ردا اور مہوش یوں تھیں جیسے مشرق اور
مغرب۔۔
ایک ظالم تھی تو دوسری مظلوم۔ ایک سیدھا منہ پر وار کرتی تو دوسری خاموشی
سے پلٹ جاتی۔ ایک اپنی مرضی کی مالک تھی تو دوسری دوسروں کی مرضی کی غلام۔
دونوں کی گنگا الٹی بہتی تھی لیکن پھر بھی دونوں کے درمیان ایک چیز ایسی
تھی جس نے ان دونوں کو مضبوطی سے جکڑا ہوا تھا۔۔۔۔ "دوستی"۔
شاید ان کی دوستی ان کی عادات کی وجہ سے کبھی نا ہوتی اگر یہ یونیورسٹی کے
پہلے دن ایک دوسرے کے کام نا آتی۔
ایڈمشن فارم جمع کروانے کی لائن میں یہ دونوں آخر میں تھیں۔ اور آخر تک
ساتھ کھڑے کھڑے پریشانی پریشانی میں ہی دونوں کی دوستی کا آغاز ہوگیا۔
دونوں ساتھ بی-ایس-سی کر رہی تھیں۔
ردا ان لوگوں میں سے تھی جو اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں اور اپنی خوشی پہلے
رکھتے ہیں جبکہ مہوش اپنے گھر والوں کی مرضی پر چلتی تھی۔
ردا تو باآسانی ہی یونیورسٹی میں آئی ہوگی یا والدین نے کہا ہوگا لیکن مہوش
بہت منت سماجت کے بعد رضامندی لے کر یونیورسٹی آئی تھی۔
---
"مہوش یو نو واٹ مجھے کل کون ملا؟" یونیورسٹی گراؤنڈ میں مہوش کو بیٹھے
دیکھ کر ردا سیدھا اس کے پاس آئی۔ وہ کل یونیورسٹی سے غیر حاضر تھی۔
"کون ملا؟" مہوش نے فوراً پوچھا البتہ اس کو دلچسپی نہ تھی مگر پھر بھی۔
"ایک پیارا سا لڑکا"۔ ردا خوشی سے چہکی تھی۔
"شش آہستہ بولو کسی نے سن لیا تو۔۔" مہوش نے ہلکا سا تھپڑ لگایا۔ وہ ان
معاملات سے دور رہتی تھی۔
"اوفوہ! سن لینے دو۔۔ پتا ہے وہ اسی یونیورسٹی سے ایم بی اے کرکے گیا ہے
پچھلے سال، کل میں لائبریری سے نکلی تو وہاں اپنے ٹیچرز سے ملنے آیا ہوا
تھا۔ کیا پرسنیلٹی ہے بندے کی اف"۔ ردا کی آنکھوں کے آگے وہ منظر چل رہا
تھا جو اسنے دیکھا تھا۔
مہوش غیر دلچسپی سے سن رہی تھی لیکن چونکہ وہ اسکی دوست تھی اس لیے وہ 'سن'
رہی تھی۔
"میم کہکشاں سے مل رہا تھا تو میں بھی میم کے پاس چلی گئی اور اس سے ہیلو
ہائے ہوگئی۔ آہ وہ بندہ۔۔۔"۔ مہوش کو تو ہر دوسرے بندے پر کرش ہوجاتا تھا۔
لیکن وہ کرش بس کرش ہی رہتا اور دو دن تعریفیں کرکے بس قصہ ختم۔
"اچھا بس کرو اب۔۔۔ چلو کلاس لینے چلیں"۔ مہوش بیگ سنبھالتی اٹھ گئی۔
"اچھا اس کا نام تو میں نے بتایا ہی نہیں۔۔" وہ ساتھ چلتے ہوئے بولی۔
مہوش پھر چپ تھی کہ وہ ہمیشہ سننے والوں میں سے تھی۔
"اس کا نام حیدر علی ہے۔۔۔" ردا کی کہانی پھر شروع ہوچکی تھی جو کلاس میں
داخل ہوکر ہی اختتام کو پہنچی تھی۔
---
"کدھر رہ گئی تھی؟" اسے کینٹین گئے پندرہ منٹ ہوگئے تھے اور واپس آئی بھی
تو خالی ہاتھ۔
"کچھ لائی کیوں نہیں؟" مہوش نے دوبارہ پوچھا۔
"چلو میرے ساتھ بس" ردا نے اسکا ہاتھ پکڑا لائبریری کی طرف بڑھ گئی۔
"وہ دیکھو۔۔" اس نے آنکھ سے اشارہ کرکے کچھ دکھایا۔
مہوش نے اس طرف دیکھا دو لڑکے کھڑے کسی ٹیچر سے باتیں کر رہے تھے۔
ڈیسنٹ ڈریسنگ میں ملبوس دو لڑکے جو بس شاید بزنس میٹنگ سے نکل کر سیدھا
ادھر ہی آگئے تھے۔ مسکرا مسکرا کر ٹیچر سے بات کر رہے تھے۔
"کیا کروں ان کو دیکھ کر میں؟" مہوش کی دبی دبی سی آواز نکلی۔
"اف بس دیکھو۔ وہ بلیک والا حیدر علی ہے۔۔ " ایک ڈیڑھ مہینے بعد ردا کی
زبان سے اسکا نام دوبارہ سنائی دیا تھا۔
"چلو" اس نے مہوش کا ہاتھ پکڑا اور ان کی طرف بڑھی۔ مہوش تقریباً ردا کے
ساتھ گھسیٹتی ہوئی جارہی تھی۔ وہ ہاتھ چھڑانے کی کوشش میں تھی لیکن تب تک
ردا اور وہ ان کے پاس پہنچ چکے تھے۔ مہوش بھاگنے کی تیاری میں تھی لیکن ردا
نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔
"اسلام علیکم سر" ردا نے ٹیچر کو سلام کیا۔ وہ انے انگلش کے پروفیسر تھے۔
"وعلیکم سلام ردا۔۔ اوکے i have to attend a class . See you"۔ ردا ہر ٹیچر
سے اتنے سوال کرتی تھی کہ کوئی ردا جیسی سٹوڈنٹ کو بھول کے بھی نا بھلا
پائے۔
سر جا چکے تھے۔
"او ہیلو مس ردا" حیدر علی نے مسکرا کر کہا۔
"ہیلو مسٹر حیدر علی۔۔ آپ یہاں؟" ردا نے لہجہ سرسری سا رکھا۔ مہوش کی نظریں
زمین پر جمی تھیں۔ اور وہ بس سوچ رہی تھی ردا کی گرفت ہلکی ہو اور وہ نکلے
یہاں سے۔
"جی ہم تو یہاں جب فارغ ہو آجاتے ہیں۔ کافی اچھا وقت گزارا ہے یہاں ہم نے"۔
حیدر نے ادھر ادھر دیکھ کر کہا۔ ساتھ کھڑا لڑکی دلچسپی سے گفتگو سن رہا
تھا۔
اور اسنے ایک نظر سامنی کھڑی لڑکی کو بھی دیکھا تھا جس کا چہرہ جھکا ہوا
تھا اور بس بھاگنے کی تیاری میں تھی۔
"او یہ میرے دوست اور بزنس پارٹنر ہیں۔۔حمزہ"۔ حیدر نے مسکرا کر اسکا تعارف
کروایا۔
"نائس ٹو میٹ یو" حمزہ اخلاقاً مسکرایا۔
"Same here" ردا نے بھی مسکرا کر جواب دیا۔
"ویسے آپ یہاں کے برائٹ سٹوڈنٹ ہونگے تبھی بار بار آتے ہیں ورنہ تو لوگ
کہتے ہیں بڑی مشکل سے نکلے ہیں دوبارہ کیوں جائیں" ردا کے بہت مزے سے کہی
بات ہر ان دونوں کا قہقہہ سنائی دیا تھا۔
