جرأت بھی دل سوزی،شفقت اور رحم دلی کی طرح
انسانی معراج کا ایک زینہ ہے۔آج تک کوئی جرأت اور بہادری کے بغیر ترقی کی
منازل طے نہیں کر سکا۔جرأت اس تین منزلہ مکان کا نام ہے جس کے اندر انسان
بستا ہے۔انسانی وجود کے تین حصے ہیں: پہلا جسمانی،دوسرا ذہنی
اورتیسراروحانی۔ ان تینوں حصوں یا منزلوں کاہونا بہت ضروری ہے کہ اس کے
بغیرانسان کی زندگی کا آگے بڑھنا،اس کانشوونماپاناناممکن ہے۔جرأت آپ سے
تقاضہ کرتی ہے کہ آپ اپنے اوردوسروں کے حقوق کیلئے کھڑے ہو جائیں اورانہیں
منوانے کیلئے سینہ سپرہوجائیں۔جرأت آپ کومجبورکرتی ہے کہ آپ اپنے آپ
کو،اپنے معاشرے کو،اپنے ملک کوتعمیر کرنے کیلئے سختی اور شقاوت کی بجائے
محبت اورشفقت سے کام لیں،تشکیک کی بجائے ایمان کے اندر زندہ رہیں۔مایوسی کے
مقابلے میں امید کے سہارے،مشکلات کے نیچے دبنے کی بجائے ان پر حاوی
ہوکرخوداعتمادی کی جرأت پیدا کریں۔غلطیاں تسلیم کرنے کی جرأت اورخود
کوکامل نہ پاکررونے بسورنے سے احتراز کریں۔یہ ہیں صحیح جرأت کے مظاہر!
باوجوداس کے کہ آپ اپنے اندرایک جزیرہ ہیں لیکن یہ جزیرہ انسانوں کی دنیا
میں آباداوران کے درمیان واقع ہے۔کسی نے کہاہے کہ ہم فکرمندنہیں ہوں گے تو
بھوکے مرجائیں گے،اوراگرفکرکرتے رہیں گے توپاگل خانے میں جا کرفوت ہو جائیں
گے۔ زندگی ان دنوں اس قدرمشکل ہوگئی ہے کہ ہمیں ڈھنگ سے فکرکرنا بھی نہیں
آتا۔ہم فکرمندی کے فن سے بھی ناآشناہوگئے ہیں۔فکرکرناایک اچھی بات ہے اوراس
سے بہت سے کام سنورجاتے ہیں۔بچے پل جاتے ہیں، گھرچلتے ہیں، دفترکانظام قائم
ہوتاہے،بزرگوں کی نگہداشت ہوتی ہے۔فکرمندی ایک صحت مند اقدام ہے،یہ کام
کرنے پر اکساتی ہے لیکن سب سے ضروری فکر اپنی روح کی ہونی چاہئے اور سب سے
اہم فیصلہ یہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنا ابد کہاں گزار رہے ہیںاور کیسا گزار
رہے ہیں۔یہ سوچنا چاہئے کہ اگر ہمیں ساری دنیا کی دولت مل جائے اور ہماری
روح میں گھاٹا پڑ جائے'تو پھر یہ کیسا سودا ہے؟
انسان ضرورت سے زیادہ فکر کیوں کرتا ہے؟ یہ اس وقت شروع ہوتی ہے جب انسان
خودکوخداسمجھناشروع کردیتاہے۔وہ یہ سمجھنا شروع کردے کہ اب ہر شئے کا بوجھ
میرے کندھوں پر ہے۔انسان خداکابوجھ بھی اپنے کندھے پراٹھاناچاہتاہے جووہ
کبھی بھی نہیں اٹھا سکتا۔اس فکرمندی کے وجود میں آنے کی وجہ ایک
چھوٹاسالفظ''اگر''ہوتی ہے۔اگر یہ ہو گیا،اگروہ ہوگیااگراس نے یہ کہہ
دیااگرلوگوں نے باتیں بناناشروع کردیں!!!ایک اعلیٰ عہدے پرفائزاپنے اندیشوں
اورفکرمندیوں کی ڈائری لکھاکرتے تھے جن سے وہ خوفزدہ رہتے تھے۔سال بعد جب
