استعانت غیر اللہ پر چند غلط فہمیاں اور اُن کی وضاحتیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ!

استعانت غیر اللہ کے حوالے سے چند غلط فہمیاں اور اُن کی وضاحت کے ساتھ یہ مضمون حاضر ہے ...تمام قارئین کرام سے توجہ سے مطالعہ اور غور و فکر کی درخواست ہے.

یقیناً آپ سب نے حقوق العباد(یعنی ایک بندے کے دوسرے بندے پر حقوق) کے متعلق بہت کچھ سنا اور پڑھا ہوگا۔

زندگی میں ایک دوسرے سے مدد مانگنا اور ایک دوسرے کی مدد کرنا حقوق العباد کا ایک اہم حصہ ہے۔ جب تک انسان کی حیات ہے اس کے پاس اپنے نامہ اعمال میں نیکیاں بڑھانے کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ جتنا چاہے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق فرمانبرداری کر کے اپنے نامہ اعمال میں نیکیاں بڑھاتا رہے اور آخرت میں سرخرو ہو سکے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد کی تفصیل کچھ اس طرح بےان فرمائی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا)النساء36 پارہ 5
(ترجمہ:اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور قرابت والوں کے ساتھ اور یتیموں اور فقیروں کے ساتھ اور ہمسایہ قریب اور ہمسایہ اجنبی اور پاس بیٹھنے والے اور مسافر کے ساتھ اور اپنے ہاتھ کے مال یعنی غلام باندیوں کے ساتھ بے شک اللہ کو پسند نہیں اترانے والا بڑائی کرنے والا)۔

یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے حقوق العباد کے احکامات۔اگر کوئی طاقت رکھنے والا کسی کمزور کی مدد کرتا ہے تو یہ شرک نہیں بلکہ یہ حق ہے کمزور کا طاقت والے پر،اگر کوئی ڈاکٹر کسی مریض کی مدد کرتا ہے تو یہ شرک نہیں بلکہ مریض کی ضرورت اور ڈاکٹر کا فرض ہے،اگر کوئی کسی یتیم اور فقیر کسی مال دار سے سوال کرتا ہے تو یہ شرک نہیں بلکہ مال دار کے لئے نیکی کمانے کا راستہ ہے کہ وہ اس کی مدد کرے،اور اگر کوئی اپنے پڑوسی قریب کے یا اجنبی پڑوسی یا کسی عزیز رشتہ دار یا ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والے یا کسی مسافر یا اپنے ملازم کی کسی مشکل میں کام آتا ہے تو یہ شرک نہیں اللہ تعالیٰ کے واضح اور صاف احکامات ہیں کہ ان کے ساتھ نیکی کرو یعنی ان کی مدد کرو یا اُن کے کام آﺅ۔

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)توبہ 60پارہ 10
(ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ صدقات تو دراصل فقراء اور مساکین کے لئے ہیں اور ( ان کے لئے ہیں)جو مامور ہیں صدقات کے کام پر اور (ان کے لئے) جن کی تالیف قلب مطلوب ہو،نیز گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے اور اللہ کی راہ میں اور مسافر نوازی میں (خرچ کرنے کے لئے ہیں ) یہ فرض ہے اللہ کی طرف سے،اور اللہ سب کچھ جاننے والا،بڑی حکمت والاہے)۔

اور ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا )بنی اسرائیل 26 پارہ 15
(ترجمہ:رشتے داروں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہواور اسراف اور بے جا خرچ سے بچو)۔
یہاں حکم ہوا نیکیوں پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا۔
اور ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ )المائدہ2 پارہ 6
ِ(ترجمہ:اور آپس میں مدد کرو نیک کام پر اور پرہیزگاری پراور مدد نہ کرو گناہ پر اور ظلم پر)۔
یقیناً آپ باآسانی سمجھ رہے ہوں گے کہ زندگی میں کسی سے مدد مانگنا اور مدد کرنا ۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے صاف صاف واضح احکامات ہیں ۔۔۔۔جن کو حقوق العباد بھی کہا جاتاہے۔

