حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے شانداردورخلافت
میں جہاں بہت سے کامیاب اورناگزیر اداروں کی داغ بیل ڈالی وہاں ملکی سرحدوں
کے اندر امن وامان کی صورتحال برقراررکھنے اورعوام کی جان وآبروکی حفاظت
کیلئے پولیس کاادارہ بھی تشکیل دیا تھا۔ ہمارے معا شرے میں مظلوم کی دادرسی
اورظالم کی گرفت کیلئے پو لیس کاشعبہ سرگرم ہے۔پولیس کے اندرپائی جانیوالی
بعض خامیوں ،کمزوریوں اوربدعنوانیوں کے باوجودپولیس کی اہمیت اورافادیت سے
انکار نہیں کیا جاسکتا۔پولیس اسٹیشن بنا نے کا مقصد ہر اس انسان کی آواز
،آہ سننا ہے جو اپنے حقوق کی بازیابی ،حصول انصاف اور ظلم سے بچاؤ کیلئے
تھا نوں کا رخ کر تے ہیں۔پولیس کا مقصد جرم کیخلاف لڑنا،امن وامان سمیت
قانون کی حکمرانی کو بر قرار رکھناجبکہ پاکستان کے آئین کی حکمرانی یقینی
بناناہے ۔پنجا ب پو لیس دنیا کی دوسری بڑی آرگنا ئز یشن ہے،اس وقت پا کستان
میں پانچ بڑے پولیس ٹریننگ سنٹرکام کررہے ہیں جو پچھلی کئی دہائیوں سے
پولیس کو مختلف شعبوں میں ٹریننگ دیتے ہیں۔ یہ ٹریننگ سنٹرز
لاہور،ملتان،اسلام آباد،سر گو دھااوربہا و لپو رمیں واقع ہیں۔اسلام آباد
پولیس کالج سہا لا بہت قدیم اور بہت مشہور ٹر یننگ سنٹر ہے۔یہاں پر تقریبا
پیشہ ورانہ صلا حیتوں کے بعد ٹریننگ دی جا تی ہے اور مختلف قسم کے کو رسز
کرائے جا تے ہیں۔جس میں ترقیاتی کو رسز،اے ایس آئی اپر سکول کو رسز،لوئر
سکو ل کو رسز،ٹر یفک وارڈن کو رسز،اور جو نیئر کومانڈنڈ کو رسز شامل
ہیں۔اور ان کا دورانیہ ٹائم پیر یڈ مختلف ہو تا ہے۔TDUٹر یننگ ڈیو یلپمنٹ
یو نٹ DIGپرمشتمل ہو تا ہے۔پو لیس فو رس کو ٹر یننگ دینے کا اہم مقصد
معاشرے سے بدامنی ،ناانصافی سمیت مختلف مجرمانہ سرگرمیاں اور دہشت گردی کو
ختم کرنا ہے۔ اگر ہم ٹر یننگ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہمیں ٹریننگ کا
مطلب بھی جا ننا ہو گا؟ٹریننگ کا مطلب ہمیں پا کستا ن کی پو لیس کو ایسے طر
یقے سے ٹر ینڈ کرنا ہے کہ وہ دہشت گر دی اور جرم سے کیسے نمٹ سکیں۔افسوس کی
بات یہ ہے کہ ٹر یننگ سنٹر میں آج بھی اہلکاروں کو انگر یز دور کی پر یڈ
کرائی جارہی ہے،جدید طرزپریڈ کو متعا رف نہیں کر وایا گیا۔
مجھے اس با ت پہ افسوس ہے کہ آج بھی پا کستان دوسرے ملکوں کی نقل کرنے
پرمجبور ہے۔اگر آپ ہر چیز کا مو ا زنہ بیرونی ملکوں سے کرتے ہیں تو پھرپا
لیسیا ں بھی آپکو بہتر بنا نا ہوں گی،مو جو دہ حا لات کے مطا بق ٹر یننگ
میں آج بھی وہی فر سو دہ طریقے را ئج ہیں جو ٹر ینر ز ٹر یننگ کراتے ہیں
۔وہ ایک ہی نصاب کو با ر با دہراتے ہیں۔بات غو ر و فکر کی ہے کہ اتنے فنڈز