پھر حیدر اسے اپنے کیریر کی بارے میں بتانے لگا۔ حمزہ بھی گفتگو میں شامل
ہوچکا تھا ایک مہوش ہی بت بنی خاموش کھڑی تھی۔
"آپ اگلی بار آئیں گے تو میں آپ سے برائٹ سٹوڈنٹ بننے کی ٹپس لوں گی"۔
"شیور" حیدر نے خوش اخلاقی سے کہا۔
"بھول مت جائیے گا"
"نو وے! آپ سے اپائنٹمنٹ پکی"۔ حیدر نے مسکرا کر وعدہ کیا۔ وہ تینوں کھڑے
باتیں کر رہے تھے۔ مہوش نے انہیں مصروف دیکھ کر ردا سے ہاتھ چھڑانا چاہا۔
ردا نے اسکا ہاتھ نکلتا محسوس کیا تو اور زور سے پکڑ لیا۔
"ویسے آپ اپنی فرینڈ کو مار کر لائی ہیں؟" یہ پوچھنے والا حمزہ تھا۔
"ہاہا نہیں یہ بولنا زیادہ پسند نہیں کرتیں" ردا نے کافی ہنس کر جواب دیا۔
اور اسکے جواب پر وہ شاید مسکرایا تھا۔ مہوش کی تو بس ہوگئی۔ اس نے فوراً
ہاتھ جھٹکا اور پلٹی۔ پھر تیز تیز قدم اٹھاتی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
"Never mind کافی ریزورڈ ہے وہ"۔ ردا نے باتوں کا سلسلہ دوبارہ جوڑا۔ حمزہ
کی نظریں وہی تھیں جہاں سے وہ گئی تھی۔ پھر حیدر نے وداع لی کہ انہیں کسی
میٹنگ میں جانا ہے۔
"آوچ یار" ردا نے اپنا کندھا سہلایا جس پر مہوش نے کتاب ماری تھی۔
"اف ضرورت کیا تھی مجھے گھسیٹ کر لے جانے کی؟" وہ اس پر برہم ہورہی تھی اور
جب سے اس کے پاس آئی تھی مہوش اسے 'سنا' رہی تھی۔
"ویسے حمزہ کافی رمیز سے تمہیں دیکھ رہا تھا۔ اچھے لڑکے ہیں دونوں"
"منہ بند رکھو" مہوش نے دوبارہ کتاب اٹھا کر ماری۔
ردا نے اسے گھور کر کندھا سہلایا۔
"ویسے حیدر بہت اچھا لگا مجھے۔۔۔" ردا کی زبان پھر شروع ہوچکی تھی۔
-----
"تم کل کہاں غائب تھی؟"۔ ردا کو اندر داخل ہوتے دیکھ کر وہ فوراً اس کی طرف
لپکی۔
"کل۔۔؟ کل میں۔۔۔۔ لنچ پر گئی تھی اس لیے نہیں آئی"۔ ردا مسکرا کر بولی
تھی۔
"لنچ دوپہر میں ہوتا ہے اور یونیورسٹی صبح۔۔۔ پھر؟" مہوش اسے مشکوک نظروں
سے دیکھ رہی تھی۔
"اوفوہ! کسی کے ساتھ گئی تھی لنچ پر"۔ ردا نے فورا کہا۔
"اچھا"۔ مہوش خاموش ہوگئی۔ وہ اس سے زیادہ پوچھ کر کیا کرتی۔۔
"پوچھو گی نہیں کس کے ساتھ؟" اس کے انداز میں کچھ ایسا تھا کہ مہوش نے بغور
اسے دیکھا۔ اسکے چہرے پر سے مسکراہٹ جا ہی نہیں رہی تھی۔
کس کے ساتھ؟ کیا اسے یہ سوال پوچھنا چاہئے۔ مہوش سوچ ہی رہی تھی کہ ردا بول
پڑی۔
"حیدر کے ساتھ"۔ اس نے مسکرا کر کہا۔
"واٹ؟ اس لڑکے کے ساتھ؟" مہوش چینخ ہی اٹھی تھی۔
"ہاں حیدر علی کے ساتھ۔ اس نے خود آفر کی تھی میں چلی گئی"
" تین مہینے ہوئے ہیں تمہیں اس سے ملے ہوئے بس اور تم۔۔۔"
"کیوں تین مہینے کم ہوتے ہیں کسی کو جاننے کے لیے؟" ردا مطمئین تھی۔ جبکہ
مہوش۔۔۔ وہ حیران و پریشان تھی۔
"ردا تم۔۔۔" مہوش کہتے کہتے رک گئی۔ وہ جانتی تھی ردا کا جو دل چاہتا ہے
وہی کرتی ہے۔
"اتنا سویٹ ہے وہ۔ پورے لنچ کے دوران مجھے یونیورسٹی کے بارے میں بتاتا رہا
اور ٹپس دیتا رہا۔ اس کے بات کرنے کا انداز اور اسکی ڈریسنگ۔۔۔" ردا حیدر
نامہ شروع کرچکی تھی۔ اور مہوش اسے غصے سے گھور رہی تھی۔
-----
مہوش اور ردا کی کلاس کا آج آخری پیریڈ میں کوئی ٹیسٹ تھا۔ ردا تو پہلے دو
پیریڈ لے کر غائب ہوچکی تھی۔ مہوش اب کسی سکون دہ جگہ کی تلاش میں تھی جہاں
بیٹھ کر وہ کچھ دیر پڑھ سکے۔
اپنا بیگ اٹھا کر وہ لائبریری آگئی۔ سب سے کونے والے ٹیبل پر بیٹھ کر اس نے
کتاب کھولی اور پڑھنے لگی۔ ردا پہلے ہی کہہ چکی تھی کہ وہ بنک کرےگی اور
ٹیسٹ نہیں دے گی۔ اب اسکی حیدر سے ملاقاتیں بڑھ گئی تھی۔ ہفتے میں ایک دو
بار وہ مل ہی لیتے تھے لیکن اس کے علاوہ فون پر گپیں لگانے کا دور بھی چل
پڑا تھا۔ مہوش کو اس کی حرکتوں پر غصہ تو بہت آتا لیکن وہ ردا اس غصے کو
کسی خاطر میں نہ لاتی۔
آج بھی وہ گئی ہوگی ملنے یا کسی جگہ بیٹھی باتیں کر رہی ہوگی اس سے۔
بقول ردا "یار بڑا مصروف بندہ ہے وہ لیکن پھر بھی میں اسکا وقت لے لیتی
ہوں"۔ ردا نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ یونیورسٹی کے دوران اس سے پڑھائی میں
مدد کے بہانے بھی گپیں لگانے میں ماہر ہے۔
اف یہ لڑکیاں کوئی پروا ہی نہیں ہے انہیں کسی کی۔ مہوش کو اپنے گھر کا
ماحول یاد آیا جہاں بچوں کی تربیت ایسے کی جاتی تھی کہ کچھ برا یا غلط قدم
اٹھانےسے پہلے ہی بچے خوفزدہ ہوجاتے تھے۔ ان کی لگام ان کے بڑوں کے ہاتھوں
میں تھی۔
"ایکسیوزمی" مہوش نے چونک کر سر اٹھایا۔
"ہیلو"۔ یہ تو وہی لڑکا تھا جو حیدر کے ساتھ آتا ہے۔ کیا نام تھا اسکا۔۔؟
ہاں! حمزہ۔
مہوش نے نظریں کتاب پر جمالیں۔ وہ اسکے ٹیبل کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔
"کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟" اس نے کافی مؤدب لہجے میں پوچھا۔
مہوش گھبرا کر اٹھی۔ "شیور بیٹھیں"۔ اس نے اپنی کتاب اور بیگ سنبھالا اور
لائبریری کے دروازے کی طرف بڑھی۔
"واٹ؟" حمزہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے۔ اور جب سمجھ آیا۔۔۔
