آج صبح سے ہی آسمان پر کالی گھٹاچھائی ہوئی
تھی اور وقفے وقفے سے بارش جاری تھی ۔ سعد لان میں بارش انجوائے کرتے ہوئے
پوری طرح بھیگ چکا تھا اور اب اندر آتے ہوئے ماما کو پنیر پکوڑے بنانے کا
کہہ کر خود اوپر اپنے کمرے میں آکر چینج کرنے لگا۔ سعدبارش کا دیوانہ ہونے
کے ساتھ ساتھ پکوڑے کھانے کابھی کافی شوقین تھا۔وہ چینج کر کے آیا تو کچھ
ہی دیر بعد ملازم ٹرالی سجائے حاضر ہوا ۔ارے واہ ۔ ۔ ۔ اتنی جلدی ماما نے
اتنا کچھ بنا دیا ؟ نہیں صاحب دہی بھلے تو پہلے بنے ہوئے تھے اور کچوریاں
ابھی بی بی نے آپ کے لیے منگوائی ہیں ۔ بس پکوڑے گھر پر بنائے ہیں بی بی جی
نے۔ اچھا ٹھیک ہے یہ ساری چیزیں اس ٹیبل پہ سیٹ کر دو سعد نے کھڑکی کے
سامنے لگی ٹیبل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ملازم نے ساری چیزیں ادھر لگا
دیں تو سعد سیٹی بجاتا ہوا آیا ایک پکوڑا اٹھا کر مہنہ میں ڈالا اور ساتھ
ہی پردے ہٹا دیئے کہ پکوڑوں کے ساتھ بارش کا نظارہ کیا جائے۔ مگر سامنے کے
منظر نے یکا یک اس کی بھوک اڑا دی پکوڑا گلے میں اٹکنے لگا۔ نیچے گھر کے
ساتھ والے خالی پلاٹ میں لگائی گئی جھگیوں کے باسی جن پر یہ بارش آزمائش بن
کر برس رہی تھی ۔ وہ اکلوتی جھگی کے اندر سب کچھ اوپر نیچے پھینکے اور بچوں
کو لیے چارپائی پربیٹھے تھے ۔ پانی جھگی کے اندر بھی تھا مگر بس سر پہ لگے
اس ٹینٹ نے اوپر سے کچھ بچت کی ہوئی تھی ۔باہر خالی پلاٹ تالاب منظر پیش کر
رہا تھا۔ یہ لوگ بھی تو زندگی کو گزار ہی رہے ہیں ۔ ہم لوگوں جیسا بھی کوئی
ظالم و بے حس ہو گا کہ محلوں میں رہنے کا نشہ ایسا چڑھ گیا ہے دماغ کو کہ
ساتھ رہنے والے یہ غریب انسان ہمیں نظر نہیں آتے ۔ بارش کو روکنا میرے بس
میں نہیں نا ہی میں ان کو گھر خرید کر دے سکتا ہوں مگر کچھ مدد تو کر سکتا
ہوں ناں!اپنے منہ میں نوالہ ڈالنے سے بھوک تو مٹ جاتی ہے. لیکن طلب اور ہوس
نہیں مٹتی... طلب اور ہوس کو مٹانے کے لیے دوسروں کے منہ میں نوالہ ڈالنا
پڑتا ہے..وہ نیچے اترا اور گھر میں بغیر کسی کو بتائی گاڑی لیے نکل آیا۔
کچھ کھانے پینے کی چیزیں اور دودھ کے ڈبے لیے وہ خالی پلاٹ کے سامنے رکا وہ
ساری چیزیں انھیں دے دیں ساتھ میں کچھ نقدی بھی دی اور کہا کہ چاچا کوئی
کرائے کا مکان دیکھ لیں میں ہر مہینے کرایہ دے دیا کروں گا۔ کریم چاچا نے
سعد کو اتنی دعائیں دیں اور آسمان کی طرف منہ کر کے اس ذات کا بھی شکر ادا
کیا۔ بارشیں تو اب بھی ہوں گی ہاں مگر سعد جیسے لوگ ہوں تو بارش آزمائش
نہیں رحمت بن کر برسے گی۔ از قلم شانزہ خان |