جن کی یادوں کی پر چھا ئیاں میرے چار سو ں!
(Altaf Hussain Janjua, Jammu, J&K, India)
فکری تشکیل، کردارسازی اورشخصیت سازی کے
معماروں کا مرہون منت ہوں میں
زندگی بہترین کتاب اور زمانہ بہترین استاد ہوتا ہے۔زمانے میں انسان آخری
سانس تک سیکھتا ہی رہتا ہے۔ اسی فلسفے اوراسی پس منظر کے تحت استاد وہی
کہلاتاہے کہ جو شاگردوں کی شخصیت سازی میں اپنا حصہ ڈالے، ان کی فکری تشکیل
اور کردار سازی میں اہم کردار سرانجام دے۔ بنیادی طور پر استاد اور تعلیم
کا شعبہ ایثار کیش پیشہ ہے، اس کے ساتھ ایک تقدس منسلک ہے۔ اساتذہ ہی نئی
منزلوں کی طرف آگے بڑھنے سے قبل اس کی خوابیدہ تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتے
ہیں، شاگردوں میں پڑھنے کا شوق اور لکھنے کا جذبہ پیدا کرتے ہوئے نئی
منزلوں سے آشناکرتے ہیں۔اپنی پاکیزہ فکر،صالح کردار اور گہرے مطالعے سے
شاگردوں کے ذہن پر خوش گوارنقوش مرتب کرتے ہیں۔قابل،لائق اورذہین وفطین
شاگردوںکی سوچ و فکراورشخصیت پرایسے استادکی گہری چھاپ ہوتی ہے۔ غور وفکر
کے چراغ جلاکر اپنی شخصیت کا ایکسرے کریں اور اپنے باطن میں گھس جائیں تو
آپ کو اپنی شخصیت کے سنوارنے میں کئی ایسے استادوں کے چھپے ہوئے ہاتھ ملیں
گے۔ اچھے طالب علم کی بہت سی عادات زندگی کے رویئے بول چال اور روز مرہ کی
زبان کے الفاظ و محاورے اپنے ایسے ہی استاد سے ضرورملتے ہوں گے کہ جنہوں نے
اسے نہ صرف پڑھایا بلکہ اس پر توجہ دی اور اس کی کردار سازی کی۔اسی لئے
توکہاجاتاہے کہ استادمعمارقوم ہوتاہے اور قوموں کی تعمیر میں بڑا اہم کردار
ادا کرتے ہیں۔ اچھے افراد کی وجہ سے اچھا معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور اچھے
معاشرے سے ایک بہترین قوم تیار کی جا سکتی ہے۔5ستمبر یعنی یوم اساتذہ کے
حوالہ سے مخصوص اس مضمون میں کا مقصدان اساتذہ کرام کو خراج تحسین پیش کرنا
ہے ،جن کی بے لوث رہنمائیوں ، کرم فر مائیوں اور ان کی شفقتوں کا میں مرہون
منت ہوں۔آج میں اپنے استاتذہ کرام پروفیسرشبیر حسین شاہ، پروفیسر مصرف حسین
شاہ، پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد لون، پروفیسر گردھاری لعل شرما، پروفیسر
فاروق احمد، پروفیسر محمدزمان، پروفیسر وجاہت حسین ،پروفیسر خادم حسین،
ڈاکٹرجمیل احمد خان،پروفیسر حقیقت سنگھ، زمورد مغل(ریختہ جریدہ کے ادارتی
شعبہ کے رکن)، انور خان، نثار قریشی، محمد پرویز خان، محمد شریف، محمو ایوب
،بشیر احمدخان،شبیرخان، محمد اکبر ،ماسٹرمحمد رفیق، مشتاق احمد،آنجہانی
کستوری لال، نریندر سنگھ جموال ،ظفراقبال (ماموں)،فردوس احمد ٹاک،رحمت اللہ
رونیال، عبدالحمید بانڈے، آصف ٹاک، ریاض ملک، سعید امجد شاہ، اکشے آزاد،
تنویر احمد خطیب، ایڈوکیٹ محمد سلیم ملک، وقار حسین سلاریہ، راجیو گورکھا،
صدیق احمد صدیقی،مجیب چوہدری ، میڈیم اختر النساءوغیرہ کابطورخاص تذکرہ