"ارے رکیں میں تو آپ سے بس۔۔۔۔۔"
لیکن وہ باہر نکل چکی تھی۔
"ڈیم اٹ"۔ وہ پیچھے بھاگنے والی حماقت نہیں کر سکتا تھا۔
----
ردا اور حیدر کی ملاقاتیں اور فون پر باتیں کس حد تک بڑھ چکی تھی اس سے
مہوش بے خبر نہیں تھی۔ اس نے ایک دو بار ردا کو منع بھی کیا کہ سکون سے پڑھ
لو پھر ان چکروں میں پڑ لینا لیکن وہ بھی ڈھیٹ تھی۔
"حیدر بھی کہتا رہتا ہے ٹھیک سے پڑھا کرو میں کہیں نہیں بھاگا جارہا۔ اسی
لیے تو کتابوں کو اپنا دیدار کروا دیتی ہوں"۔ ردا مسکرادیتی اور مہوش خاموش
ہوجاتی۔
ایک مہینہ مزید گزر گیا۔ ردا اور حیدر کی دوستی میں محبت کا رنگ جانے کب مل
گیا انہیں احساس ہی نا ہوا۔
اب تو مہوش کے کان پک چکے تھے ردا اور حیدر نامے سے۔
"یار خود تو تم کسی اور ہی کشتی میں سوار ہوچکی ہوں لیکن مجھے تو بخش دو"۔
ردا کچھ لمحوں کے لیے چپ ہوجاتی پھر دوبارہ شروع ہوجاتی۔
آج بھی اسکی باتوں سے اکتا کر وہ اٹھی اور لائبریری کی طرف چل دی۔ فرش پر
نظریں جمائے وہ چلتی جارہی تھی کہ ایک دم سے سامنے سیاہ بوٹ دیکھ کر اس کے
قدم بے اختیار رکے۔
مہوش نے نظریں اٹھائیں جو وہ گھبرا کر جھک گئیں۔
حمزہ جینز اور شرٹ میں لبوس ، ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سامنے کھڑا تھا۔
"ہیلو مس مہوش"
مہوش دائیں طرف سے ہوکر آگے جانے لگی لیکن حمزہ شاید اسکا ارادہ بھانپ چکا
تھا اس لیے وہ بھی اسی طرف کو ہوا اور اسکا راستہ روک لیا۔
"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے"
"مگر مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی"۔ اس کی آواز بہت مدھم تھی۔ لیکن وہ بس
کانپنے ہی والی تھی۔
"آپ دو منٹ آرام سے میری بات تو سن لیں"۔
"راستہ دیں"۔ مہوش کی آواز اونچی ہوئی۔ کہاں پھنس گئی ہے وہ۔۔۔۔ خدایا۔۔!
"دیکھیں میں اس طرح راستہ روک کر نا کھڑا ہوتا لیکن آپ میری بات ہی نہیں سن
رہیں۔ لنچ سے پہلے ہی آفس سے اٹھ آیا کہ آپ سے بات کرسکوں لیکن آپ۔۔۔"
مہوش نے اسکی بات کاٹی۔ "ہٹیں سامنے سے"۔ اس کی آواز کانپی تھی اور ہاتھ
لرزنے لگے تھے۔
وہ ہلا تک نہیں۔ مہوش دو قدم پیچھے ہوئی اور پلٹ گئی۔ جہاں سے آئی تھی وہی
کو واپس چل پڑی۔
حمزہ فوراً اسکے سامنے آگیا۔
"آئی ایم سوری لیکن آپ۔۔۔" وہ شاید راستہ روکنے کے لیے معذرت کر رہا تھا
لیکن مہوش کے تھپڑ نے اس کے الفاظ جامد کردیے۔ وہ بےحد حیران سا اسے دیکھا
رہا تھا۔
مہوش خود حیران تھی کہ یہ ہمت اس کے اندر کہاں سے آئی۔ لیکن اپنا آپ صاف
رکھنے کے لیے اسنے ہمت جمع کرلی۔
"اگر آپ نے آئندہ میرا راستہ روکا یا میرے سامنے بھی آئے تو مجھ سے برا
کوئی نہیں ہوگا۔ سمجھے آپ؟"۔ وہ تقریباً چینخ ہی اٹھی تھی۔
غصے سے سرخ ہوتا چہرہ لیے وہ وہاں سے پلٹی اور تیز تیز قدموں کے ساتھ دور
جانے لگی۔ کوئی اسے دیکھ لیتا کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ ہے تو؟ اگر اس کے ماں
باپ دیکھ لیتے تو؟ اف خدایا۔۔۔۔۔
حمزہ وہی کھڑا اسے جاتے دیکھ رہا تھا۔ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی تو وہ
مسکرایا۔ اسے یہ تھپڑ برا نہیں لگا تھا کیونکہ وہ اس کی توقع کر رہا تھا۔
وہ یہاں کوئی بات کرنے نہیں کچھ جانچنے آیا تھا۔ اور اس کی توقعات کے عین
مطابق سب کچھ ہوا تھا۔ وہ مہوش جیسی لڑکی سے یہی امید کر رہا تھا۔
"میں یہی چاہتا تھا مہوش۔ تم امتحان میں کامیاب رہی ہو"
اس نے گہری سانس لی۔ اب اسے انتظار کرنا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کچھ اور۔۔۔
اس کے قدم ردا کی تلاش میں بڑھ گئے۔
---
ہاں اس نے صحیح قدم اٹھایا تھا۔ اور اسکا نتیجہ بالکل ٹھیک نکلا تھا۔ پچھلے
کئی مہینوں سے وہ اس کے پاس تو کیا بلکہ یونیورسٹی میں ہی نظر نہیں آیا
تھا۔ شاید وہ آیا ہو لیکن وہ مہوش کے سامنے نہیں آیا تھا۔
وہ مطمئین اور پرسکون تھی۔ جان چھوٹی ورنہ جانے کیا وبال مچ جاتا۔
"ویسے تمہارا آگے کا کیا ارادہ ہے۔ ایگزام تو آنے والے ہیں دو مہینے بعد۔۔
پھر ختم یہ سفر"۔ ردا چاکلیٹ کھاتے ہوئے بہت غور سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"میرے ارادے تو ماسٹرز کے ہیں اب دیکھو کیا ہوتا ہے آگے"۔
"آہاں! نائس۔۔ شوق ہے تمہیں؟"
"ہاں مجھے اپنے لیے پڑھنا اچھا لگتا ہے۔ یہ نہیں کہ والدین کا نام روشن
کرنے لیے، میں خود کے لیے پڑھتی ہوں تاکہ خود میں چینج لا سکوں۔ اچھا لگتا
ہے یار۔۔"
"ہوں"
"اور تمہارے کیا ارادے ہیں؟" مہوش نے اس سے پوچھا۔
"میرے؟" وہ ہنسی۔ "شادی کے"
"واٹ؟ شادی؟" مہوش چینخ اٹھی۔ اف یہ چکر شادی تک پہنچ گیا۔
"ہاں بھئی شادی" ردا اسے چینختا سیکھ برا سا منہ بنا کر بولی۔
"لیکن۔۔ مطلب۔۔۔" مہوش کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کہے۔
"اچھا بس بس خیر مبارک" ردا ڈھٹائی سے مسکرائی تو مہوش کا منہ کھل گیا۔
