کیا کرنا ہے ایسی اولاد کو ۔۔۔۔۔؟

 دنیا ترسے جنت نوں
میں سڑکاں تے رُلدی ویکھی
جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں باپ اس بات سے قطع تعلق کہ یہ بڑا ہو کر کیسا ’’نکلے‘‘ گا، اس کا کتنا خیال رکھتے ہیں ،اس کی تمام ضروریاتِ زندگی پوری کرتے ہیں ،اس کی خواہشات کا خیال رکھتے ہیں ، بچہ بیمار ہو جائے تو رات کو جاگتے رہتے ہیں،اسے ہر صورت خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس کی تعلیم وتربیت پر بھر پور توجہ دیتے ہوئے اسے پڑھاتے لکھاتے ہیں تاکہ وہ بڑا ہوکر ایک باعزت شہری کے طور پر زندگی گزارسکے ،وسائل کی کمی بھی اس کے ارمانوں کے آڑے نہیں آنے دیتے اور وہ اپنے تمام فرائض بخوبی نبھاتے ہیں،حتیٰ کہ اس کی شادی بھی بڑی دھوم دھام سے کرتے ہیں ۔ دنیا میں شائد تمام رشتوں کا نعم البدل مل جائے مگر والدین کا نہیں ،بقولِ شاعر:
٭ ممتا کی تعریف نہ پوچھو
چڑیا سانپ سے لڑ جاتی ہے

اکثر و بیشتر دیکھنے میں آیا ہے کہ شادی کے بعد اولاد کا والدین سے رویہ بتدریج تبدیل ہو جاتا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ جا تی ہے : ’’چھٹی والے دن میرا اکثر یہ معمول ہوتا ہے کہ صبح کی نماز کے بعد’’ لمبی سیر اور گپ شپ ‘‘کے لئے نکل جاتا ہوں ،تقریباًنو بجے واپسی کے بعد ناشتہ کرتا ہوں اور پھردیگر دوستوں کیساتھ ایک بزرگ دوست’’چاچے ‘‘کے ڈیرے پر جا کر بیٹھتے ہیں،ہنسی مذاق،بزرگ ’’بابوں ‘‘کی اپنی زند گیوں سے ماخوذسنہری باتیں،جگ بیتیاں،ماضی کے قصے اور اخبار کے مطالعہ کیساتھ ساتھ ہفتہ بھر کی ’’علاقائی خبروں‘‘سے مستفید ہوتے ہیں۔ آج جب حسبِ معمول ’’چاچے کے ڈیرے ‘‘ پر پہنچا تو ’’ڈیرہ ‘‘بند تھا،ادھر اُدھر سے دریافت کیا مگر کوئی پختہ جواب نہ ملا ۔ بالآخر ’’چاچے ‘‘ کو فون کیا ، پھولی ہوئی اور لڑکھڑاتی ہوئی آواز سے جواب ملا: کون؟میں تھوڑا چونکا ،بولا: چاچا!اب ہمیں پہچاننے سے بھی گئے ہو، میں نے بلا مزید تاخیر، اپنا تعارف کروایا اور’’ ڈیرہ‘‘ بند ہونے کی وجہ پوچھی،’’چاچے‘‘کے جواب نے مجھے آبدیدہ کر دیا اور دل خون کے آنسو رونے لگا،بولے: ’’میں تو کل کا ہسپتال میں ہوں ،بیما ر ہوں(پیشاب بند ہو گیا تھا ) ، اس لئے ‘‘۔ میں نے دریافت کیا :چاچا! ہسپتال کون لے کر گیا تھا اور اب ساتھ کون ہے ؟ جواب ملا:ــ ’’خود ہی گیا تھا اور ساتھ کوئی بھی نہیں ‘‘،چاچے کے جواب نے مجھے مزید جھنجھوڑ ا ۔۔ ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس کے تین چار بیٹے ہوں ،جن کے بیوی بچے تو ’’موجیں‘‘ کر رہے ہوں مگرماں باپ دربدر دھکے کھائیں، بہوؤں،پوتے ،پوتیوں کے طعنے سنیں ، بڑھاپے میں بھی اپنی خود داری قائم رکھنے کیلئے کام کریں ،محنت مزدوری کریں اور ذلیل و خوارہوں ، مگر اپنی اولاد کا ’’بھرم ‘‘رکھنے کیلئے اور اپنے آپ کو ’’دلاسہ‘‘ دینے کیلئے یہ کہیں کہ یہ’’ڈیرہ‘‘تو محض آپ لوگوں کے بیٹھنے کا ’’ٹھکانہ‘‘ بنایا ہوا ہے ،ورنہ مجھے یہ سب کرنے کی تو کوئی ’’ضرورت‘‘ نہیں ہے ۔‘‘