جب آپ کو یہ بات سمجھ آگئی ان شاءاللہ تعالیٰ آپ کو اس بات سے جڑے دیگر اللہ تعالیٰ کے احکامات بھی سمجھ آجائیں گے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّـهِ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ )اٰل عمران 52 پارہ 3
(ترجمہ:پھر جب معلوم کیا عیسیٰ نے بنی اسرائیل کا کفر،بولا کون ہے کہ میری مدد کرے اللہ کی راہ میں، کہا حواریوں نے ہم ہیں مدد کرنے والے اللہ کے،ہم یقین لائے اللہ پر اور تو گواہ رہ کہ ہم نے حکم قبول کیا)۔
یہاں زیادہ لمبی وضاحت کی ضرورت تو نہیں جیسا کہ ہم نے اوپر لکھا کہ زندگی میں کسی سے مدد مانگنا شرک نہیں ہوتا بلکہ اگر اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی مدد کرتے ہیں تو حقوق العباد پورے کرتے ہیں اور اگر اللہ کے حکم پر کسی نے انبیاءکرام کی مدد کی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی فرمابرداری کی اور اس کے بدلے میں اپنے نامئہ اعمال میں نیکیوں اضافہ کیا۔

اور ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنصَارَ اللَّـهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّـهِ ۖ فَآمَنَت طَّائِفَةٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ)الصف 14 پارہ 28
(ترجمہ:اے ایمان والوں تم ہو جاﺅ مدد گار اللہ کے جیسے کہا عیسیٰ مریم کے بیٹے نے اپنے یاروں کو کون ہے کہ مدد کرے میری اللہ کی راہ میں ، بولے یار ہم ہیں مدد گار اللہ کے،پھر ایمان لایا ایک فرقہ بنی اسرائیل سے اور منکر ہوا ایک فرقہ )۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے بھی فرما دیا کہ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں سے کہا تھا کہ کون اللہ تعالیٰ کی راہ میں مدد کرے گا۔۔۔۔اسی طرح مسلمانوں کو بھی حکم ہوا کہ تم بھی اسی طرح اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے اللہ کے مدد گار ہوجاﺅ۔
اور ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(وَلَيَنصُرَنَّ اللَّـهُ مَن يَنصُرُهُ)الحج 40 پارہ 17
(ترجمہ:جو اللہ کی مدد کرے گا ،اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا)۔
یہاں ایک بات ذہن میں رکھ لیں کہ(معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ کسی کی مدد کا محتاج نہیں بلکہ یہ تو ہمارے لئے آزمائش ہے کہ ہم کتنے اللہ کے فرما بردار ہیں۔
اورجگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ﴿٢﴾ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّـهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ العنکبوت 3،2 پارہ 20
(ترجمہ:کیا لوگوں نے ےہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائیں ہیں ،ہم انہیں بغیر آزمائے ہی چھوڑ دیں گے؟ان سے اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا اللہ تعالیٰ انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کر لے گاجو جھوٹے ہیں)۔

ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ان سے اگلے مسلمانوں کی بھی جانچ پڑتال کی گئی، انھیں بھی سرد و گرم چکھایا گیا تاکہ جو اپنے دعوے میں سچے ہیں اور جو صرف زبانی دعوے کر تے ہیں ان میں تمیز ہوجائے۔ مزید لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر ہوچکی بات کو اور ہونے والی بات کو برابر جانتا ہے، اس پر اہلسنت و الجماعت کے تمام اماموں کا اجماع ہے ۔پس یہاں علم روایت یعنی دیکھنے کے معنی میں ہے)۔

اور ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ وَمَن جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ)العنکبوت 6 پارہ 20
(ترجمہ:ہر ایک کوشش کرنے والااپنے ہی بھلے کی کوشش کرتا ہے،ویسے تو اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے ) ۔
اللہ تعالیٰ کا واضح اور صاف صاف فرمان ۔۔۔کہ اگر کوئی نیکیوں کی اور بھلائی کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنے بھلے کے لئے ہی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے۔یہ تو اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اللہ کے دین کی اور رسول کی مدد کر کے اپنے نامہ اعمال میں نیکیوں کا اضافہ کر لیں۔

یہ اللہ تعالیٰ کے صاف صاف اور واضح احکامات ایک طرف ایک دوسرے کی مدد کرنے میں نہ صرف خود کی بھلائی ہے بلکہ جس کی مدد کی جارہی ہے اس کی بھی بھلائی ہے۔ اور دوسری طرف اگر کسی نے اللہ تعالیٰ کی مدد کی اور اللہ کے رسولوں کی مدد کی تو وہ بھی ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کی اور دوسری طرف لوگوں کے اپنے نامہ اعمال میں نیکیوں کے اضافے کر کے دنیا اور آخرت میں بھی خود کی بھلائی کے لئے ہی ہے۔