کے با وجود بھی پو لیس کی صحیح معنوں میں ٹر یننگ نہیں کر ائی جا تی۔حکو مت
اگر اتنا فنڈ لگا تی ہے تو اسے چا ہئے کہ ٹر ینرز کوجدیدتکنیک سکھا ئی جا
ئے کہ دہشت گر دی یااحتجاجی مظاہروں کی صورت میں کس طرح نمٹا جائے ۔عوام
کوکس طرح پرامن طورپرمنتشرکیا جاسکتا ہے۔کس جدیدطریقہ کار سے آپ نے جرم کی
تحقیق اورتفتیش کر نی ہے۔ہم نے صرف پراناقانون نہیں د یکھنا،ہمیں نئے
قوانین بھی متعا رف کر اناہوں گے۔ پولیس آفیسرزاوراہلکاروں کو حسن اخلاق کے
ساتھ پبلک ڈیلنگ جبکہ مجرمان کی نفسیات کامطالعہ کرنے کی بھی تربیت دی
جائے۔ پولیس کے موجودہ طریقہ تفتیش ،چالان میں کیا کیا نقا ئص اورکمزوریاں
ہیں جن سے مجرمان کوفائدہ پہنچتا ہے، ا ن کافوری سدباب کیا جائے ورنہ
مجرموں اوردہشت گردوں کی گرفتاری کیلئے سردھڑ کی بازی لگانے والے
آفیسرزاوراہلکاروں کامورال گرجائے گا اورمجرمانہ سرگرمیاں بڑھ جائیں گی ۔
ہمیں ٹر یننگ میں سو شل ورک نہیں کراناکہ درخت کس طرح کا ٹے جا تے ہیں،گھا
س کس طرح اگائی اورکاٹی جا تی ہے وغیر ہ وغیر ہ۔
بلکہ ا نہیں یہ بتا نا ہے کہ عوام کی پرسکون نینداوران کے گھربارکی حفاظت
یقینی بنانے کیلئے رات کی گشت کوکس طرح موثراورمربوط بنانا اورکسی
ناخوشگوارحادثہ کے نتیجہ میں متاثرین کی اشک شوئی کس طرح کر نی ہے۔دوران ٹر
یننگ دماغی تشددسے کا م نہ لیا جائے بلکہ ٹر ینرز کا فر ض ہے کہ ٹر یننگ
میں اخلا قی تر بیت بھی دی جا ئے تا کہ کل کوجب کو ئی متاثرہ انسا ن آپ کے
پاس کوئی شکایت لے کر آئے تو آپ نے تحمل سے،اخلاق اورشفقت سے اس کی دادرسی
کرنی ہے۔عوام کے ساتھ ہتک آمیز اور جا ر حانہ رویہ روا نہیں رکھنا،یہ ایک
ٹرینرکا فر ض ہے کہ رنگروٹوں کو اس طر یقہ سے ٹر ینڈ کرے کہ پتہ چلے کہ
صحیح معنوں میں عوام کی خد مت کیلئے بہتر ین پو لیس فورس تیارکی گئی ہے۔اگر
پو لیس کی ابتدائی اسٹیج یعنی بنیادی تعلیم وتربیت صحیح نہیں ہو گی تو اس
سے نہ صرف پولیس بلکہ پورے معاشرے پرمنفی اورمضر اثر پڑے گا۔ضرورت اس امر
کی ہے کہ ٹر یننگ جدیدتقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے ۔اس کے ساتھ تھانہ کلچر
کی مثبت تبدیلی کیلئے سیاستدانوں کے چہیتوں اوروفاداروں کی بجائے صرف
اورصرف قابل اورفرض شناس ایس ایچ اوزلگانا ،سفا رش اوربدعنوانی کاسدباب
کرنا ،سیاسی مداخلت کاراستہ روکنااوراہلکاروں کی مختلف ضروریات کاخیال
رکھنا۔ ان اقدامات کے بغیرتھا نہ کلچرکی تبدیلی کاہمارااجتماعی خواب کسی
صورت شرمندہ تعبیرنہیں ہوگا۔پولیس پرعوام کے اعتماد کی بحالی کیلئے آئی جی
پنجاب سے ایک سپاہی تک سب کواپنا احسن کرداراداکرناہوگا۔ |