میں بیڈ پہ نیم دراز بیٹہی ایک کتاب کے
مطالعے میں مصروف تہی کہ ڈور بیل بجی ,چھوٹے بھائی کو دروازہ کھولنے کا آڈر
دیا کہ جاؤ باہر دیکھو کون آیا ہے.. وہ واپس کمرے میں آیا تو میری سہیلی
نادیہ اس کے ہمرہ تہی ..
ارے نادیہ تم.. کہاں تہی اتنے دن سے نہ کوئی کال نہ میسج میں نے کھڑے ہونے
کہ ساتھ ہی ایک عدد سوال داغا اور اس نے معانقہ کرنے کہ ساتھ بتایا کہ اپنے
چاچو کے ہاں باغ گئی ہوئی تہی.. ارے باغ مطلب آزاد کشمیر اسے صوفے پہ
بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے میں نے دریافت کیا..
جی ہاں وہیں آزاد کشمیر.. پہر توتمہیں بہت مزا آیا ہو گا؟
میں نے سنا ہے باغ بہت خوبصورت جگہ ہے وہاں قدرت کا حسن ہر سمت بکھرا ہے ..
بالکل ایسا ہی ہے نادیہ نے افسردہ سا ہو کر جواب دیا, لیکن میں وہاں گھوم
پہر نہیں سکی کیونکہ میرے چاچو جی کی طبیعت ٹھیک نہیں تہی..
اوہ..!!
کیا ہوا ن کو بس ان کو ہارٹ پرابلم ہےجس کی وجہ سے دن بدن انکی صحت بگڑتی
چلی جا رہی تہی.
اللہ کریم ان کوصحت کاملہ عاجلہ عطا فرمائے.
اچھا تم بیٹھو میں چائے پانی کا انتظام کر کے دو منٹ میں آتی ہوں. ارے نہیں
نہیں اس تکلف کی قطعی کوئی ضرورت نہیں میں تو بس تم سے ملنے آئی ہوں نادیہ
نے پہلو بدلتے ہوئے کہا.
تمیز سے بیٹہو بڑی آئی تکلف کرنے والی..
حضرت معین الدین چشتی (رحمہ اللہ علیہ)کا قول ہے کہ جس شخص کے پاس کوئی
مہمان آۓ اور وہ بنا کچھ کھائے پئے لوٹ جائے تو وہ ایسے ہے جیسے اس نے
قبرستان میں کسی مردے سے ملاقا ت کی. یہ الگ با ت کہ کبھی اللہ والوں کی
باتیں اور نصیحتیں بھی روح کی غذا کا کام دیتی ہیں,
سو میں فی الحال زندہ سلامت ہوں اور ایسی پہنچی ہوئی سرکار بھی نہیں کہ
تمییں روحانی غذا فراہم کر سکو اس لیے چائے پانی پہ ہی اکتفا کرو..
اسے وہیں بٹہا کر میں کچن میں چلی آئی اور خود بنفس نفیس چائے بنائی اور
چند باقی لوازمات ٹرے میں رکھ کر واپس کمرے میں آ گئی,
لو جی صرف اتنی دیر کی تو بات تہی اور تم خوہ مخوہ با تکلف ہو رہی تھی.
اچھا جناب شکریہ, نادیہ نے مسکراہٹ میری طرف اچھالتے ہوئے کہا.
اپنا شکریہ اپنے پاس رکہو اور بس چا ۓ پی کر میری تعریف کرو کیونکہ میں
چائے پیتی تو ہوں نہیں اس لیے بنانے کا کچھ خاص تجربہ نہیں اب جیسی بھی بنی
ہو تم نے تعریف یی کرنی ہے کیونکہ آج تمہا رے لیے میں نے خود بنائی ہے ,میں
نے چائے کا کپ اس کے ہاتھ میں تھما تے ہوئے کہا..,
بہت مہربانی جناب کہ آپ نے ہم پہ یہ احسان عظیم فرمایا اس نے مسکرا کر کہا,
کوئی بات نہیں ہم دوستوں پہ ایسے احسان اکثر فرماتے رہتے ہیں میں نے اتراتے
ہوئے کہا تو وہ پھرمسکرا دی,
ارے چائے تو واقع ہی اچھی بنائی ہے تم نے میں تو ایسے ہی ڈر رہی تھی کہ اگر
بری ہوئی تو تعریف کرنا مشکل ہو جائے گی,
بہت شکریہ جی میں نے ہاتھ ماتھے پہ لے جا کر کہا.