ڈائری دیکھتے توان ہزارہا اندیشوں اور فکروں میں سے کوئی ایک آدھ ہی ان کو
چھو کرگزرے تھے۔اس کے مقابلے میں ایک دنیاوی طورپران پڑھ
عورت،جوبھرپورجوانی میں بیوہ ہو گئی۔چھ معصوم بچوں کابوجھ کام نہ کاج.........!کہنے
لگی کہ میں نے صرف دوروپے کے کاغذ پراپنے اللہ سے شراکت نامہ کرلیا۔ ایک
بھوکے آدمی نے صدا لگائی ،جیب میں دو ہی روپے تھے،نکال کراس کے ہاتھ پررکھ
دیئے۔اس طرح میرے رب سے میری شراکت شروع ہوگئی اورکہا کہ کام میں کرتی جاؤں
گی،فکر میری جگہ تم کرنا۔ میرا کریم ورحیم رب راضی ہوگیا،بس اسی دن سے
ہماراشراکت کاکاروبار بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔
رات کو سونے سے پہلے میں یہ ضرور دعا کرتا ہوں:یا اللہ!دن میں نے پورازور
لگاکرتیری مرضی کے مطابق گزاردیا،اب میں سونے لگاہوں،رات کی شفٹ اب
توسنبھال،بڑی مہربانی ہوگی۔جب ہم ایسا کچھ کرتے ہیں کہ ہمارا اندر بتاتا ہے
کہ یہ توگناہ ہے،توہم اپنی عزتِ نفس سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں پھراپنے ساتھ
رہنابھی مشکل ہوجاتاہے پھرہم ندامت کامقابلہ بھی نہیں کرسکتے ۔زندگی مشکل
ہوجاتی ہے،ضمیرہروقت ملا مت کرتارہتاہے۔اب ہم تویااس کوبھول جائیں یااسے
دماغ سے نکال دیں،لیکن یہ دونوں کام ہی مشکل ہوجاتے ہیں۔اس کے برعکس ایک
فعلِ ندامت،پشیمانی اورتوبہ ہے۔جب ہم اپنے کریم رب کے سامنے اپنی تمام بے
بسی،ندامت کے احساس کے ساتھ سجدے میں گرکرتوبہ کی درخواست اپنے آنسوؤں کی
تحریرکی شکل میں،اس کی عدالت میں اس کی رحمت کااستغاثہ دائر کرتے ہیں،تو نہ
صرف توبہ قبول ہوجاتی ہے بلکہ اگر اس مناجات میں اخلاص بھی ہوتوہم بھی قبول
ہوجاتے ہیں،پھرزندگی آسان ہوجاتی ہے۔
دوستی کیاہے؟اگر میں تمہارادوست ہوں اورتم میرے دوست ہوتویہ ہمارے لئے ایک
بڑااعزاز ہے کہ ہم نے دنیاکے بڑے بڑے مشہور،لائق فائق،اعلیٰ درجے کے لوگوں
کوچھوڑکرایک دوسرے کوپسندکیا۔کیاپاکیزہ رشتہ باندھا،واہ واہ۔دوستی کارشتہ
عمربھر چلتاہے۔جوان ہوئے توشادی ہوگئی۔بہن بھائی،عزیزرشتہ دار،گھر،
محلہ،شہرچھوٹ گیا۔بوڑھے ہوئے تواولاد چھوڑ گئی،لیکن دوستی میں یہ تبدیلی
نہیں آئی،دوستی کارشتہ بے لوث ہوتاہے،یا یوں کہئے کہ یہ روحانی ہوتاہے۔
دیگر رشتوں میں تو کچھ جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنا پڑتا ہے مگر دوستی میں
صرف روح کی ضرورتوں کوپوراکرنے کاتقاضہ ہوتاہے۔روحیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم
آغوش ہوجاتی ہیں اورجسمانی تقاضہ ایک بھی نہیں ہوتا۔والدین بچپن میں ملتے
