تیری گود میں پلتی ہے تقدیر اُمم

علم کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مسلم ہے ۔ آج کے اس دور میں تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتناکہ زندگی کے لئے سانس کی آمد و رفت ۔ ایک بچہ کے لئے اس کی ماں کی گود اس کا سب سے پہلا مدرسہ ہوتا ہے ۔ ایک نومود جب اس دنیا میں آتا ہے تو وہ بالکل معصوم اور فرشتہ کی طرح ہر گناہ سے پاک ہوتا ہے ۔ تمام دنیاوی امور اور مسائل سے آزاد ہوتا ہے ۔ لیکن جیسے جیسے وہ اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل کو طے کرتے ہوئے اپنی طفلانہ زندگی کا آغاز کرتا ہے تو ہر ایک شے لاشعوری طور پر اس کے سامنے آجاتی ہے ۔ بچہ جب اپنی ماں کی گود سے اترتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے گھرکی زمین پر قدم رکھتا ہے ۔ گویا اسے یہیں سے اپنے اطراف کے ماحول کا احساس ہوجاتا ہے اور وہ اپنے اطراف کے ماحول سے مانوس ہوجاتا ہے اور ان چیزوں کو قبول کرنے لگ جاتا ہے جو اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔

سماجی نقطۂ نظر سے ایک بچے کا سماج اس کا گھر ہوتا ہے اور بچہ اپنے اس ماحول کے تمام طور طریقوں سے مطابقت کرنا یاتو خود سیکھتا ہے یا والدین اسے سکھاتے ہیں ، اس میں مرکزی کردار ماں کا ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ باپ تو تلاش معاش میں گھر سے باہر چلا جاتاہے ۔ اگر ماں تعلیم یافتہ ہے تو سب سے پہلے بچے کو لکھنا پڑھنا سکھاتی ہے ۔ لیکن ماں اگر اَن پڑھ ہے تو وہ بچے کی چنداں فکر نہیں کرتی ۔ لہٰذا بچہ اس سے آزاد اور کھیل کود میں مگن رہتا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ بچہ اسکول میں داخل ہوتا ہے تو اس میں وہ دلچسپی اور رغبت مفقود ہوتی ہے جو تعلیم یافتہ ماحول سے آنے والے بچوں میں ہوتی ہے۔

ماں کی گود کے بعد اور سکول میں داخلہ سے پہلے ایک بچہ کا جو مکتب ثانی ہوتا ہے وہ اس کا گھر اور آس پاس کا ماحول ہوتا ہے ۔ گھر کے باہر کا ماحول بھی بچہ کو اتنا ہی متاثر کرتا ہے جتنا کہ گھر کے اندر کا ۔ عموماً بچے گھر کے باہر نازیبا کلمات اور گالم گلوچ سیکھتے ہیں اور اس کا ردّ عمل کم و بیش گھر میں بھی دکھائی دیتا ہے ۔ بھائی بہن کی لڑائی میں ان کی زبان سے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ کلمات نکل جاتے ہیں ۔ یہ بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بیرونی ماحول سے اپنے ہم عمر بچوں کی زبان سے سننے والی باتیں جلدی قبول کرلیتے ہیں ۔ مشترکہ خاندانوں میں بچے زیادہ نفسیاتی اور حساس ہوتے ہیں ۔ مشترکہ خاندانوں میں افراد کی تعداد زیادہ ہونے کے سبب توتو میں میں عام بات ہوتی ہے اور دو افراد کے درمیان ردّ عمل کو جب دیکھتے ہیں تو اس کا اثر قبول کرلیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اکثر بچے گھر کے باہر لڑائی جھگڑوں میں پیش پیش رہتے ہیں ۔ اگر مشترکہ خاندان میں بچوں کے سامنے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو بچے اسی رَو میں بہنا شروع ہوجائیں، جس کے نتیجہ میں آگے چل کر خاندان کے دوسرے افراد بھی متاثر ہوسکتے ہیں ۔ تجربات و مشاہدات یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ بچوں کا ذہن ا ور ان کا دماغ ایک کورے کاغذ کی طرح صاف ہوتا ہے ، بچپن میں جو باتیں یا عادتیں انہیں سننے یا دیکھنے کو ملتی ہیں وہ ان کے دل و دماغ میں منقش ہوجاتی ہیں اور جوں جوں وہ بڑے ہوتے رہتے ہیں ووں ووں وہ باتیں بھی پروان چڑھتی رہتی ہیں ۔

ہمیں اپنے معاشرے کو صحت مند بنانے کے لئے اس قول کو اہمیت دے کر ایک بچہ کو آنے والے کل کا ایک بہترین انسان بنانا ہوگا تاکہ وہ ایک اچھا اور سمجھ دار انسان بن سکے ۔ جس طرح ایک سمجھ دار انسان ایک چھوٹے سے بچہ سے بہت ساری سیکھتا ہے ، بعینہٖ ایک بچہ بھی اپنے بزرگوں سے بہت ساری نہیں بلکہ تمام باتیں سیکھتا اور انہیں قبول کرتا ہے ۔

بچے فطرتاً نقال ہوتے ہیں۔ اس لئے گھر کے افراد کو یہ بات خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ وہ جو بھی حرکات و سکنات کریں گے بچہ فوراً انہیں قبول کرلے گا ۔ اس لئے بچوں کے سامنے فضولیات اور لغویات سے پرہیز کرنا ٗ والدین اور دیگر بڑوں کی صرف اخلاقی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ یہ ان کی سماجی ذمہ داری بھی ہے ۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم ان بچوں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ان کے لئے ایک صالح اورصاف ستھرے ماحول کی تشکیل کے لئے فضا ساز گار کرتے ہیں ۔

بچے مستقبل کا سرمایہ ہیں ۔ اس لئے یہ بات نہایت ہی اہم ہے کہ ان کی پرورش کے لئے گھر کا ماحول خوش گوار اور صحت مند ہونا چاہیے ۔ کیوں کہ ایک بچہ اپنے گھر میں والدین کے ساتھ ساتھ گھر کے دیگر افراد کے ساتھ بھی وقت گزارتا ہے ۔ ایک نیک اور صالح بچہ جب گھر کے باہر قدم رکھتا ہے تو سماج میں مختلف لوگوں سے اس کا سابقہ پڑتا ہے جس کے نتیجہ میں متعلقہ افراد بچہ کے عادات و اطوار اور کردار و گفتار سے بچہ کے گھر کا بخوبی اندازہ لگا لیتے ہیں ۔

ماحول دینی ہوتو اس کا اثر بچہ کے ذہن کو ضرور متاثر کرتا ہے ۔ ورنہ عموماً نئی نسل اپنے دین و مذہب سے کوسوں دور نظر آتی ہے ۔ اس کمی کے لئے بھی والدین اور گھر کے دیگر افراد ہی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔

یاد رکھیں کہ بچے قدرتی طور پر معصوم ہوتے ہیں اور ان کی اس معصومیت میں آنے والے کل کا مستقبل پوشیدہ ہوتا ہے ۔ بالخصوص ایک ماں کی گود میں بچہ کی تقدیر پلتی ہے ۔جیساکہ کسی نے کہا ہے :
تیری گود میں پلتی ہے تقدیر اُمم
Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 278907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.