یہ تو وہ مدد ہوئیں جو ماتحت الاسباب ہیں ۔۔۔۔ لیکن ان مثالوں کو لے کر یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔کہ اب جس کا دل جس سے چاہے اُس سے جو چاہے مدد طلب کرتا رہے۔۔۔۔کیوں کہ قرآن پاک میں بہت سی جگہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو پکارنے پر سختی سے جگہ جگہ منع فرمایا گیا ہے۔۔۔۔اور ہمیں جگہ جگہ یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مدد گار نہیں۔

تو یہ کون سی مدد ہے ؟
جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جگہ جگہ صرف اللہ تعالیٰ کو مددگار فرمایا گیا ہے ؟(توجہ کی درخواست ہے )۔

کبھی انسان کی زندگی میں کوئی ایسی شدید پریشانی میں آجاتی ہے یا کسی مصیبت کا شکار ہوجائے یا شدید مشکل کا شکار ہوجائے یا کسی موذی بیماری یازندگی موت کا مسئلہ ہو یا کوئی ایسا مسئلہ ہو جائے جس کا حل بظاہر اس کے پاس نہ ہو یا جو اس کے ماں باپ بھائی بہن،بیٹا بیٹی، یار دوست،عزیز رشتہ دار،محلہ دار یا کوئی ملنے جلنے والے کی قدرت سے باہر ہو ایسے وقت میں جب انسان کسی ان دیکھے کو مدد کے لئے پکارتا ہے۔ یہ وہ مدد ہے جس کو مافوق الاسباب (غیبی مدد) کہا جاتا ہے۔

اس مافوق الاسباب( غیبی )مدداورماتحت الاسباب مدد میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔

پہلا فرق یہ ہے کہ اوپر مدد مانگنے کے احکامات میں مدد مانگنے والا(اللہ تعالیٰ)مدد کا محتاج نہیں ہے۔
جبکہ ماتحت الاسباب مدد میں اورمافوق الاسباب( غیبی) مدد کا ہر ایک انسان محتاج ہے، ہر انسان کی ضرورت ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت، امیر ہو غریب، بادشاہ ہو یا فقیر، آقا ہو یا غلام، اچھا ہو یا برا،چھوٹا ہو یا بڑا،مشرک، کافر ہو یا مسلمان اور مسلمانوں میں عابد ہو یا گنہگار، ہر ایک انسان اس غیبی مدد کا محتاج ہے۔۔۔کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کو غیبی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی۔

اب جیسے ماتحت الاسباب مدد مانگنے یا مدد کرنے کے احکامات ساری دنیا کے لئے ایک ہی ہیں ۔۔۔۔تو یقیناً اللہ تعالیٰ کے غیبی مدد مانگنے کے جو بھی احکامات ہوں گے وہ بھی تمام دنیا کے انسانوں کے لئے ایک ہی ہوں گے۔

ایسا تو ممکن نہیں کہ غیبی مدد مانگنے کے احکامات پاکستان اور انڈیا کے لوگوں کے لئے الگ ہوں؟؟؟اور افریقہ،امریکہ، یورپ، انٹارکٹیکااور باقی دنیا کے انسانوں کے لئے الگ ہوں؟؟؟

تو جب یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ساری دنیا کے لئے اللہ کے احکامات ایک ہی ہیں۔

تو ماتحت الاسباب مدد اور مافوق الاسباب( غیبی) مدد کا دوسرا زمین اور آسمان کا فرق یہ ہوا کہ ماتحت الاسباب مدد کرنے والا ایک وقت میں ایک انسان زیادہ سے زیادہ دو تین انسانوں کی ہی مدد کر سکتا ہے۔

جبکہ غیبی مدد کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مشرق سے لے کر مغرب تک جتنے بھی انسان ہیں،اگر اندازے کے لئے اربوں انسان ہوں اور سب کے سب ایک ساتھ سوال کریں تو وہ غیبی مدد کرنے والا ایک ہی وقت میں سب کی سن لے۔اور غیبی مدد کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک ہی سیکنڈ میں مشرق سے لے کر مغرب تک شمال سے لے کر جنوب تک لاکھوں کروڑوں لوگوں کی پکار کو سن کر پھر ایک ہی وقت میں سمجھ بھی لے کہ کون کون کیا کیا چاہتا ہے۔

ماتحت الاسباب مدد اور غیبی مدد کا تیسرا زمین اور آسمان کا فرق یہ بھی ہے کہ غیبی مدد کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ اگر مدد مانگنے والے کو زمین کے تہہ خانے میں،سمندروں کی انتہائی گہرائیوں میں یا مہینوں کی مسافت کے بیچ سمندر کے سینے پر یا اندھیرے غار میں، یا کسی جنگل میں کسی ایک انسان کو یا ایک ہی وقت میں سب جگہ کروڑوں لوگوں کو ایک ہی وقت میں کسی غیبی مدد کی ضرورت پڑے تو مدد کرنے والے کی شان ایسی ہونی چاہیے کہ ایک ہی وقت میں سب پر توجہ کرلے، ایک ہی وقت میں زمین اور آسمان میں سب حاجت مندوں کو دیکھ لے۔