کررہاہوں کہ جنہوں نے میری رہنمائی کی اور شاہراہ ِ پر انگلی پکڑ کر میری
صلاحیتوں کو نکھارا سنوارا۔ان محترمان میں سب کے سب ابھی اپنے فرائض انجام
دے رہے ہیں،انہی کی محبت وشفقت سے میری زندگی میں لالہ وگل نے جنم
لیااورمیرے چمن میں بہارآئی ۔یہ وہ شخصیات ہیں جنہوں نے زندگی کے آج تک کے
سفر میں مختلف مقامات میری رہنمائی کی۔میں گئے زمانے کے کھنڈروں کے بیچ ان
کو روز و شب کو حافظے کی شمعیں لے کر تلاش کرتا رہا ہوں، جن کا مجھ پر بڑ
ااحسان ہے۔ میں ان پاک نفوس لوگوںسے نگار خانہ دل آباد کرنا چاہتا ہوں جن
کی یادوں کی پر چھا ئیاںمیرے چار سو موجود ہیں۔ چنانچہ اسی بہانے بدلتے
موسموں کے رنگ و پیرہن اور آتی جاتی ر ±توں کی بو باس، گئے زمانوں کی بھولی
بسری یادیں تازہ ہو تی ہیں۔کبھی ماضی کی د ±ھند میں لپٹے خوشحال چہروں کے
خدوخال نمایاں ہونے لگتے ہیں، کبھی گردپوش بستیوں کے بام و در ابھرنے لگتے
ہیں اور کبھی بھر جانے والے پرانے زخم کا کوئی ٹانکا بھی ادھڑ جاتا ہے اور
لہو رسنے لگتا ہے۔بہر کیف اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اور ان کے ہم پلہ اپنے
ان اساتذہ کرام کوخلوص ِ دل سے خراج تحسین پیش کرتاہوں ۔ اول سے لیکر یونیو
رسٹی تک کے 18سالہ تعلیمی سفرکے دوران سینکڑوں اساتذہ/لیکچررز/پروفیسروں سے
پڑھنے، سیکھنے ، ان سے بات چیت کرنے، ان کی محفل کا حصہ بننے یا انہیں کسی
تقاریب کے دوران سننے کا موقع ملا لیکن کچھ اساتذ ہ ایسے ہوتے ہیں جوکہ
اپنے گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں اور زندگی کے آخری دم تک وہ یاد رہتے ہیں۔آج
تک درجنوں اساتذہ سے کچھ نہ کچھ سیکھا ہے او ریہ عمل آج بھی جاری ہے جوکہ
آخری سانس تک جاری رہے گا۔ اساتذہ صرف وہی نہیں ہوتے جوآپ کو سکولوں،
کالجوں یایونیورسٹی سطح پر کلاسز کے اندر پڑھاتے ہیں بلکہ ہر وہ شخص آپ کے
لئے استاد کی حیثیت رکھتا ہے جو سکولی تعلیم کے علاوہ بھی زندگی کے مختلف
شعبہ جات اور مختلف موڑوں پر آپ کو کچھ نہ کچھ سکھاتاہے یا جس سے آپ سیکھتے
ہیں۔ ایک شخص کے پہلے اساتذہ والدین ہوتے ہیں جوپیدائش کے بعد سکول جانے کے
قابل ہونے تک بچے کی تربیت کرتے ہیں، اس کو اچھی اچھی باتیں سکھاتے ہیں۔ایک
شخص کی جسمانی وذہنی نشونماوترقی کی بنیاد والدین ہی رکھتے ہیں جس کی بناپر
وہ اپنی صلاحیتوں کو اساتذة کی مدد سے نکھارکرنئی نئی منازل طے کرتا ہے ۔
یوم اساتذہ کے موقع پر سب سے زیادہ والدین مبارک بادی وخراج تحسین کے مستحق
ہیں جنہوںنے میری ایسی ٹھوس بنیاد رکھی جس کی بنا پر آج میں اس مقام تک
پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ اس فانی اور عارضی زندگی کے آزمائشوں اور
جدوجہدبھرے سفر میں پرائمری سکول، مڈل سکول، ہائرسکینڈری سکول، ڈگری کالج