پچھلے کچھ دنوں سے مہوش نے نوٹ کیا تھا کہ ردا اس سے ذاتی سوالات بلکے ہر
قسم کے سوالات جو مہوش سے ریلیٹڈ ہو پوچھ رہی تھی۔
"خیر تو ہے میرا انٹرویو کیوں لے رہی ہو آج کل؟"
"ہاں بھئی خیر ہے۔ اب یونیورسٹی ختم ہوگی تو دوستی تھوڑی نا ختم ہوگی
ہماری۔ کہیں تم گم ہوگئی تو میں کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں گی اپنی دوست؟"
"اوہو تو یہ بات ہے"۔ مہوش مسکرائی۔
"جی ہاں۔ ویسے مجھے اپنی شادی پر ضرور بلانا" ردا نے شرارت سے آنکھ دبائی۔
" اف چپ کرو۔۔" وہ حسبِ عادت چڑ گئی اور ردا اسے چڑاتی رہی۔
---
دو مہینے گزر گئے اور امتحانات بھی ختم ہوگئے۔ نتیجہ بھی آگیا اور ان
یونیورسٹی کا ساتھ اختمام کو پہنچ گیا۔
دونوں میں یونی کے آخری دن کے بعد بات یا ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
ردا کا تو آگے پڑھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا جبکہ مہوش نے گھر میں النے
ماسٹرز کرنے کی بات کی تھی۔
"نہیں مہوش بس۔ اب تک تمہارے کو منا کیا ہے لیکن آگے مجھے نہیں لگتا کہ وہ
مانیں گے"۔
"لیکن امی مجھے آگے پڑھنا ہے۔ پلیز امی آپ ابو سے بات کریں نا"۔ مہوش ماں
کے ساتھ بیٹھ کر منت کرنے لگی۔
"خود بات کرنا اب۔ ویسے تو وہ تمہارے رشتے پر غور کر رہے ہیں" انہوں نے
آہستہ سے کہا۔
"کیا؟میرا رشتہ؟ امی لیکن۔۔۔" مہوش دم بخود رہ گئی۔
"ہاں تمہاری پھپھو نے بتایا تھا ایک رشتہ۔ لڑکا ہے ایک فیکٹری کا مالک ہے۔
لڑکا تو نہیں خیر آدمی ہے" انہوں نے منہ بسور کر کہا جیسے انہیں یہ رشتہ
پسند نا ہو۔
"امی مجھے ابھی شادی نہیں کرنی امی پلیز مجھے ماسٹرز کرنے دیں۔۔" مہوش
روہانسی ہوگئی۔
"نہیں مہوش اب میں کچھ نہیں کر سکتی جو کریں گے تمہارے ابو کریں گے اب۔۔"۔
وہ اٹھ کر کمرے سے نکل گئیں۔ پیچھے مہوش کمرے اکیلی بیٹھی آنسو بہاتی رہی۔
اس کے خواب اس کی خوشی اس سے دور جا رہے تھے۔ آنسو کیسے قابو میں رہتے۔
"ردا میں تمہارے فارم لے آوں گا کل یا پرسوں تاکہ تمہاری پڑھائی جاری رہے"
ردا کے والد نے کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔
"لیکن مجھے نہیں پڑھنا آگے بس میرا دل بھر گیا ہے"۔ ردا تھوڑی سی پریشان
ہوئی تھی کیونکہ جو بات وہ کہنے والی تھی اسکے بعد جو طوفان آئے گا وہ۔۔۔۔
الاماں!
"کیوں یہ کیا بات ہوئی۔ لوگ ترستے ہیں پڑھنے کو اور تم بھاگ رہی ہو پڑھائی
سے"۔ ان کی آواز میں غصہ نہیں تھا وہ سمجھے تھے کہ شاید وہ مذاق کررہی ہے۔
"پاپا مجھے نہیں ہڑھنا بس۔۔" اس نے ہمت کرکے کہہ دیا۔
"تو پھر کیا کرنا ہے؟" اب انہیں غصہ آگیا تھا۔
"شادی"۔ ردا کو خود اپنے اتنے صاف بات کہہ دینے کی امید نہیں تھی۔
"کیا؟" وہ دھاڑے اور ساتھ ہی کھڑے ہوگئے۔ باقی گھر والے بھی ان کے کمرے میں
پہنچ گئے۔
"پاپا مجھے نہیں پڑھنا اینڈ دیٹس فائنل۔ میں اپنا فیصلہ سنا چکی ہوں"۔ ردا
انتہائی ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کر رہی تھی ۔ کیونکہ وہ جانتی تھی اب ہی صحیح
وقت ہے۔ ورنہ وہ اسے کھو دےگی۔
"اور میں شادی کرنا چاہتی۔۔۔" بہت ضبط کے باپ اسکے باپ کا ہاتھ اٹھا تھا
لیکن ہوا میں پہنچ کر وہ رک گیا۔ ردا کے الفاظ غائب ہوگئے۔ اب وہ پہلی بار
خود محسوس کر رہی تھی۔
انہوں نے ہاتھ نیچے کیا اور غصے میں اسکی ماما کی طرف دیکھا۔
"لڑکا بھی پسند کرلیا ہوگا پھر تو اسنے؟"
"جی بالکل۔ حیدر نام ہے اسکا"۔ ردا نے سر اٹھا کر کہا۔
اس کے باپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا اور اس کے ماں نے آگے بڑھ کر اسے
تھپڑ رسید کیا۔ بحث اور لمبی ہوتی چلی گئی۔
"ہاں یا ناں؟" وہ فون پر کافی دیر سے کسی سے مخاطب تھی۔
"ردا ٹرسٹ می ہم اسے سیدھے اور صحیح طریقے سے حل کر سکتے ہیں" دوسری طرف
حیدر پریشانی سے بولا۔
"حیدر سچیوشن بہت خراب ہوچکی ہے۔ اب اگر یہ قدم نا اٹھایا تو ہم ہمیشہ کے
لیے دور ہوجائیں گے" ردا اسے سب کے خلاف جاکر شادی کرنے کو کہہ رہی تھی
لیکن وہ شادی پر راضی تھا لیکن اس طرح نہیں۔
"ردا میں تمہارے گھر آکر انکل سے بات کرتا ہوں وہ ضرور۔۔۔"
"نہیں حیدر۔۔۔۔ اب تم بس ایک لفظ کہو باقی سب چھوڑو ہاں یا ناں؟" ردا نے
اسے پوری بات نہیں بتائی تھی لیکن ایسی کہانی بنا کر سنائی تھی کہ حیدر کو
واقعی لگنے لگا تھا کہ وہ الگ ہوجائینگے۔
"تم جانتے ہونا حیدر پھر ہم الگ ہوجائینگے ، میں تم سے دور نہیں رہنا چاہتی
حیدر" اور جانے کیا کچھ اس نے کہا تھا۔ لفظوں کے تیر اثر کر چکے تھے۔
"ہاں" وہ واقعی اسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔
"تھینک یو حیدر" ردا کی آواز بھیگ گئی۔
"ٹھیک دو دن بعد جمعے کو تیار رہنا"۔ ردا نے فون رکھ دیا۔
حیدر کے والدین اسکے بڑے بھائی کے ساتھ بیرون ملک رہتے تھے اور وہ یہاں
اکیلا اپنے فلیٹ میں رہتا تھا۔ وہ شادی کے لیے مان گیا کیونکہ اسے کوئی
