نجی تعلیمی ادارے یا کاروباری مرکز
(Roshan Khattak, Peshawar)
تاریخِ عالم کے اوراق پر نظر دورائیں
تو اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ قوموں کی ترقی کا
راز تعلیم کے حصول میں مضمر ہے۔ جن قوموں نے حصولِ علم پر توجہ دی اور
تعلیم کا فروغ جن کا ترجیحِ اول رہا، ترقی ، کامیابی اور کامرانی ان قوموں
کا مقدر رہااور جن قوموں نے حصولِ علم کو اہمیت نہ دی اور اپنی زندگی کا
بیشتر حصہ جنگ و جدل، بحث و تمحیص اور ذاتی مفاد کے حصول میں گزار
دیا، جہالت ان کا مقدر بنی اور وہ ذلت و رسوائی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں
ڈوب گئیں۔بد قستی سے وطنِ عزیز کا شمار بھی انہی ممالک میں ہو تا ہے جہاں
تعلیم کو کبھی وہ اہمیت نہیں دی گئی جو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہو
نے کے لئے آج کے دور میں ضروری ہے ۔پاکستان بننے کے بعد سرکا ری تعلیمی
ادارے بتدریج اپنا وقار کھوتے گئے۔اگرا یک طرف سیاست تجارت کا روپ اختیار
کر گیا تو دوسری طرف پرائیویٹ تعلیمی ادارے تجارت کا وسیلہ بنے،بدلتے معاشی
نظریات کی وجہ سے اب سرمایہ کاری صرف صنعت،سٹاک ایکسچینج، زراعت اور میڈیا
میں سرمایہ کاری کرنے تک محدود نہ رہی بلکہ شعبہ تعلیم میں بھی بڑی برق
رفتاری کے ساتھ سرمایہ کاری ہو نے لگی تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے
والے افراد نے چند سالوں میں اپنے تعلیمی منا فع کی بنیاد پر دولت بھی
اکھٹی کر لی اور سماج کی نظروں میں مسیحا کا درجہ بھی حاصل کر لیا۔بے شک
کچھ ایسے پرائیویٹ تعلیمی ادارے موجود ہیں جو ملک سے جہالت کے اندھیروں کو
دور کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ،لہذا ان اداروں کا کردار اپنی جگہ
مسلمہ ہے مگر اس تصویر کا دوسرا رخ انتہائی پراگندہ اور تکلیف دہ ہے۔ملک
میں اس وقت ایکطرف بنیادی ڈھانچے سے محروم سرکاری اسکول ہیں تو دوسری طرف
پرائیویٹ اسکولوں نے اپنے اندر کشش پیدا کرکے والدین کو لو ٹنے کا زبردست
کاروبار شروع کر رکھا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہو ئی تو و لوگوں نے یہ
امید باندھ لی کہ اب تحریکِ انصاف کی حکومت تعلیم سے انصاف کرے گی ،اور
صوبے میں انقلاب برپا کرے گی، نئے اسکولز تعمیر کرے گی،کالجز اور یو نیو
رسٹیز کا جال بچھائی گی ،سرکاری تعلیمی اداروں میں جدید سہولیات مہیا کرے
گی مگر افسوس کہ ایسا ہوا نہیں ، کو شش ضرور ہو ئی، پہلے تعلیمی بجٹ میں
۱۱۱ ارب کی خطیر رقم تعلیم کے لئے مختص کی۔ ’’پڑھو لکھو اور زندگی بناوء ‘‘
کے نام سے ایک مہم کا کا بھی آغاز عمران خان نے پشاور میں بذاتِ خود ایک
بچے کو اسکول میں داخل کراتے ہو ئے کیا تھا، اس کے بعد ’’گھر آیا استاد ‘‘
اور اس طرح کی کئی مہمات پر اربوں روپے خرچ ہو ئے مگر ، نتیجہ بے سود
پرائیویٹ اسکولوں کی اجاراداری میں کوئی کمی نہیں لا جا سکی۔وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ نجی تعلیمی اداروں میں کمر شلائزیشن کی وباء بڑھتی گئی، چھوٹے
بڑے سکول بن گئے اور پھر بڑے اسکولوں نے صوبہ بھر میں اپنی شاخیں کھول کر
تعلیمی شعبہ میں اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے ۔ ہر شخص کی خواہش ہو تی ہے کہ
وہ اپنے بچوں کو اچھے سے اچھے سکول میں داخل کرائے۔پرائیویٹ سکولوں نے