اور یونیورسٹی کے بعدصحافت اور وکالت شعبہ جات میں آگے بڑھنے میں اب تک
درجنوں اساتذہ سے بہت کچھ سکھا ۔ ان میں سے چند ایک ایسے ہیں جنہوں نے قلب
وذہن پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ۔ پرائمری سکول کنیجالی پٹھانہ تیر مینڈھر
جہاں پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی میں جناب ماسٹر پرویز خان اور جناب
ماسٹر محمد شریف صاحب پسندیدہ استاد رہے ۔ ان کے کردار، اخلاق ، سادہ طرز
زندگی وسنجیدہ پن نے کافی متاثر کیا۔ چھٹی سے آٹھویں کلاس تک گورنمنٹ مڈل
سکول لسانہ (سرنکوٹ)میںتین سالہ تعلیم کے دوران ماسٹر محمداکبر اور ماسٹر
بشیر احمد خان اور آنجہانی کستوری لعل نامی اساتذہ نے نہ صرف زندگی میں آگے
بڑھنے کی ترغیب دی، حوصلہ افزائی کی بلکہ غلطیوں کو معاف بھی کیا۔آنجہانی
ماسٹرکستوری لال کی ایک سبق آموز بات یاد ہے ....سکول میں صبح کی دعائیہ
مجلس ہورہی تھی تو گذشتہ روز غیر حاضر رہے کچھ طلبہ وطالبات کو سزا دینے کے
لئے انہوں نے مجھے کمرے سے چھڑی لانے بھیجا، چھڑی نہ ملی تو وآپس آکر میں
نے ان (ماسٹر کستوری لال)سے کہاکہ ’تم نے جہاں رکھی تھی، چھڑی وہاں نہیں
ملی‘۔ (مارننگ اسمبلی)کے بعد انہوں نے میں مجھے اعلیحدہ بلا کر کہا’بیٹا
میں تمہیں’تم‘اور ’آپ ‘الفاظ میں فرق سمجھاتاہوں، انہوں نے کہاکہ ”تم عمر
میں چھوٹے اور ’آپ ‘عمر میں بڑھوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، لیکن بہتر یہ ہے
کہ ’آپ‘لفظ ہر ایک کے لئے احتراماًاستعمال کیاجائے، اس سے دوسروں کی نظر
میں آپ کی قدرومنزلت وعزت بڑھ جاتی ہے۔تعلیمی سفرکے جاری سلسلہ کے دوران
ہائرسکینڈری سکول لسانہ میں9 ویںاور10ویں کلاس کے دوران ماسٹر نثار
قریشی(گرسائی)اور ماسٹر محمد ایوب سہڑ ی خواجہ کے طرز انداز نے کافی متاثر
کیا، ان کے اندر طلبہ کو پڑھانے وسیکھانے کا اتناجذبہ تھاکہ وہ سیکھانے کا
کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ جس کلاس
میں پڑھارہے ہوں اس کا ہربچہ لائق ہو۔ ماسٹر نصار قریشی ریاضی جبکہ ماسٹر
محمد ایوب صاحب اردو پڑھاتے تھے۔نثار قریشی کی زیر رہنمائی اور انتھک محنت
کی بدولت DIETکے زیر اہتمام ’ریاضی‘کے ضلع سطحی مقابلہ میں اچھی کارکردگی
کا موقع میسر ہوا۔ 11ویں اور12ویں کے دوران جناب محمد اشرف چوہان،
لیکچررمحمدلطیف، لیکچرر ظہو احمد بھٹی او رماسٹر محمد سعیدپسندیدہ رہے،
انہیں بھی آج خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ان میں سے کچھ ملازمت سے سبکدوش
ہوچکے ہیں جبکہ کچھ ابھی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیںلیکن ان کے علاوہ جس
شخصیت نے مجھے کچھ الگ کرنے کے لئے سوچنے کی ترغیب وتحریک دی وہ جناب انور
خان صاحب تھے۔ اردو کے لیکچرر انور خان کا شمار ضلع پونچھ کے صف اول کے
(اردو پہاڑی)ادیب وشعرا ءمیں ہوتاہے۔ چونکہ وہ ایف ایم ریڈیو پونچھ سے
