپس لوٹے ۔ بعدازاں فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسن شہید طیارہ شکن توپوں کی زد میں آگئے اور ان کے طیارے کو آگ لگ گئی انہوں نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اب ان کا زندہ بچ کر پاکستان جانا ناممکن ہے وہ جلتے ہوئے طیارے سمیت پٹھانکوٹ ہوائی اڈے پر حملے کے لیے تیار کھڑے بھارتی جنگی طیاروں میں جاگھسے جس سے نہ صرف تمام جہاز وں کو آگ لگ گئی بلکہ پٹھانکوٹ کاہوائی اڈا پوری جنگ میں ناقابل استعمال ہوگیا۔ اسی جنگ کاایک ہم ترین کارنامہ سکوارڈن لیڈر ایم ایم عالم نے انجام دیا انہوں نے صرف ایک منٹ میں چار بھارتی جنگی طیارے تباہ کرکے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ اسی طرح پاک بحریہ نے دوارکا پر حملہ کرکے بھارت کی بحری تنصیبات کو تباہ کردیا ۔حملے کے بعد پاکستانی آبدوز بحفاظت واپس کراچی پہنچ گئی ۔

پھر اسی جنگ کے دوران صدر پاکستان جنرل محمدایوب خان نے "ایک ٹیڈی پیسہ ایک ٹینک کا نعرہ دیا"۔پاکستان کے پاس گنتی کے چند ٹینک تھے اور پاکستان کو فوری طور پر ٹینکوں کی ضرورت تھی ۔ چنانچہ صدر کی اپیل پر پوری قوم نے اپنا تن من دھن قربان کردیا ۔ بازاروں اور چوراہوں پر بڑے بڑے غلے رکھ دیئے گئے عورتوں نے اپنا زیور ٗ بچوں نے اپنا جیب خرچ اور بڑوں نے اپنی پوری پوری تنخواہ ان غلوں میں ڈال کر وطن عزیز کے دفاع کے لیے حق اداکردیا ۔ انہی دنوں سیالکوٹ(چونڈہ ) کے میدان میں بھارت نے 600 ٹینکوں سے پاکستان پر حملہ کردیا ۔دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ دنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں کی یلغار تھی جسے روکنا اور ناکام بنانے تقریبا ناممکن تھا ۔ پاک فوج کے جوان اپنے جسموں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے جونہی ٹینک ان کے جسموں پر چڑھتے تو ایک دھماکے کے ساتھ ٹینک فضا میں پرزے پرزے ہوکر بکھر جاتا۔ جب تین چار سو ٹینک تباہ ہوئے تو باقی ٹینکوں نے واپس بھاگنے میں ہی عافیت تصور کی ۔گویا سیالکوٹ کے محاذ پر بھی بھارت کو منہ کی کھانی پڑی ۔

ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز میں ایک عجیب جادو تھا۔ وہ یہ قومی نغمہ گاتیں تو جسم میں بجلیاں دوڑنے لگتیں ۔اس دور میں چند قومی نغمے بہت مشہور ہوئے ۔" اے راہ حق کے شہیدوں وطن کی تصویرو ۔ تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں "۔" میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دی رکھاں" ۔" اے پتر ہٹا ں تے نیں وکدے توں لبدی پھیریں بازار کڑے"۔ ساری قوم کے کان ریڈیو پاکستان پر لگے رہتے ۔ کبھی قومی نغمے خون گرماتے تو کبھی خبریں سنا کر شکیل احمد قوم کو توانا کرتے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس جنگ نے قوم کو ایک لڑی میں پرو دیاتھا ۔تمام تر اختلافات بھول کر قوم یک جان و یک قالب ہوچکی تھی ۔بطور خاص لاہور کے زندہ دلان شہری تو فوجی بھائیوں کے لیے کھانے کی دیگیں لے کر مورچوں تک پہنچ گئے ۔

اس سترہ روزہ جنگ میں نہ صرف بری فوج نے بھارتی فوج کے چھکے نہیں چھڑائے بلکہ پاک فضائیہ اور پاک بحریہ نے بھی اپنے سے دس گناہ بڑے دشمن کو ناکوں چنے چبوا کر یہ ثابت کردیاکہ جنگیں صرف ہتھیاروں اورتعداد سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ میدان جنگ میں جذبے اور ہمت کام آتی ہے ۔ جس طرح میدان بد ر میں بادلوں میں گھوڑوں کے ہنہنانے کی آوازیں سن کر کفار حیران و ششدر تھے کہ یہ کونسی غیبی فوج ہے جو ہم پر حملہ آور ہے۔ اسی طرح بھارتی فوج بھی حیران اور پریشان تھی کہ چھوٹے سے ملک کی تعداد میں کم فوج نے ہر میدان میں اسے شکست فاش سے ہمکنار کردیا تھا ۔ یہ بات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ میجر شفقت بلوچ نے ہڈیارہ ڈرین کے مغربی کنارے اور میجر عزیز بھٹی شہید (نشان حیدر) نے بی آر بی کے مغربی کنارے پر کھڑے ہوکر دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان پر گولہ باری کروائی لیکن دشمن کو بند پرکھڑے ہوئے میجر شفقت بلو چ اور میجر عزیز بھٹی دکھائی نہ دیئے ۔یہ اس مٹی کا اثر تھا جو ولی کامل حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ نے بیماری کی حالت میں نبی کریم ﷺ کے حکم پر قرآنی آیات پڑھ کر بھارت کی جانب پھینکی تھی ۔

بھارتی پائلٹوں نے اپنی کتابوں میں لکھا کہ دریائے راوی کے پل پر ہم جتنی بار بھی حملہ آور ہوئے ۔انتہائی نیچی پرواز کرنے کے باوجود ہمارے بم پل پر نہ گر سکے اور اگر کوئی ایک آدھ بم پل پر گرنے بھی لگتا تو پل پر کھڑے سبزلباس والے بزرگ بم کو کرکٹ بال کی طرح کیچ کرکے اپنے تھیلے میں ڈال لیتے ۔ پرانے لاہوریے جانتے ہیں کہ یہ بزرگ حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش تھے ۔ لاہور چونکہ داتا کی نگری کہلاتا ہے اس لیے روحانیت کی دنیا میں لاہور کے دفاع کی ذمہ داری حضرت داتا گنج نے بھی نہایت خوبصورتی سے نبھائی ۔

تحریک پاکستان میں یہ نعرہ ہر مسلمان کی زبان پر تھا۔ "پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااﷲ " ۔ وہ ملک جو کلمے کے نام پر قائم ہوا ہو اس کی حفاظت یقینا اﷲ تعالی اور نبی کریم ﷺ کے ذمے تھی ۔حدیث مبارک ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی قمیض کے بٹن کھول کر فرمایا تھا مجھے ہند کی جانب سے ٹھنڈی ہوا آرہی ہے ۔ اس وقت پاکستان کا وجود تو نہیں لیکن ہند کے نام سے ہی یہ خطہ مشہور تھا ۔ میں سمجھتا ہوں 1965ء کی پاک بھارت جنگ بظاہر تو پاک فوج نے ہی لڑی تھی لیکن پس پردہ اﷲ تعالی کی تائید و حمایت ٗ نبی کریم ﷺ کی نظر عنایت اور اولیاء اﷲ کی عملی مدد بھی شامل حال تھی ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784729 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.