اچھا تمہارے چاچوں والی بات تو ادھوری رہ گئی اب وہ بالکل ٹھیک ہیں کیا,
بالکل تو نہیں لیکن پہلے سے بہت بہتر ہو گئے ہیں ڈاکٹروں کے پاس جا جا کر
تو ذرا فرق نہیں پڑ رہا تھا اتنی دوائیاں لی لیکن آرام ہی نہیں آیا.
پھر ہمیں کسی نے ایک پیر صاحب کا بتایا تو ہم چاچوں جی کو ان کے پاس لے کر
گئے انہوں نے تعویذ بھی دیے اور دم بھی کیا اس کے بعد چاچوں کافی بہتر ہو
گئے ہیں..
اوہ اچھ آآآ...!
تم بھی ساتھ گئی تھی پیر صاحب کے پاس میں نے پوچھا.
ہاں میں بھی ساتھ تھی.. کیسے تھے پیر صاحب؟ تو نادیہ نے میری طرف دیکھتے
ہوئے کہا اور تو پتہ نہیں پر وہاں جاکر میں ایک عجیب سی کیفیت مبتلا ہو گئی..
کیسی کیفیت؟ میں نے خاصا حیران ہوتے ہوئے پوچھا,
یہ تومیں بھی نہیں جانتی پر وہ پیر صاحب بہت پہنچے ہوئے لگتے تھے. انہوں نے
چاچوں کو دیکھ کر بہت کچھ بتایا ہمیں,
کیا بتایا؟
میں نے خاصے تجسس سے پوچھا,
یہ کہ چاچوں پہ کسی دشمن نے کچھ کرایا ہوا ہے. مثلا..
مثلا یہ کہ چاچوں پہ کسی نے جادو ٹونا کرایا ہوا ہے تبھی ان کا کاروبار بھی
پہلے جیسا نہیں رہا اور وہ خود بھی بیمار رہنے لگے ہیں.. کسی نے کاروبار کی
بندش کرا دی ہو جیسے..
تم مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟
اچانک نادیہ نے میرے تاثرات بھانپتے ہوئے سوال کیا,
بس!! یہ سوچ رہی ہوں کہ تم بھی پیروں کی ایسی ٹامک ٹوئیوں پہ اعتبار کرتی
ہو..
اس میں نا ماننے کی کیا بات ہے,
سچ میں وہ بہت ٹھیک ٹھیک بتا رہے تھے کچھ عرصہ پہلے میرے چاچوں لوگوں کی
کچھ چوری ہوئی تھی انہوں نے وہ بھی بتا دی,
اچھا یہ بتاؤ وہ پیر صاحب شریعت کے پابند ہیں میرا مطلب نماز اور باقی تمام
فرائض کی پابندی کرتے ہیں؟
یہ تو مجھے نہیں پتہ لیکن جب ہم گئے تو ظہر کی نماز کا وقت تھا اور ان کے
کافی مرید ان کے پاس موجود تھے لیکن میں نے نہیں دیکھا کہ انہوں نے نماز
پڑہی یا کسی اور کو نماز کے لیے کہا ہو..
اچھا..
اور کیا وہ اپنے مریدوں اور عقیدت مندوں کی اصلاح کرتے ہیں مثلا نماز روزے
کی تلقین لوگوں سے اچھے سلوک کی نصیحت.. یا بس وہ لوگوں کو دوسرے مسلمانوں
سے بدگمان ہی کرتے ہیں..
تم خود جو پیروں کے خاندان سے ہو اسی لیے دوسرے پیروں کے بارے میں ایسی
باتیں کرتی ہو.
نادیہ نے میری باتوں سے زچ ہوتے ہوئے کہا.
مجھے بے اختیار اس کی بات پہ ہنسی آگئی, یہ بات ہوتی تو پہر میں اس قسم کے
پیروں کی حمایت میں بولتی. کیونکہ! ہمارے خاندان میں ہر دوسرا تیسرا شخص
پیر ہونے کا دعویدار ہے. اگر نہ بھی ہو پھر بھی لوگ اسے پیر جی یا پیر صاحب
کہ کر ہی مخاطب کرتے ہیں..