ماتحت الاسباب مدد اور غیبی مدد میں چوتھا زمین اور آسمان کا فرق یہ ہے کہ غیبی مدد کرنے والے کا زمین اور آسمان سب چیزوں پر پورا اختیار ہونا چاہیے تاکہ اگر کوئی بندہ مصیبت کے وقت غیبی مدد کے لئے پکارے تو وہ غیبی مدد کرنے والا سمندروں کو حکم دے تو سمندر کشتی کو نہ ڈبوئیں، آگ کو حکم دے تو آگ نہ جلائے،چھری کو حکم دے تو چھری کند ہوجائے، مچھلی کو حکم دے تو مچھلی کا پیٹ حفاظت کا گھر بن جائے، دریا کو حکم دے تو ایک طرف فرمانبرداروں کے لئے راستہ بنا دے اور دوسری طرف وہ ہی دریا نافرمانوں کو غرق کردے۔

امید ہے کہ باآسانی آپ کو ماتحت الاسباب مدد اور مافوق الاسباب مدد کے درمیان زمین اور آسمان کا فرق واضح ہورہا ہوگا۔

ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔کون ہے ایسا۔۔۔۔ مکمل سننے والا ۔۔۔مکمل دیکھنے ولا۔۔۔مکمل اختیار والا؟؟؟

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ) ق 16 پارہ 26
(ترجمہ:اور البتہ ہم نے بنایا انسان کو اور ہم جانتے ہیں جو باتیں آتی رہتی ہیں اُس کی جی میں،اور ہم اُس کے نزدیک ہیں دھڑکتی رگ(شہ رگ)سے زیادہ)۔

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ)الانعام103 پارہ 7
(ترجمہ:اسے نگاہیں نہیں پا سکتیں اور وہ تمام نگاہوں کو پا لیتا ہے،وہ تو بہت ہی بارین بیں اور بڑا ہی واقف ہے)۔

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ) القصص 69 پارہ 20
(ترجمہ:ان کے سینے میں جو کچھ چھپاتے ہیںاور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں،تیرا رب سب کچھ جانتا ہے )۔

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ ۚ وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ )یونس 61 پارہ 11
(ترجمہ:تو جس کسی مشغلے میں ہو،اور اللہ کی طرف سے آئے ہوئے قرآن کی جو کچھ تلاوت کر رہا ہو اور جو کچھ بھی کام تم کرتے ہو، ہم برابر تم پر مطلع رہتے ہیں، جب بھی تم اس کام کو شروع کرتے ہو، تیرے رب سے ذرے برابر کی کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں رہتی، نہ زمین میں نہ آسمان میں، اس سے بھی کوئی چھوٹی سی چھوٹی اور بڑی سے بڑی کوئی چیزایسی نہیں جو روشن کھلی کتاب میں نہ ہو)۔

غیبی مدد کرنے والا ایسا ہی ہو نا چاہیے کہ ایک ہی وقت میں سارے دنیا کے انسانوں کے شہہ رگ سے بھی قریب ہو، ذرے برابر کی کوئی چیز بھی اس سے پوشیدہ نہ ہو اور سارے انسانوں کے دلوں کے بھید کی بھی خبر رکھے۔

حدیث پاک میں ارشاد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندوں! اگر تمہارے اول و آخر انسان جن سب مل کر بہترین تقویٰ والے دل کے شخص بن جائیں تو اس وجہ سے میرے ملک ذرا سا بھی نہ بڑھ جائے گا،اور اگر تمہارے اگلے پچھلے انسان اور جنات بد ترین دل کے بن جائیں تو اس وجہ سے میرے ملک میں سے ایک ذرہ سا بھی نہ گھٹے گا۔اے میرے بندوں!اگر تمہارے اگلے پچھلے انسان جن سب ایک میدان میں کھڑے ہوجائیں اور مجھ سے مانگیں،اور میں ہر ایک کو سوال پورا کردوں تو بھی میرے پاس کے خزانوں میں اتنی ہی کمی آئے گی جتنی کمی سمندر میں سوئی ڈالنے سے ہو۔(مسلم شریف ،باب: تحریم الظلم ح :2577)