لوگوں کے اس خواہش اپنے سکولوں کی نہ صرف یہ کہ بہت سی شاخیں کھول دیں بلکہ
فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کر دیا ۔سکول فیس کے علاوہ دیگر تعلیمی اخراجات
بھی ہو تے ہیں ۔کتابوں ، کاپیوں ، سٹیشنری کے اخراجات اور پِک اینڈ ڈراپ کے
اخراجات شامل کئے جائیں تو یہ فہرست ختم ہو نے کا نام ہی نہیں لیتی۔ایسا
لگتا ہے کہ یہ پرائیویٹ ادارے کسی قاعدے اور قانون کی پابند نہیں ، ان کے
اوپر کو ئی قانون لاگو نہیں ہوتا ہے ۔ یہ اپنی مرضی سے جب چاہیں، فیسوں میں
اضافہ کر دیتے ہیں ۔آئے روز نت نئے بہانوں سے والدین سے رقوم کی وصولی کا
سلسلہ جاری رہتا ہے۔
سکولوں کے علاوہ اگر آپ پرائیویٹ یو نیورسٹیوں پر نظر دوڑائیں تو ایک اور
عجیب صورتِ حال نظر آتی ہے ،جہاں لاکھوں روپے فیس کے مد میں وصول کئے جاتے
ہیں، پاکستان کے بڑے بڑے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات دے کر اور شاہراہوں
پر دیو قامت بِل بورڈ لگا گر طلباء کو ایڈمیشن کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔ان
کا مقصد صرف اور صرف پیسہ کمانا رہ گیا ہے ، بڑے بڑے تجارتی گروپوں نے صابن
اور سیمنٹ کے کارخانے بند کرکے یو نیو رسٹیاں کھول لی ہیں ، سر مایہ کار
اور صنعتکار ان اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں داخل ہو کر ڈگریاں بانٹ رہے ہیں ۔بظاہر
تو تو پرائیویٹ یو نیورسٹیاں ہائر کمیشن کی منظوری سے ان کے قواعد وضو ابط
کی پابند ہیں لیکن عملا وہ اپنے سارے فیصلے خود کرتے ہیں ۔ پرائیویٹ یو نیو
رسٹیوں کے مالک خود یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کی ڈگریوں کی قیمت کیا ہے ؟
سرمائے کے بل بوتے پر وہ عالیشان عمارات تعمیر کر کے اور قیمتی قالین اور
فر نیچر رکھ کر طلباء و طالبات کو داخلہ لینے پر مائل کرتے ہیں اور پھر
اپنی مرضی کی فیس لیتے ہیں اور اپنی صنعتوں کو پروان چڑھاتے ہیں ۔یہ بھی
ایک حقیقت ہے کہ بڑھتی ہو ئی آبادی کے تعلیمی ضروریات کے پیشِ نظر سرکاری
شعبہ یہ ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔فروغِ تعلیم کا ہدف اس وقت تک پورا
بھی نہیں ہو سکتا جب تک پرائیویٹ سیکٹر بھرپور طریقے سے اپنا کردار ادا نہ
کرے۔ مگر لا زم ہے کہ ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو کسی قاعدے و قانون کا
پابند بنایا جائے۔ان کے مالکان کے حصولِ زر کے خواہش کے آگے کو ئی بند
باندھا جائے۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ چونکہ مکمل طور پر صوبوں کے حوالہ کر
دیا گیا ہے لہذا عوام خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت سے اب بھی
امید کا دامن تھامے ہو ئی ہے اور چاہتے ہیں کہ وہ اپنی پوری توجہ خیبر
پختونخوا کی خستہ حال تعلیمی صورتِ حال پر مرکوز کریں۔پرائیویٹ تعلیمی
اداروں کو قاعدے اور قانون کا پابند بنائیں اور من مانی فیسوں میں اضافہ
کرنے سے روکیں۔ان کی رجسٹریشن پالیسی میں تبدیلی لائی جائے اور رجسٹریشن کو
فیسوں کے ساتھ منسلک کرنے کا طریقہ کار طے کیا جائے۔غریب اور متوسط گھرانوں
کے بچوں کو معیاری تعلیم دینے کا بند بست کیا جائے۔اگرسرکاری اور نجی شعبوں
میں قائم تعلیمی اداروں کی حالت کو درست کیا گیا تو ملک میں تعلیمی انقلاب
آئے گا اور یہی تعلیمی انقلاب ایک ’’ نئے پاکستان ‘‘ کی بنیاد رکھے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
|