میں یہ نہیں کہتی کہ ہر پیر فقیر ڈھونگی یا بے عمل ہی ہوتا ہے لیکن با عمل
پیروں کا بھی قحط ہے آج کے زمانے میں,
اپنے خاندان کے لوگوں کی اکثریت کو دیکھ دیکھ کر ہی مجھے اندازہ ہوا ہے..
اور ویسے بھی آجکل یہ پیروں والا بزنس کافی منافع بخش ہے.
کیونکہ بقول میرے ابو جی کے کہ یہ واحد ایسا بزنس ہے جس میں انویسٹمنٹ نہیں
صرف انکمنگ ہوتی ہے بس تھوڑا سا عجیب و غریب حلیہ ایک عجیب قسم کا نام جیسے
سانپوں والی سرکار ,بلیوں والی سرکار, بکری شہ. روڑے شہ ,اور نہ جانے کیسے
کیسے عجیب ناموں کے ساتھ بندہ سپر ہٹ قسم کا پیر بن جاتا ہے,
ہمارا اسلام تو اس کےمتعلق یہ کہتا ہے کہ چاہے کسی کو ہوا میں اڑتا ہوا یا
پانی پہ چلتا ہوا دیکھ لو اگر وہ شرعی احکامات کا پا بند نہیں تو اسے ہر گز
کامل مت سمجھو,
اور ایک ہم ہیں کہ ہر دوسرے تیسرے انسان کی غائب دانی کے قائل ہو جاتے ہیں.
عجیب قوم ہیں ہم بھی جنہیں بے وقوف بنانے کے لیے چند تکے ہی کافی ہو جاتے
ہیں.
سیاست دان ہوں یا نام نہاد پیر ہم بہت آسان ٹارگٹ ثابت ہوتے ہیں ان کے لیے,
سیا ست دانوں کے لاتعداد روشن مستقبل کے جھوٹے وعدے ہوں یا نام نہاد پیر
فقیروں کی پیشین گوئیاں ہم بار بار کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے یقین کر
لیتے ہیں, اس میں ذیادہ قصور ہمارا ہے ان لوگوں کا
نہیں..
کہ تو تم ٹھیک رہی ہو جس پیر کے پاس ہم گئے وہ موتیوں والی سرکار کے نام سے
مشہور ہیں, نادیہ نے کچھ کچھ قائل ہو تے ہوئے میری تائید کی,
تو اور کیا یہی تو میں تم سے کہ رہی ہوں کہ آجکل صرف بیچارے ان پڑھ ہی نہیں
اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگ بھی توہم پرست ہوتے جا رہے ہیں..
ہم یہ تو مانتے ہیں نہ کہ اللہ جس سے بھلائی کرنا چاہے پوری دنیا مل کر بھی
اس انسان کا برا نہیں کر سکتی اور جس انسان کو کوئی تکلیف یا بیماری پہنچا
کر آزما ئش میں مبتلا کرے تو پوری دنیا مل کر بھی اس کی وہ تکلیف دور نہیں
کر سکتی.
تو پھر ہم کیوں ذرا ذرا سی تکالیف اور آزمائش پہ اپنا ایمان تک داؤ پہ لگا
بیٹھتے ہیں.
کیا ہم نعوذ بااللہ کسی انسان کو اپنے خالق ومالک سے ذیادہ طاقتور سمجھتے
ہیں کہ وہ ہمارا کاروبار بند کر سکتا ہے یا کسی کو ہماری صحت خراب کرنے کا
ہمارے رب کے علاوہ بھی اختیار ہے.
بالکل صحیح کہ رہی ہو تم نادیہ نے تائید کہ انداز میں سر ہلاتے ہوۓ کہا,
لیکن !! جادو کا اثر تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی ہو گیا
تھا..
تو ہمارے رب نے ہمارے آقا کو اس جادو کا علاج بھی تو عطا فرما دیا تھا جو
معوذتین کی صورت میں آج بھی ہمارے پاس موجود ہیں.