غیبی مدد کرنے والا ایسا ہی ہونا چاہیے کہ وہ ایک ہی وقت میں سب کی سنے، سب کی سمجھے، اور اس کے خزانے ایسے ہوں کہ وہ سب کو عطاء فرمائے پھر بھی اس کے خزانے میں اتنی بھی کمی نہ آئے جتنی سوئی کے سمندر میں ڈالنے سے ہو۔

ایسا اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہو سکتا ہے؟یقینا اللہ تعالیٰ کے سوا ایسا کوئی نہیں ۔اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں صفات میں بالکل اکیلا، واحد ہے۔

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( إِنَّ اللَّـهَ لَا يَخْفَىٰ عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ)اٰ ل عمران 5 پارہ 3
(ترجمہ:یقینا اللہ تعالیٰ پر زمین اور آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں)

میرا سوہنا رب عرب کے وسیع و عریض ریگستانوں میں یا افریقہ کے انتہائی گھنے جنگلات میں یا انٹارکٹیکا کے انتہائی برفانی علاقے میں یا اتنی بڑی زمین کے کسی جگہ پڑے ایک معمولی ریت کے ذرے کی بھی خبر رکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ اس عرش عظیم سے لے کر زمین کی آخری تہہ تک میں بھی اپنی باریک سے باریک مخلوق کی بھی خبر رکھتا ہے۔

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَـٰهٌ مَّعَ اللَّـهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ) النمل62 پارہ20
(ترجمہ:بھلا کون پہنچتا ہے بے کس(بے بس) کی پکار(فریاد) کو جب اُ س کو پکارتا ہے اور دور کر دیتا ہے سختی،اور بناتا ہے تمہیں زمین کا خلیفہ؟کیا کوئی (اور) معبود ہے اللہ کے ساتھ (شریک ان کاموں میں)؟ تم لوگ کم ہی سوچتے سمجھتے ہو)

ابن کثیر رحمة اللہ تعالیٰ علیہ اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث پاک لکھتے ہیں۔ایک شخص نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کہ آپ کس چیز کی طرف ہمیں بلا رہے ہیں؟آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی طرف جو اکیلا ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں،جو اس وقت تیرے کام آتا ہے کہ جب تو کسی بھنور میں پھنسا ہوا ہو،وہ ہی ہے کہ جب تو جنگلوں میں راہ بھول کر اسے پکارے تو وہ تیری راہنمائی کردے،تیرا کوئی کھو گیا ہو اور تو اس سے التجا کرے تو وہ اسے تجھ کو ملا دے ،قحط سالی ہو گئی تو اس سے دعائیں کرے تو وہ موسلا دھار مینہ برسادے۔ مسند احمد (5/67) (34/238)

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( أَمَّن يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَن يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۗ أَإِلَـٰهٌ مَّعَ اللَّـهِ ۚ تَعَالَى اللَّـهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ)النمل 63 پارہ 20
(ترجمہ:بھلا کون راہ بتاتا ہے تم کو اندھیروں میں جنگل کے اور دریا کے،اور کون بھیجتا ہے ہواﺅں کو خوشخبری دے کر آگے آگے اپنی رحمت کے ؟کیا کوئی(اور) معبود ہے ؟ساتھ اللہ کے(شریک ان کاموں میں)؟بہت بلند ہے اللہ اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں)

یہ ہے اللہ تعالیٰ۔۔۔ جو میلوں پھیلے دور سمندروں کے بیچ میں اگر کسی طوفان میں پھنس جائے اور دور دور تک کوئی ظاہری اسباب نہ ہوں یا کسی انتہائی خطرناک گھنے جنگل میں کوئی راستہ بھول جائے یا کسی خطرناک درندے کا آمنا سامنا ہو جائے یا آج کل کے دور کے لحاظ سے کسی سنسان جگہ کوئی ڈاکو گن تان لے اور آپ کو مارنے پر تل جائے۔۔۔۔انتہائی بے بسی کے عالم میں کوئی مدد کرنے ولا نظر نہ آئے۔۔۔ کسی اندھیرے غار میں پھنس جائیں،کوئی دشمن آپ کو کسی ایسے چیز میں بند کر دے جہاں سانس لینے کی جگہ بھی نہ ہو اور آپ کے انتہائی بے بسی کے عالم میں کون ہے جو آپکی فریاد سن سکتا ہے ؟؟؟

