لاہور کے ایک گنجان آباد علاقیکے ایک نالے
میں معصوم بچے کی تیرتی لاش نے لوگوں کو اس نالے کے گرد اکٹھا ہوجانے پر
مجبور کر دیا ۔ بچے کی لاش مسخ ہو چکی تھی ۔ اس کے ماں باپ نے اس بچے کی
کلائی پر بندھے سرخ ربن کی وجہ سے اسے پہچانا ۔ اپنی اولاد کی لاش کو اس
طرح گندے پانی کے نالے میں پڑے دیکھنا کس قدر مشکل ہے اس کا اندازہ وہی
والدین کر سکتے ہیں جن کے جگر گوشے اغواء ہونے کے بعد قتل کر دئیے گئے ۔کوئی
بھی شخص ان ماؤں کے دکھ کا اندازہ نہیں کر سکتا جو اپنے معصوم بچے کو کھو
چکی ہو، اس بات کے انتظار میں ہیں کہ ان کے اغواء ہونے والے بچے ایک نہ ایک
دن پھر سے گھروں کو لوٹ آئیں گے لیکن ایسانہ ہو ۔ پولیس اپنی کوشش کے
باوجود ان اغواء کرنے والوں کو پکڑنے سے قاصر ہے ۔ پچھلے چند دنوں سے
متواتربچوں کے اغواء کی خبریں اخبارات اور میڈیا کی زینت بن رہی ہیں ۔
اغواء ہونے والے بچوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔ ایک سروے کے
مطابق اغواء ہونے والے بچوں کی تعداد سن 2015ء کی نسبت کہیں زیادہ ہے ۔
اغواء ہونے والے بچوں میں مختلف عمر کے بچے شامل ہیں ۔ ان بچوں کی عمریں
بالعموم نومولود سے بارہ سال تک ہیں ۔ اغواء ہونے والے بچوں کی لاشیں زیادہ
تر یا تو کسی ندی نالے میں پڑی ہوئی ملتی ہیں یا پھر وہ گمشدہ ہی رہتے ہیں
۔ ان میں سے کچھ واقعات کی رپورٹ درج کروائی جاتی ہے جبکہ کچھ واقعات کی
ایف آئی ار بھی درج نہیں ہوتی ۔
پورے ملک میں اغواء یا گمشدگی کے واقعات میں متواتر اضافہ پولیس کی
کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ ان واقعات میں سے
اکثر و بیشتر میں بچے از خود گھروں سے بھاگ جاتے ہیں لیکن والدین اور بچوں
کی گمشدگی اور بازیابی کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کا کہنا ہے کہ چودہ
سال سے زائد عمر کے بچے اگر لاپتہ ہو ں تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ گھر سے
بھاگ گئے ہیں کیونکہ اس عمر کے بچوں میں قوت ِ فیصلہ موجود ہوتی ہے لیکن اس
سے کم عمر کے بچے اپنی مرضی سے گھر سے نہیں بھاگتے ۔انھیں کسی نہ کسی طور
پر اغواء کیا جاتا ہے ۔
بعض اخبارات اور سوشل میڈیا پر بچوں کی گمشدگی اور ان کے اعضاء کی بیرون ِ
ملک درآمد کی روح فرساء خبریں بھی آ رہی ہیں ۔پولیس رپورٹ کے مطابق رواں
سال میں گمشدہ بچوں کی تعداد 767 جبکہ ان میں سے 722 کو بازیاب کروا لیا
گیا ۔ یہ اعداد و شمار پولیس کی درج کر دہ رپورٹوں سے حاصل کیے گئے ہیں
تاہم بہت سے ایسے واقعات بھی ہیں جن کی کسی قسم کی کوئی رپورٹ درج نہیں
کروائی جاتی ۔پولیس کی کارکردگی اگر بہتر ہو تو اغواء کے کیسز میں کچھ تو
کمی آئے۔ کثیر پیمانے پر بچوں کی گمشدگی کے بارے میں حکومتی نمائندگان کا
کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں گویا ان کی نظر میں یہ ایک
معمولی واقعہ ہے ۔حکومتی ارکان اوراپوزیشن کوئی اس معاملے کو سنجیدگی سے
لینے پر تیار ہی نہیں ۔ ان واقعات کا اگر تفصیلا جائزہ لیا جائے تو یہ بات
حیران کن ہے کہ زیادہ تر واقعات جن کے لیے والدین نے پولیس سٹیشنز کے سامنے
مظاہرے بھی کئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں ۔کوئی عورت اس وقت پولیس
سٹیشنز کے سامنے مظاہرے کے لیے اس وقت تک نہیں نکلتی جب تک کہ یہ ادارہ
اپنا کام کرنے میں ناکام نہ ہو چکا ہو اور وہ عورت انصاف نہ ملنے کی وجہ سے
مایوس اور ماتم کناں نہ ہو ۔
بچوں کے اغواء کے واقعات پر اگر غور کیا جائے تو ان واقعات میں اغواء برائے
تاوان کے کیسز تقریبا نہ ہونے کے برابر ہیں، کچھ واقعات میں بچوں کی لاشیں
ملی جن کو جسمانی تشدد کے بعد قتل کیا گیا تھا جبکہ بعض تا حال لاپتہ ہیں ۔