مشکل نہیں تھی۔ اسنے محبت کی تھی اب نبھاتی بھی تو تھی۔ لیکن وہ چاہتا تھا
سب کچھ رضامندی کے ساتھ ہو۔ اس لیے بنا ردا کو کچھ بتائے وہ اسے گھر آیا
تھا اس کے والدین کو راضی کرنے کے لیے۔ لیکن اسکا نام سنتے ہی دروازے سے
لوٹا دیا گیا اور بدتمیزی سے اس کے ساتھ پیش آئے تھے اس کے گھر والے۔ وہ
چاہتا تھا اسکے گھر والے راضی ہو تاکہ وہ خوش رہے۔
شاید حالات واقعی کافی خراب ہوچکے ہو۔ وہ ردا کے فیصلے کو سوچتا ہوا واپس
اپنے فلیٹ میں آیا اور اسکی صفائی ستھرائی اور ڈیکوریشن کروائی۔ اب اس گھر
میں کسی اور بھی آنا تھا وہ اس فیصلے سے اب خوش تھا کیونکہ وہ اپنے گھر
والوں سے اجازت لے چکا تھا۔
"میں نے تمہارے ابو سے تھوڑی سی بات کی تھی لیکن وہ تمہاری شادی ہی کرنا
چاہتے ہیں اور کہہ رہے تھے پڑھائی بعد میں بھی ہوتی رہے گی"۔
مہوش خاموش بیٹھی رہی۔
"اب تم جو چاہتی ہو اپنے ابو سے کہہ دینا وہ آئینگے تمہارے پاس"۔ وہ اسے
دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھیں اور وہ خاموش بیٹھی تھی۔ اپنے خوابوں کا محل
ٹوٹتا دیکھ کون خوش ہوگا۔
"پہلے والے رشتے کو انکار کر چکے ہیں وہ ۔ ان کا خیال ہے دوسرا رشتہ بہتر
ہے۔ اب تم سے پوچھ کر ہاں کر دینگے ابو تمہارے۔ اب تم کوئی بکھیڑا نا کھڑا
کر دینا"۔ وہ بس اپنی ہی دھن میں بولتی جارہی تھی۔
"ہاں امی۔۔ والدین کی مان لو تو خوابوں کا گلا گھوٹنا پڑتا ہے۔ اور اپنے
خواب پورے کرو تو نافرمان بننا پڑتا ہے۔ ٹھیک ہے امی! میں اپنے خواب ماروں
گی آپ لوگوں کی مرضی کے لیے" وہ ان کی طرف دیکھ کر سوچ رہی تھی۔ اس کی
آنکھیں بھیگنے لگیں تو اسنے سر جھکا لیا۔
"مہوش"۔ ان کی بھاری آواز اسے سنائی دی۔
"جی جی ابو"۔ انہیں اپنے کمرے میں دیکھ کر وہ فوراً سیدھی ہوئی۔
"بیٹا کچھ بات کرنی تھی مجھے"۔ وہ کرسی پر بیٹھ گئے۔
" جی ابو" وہ سرجھکائے بیٹھی تھی۔
"تمہاری امی نے بتایا ہوگا کہ ایک رشتہ مجھے پسند آیا ہے۔ میں تم سے پوچھنے
آیا ہوں۔ مجھے وہ لڑکا پسند ہے امید ہے تم انکار نہیں کروگی"۔ انہوں نے
رائے مانگی تھی یا اپنا فیصل سنایا تھا یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا۔
اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ وہ کس منہ سے منع کرے۔ انہوں نے اسے اتنے سال
پالا پوسا پیار کیا ہر چیز دی اور وہ ایک لمحے میں صرف اپنی خوشی کی خاطر
ان کا مان توڑ دے؟
اہنے خواب ٹوٹنے کا بھی دکھ تھا لیکن وہ ہار گئی تھی۔ ایک بیٹی اپنے خوابوں
کے محل کی تعمیر کرنے والی لڑکی سے جیت گئی تھی۔ دکھ تو بہت تھا لیکن یہی
ہونا تھا۔
"جیسے آپ ٹھیک سمجھیں" اسنے آنسوں پیتے پوئے ان کا مان رکھ لیا اور اپنے
خواب مار دیے۔
"شاباش جیتی رہو۔ میری اچھی بیٹی ہو۔ اب شادی کی تیاری شروع کرنے کو کہتا
ہوں تمہاری امی کو"۔ وہ خوشی سے بولے اور اسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔
پیار بھرا لمس۔۔۔ کیا اسے اب بھی اپنی خوشی عزیز تھی؟ نہیں۔۔۔ بس دکھ رہ
گیا تھا۔
وہ کمرے سے باہر نکل گئے تو وہ رونے لگی۔ اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتی
تھی۔
"تصویر دیکھو گی اسکی" امی اس کی ہامی پر بہت خوش نظر آرہی تھیں۔
"نہیں" مہوش نے آہستہ سے کہا۔
وہ اسے لڑکے اور اسکے گھر والوں کے بارے میں بتانے لگیں۔
"امی مجھے مت سنائیں یہ سب" ۔ اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ کس سے اسکی شادی
ہورہی ہے۔ جمعے کو اسکی شادی تھی بس وہ یہ جانتی تھی۔
"ویسے لڑکا کہہ رہا تھا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے شادی ابھی ہو یا کچھ سال
بعد جب آپ کی بیٹی کی پڑھائی ختم ہو۔۔ پھر تمہارے ابو نے کہا کہ شادی ابھی
ہوگی اور ڈیڈ فکس کردی"۔ مہوش نے خاموشی سے بستر پر لیٹ کر آنکھیں موند
لیں۔
ہر لڑکی کی زندگی میں ایک سٹیج ، ایک فیز ایسا آتا ہے جب ایک انکار یا ایک
ہامی اسکی زندگی کا فیصلہ سنادیتی ہے۔ جن کی زندگی میں نہیں آتا انہیں شکر
کرنا چاہئے کہ انہیں اس امتحان سے گزرنا نہیں پڑا۔
ایک لمبا چوڑا خط لکھ کر اسنے بیگ اٹھایا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ خط میز
پر رکھا۔ ایک نظر گھر پر ڈالی اور باہر نکل گئی۔ آج وہ ایک انکار کرکے اپنی
مرضی کر رہی تھی۔ حیدر اسکے انتظار میں گلی کے موڑ پر کھڑا تھا۔
عروسی لباس میں وہ کتنی خوبصورت لگ رہی تھی یہ اسے اسکی ماں کی آنکھوں میں
نظر آرہا تھا۔ خوابوں کا محل ٹوٹ گیا تھا بس اسکا دکھ تھا باقی ہر طرف خوشی
ہی خوشی نظر آرہی تھی۔ اسکا نکاح ہوگیا اور رخصتی کے وقت وہ امی ابو کے گلے
لگ بے تحاشا روئی۔ "سب آپ کے لیے امی ابو۔۔۔۔صرف آپ کے لیے"۔
اس نے دلہا کو ایک بار بھی نہیں دیکھا تھا لیکن گاڑی میں بیٹھ کر اسکی نظر
اس پر پڑی اور وہ ساکت رہ گئی۔۔۔۔۔۔۔ حمزہ!