کون ہے جو آپکی مدد کو پہنچ سکتا ہے ؟؟؟

یقیناً میرا انتہائی پیارا رب،اپنے بندوں سے ماﺅں سے زیادہ محبت کرنے والا رب،ہر انسان کی شہہ رگ سے زیادہ قریب رب،زمین کی تہوں تک دیکھنے والا رب، آسمانوں کی اکیلے بادشاہت والا رب،کروڑوں نہیں اربوں نہیں کھربوں لوگوں کی ایک وقت میں ایک سیکنڈ کے ہزراویں حصے میں سننے والا رب۔۔۔۔ صرف اور صرف اکیلا ،جس پر انتہائی مصیبت میں کافروں کو بھی بھروسہ ،مشرکین کو بھی بھروسہ ،اور وہ رب کائنات ،رب ذولجلال و اکرام ،قربان جائیں اس کی محبت پر ،قربان جائیں اس کے سننے پر قربان جائیں اس کے دیکھنے پر کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کے دشمنوں کو،اپنے سب سے پیارے رسول پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو،اپنے کلام پاک کے منکروں کو بھی بچاتا ہے،مدد فرماتا ہے ان کی بھی سنتا ہے۔اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر

اور جگہ ارشادباری تعالیٰ ہے۔(قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ هَـٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ ﴿٦٣﴾ قُلِ اللَّـهُ يُنَجِّيكُم مِّنْهَا وَمِن كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنتُمْ تُشْرِكُونَ)الانعام63،64 پارہ 7
(ترجمہ:تو کہہ کون تم کوبچا لاتا ہے جنگل کے اندھیروں سے اور دریا کے اندھیروں سے اس وقت میں کہ پکارتے ہو تم اس کو گڑگڑا کر اور چپکے سے کہ اگر ہم کو بچالے اس بلا سے تو البتہ ہم ضرور احسان مانیں گے،تو کہہ دے اللہ تم کو بچاتا ہے اس سے اور ہر سختی سے پھر بھی تم شرک کرتے ہو)

انتہائی مصیبت میں اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد پر کافروں اور مشرکین کو بھی بھروسہ ہوجاتا ہے کہ کوئی نہیں اللہ کے سوا بچانے والا۔

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّـهِ ۖ وَاللَّـهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ )فاطر 15 پارہ 22
(ترجمہ:اے لوگو! تم ہو محتاج اللہ کی طرف اور اللہ وہی ہے بے پرواہ(غنی)سب تعریفوں والا)

ہر انسان محتاج ہے اللہ تعالیٰ کا۔چاہے وہ اللہ کانا فرمان ہو یااللہ کے فرمابردار ہو۔

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٨٧﴾ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ)الانبیاء87،88پارہ 17
(ترجمہ:اور(یاد کرو قصہ)مچھلی والے کا جب چلے گئے تھے وہ ناراض ہو کر اور انہیں خیال ہوا تھا کہ نہ گرفت کریں گے ہم اس پر ،پھر پکارا اُن اندھیروں میں کہ کوئی حاکم نہیں سوائے تیرے تو بے عیب ہے میں تھا گنہگاروں سے،پھر سن لی ہم نے اُس کی فریاداور بچا دیا اُس کواس گھٹنے سے،اور یونہی ہم بچا دیتے ہیں ایمان والوں کو)(حضرت یونس علیہ السلام)

اب جب ےہ بات صاف ہوگئی کہ ہر انسان اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے چاہے نافرمان ہو یا فرمانبردار ہو۔

تو اس تفصیل کے لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ کے غیبی مدد مانگنے کے احکامات پوری دنیا کے انسانوں کے لئے ایک ہی ہیں۔۔۔۔اور پوری دنیا کے اربوں انسان میں سے کسی نہ کسی کو۔۔۔ کہیں نہ کہیں۔۔۔ کسی نہ کسی سیکنڈ میں۔۔۔۔ صرف ایک کو نہیں۔۔۔ بلکہ ایک ہی وقت میں ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کو ایک ساتھ بھی غیبی مدد کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے ۔۔۔اور جو بھی اللہ کے سوا کسی اور کو غیبی مدد گار سمجھتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو ایسا دیکھنے والا ۔۔۔۔ایساسننے والا۔۔۔اور زمین اور آسمانوں پر مکمل اختیار والا سمجھتا ہے؟؟؟

اور اگر آپ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی۔۔۔ نہ ایسا دیکھنے والا سمجھتے ہیں۔۔۔۔نہ ایسا سننے والا سمجھتے ہیں۔۔۔۔ اور نہ ہی ایسا زمین اور آسمان کی تمام چیزوں پرمکمل اختیار رکھنے والا سمجھتے ہیں۔۔۔۔ تو پھرہم سب کو ےہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم سب کے لئے اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کوئی بھی مدد گار ہو ہی نہیں سکتا ۔