اور ہمیں بتایا کہ اگر ہم روز انکو پڑہتے رہیں تو ایسے اثرات سے محفوظ رہ
سکتے ہیں اور اللہ نہ کرے کسی پہ جادو کا اثر ہو بھی جائے تو کسی با عمل
اور علم والے بزرگ کے پاس جانا چاہیے جو سنت طریقے سے اس کا علاج کر سکے.
نہ کہ انسان کو مزید وہمی بنا کر اس کی پریشانیوں میں اضافہ کر دے.لیکن آج
کل ایسے اللہ والے ملتے کہاں ہیں نادیہ نے کچھ سوچتے ہوۓ جواب دیا.
کیوں نہیں ملتے,
کبھی ہم نے ڈہونڈھنے کی کوشش ہی کب کی.
ایسے لوگ آسانی سے نہیں ملتے اور نہ اپنے نام کے بورڑ لگا کر بیٹھتے ہیں.
لیکن ہر دور میں ہوتے ضرور ہیں. کہ تو تم ٹھیک رہی ہو اس بات پہ نادیہ نے
کہا.
چلو شکر ہے تمہیں میری باتوں کی سمجھ آئی,
پر کچھ لوگ سچ مچ کافی کچھ جانتے ہوتے ہیں جیسے میں نے سنا ہے کہ ایک گاؤں
میں بی بی ہے اور وہ لوگوں کی ہر بیماری کے بارے میں بتا دیتی ہے بنا کسی
ٹیسٹ رپورٹ کے. اور علاج بھی کرتی ہے نادیہ نے چہرے پہ حیرت لاتے ہوۓ کہا..
میں نے بھی ایسے کافی لوگوں کے بارے میں سنا ہے اور بہت سے ایسے لوگوں کو
بھی دیکھا ہے جو ایسے لوگوں سے علاج کے باوجود ویسے کے ویسے بیماری میں
مبتلا تھے.
تم جانتی ہو کہ ہمارے ہاں بھی ایسے لوگ آتے رہتے ہیں جو بتاتے ہیں ان سب کے
بارے میں. یہ سب وقتی شعبدہ بازیاں ہوتی ہیں. یوں ہی چلتا رہا تو پہر تو ہم
لوگ دجال پہ بھی ایمان لے آئیں گے کیونکہ وہ تو ان سب ڈہو نگیوں سے بڑھ کر
شعبدہ باز ہو گا. جیسا کہ حدیث کی کتب میں لکھا ہے کہ پوری دنیا کے خزانے
اس کے ساتھ شہد کی مکھیوں کی مانند چلیں گے اور وہ جس بستی سے بھی گزرے گا
ان کو خود پہ ایمان لانے کی دعوت دے گا جس بستی کے لوگ اسے مان لیں گے ان
پہ انعام واکرام کر ے گا اور جو انکار کریں گے ان بستیوں کو اجاڑ دے گا..
اس کے حکم سے بارش بھی برسے گی وہ حکم دے گا تو بنجر زمین میں سبزہ بھی اگے
گا,
اور وہ ایک انسان کو مار کر دوبارہ زندہ بھی کرے گا.
لیکن صرف ایک مرتبہ ہی وہ ایسا کر سکے گا.
شائد فتنہ دجال کا زمانہ بہت قریب آگیا ہے تبھی ہم مسلمان اور پڑھے لکھے
ہوتے ہوئے بھی اس قدر توہم پرست ہوتے جا رہے ہیں..
سچ پوچھو تو بیچارے ان پڑھ لوگ تو ہوتے ہی توہم پرست ہیں لیکن جب تم جیسے
اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کے منہ سے ایسی باتیں سنتی ہوں تو دل خون کے آنسو
روتا ہے..
اور یہ سب شائد اس لیے ہے کہ ہم اپنے پیارے رب اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے دور ہوتے جا رہے ہیں جبھی شیطان کے لیے مختلف ہتھکنڈوں سے
ہمیں اپنے جال میں پہانسنا اسقدر آسان ہو گیا ہے.. باالکل درست کہا تم نے
بہت شکریہ مجھے اتنی تفصیل سے سمجھانے کے لیے نادیہ نے ممنونیت سے میرے
دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا. اور تمہارا بھی شکریہ کہ تم نے
کھلے دل و دماغ سے میری باتوں کو سنا اور سمجھا میں نے مسکرا کر کہا.. |