------
"میری بیٹی نے میری بات کا انکار کردیا۔ اور وہ نافرمان اولاد بن گئی"
"لیکن میں خوش ہوں۔۔۔۔بے حد خوش۔۔۔۔" یہ ردا کی کہانی تھی۔
"میری بیٹی نے ایک ہامی سے ہمیں کتنی خوشیاں دے دیں۔ میری فرماںبردار
اولاد"
"لیکن میرے خوب مرگئے۔۔۔۔ میں ٹوٹ گئی" یہ مہوش کی کہانی تھی۔
------
"آج کے بعد اگر کسی نے اس گھر میں اسکا نام لیا یا اسکا ذکر کیا یا اس سے
ملنے کی کوشش کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا" لاؤنج میں کھڑے وہ دھاڑ رہے
تھے اور باقی گھر والے ردا کے اس قدم پر آنسو بہا رہے تھے۔ انہیں اس قدر
بڑے قدم کی امید نہیں تھی۔
"کیسا لگا اپنا گھر؟" حیدر نے مسکرا کر پوچھا۔
"بہت اچھا" ردا ہر طرف گھوم کر دیکھ چکی تھی۔
"آؤ ایک اور چیز دکھاؤں"۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے ایک طرف لےگیا۔
کینڈل لائٹ ڈنر۔۔۔
"یہ سب تم نے کیا ہے؟" ردا نے مسکرا کر پوچھا۔
"ہاں"
"تھینک یو حیدر"
"ویلکم مسز حیدر۔ آئیں"۔ اس نے ردا کے لیے کرسی کھینچی۔
گاڑی میں تو ان کی کوئی بات نہیں ہوئی لیکن گھر آکر وہ اس سے مخاطب ہوا۔
"آئیں محترمہ"۔ حمزہ نے اسکی گاڑی سے نکلنے میں مدد کی۔
"اتنی شاکڈ ہو کہ بولو گی نہیں؟" حمزہ نے اسی طرح سرجھکائے دیکھ کر پوچھا۔
"دیکھو میں اس وقت آرام سے تمہارے راستے سے ہٹ گیا تھا اور کبھی سامنے نہیں
آیا تھا تاکہ تمہیں ہمیشہ اپنے سامنے دیکھ سکوں۔۔۔ دیکھ لو آج میرے سامنے
ہو تم"۔
مہوش نے پہلی بار سر اٹھا کر سیدھا اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ حمزہ مسکرا
دیا۔
ردا اور حیدر کی زندگی خوشگوار گزر رہی تھی۔ وہ اس گھر میں بہت خوش تھی۔
اسے اپنے کیے گئے فیصلے پر رشک ہوتا تھا۔
کچھ عرصے میں مہوش بھی یہاں ایڈجسٹ کرگئی اور وہ بھی یہاں خوشباش زندگی
گزار رہی تھی۔ وہ حمزہ کے ساتھ خوش تھی۔ بس کبھی کبار اسے خوابوں کا ٹوٹا
محل یاد آتا تو اداس ہوجاتی۔ کتنی خوش قسمت ہوتی ہونگی نا وہ لڑکیاں جو
خوابوں کا محل حقیقت میں دیکھتی ہونگی۔
"تم اداس ہو؟" حمزہ نے ایک دفعہ نوٹ کیا۔
"نہیں تو" وہ فوراً سنبھل جاتی۔
"تم میرے ساتھ خوش ہو؟"
"میں آپ کے ساتھ بہت خوش ہوں حمزہ"۔ وہ دل سے مسکرادیتی۔
لیکن کہتے ہیں نا کہ کچھ برا کرو تو اسکا پچھتاوا ایک نا ایک دن آپ کو ضرور
ہوتا ہے۔
ہوتا ہے۔۔۔ بلکہ ہورہا ہے۔۔
ردا کو اپنے والدین کی یاد ستانے لگی تھی۔ وہ نافرمانی کرکے آئی تھی۔ وہ
انہیں ناراض کرکے آئی تھی۔
حیدر آفس چلے جاتا تو وہ ایک ہی جگہ بیٹھ کر کتنی دیر اپنے کیے پر روتی اور
اداس ہوتی۔ کاش وہ مان جاتے۔۔۔ کاش انکی مرضی سے یہ شادی ہوتی۔۔ کاش۔۔۔
لیکن یہ کاش کبھی پورا نہیں ہوتا۔
کتنے دن وہ ایک ہی جگہ بیٹھ کر روتی رہی تھی۔ ہاں وہ خوش تھی حیدر کے ساتھ
لیکن اسنے جو کیا ہے اس پر نادم تھی۔ کرنی راتیں وہ کروٹ بدلتی رہتی لیکن
نیند نا آتی۔
حیدر بھی شاید اب تک محسوس کر چکا ہو لیکن وہ اکیلی ہی اپنا غم منا رہی
تھی۔
وہ اپنے بچپن سے لے کر اب تک کے سارے لمحے یاد کرتی جو اسنے اپنے گھر میں
گزارے تھے۔ وہ پیار وہ خواہشات کا پورا کرنا۔۔وہ کھیل کود وہ ڈانٹ ڈپٹ۔۔۔۔
وہ گھر وہ یادیں۔۔۔ بس یادیں۔۔۔
حیدر ابھی آفس سے آیا ہی تھا ۔ اس نے اندر آتے ہی سلام کیا۔
وہ دیوار سے ٹیک لگا کر فرش پر بیٹھی تھی اور نظریں سامنے دیوار پر جمی
تھیں۔
اسکے سلام کو بھی اسنے نہیں سنا۔
"ردا"۔ لیکن وہ ہلی تک نہیں۔
اس نے دوبارہ اسکا نام پکارا مگر وہ ویسے ہی بیٹھی رہی۔
کیا یہی حال ہوتا ہے نافرمانی کا؟ شکل سے لگتا ہے سب ٹھیک ہے لیکن دنیا کیا
جانے توڑ پھوڑ تو اندر ہوتی ہے۔
حیدر پریشان سا ہوکر فوراً اسکی طرف بڑھا اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
"ردا کیا ہوا؟ تم ٹھیک ہو؟"
ردا نے دیوار سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔ اور دیکھتی رہی۔
"میں بہت بری بیٹی ہوں نا؟" اسکے اندر کا سمندر آنکھوں کے ذریعے باہر آنے
کو بےتاب تھا۔
حیدر کو اس جملے کے بعد سب کچھ سمجھنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگا۔
اس نے گہری سانس لے کر اسکا ہاتھ پکڑا۔
"چلو ردا ہم باہر چلتے ہیں۔"