کیوں کہ آپ صرف اپنی ذات کو ان بھرے پرے شہروں میں،ان بھرے پرے دیہاتوں میں رکھ کر سوچتے ہیں اسی لئے بات نہیں سمجھ میں آتی۔۔۔۔مگر جب آپ پوری کائنات کے انسانوں کے اپنے سامنے رکھ کر سوچیں گے تو پھر بات سمجھ آئے گی۔

آپ کو کبھی سمندروں کے بیچ میں بھی غیبی مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔۔۔یا کبھی افریقہ کے انتہائی گھنے جنگلات میں۔۔۔کبھی انٹار کٹیکا کے انتہائی برفانی علاقوں میں۔۔۔یا کبھی عرب کے وسیع و عریض ریگستانوں میں غیبی مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔۔۔ یا اگر آپ کوایسی جگہوں پر جانے کا موقع نہ بھی ملے۔

مگر یہ تو سوچیں کہ ایسی جگہوں پر اللہ کے کسی نہ کسی فرمانبردار ۔۔ یا۔۔۔ نا فرمان بندوں کو تو غیبی مدد کی ضرورت پڑتی ہوگی؟؟؟
تو کون ہے جو ایسی جگہوں پر بندوں کی پکار کو سن سکے؟؟؟
کون ہے جو سمندروں کو۔۔۔درندوں کو حکم دے سکے کہ میرے بندوں کو نقصان نہ پہنچانا ؟ ؟؟
کس کا اختیار ہے تمام چیزوں پر؟؟؟
یقیناً جب ایسے موقعوں پر کافروں اور مشرکین کا اقرار ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی ایسا نہیں تو مسلمان کیسے اس بات سے انکار کر سکتے ہیں ؟؟

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِيهَا إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٨٤﴾ سَيَقُولُونَ لِلَّـهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴿٨٥﴾ قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ﴿٨٦﴾ سَيَقُولُونَ لِلَّـهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿٨٧﴾ قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٨٨﴾ سَيَقُولُونَ لِلَّـهِ ۚ قُلْ فَأَنَّىٰ تُسْحَرُونَ)المومنون 84،89 پارہ نمبر 18
(ترجمہ:ان سے پوچھو کس کی ہے زمین اور جو کوئی اس میں ہے بتاﺅ اگر تم جانتے ہو؟تو وہ ضرور کہیں گے( سب کچھ) اللہ(کاہے)، تو کہہ پھرتم سوچتے نہیں؟ان سے پوچھو کون ہے مالک ساتوں آسمان کا اورمالک اُس بڑے تخت کا ،تو وہ ضرور کہیں گے اللہ،کہو پھر تم کیوں نہیں ڈرتے،ان سے پوچھو کون ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہے اقتدار ہر چیز کا اور وہ بچا لیتا ہے اور اُس سے کوئی نہیں بچا سکتا،بتاﺅ اگر تم جانتے ہو،تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ،تو کہہ پھر کہاں سے تم پر جادو آپڑتا ہے)

پھر” استعانت غیر اللہ “کے قائلین کو کون سی بات الجھن میں ڈالتی ہے ؟؟؟
ہر بات کا اقرار ہے کہ اللہ ہی کے پاس سارے زمین اور آسمان کے اختیارات ہیں۔۔۔۔ساری زمین اور آسمان کا مالک اللہ ہے۔۔۔

ہر ذرے ذرے کی خبر رکھتا ہے۔۔۔سب کی شہہ رگ سے بھی قریب ہے ۔۔۔۔سب کو دیکھتا ہے۔۔۔۔سب کی سنتا ہے۔۔۔۔سب کو عطاء بھی فرماتا ہے۔۔۔ چاہے مشرک ہوں یا کافر یا مسلمان۔۔۔ اور مسلمانوں میں گنہگار ہوں یا عبادت گزار۔۔۔سب کو عطاء فرماتا ہے ۔۔۔۔ پھر کیوں ان حضرات کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور مدد گار کی ضرورت ہے ؟
اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَـٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ )سورہ یونس 22 پارہ 11
(ترجمہ:وہ ہی تو ہے جو چلاتا ہے تم کو خشکی میں اور سمندر میں،یہاں تک کہ تم بیٹھے کشتیوں میں اور وہ لے کر اور لے کر چلے وہ لوگوں کو اچھی ہوا سے اور خوش ہوئے اس سے آئی کشتیوں پر ہوا تند اور آئی موج ہر جگہ سے اور جان لیا انہوں نے کہ وہ گھر گئے پکارنے لگے اللہ کو خالص ہو کر اس کی بندگی میں اگر تو نے بچا لیا ہم کو اس سے تو بے شک ہم رہیں گے شکر گزار پھر جب وہ نجات دیتا ہے انہیں تو فوراً وہ(پھر)بغاوت کرنے لگتے ہیں زمین میں حق سے منحرف ہوکر، اے انسانوں!حقیقت یہ ہے کہ تمہاری بغاوت اپنے ہی خلاف ہے (لوٹ لو)مزے دنیاوی زندگی کے پھر ہماری طرف تم کو لوٹ کر آنا ہے پھر ہم بتائیں گے تمہیں کہ تم کیا کرتے رہے ہو؟)