واضع رہے یہ کوئی عام گروپ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مافیا ہے جو بچوں کے اغواء
جیسے جرائم میں ملوث ہے ۔اگر یہ کوئی عام گروہ ہو تا تو اغواء کے بعد تاوان
حاصل کرتااور یہ کسی ایک شہر میں ہو تا پورے ملک خصوصا کراچی اور لاہور
جیسے بڑے شہروں میں اس قسم کی کاروائیاں کو ئی عام گروہ نہیں کر سکتا ۔
بعض اخبارات اور سوشل میڈیا کی خبروں کے مطابق اغواء ہونے والے بچوں کے
اعضاء بیرون ِ ملک سمگل کئیے جاتے ہیں ۔اگر ان خبروں کو درست مان لیا جائے
کہ یہ اغواء کنان بچوں کے جسمانی اعضاء کی سمگلنگ میں ملوث ہیں تو یہ بات
روزِ روش کی طرح عیاں ہے کہ بنا سرکاری حکام کے ، کسٹم افسران ، پولیس ،
ماہر ڈاکڑوں کے یہ سمگلنگ ممکن ہی نہیں ہے ۔انسانی اعضائکو محفوظ کرنا کسی
ڈاکڑ یا سرجن کی مدد کے بغیر ممکن نہیں جبکہ انسانی اعضاء کو ایک جگہ سے
دوسری جگہ پر لے کر جانا یہاں تک کہ بیرون ِ ملک سمگل کرنا اس وقت تک ممکن
نہیں ہے جب تک کہسلامتی کے اداروں میں کام کرنے والے اشخاص اس کام میں ملوث
نہ ہوں اور ایک پورا نیٹ ورک نہ ہوجو اس گھناؤنے کاروبار میں شامل ہو ۔
بچوں کے اغواء کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف سپریم کورٹ نے سو موٹو ایکشن
بھی لیا جبکہ پنجاب کے چیف منسٹر جناب شہباز شریف نے ایک ٹاسک فورس بھی
تشکیل دی لیکن ان سب کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک کہ تمام ریاستی
ادارے اس معاملے میں سنجیدہ نہ ہو ں ۔ ایسا نہیں کہ ہمارے ملک میں قوانین
موجود نہیں بلکہ ہمارے ملک میں قوانین کی پابندی نہیں کی جاتی ۔ ان واقعات
کو بھی کم کیا جاسکتا ہے اگرپولیس کے نظام کو سدھار لیا جائے کیونکہ پولیس
وہ واحد ادارہ ہے جو ان کاروائیوں کا نہ صرف تدارک کر سکتا ہے بلکہ اگر
پولیس افسران بنا کسی سیاسی دباؤ کے کام کریں توان واقعات میں خاطر خواہ
کمی لائی جاسکتی ہے ۔یاد رہے عوام کے بچے اس وقت محفوظ ہوں گے جب خواص کے
بچے اور عوام کے بچے ایک حیثیت پائیں گے ۔یہاں ماضی کے ایک واقعہ کو بیان
کرتی چلوں ۔
نوب کالا باغ ایک سخت گیر ایڈمنسٹرٹر تھے ۔ان کے دور میں لاہور سے ایک پانچ
سال کا بچہ اغواء ہو گیا ۔ نواب نے ایس ایس پی کو بلا کر بچے کو چوبیس
گھنٹوں میں بازیاب کروانے کا حکم دیا ۔ چوبیس گھنٹے گزر گئے لیکن بچہ برآمد
نہ ہو ا نواب صاحب نے اگلے دن اے ایس پی ، ایس پی اور ایس ایس پی کے بچے
منگو ا کر ان بچوں کو کالا باغ بجھوا دیا اور اعلان کروا دیا کہ جب تک
پولیس اس اغواء شدہ بچے کو برآمد نہیں کرے گی ان کے بچے کالا باغ ہی رہیں
گے ۔ان افسران کو ان کے بچے نہیں دئیے جائیں گے ۔ نواب صاحب کا یہ نسخہ کا
میاب ہو گیا اور پولیس نے اس بچے کو اسی دن بازیاب کروا لیا ۔ نواب صاحب
اکثر کہا کرتے تھے کہ جب تک عوام کے مسئلے کی تکلیف بیوروکریسی تک نہیں
پہنچتی افسر اس وقت تک وہ مسئلہ حل نہیں کرتے ! یہ تھا ایک بچیکے اغواء
اوراس کی بازیابی کا واقعہ۔
آج لاہور میں کئی بچے اغواء ہوتے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان ِ حال نہیں ہے
۔ پولیس ان واقعات کو بھاگ جانے پر معمور کرتی ہے ، عوام سسکتی رہتی ہے ،
چند دن میڈیا پر زور و شور سے ٹاک شوز کیے جاتے ہیں جن میں سیاسی نمائندے
ایک دوسرے پر الزام دھرتے نظر آتے ہیں اس کے بعد یہ معاملات داخل دفتر ہو
جاتے ہیں ۔
بچوں کے اغواء کے واقعات پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے حکومت پولیس کو
سیاسی عصر و رسوخ سے پاک کرے ۔سیاست برائے سیاست سے بالا تر ہو کر فیصلے
کئے جائیں ۔ اس ادارے پر خصوصی توجہ دی جائے کیونکہ پولیس کا محکمہ ریاست
میں امن و امان قائم کرنے والے ستونوں میں ایک اہم ستون ہے ۔ |