"حیدر میں نافرمان ہوں نا؟" اس کی آنکھیں بھیگ گئی۔ حیدر اسکی حالت دیکھ کر
خود رونے والا ہوگیا تھا لیکن خود کو سنبھالے رکھا کہ ردا کو بھی تو
سنبھالنا تھا۔
"حیدر میں کیا کروں؟ میں بہت بری ہوں بہت برا کیا ہے میں نے۔ اپنی چاہت کے
لیے ان کے ساتھ میں نے۔۔۔۔" اس کی آواز ہچکیوں میں بند گئی۔
"ردا وقت گزر گیا ہے۔۔" حیدر نے اسے سمجھانا چاہا۔
"نہیں حیدر۔۔۔ میں کیا کروں میرا دم گھٹتا ہے۔ میرے اندر کیا جل رہا ہے میں
نہیں جانتی لیکن میں مر رہی ہوں۔۔۔حیدر میں ایسے مرجاؤں گی میں کیا کروں؟"
اب کے وہ اونچی آواز میں رونے لگی تو حیدر نے اسے سہارا دیا۔
"معافی مانگ لو ردا۔ سب دھل جائے گا"
"وہ مجھے کبھی معاف نہیں کریں گے"۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔
"وہ تمہارے پیرنٹس ہیں اور والدین تو ہر غلطی پر ڈانٹنے اور سمجھانے کے بعد
معاف کر دیتے ہیں"
"وہ مجھے معاف کردیں گے حیدر؟"
"معافی مانگ کر دیکھ لیتے ہیں۔ کل ہم دونوں چلیں گے وہاں ٹھیک ہے"۔
"نہیں حیدر ۔ میں اکیلی جاؤں گی۔ تم نے تو کچھ کیا بھی نہیں ہے"
"ردا میں بھی تمہارے۔۔"
"نہیں حیدر صرف میں۔۔صرف میں جاؤں گی۔ میری لگائی گئی آگ میں ہی بجھاؤں
گی۔۔۔"
----
ہر دکھ ہر تکلیف ہر خزاں کے بعد کبھی نا کبھی بہار آہی جاتی ہے۔
زندگی میں بہت امتحانات بھی آتے ہیں لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ ہوتا
ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے۔
وقت وہ کردیتا ہے جو ہمیشہ سے کرتا آرہا ہے۔۔۔
زخموں میں مرہم۔۔۔
دکھ میں کمی۔۔۔
اور سب کچھ 'ٹھیک'۔۔۔۔
گاڑی ردا کے گھر کے باہر رکی۔
"میں بھی ساتھ چلوں؟"
"نہیں حیدر۔۔۔ تم بس دعا کرنا میں ناکام نا لوٹوں"۔ ردا نے گاڑی کا دروازہ
کھولا اور اتر گئی۔ حیدر بھی ساتھ ہی اتر گیا اور اسکے قریب آیا۔
"کوئی بھی ضرورت ہو یا کوئی بات ہو مجھے فوراً فون کردینا میں پہنچ جاؤں
گا"۔
ردا نے سرہلادیا۔
"اپنا خیال رکھنا اور جلدی واپس آنا"۔
ردا نے اسے جانے کا کہا۔ اس کے جاتے ہی ردا دروازے کے قریب آئی اور بیل
بجائی۔
"کون ہے؟" اندر سے نسوانی آواز آئی۔
"ماما"وہ یہ آواز اچھی طرح پہچانتی تھی۔
دروازہ کھلا اور کھلتے ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر سانسیں رکیں۔۔۔
"ر۔۔۔۔ردا؟" ایک ماں کی بےیقین آواز۔۔ کیا گزری ہوگی تب ان پر۔۔۔
"ماما"۔ ردا کے آنسوں چھلک پڑے۔
اس کی ماں کی آنکھیں بھی بھرنے لگیں۔
"آپی؟" اس کی چھوٹی بہن دور سے چینختی ہوئی آئی۔
لیکن اس کی ماما نے دروازہ زور سے بند کردیا۔
"ماما۔۔۔ ماما پلیز میری بات سنیں۔ پلیز دروازہ کھولیں" وہ فوراً آنسوں
بھری آنکھوں کے ساتھ دروازہ کھٹکھٹانے لگی۔ نہیں وہ اب بےدر نہیں ہونا
چاہتی تھی۔
"ماما پلیز۔۔۔ ایک دفعہ میری بات سن لیں پلیز"۔ ردا کی آواز مدھم ہوئی تو
آنسوؤں کی رفتار تیز ہوگئی۔
وہ اس بات سے بےخبر تھی کہ دروازے کے دوسری طرف کھڑی اسکی ماں اور بہن کا
کیا حال ہوگا۔
اس کی ماں دروازے سے لگی آنسو پوچھ رہی تھی اور بہن زاروقطار رو کر بہن سے
ملنے کی درخواست کررہی تھی۔ لیکن اسکے پاپا نے اسکا داخلہ اور اس سے ملنا
ممنوع کیا ہوا ہے۔
برف پگھلنے میں بھی وقت لگتا ہے ۔ ردا روتے روتے وہیں دروازے کے پاس بیٹھ
گئی۔ اور گھٹنوں میں سر دے کر رونے لگی۔ کبھی سر دروازے سے لگا کر بار بار
کہتی "پلیز ماما مجھے معاف کردیں۔ میں مرجاؤں گی۔۔پلیز مجھے گلے لگا لیں"
اور اپنے کمرے کی کھڑکی سے اسے اس طرح نڈھال اور روتا دیکھ ان کا دل بیٹھا
جا رہا تھا۔ ردا کی بہن نے سیدھا باپ کو فون ملا کر اجازت مانگی لیکن اسکے
پاپا نے کچھ کہے بنا فون رکھ دیا۔
اسے یہاں بیٹھے اور روتے ہوئے شام ہوگئی۔ وہ صبح یہاں آئی تھی اور اب تک
وہی جمی بیٹھی تھی۔ حیدر کا کتنی بار فون آیا لیکن اس نے کاٹ دیا۔
اگر اسے معافی نا ملی تو۔۔۔؟ تو وہ یونہی اس دلدل میں پھنسی مر جائے گی۔
یہی سوچ کر اس کے آنسو اور تیزی سے بہنے لگے۔
کسی کے قدموں کی آواز پر اسنے سر اٹھایا۔
"پاپا" وہ شاید ابھی آئے تھے اور اسے دیکھ کر رک گئے تھے۔ ایک بیٹی کی یہ
حالت دیکھ کر وہ کیسے نا رکتے۔ لیکن اگلے ہی لمحے اسے نظر انداز کرکے انہوں