اورپھرساتھ رہتے ہیں۔پھروہ ہمیں یاپھرہم ان کوچھوڑدیتے ہیں ۔بیوی یا
شوہرجوانی کی عمرمیں ملتے ہیں۔بچے شادی کے بعدکی عمرمیں نصیب ہوتے ہیں۔اسی
طرح بہن بھائی بھی ہوتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ ہر کوئی اپنی ذمہ داریوں
کے بوجھ میں مگن ہوجاتے ہیں۔
لیکن دوستی کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں۔آپ ٨ کے ہوں یا٨٠ کے،٩ کے ہوں یا ٩٠
کے،١٦ کے ہوں یا٦٠ کے..........آپ میں اگراخلاص ہے،اوراگر آپ دوستی کامطلب
جان گئے ہیں توپھرآپ کسی بھی عمرمیں دوستی کرسکتے ہیں،دوست بن سکتے
ہیں۔ایمان کیاہے؟ایک اختیارہی توہے۔ ایک ’’چوائس‘‘ہی توہے۔کوئی مباحثہ
یامکالمہ نہیں،یہ ایک فیصلہ ہے ،قطعاًمباحثہ نہیں ہے۔ایک کمٹمنٹ ہے،زبردستی
نہیں ہے۔
یہ ہمارے دل کے خزانوں کوبھرتا ہے اورہماری ذات کومالامال کرتارہتا ہے۔
بالکل ایک پرخلوص دوست کی طرح۔ پھردوستوں میں تحائف کے تبادلے بھی ہوتے
ہیں۔یادیں ایک بہترین اورخوبصورت تحفوں کی طرح ہر دم آپ کوگھیرے رکھتی
ہیں،اوروہ تحفہ جس میں کچھ قربانی شامل ہوجائے وہ تحفہ جس نے آپ کوجینے
کاڈھنگ سکھایاہو،جس نے آپ کوسراٹھاکرچلنے کافخرعطاکیاہو،وہ تحفہ
توپھرسرمایہ حیات بن جاتاہے۔ پھرایسے تحفے کی حفاظت کیلئے ایک جان تو بہت
کم محسوس ہوتی ہے ۔
اگر ربّ کریم دوست ہیں تو پاکستان اس رحیم دوست کا سب سے بڑا قیمتی اور
نایاب تحفہ ہے۔ایک ایسا انمول ہیرا ہے جس نے آپ کے سر پر رکھے ایمانی تاج
کوباقی دنیا سے ممتازکررکھا ہے لیکن کیاہم اپنی جان سے زیادہ عزیزدوست کی
شہ رگ کسی دشمن کے حوالے کر سکتے ہیں؟کشمیرجنت نظیر پاکستان کی شہ رگ ہے
جہاں آج بھارتی درندے ہمارے معصوم اور بے گناہ بہن بھائیوں کے ساتھ خون کی
ہولی کھیل رہے ہیں ۔ اس مرتبہ تووہ بلاتمیزجانوروں کا شکار کرنے والی پیلٹ
گن کے استعمال سے ہمارے نوجوان بچوں کی بصارت اور زندگیاں چھین رہاہے
اورفرعون صفت نریندر مودی نے اپنے یومِ آزادی پرجس دریدہ دہنی سے پاکستان
میں اپنے ایجنٹوں کوآوازدیکرکشمیرکے مسئلے سے توجہ ہٹانے کی عملی دعوت
دی،ہمارے حکمرانوں کااس کااب تک تسلی بخش جواب سامنے نہیں آسکاجس کیلئے قوم
کاہرفرددن بدن حکومت کی موجودہ پالیسیوں سے متنفرہوتاجارہا ہے اورنجانے اب
کیوں یقین ہوتاجارہاہے کہ اس دفعہ کشمیرپرہونے والے مظالم کاجواب عرش سے
فرش تک آنے میں کوئی دیرنہیں۔ کیا موجودہ حکومت آنے والے عذاب الٰہی کیلئے
تیارہے؟
اجازت دیں۔میں تومنادی کرنے آیاتھا۔ملتے رہیں گے جب تک سانس کی ڈوربندھی
ہوئی ہے۔ |