ماں باپ ایسے ہوں اور اولاد پھر بھی ان کی خدمت نہ کرے ،تو اس اولاد سے زیادہ بدقسمت ،بد نصیب اور بے حس کوئی نہیں ہو سکتا ۔ پتہ نہیں کیوں ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہماری بھی اولاد ہے اور ہم نے بھی بوڑھا ہونا ہے ،جیسے ہم اپنے بچوں کو پال رہے ہیں ویسے ہی ہمارے ماں باپ نے ہمیں پالا تھا،یاد رکھو! یہ دنیا مکافات ِ عمل کا دوسرا نام ہے :جیسا کرو گے ، ویسا بھرو گے ،بس تھوڑا صبر کرو ، اس دنیا میں بڑے بڑے’’فرعون ‘‘ آئے،جو دنیا میں خدائی دعوے کرتے تھے،وہ سب اپنے غرور و تکبر سمیت خاک میں مل گئے اوردنیا کیلئے ’’سبق‘‘ چھوڑ کر چلے گئے ۔جب ماں باپ زندہ ہوتے ہیں تو ہم ان سے بات چیت ،صلاح مشورہ تودور انکو بلانا تک گوارہ نہیں کرتے ،اگر والدین بیمار پڑ جائیں تو ان کے’’ دوائی دھارو‘‘ کی بجائے جائیداد کی فکر پڑ جاتی ہے ،بقولِ شاعر:
٭ ذرا سی طبیعت کیا ناساز ہوئی میری
بچے وکیل بلا لائے ،طبیب سے پہلے

جب پھروہ فوت ہوجاتے ہیں توپھر وہی بیٹے (جن کی شکلیں دیکھنے کیلئے ماں باپ ترستے تھے) بیرون ِ ملک سے’’منہ ‘‘ دیکھنے کیلئے آجاتے ہیں ،دنیا کو دکھانے کیلئے خوب’’ رونا دھونا ،آہ و بکا اور بین ‘‘ کرتے ہیں ،پنجابی کی ایک مشہور کہاوت ہے :’’جیوندیاں ڈانگاں،تے مویاں بانگاں ‘‘۔پھر دنیا میں ’’ناک‘‘رکھنے کے لئے فروٹ کی پیٹیاں،دیگیں اورمسجدوں میں والدین کے نام کے اعلانات کرواتے ہیں،میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ جتنے پیسے ہم اپنے کسی بزرگ کے ’’رسم ِ قُل ودسواں ‘‘پرفروٹ اور دیگوں کی مد میں ’’ناک‘‘ رکھنے کیلئے لگا دیتے ہیں ،اتنا پیسہ اگر اس مرنے والے پر اس کی زندگی میں لگادیتے تو شائد مرنے والا دوچارسال اور ’’جی‘‘ لیتا(بے شک زندگی اور موت اﷲ کے ہاتھ میں ہے اور اس کا ایک وقت مقرر ہے )،یاد رکھنا! رب سے اور ماں باپ سے دور رہ کر ،انسان پریشان ہی رہتا ہے اورزندگی میں دو بندوں کا بہت خیال رکھنا : پہلا وہ ،جس نے تمہاری جیت کے لئے اپنا سب کچھ ہار دیا ، یعنی تمہارا باپ ۔دوسرا وہ، جس کی دعاؤں سے تم سب کچھ جیت گئے ،یعنی تمہاری ماں :
٭ دعائیں بھی راستے میں ٹھہر جاتی ہیں
دل دکھا کر والدین کا ،خدا سے بھی امید نہ رکھنا

اگر ہم جان لیں کہ اولاد تو بڑھاپے میں ماں باپ کا سہارا ہوتی ہے ،بوڑھے والدین کیلئے ’’پنشن ‘‘ ہوتی ہے ،ایسی اولادسے تو ریاست اچھی ہے جس کااس فرد سے کوئی خونی رشتہ تونہیں ہوتا مگر پھر بھی جوانی کی خدمت کے بدلے، بڑھاپے میں ’’پنشن ‘‘ دیتی ہے ۔میں تو پھر یہی کہوں گا کہ اگراولادکے ہوتے ہوئے بھی بوڑھے والدین در بدر دھکے کھائیں،ذلیل و خوار ہوں ،جیب خرچ کیلئے ’’کام ‘‘ کریں اور اولاد کے ’’ڈراور خوف ‘‘ کی وجہ سے اپنی اولاد کے سامنے حق بات کرنے سے بھی ڈریں اورتو پھر کیا کرنا ہے ایسی اولاد کو ۔۔۔۔۔؟
Dr. Talib Ali Awan
About the Author: Dr. Talib Ali Awan Read More Articles by Dr. Talib Ali Awan: 50 Articles with 96645 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.