نے بیل بجائی۔
"پاپا" ردا نے انہیں پکارا۔وہ اسی طرح کھڑے رہے۔
"پاپا میں میری غلطی مجھے تڑپا رہی ہے پاپا پلیز آئی ایم سوری پاپا مجھے
معاف کردیں پاپا"۔ اس کے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ شاید ہی وہ کبھی اتنا روئی
ہو۔
وہ اسی طرح کھڑے دروازہ کھلنے کا انتظار کررہے تھے۔ لیکن ان کی آنکھیں بند
ہوگئی تھیں ۔ شاید وہ یہ منظر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔
ردا نے گھٹنے زمین پر ٹکائے اور ہاتھ جوڑ دیے۔
"پاپا میں ہاتھ جوڑ کر آپ سے معافی مانگتی ہوں۔ پلیز پاپا مجھے معافی دے
دیں۔ مجھے سکون چاہیے پاپا۔ مجھے آپ لوگوں کا پیار چاہیے"۔
اس بار ان کی نظریں اس پر پڑیں۔ ان کے دل کو دکھ ہوا تھا۔
دروازہ کھل گیا۔ اسکی بہن کھڑی تھی اور پیچھے اسکی ماما کھڑی تھیں۔
وہ اندر داخل نہیں ہوپائے۔ ردا نے انکے پاؤں پر اپنے ہاتھ رکھ دیے۔ اور
پھوٹ پھوٹ کر رودی۔
اس کے الفاظ ختم ہوگئے۔۔۔۔ اسکی ہمت جواب دے گئی۔
"پاپا مجھے معاف۔۔" اس کی آواز نہیں نکل پارہی تھی۔
اسکی ماما تڑپ کر آگے بڑھیں لیکن اس سے پہلے۔۔۔۔
ہاں اس سے پہلے اس کے پاپا نے جھک کر اسکے ہاتھ ہٹائے اور اسے سینے سے
لگایا۔
ان کی آنکھیں میں نمی تیر رہی تھی۔ ردا کا کپکپاتا وجود انہیں محسوس ہورہا
تھا۔
اس کی ماما بھی اس سے لپٹ گئیں اور رونے لگیں۔ کون سے سنگ دل والدین یہ
منظر دیکھ کر نا پگلیں گے؟
"ماما پاپا آئی ایم سوری۔۔۔ پلیز مجھے معاف کردیں"۔ روتے روتے اس نے دوبارہ
کہا۔
"میں بہت کرب سے گزر رہی ہوں پلیز۔۔۔ "
"کردیا معاف۔۔۔ بیٹا کردیا معاف۔ چلو اندر"۔ اس کے پاپا نے اسے کھڑا کیا۔
ان دونوں سے لپٹی وہ اندر آئی۔ اندر آکر بھی اسنے روروکر معافی مانگی اور
اپنے اندر لگی آگ بجھاتی رہی۔
کچھ گھنٹوں بعد اس گھر کے لاؤنج میں دیکھو تو سب ساتھ بیٹھے چائے پی رہے
تھے۔ آنکھیں اب بھی بھیگی بھیگی تھیں لیکن لبوں پہ مسکان تھی۔ لاؤنج میں
حیدر بھی بیٹھا نظر آرہا تھا جسے خود اسکے پاپا نے بلایا تھا۔
"مہوش مہوش ادھر آؤ"۔ حمزہ کی آواز پر وہ فوراً کچن سے باہر آئی۔
"جی کیا ہوا؟"
"میں تمہارے لیے کچھ لایا ہوں" حمزہ نے مسکراہٹ دبائی۔
"آپ ہمیشہ کچھ نا کچھ لاتے ہیں" مہوش نے ہنس کر کہا۔
"ہاں لیکن آج جو لایا ہوں اسکی خوشی ہی الگ ہے"۔ مہوش کا ہاتھ پکڑ وہ اسے
اندر لے آیا اور صوفے پر بٹھایا۔
"یہ لو"۔ حمزہ نے ایک کاغذ اسکی طرف بڑھایا۔
مہوش نے ناسمجھی سے اسے دیکھا اور کاغذ پکڑ کر دیکھا۔
اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"حمزہ یہ۔۔۔ یہ؟"
"ہاں "یہ"۔۔۔ تم اسے فل کرو میں جمع کروا دوں گا"۔ حمزہ کے چہرے مسکراہٹ جا
ہی نہیں رہی تھی۔ جبکہ مہوش ابھی تک حیران تھی۔
وہ پیپر کسی یونیورسٹی کا ایڈمشن فارم تھا۔ پرائیویٹ سٹوڈنٹ کے طور پر۔۔۔۔
اس کے خوابوں کے محل کا پروانا اس کے ہاتھ میں تھا۔ جو اسکے لیے اسکی حقیقت
کا شہزادہ لایا تھا۔
"حمزہ آپ یہ میرے لیے۔۔؟" اس کی آواز بھرا گئی۔
"ہاں تمہارے لیے۔ کیونکہ میں جانتا ہوں تم یہ کرنا چاہتی تھی اپنے لیے،
اپنی خوشی کے لیے۔ اور تمہاری خوشی ہی میری خوشی ہے۔"
مہوش کے آنسو رخساروں پر بہہ نکلے۔ یہ اسی کے الفاظ تھے جو حمزہ کی زبان سے
نکلے تھے۔ یہ تو اس نے ردا سے کہے تھے۔۔ تو کیا ردا نے حمزہ کو بتایا تھا؟
وہ دوست اسے کتنا کچھ دے گئی تھی۔
اس کے محل کا دروازہ اس سے ایک قدم دور تھا۔ اور وہ قدم اٹھانا چاہتی تھی۔
"تھینک یو۔۔۔تھینک یو سو مچ حمزہ"۔ اس نے روتے ہوئے مسکرا کر کہا۔حمزہ نے
اسکے آنسو صاف کیے۔
"بس تھینک یو دو گی؟" حمزہ ساتھ بیٹھ گیا۔
"چائے لا 'دوں'؟" مہوش نے ہنس کر کہا۔
"ہاں جی ! چائے ہی لا 'دو' بہت ہے"۔ حمزہ نے مصنوعی خفگی سے کہا۔
مہوش زور سے ہنس دی اور کھڑی ہوگئی۔ اسی طرح ہنستے ہنستے وہ کمرے سے نکل
گئ۔
حمزہ نے شاید اسے پہلی بار اتنا کھلکھلا کر ہنستے دیکھا تھا۔ وہ خود
مسکرادیا۔ وہ جانتا تھا اب مہوش اسے کئی بار تھینک یو کہے گی اور کیک بھی
بنائے گی جس پر بھی تھینک یو ہی لکھا ہوگا۔
یہ ہامی یہ انکار زندگی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا
چاہیے۔ |