کبھی آپ نے سوچا کہ” استعانت غیر اللہ“کے قائل مدد کے لئے جو ”یا رسول اللہ مدد“ اور” یا غوث پاک مدد“ اور” یاعلی مدد“ پکارتے ہیں

اپنی ایمانداری سے اپنے ضمیر کو گواہ بنا کر جواب دیجیے کہ فرض کر لیں کہ ان میں سے کسی پر اچانک کوئی مصیبت ٹوٹ پڑے یا کشتی میں سفر کرتے ہوئے اچانک کشتی ڈوبنے لگے یا کوئی فرد اسپتال میں زندگی موت کی کشمکش میں ہو کیا ایسے کسی موقع پر بھی آپ نے کبھی یہ پکارتے سنا ہے کہ اے اللہ کے رسول ہمارا بیٹا، بھائی، باپ یا ماں کا حادثہ ہو گیا ہے اور وہ زندگی موت کی کشمکش میں ہے ہماری مدد کیجیے؟
اے غوث پاک ہم مر رہے ہیں ہمیں بچائیں؟؟؟
اے علی ہماری کشتی طوفان میں پھنس گئی ہے ہماری مدد کریں؟؟؟

یقیناً آپ نے زندگی میں کبھی ایسے الفاظ نہیں سنیں ہوں گے ہر شخص انتہائی مصیبت میں صرف اور صرف خالص اللہ کو پکارتا ہے۔۔۔اور منتیں کرتا ہے کہ اے اللہ ہم سے اگر کوئی گناہ ہو گیا ہے ہمیں معاف فرما اب ہم تیرے فرمابردار بن جائیں گے بس ایک دفعہ ہمیں اس مصیبت سے چھٹکارا دلا۔۔۔۔اور جب اللہ تعالیٰ لوگوں کو مصیبت سے نکال لاتا ہے پھر حالات معمول پر آجاتے ہیں تو پھر ےہ ہی یارسول اللہ مدد۔۔۔ یاغوث پاک مدد۔۔۔یاعلی مدد کہنے لگتے ہیں؟؟؟

یہ لوگ کیوں انتہائی بے بسی میں یا موت کو سامنے دیکھتے ہوئے ان اللہ کے نیک بندوں کو غیبی مدد کے لئے پکارنا بھول جاتے ہیں؟
جبکہ ان کے مطابق اللہ کے نیک بندے اللہ کی عطاءسے مدد کرسکتے ہیں؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ ۖ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ كَفُورًا) بنی اسرائیل 67پارہ15
(ترجمہ:اور جب آتی ہے تم پرآفت دریا میں بھول جاتے ہو جن کو پکارا کرتے تھے اللہ کے سوائے پھر جب بچا لایا تم کو خشکی میں پھر جاتے اور ہے انسان بڑا نا شکرا)

ہماری گزارش ہے کہ یہاں یہ بات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے گا کہ ایسا تو نہیں ہوسکتا نا کہ قرآن پاک میں کافروں اور مشرکین کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ انتہائی سخت مصیبت میں مشرکین اور کافر بھی خالص اللہ تعالیٰ کو پکار کر ثابت کر دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی غیبی مدد پر قادر نہیں اور جبکہ مسلمانوں کے لئے مدد گار اللہ کے مقرب بندے ہیں؟

اس ساری وضاحت کے بعد آپ کو ماتحت الاسباب مدد اور مافوق الاسباب مدد کے درمیان فرق سمجھ آرہا ہوگا ۔۔۔۔۔آپ سے درخواست ہے کہ براہ مہربانی اپنا جواب لکھنے سے پہلے ہماری اس تفصیلی وضاحت کے تمام پہلوﺅں ضرور مدنظر رکھیے گا ۔۔۔۔اوراس کے بعد بھی اگر آپ کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کوتاہی نظر آئے تو ہمیں ضرور نشاندہی فرمائیے گا تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
Nasir Noman
About the Author: Nasir Noman Read More Articles by Nasir Noman: 14 Articles with 14193 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.