پہاڑی /اردو پروگرام بھی پیش کیاکرتے تھے، اس وجہ سے ان کی معلومات عامہ سے
متعلق جانکاری، گہری عملی مطالعہ نے راقم کے اندر مطالعہ کارحجان پنپناشروع
کیا۔میری زندگی میں پہلی مرتبہ کچھ سیکھنے کی تڑپ پیدا ہوئی ۔ان کی وساست
سے پہلی مرتبہ ضلع سطح پر مباحثہ مقابلہ میں شرکت کی۔ اس سے قبل کی تعلیم
میں ، میں تو محض نصابی کتابوں تک محدود ہوا کرتی تھی لیکن اب علم کی
چنگاری نے ایک تڑپ پیدا کردی۔ انور خان صاحب کا پڑھانے کا انداز منفرد تھا،
وہ ایک بات کو سمجھانے کے لئے کئی کئی موضوعات، واقعات وتورایخوں کا حوالہ
دیتے تھے جن سے ان کی عملی مہارت پر رشک آتا تھا۔ انور خان صاحب کی شفقت
اور ہمدردی آج بھی ہے، کئی معاملات میں آج بھی وہ بھرپور رہنمائی کرتے
ہیں۔ہائر سکینڈری سکول کے بعد اگلہ پڑھاو ¿ڈگری کالج پونچھ تھا۔ یہ میری
خوش قسمتی رہی کہ کالج کی 3سالہ مدت کے دوران جناب پروفیسر شبیر حسین
شاہ،جناب ڈاکٹر مشتاق ا حمد لون، جناب پروفیسر جمیل احمد خان، جناب پروفیسر
زمان ، پروفیسر خادم حسین ،جناب پروفیسر مصرف حسین شاہ،جناب پروفیسر
گردھاری لعل شرما،جناب پروفیسر فا روق احمد،جناب پروفیسر خادم حسین،جناب
پروفیسر وجاہت حسین شاہ جیسی سرکردہ علمی شخصیات سے مستفیدہونے کا سنہری
موقع ملا۔ پروفیسر مصرف حسین شاہ کالج میں ،اُن دنوں این ایس ایس پروگرام
افسر تھے، ان کی زیر قیادت این ایس ایس رضاکار کے طور کام کیا اور
سال2006میں بہترین NSS رضاکار کا انعام بھی پایا۔گاو ¿ں کے ماحول سے نکل کر
یک دم شہرمیں آکر وہاں پر نامی گرامی نجی سکولوں اور اچھے عملی وتہذیبی
گھرانوں کے طلبہ وطالبات کے ساتھ مقابلہ کرنا کافی مشکل تھالیکن پروفیسر
مصرف حسین شاہ نے بھرپور حوصلہ افزائی کی، احساس کمتری کو دور کیا۔این ایس
ایس کے 10روزہ سرمائی کیمپ کے دوران کوئز، مباحثہ، پوسٹر بنانے، تقریری،
مضمون نویسی مقابلہ جات اور صفائی ستھرائی وغیرہ کی سرگرمیوںمیں بڑھ چڑھ کر
حصہ لینے کے بعد کافی ہمت ملی۔ پروفیسر مصرف موصوف آج بھی
وقتاًفوقتاًرہنمائی کرتے رہتے ہیں، ان کی سرپرستی، شفقت اور کرم نوازیاں آج
بھی ساتھ ہیں۔پروفیسر ڈاکٹرجمیل احمد خان جوکہ اردو کے پروفیسر تھے،
انتہائی سادہ، شریف النفس اور نرم لہجہ میں بات کرتے تھے، ان کی ہربات بے
حد متاثر ہوا کرتی تھی۔ایک مرتبہ گریجویشن سال دوئم کے امتحانات چل رہے
تھے، میرا نمبر عین مین دروازے کے ساتھ لگا تھا۔ جواب نامہ دینے کے بعد جب
میں امتحانی مرکز سے باہر نکلنے لگا تو انہوں نے مجھے پکارا،ہڑ بڑاہٹ کے
عالم میں میرے منہ سے غیر دانستہ طور پر ’جی‘کی جگہ’کہ‘لفظ نکل گیا جس کے
لئے میں آج تک شرمندہ ہوں۔ پروفیسر جمیل خان صاحب جن کے چہرے میں ہمیشہ
مسکراہٹ رہتی تھی ، میرے قریب آئے اور دھیمی آواز میں مجھ سے کہا”بیٹا
’کہ‘لفظ غیر مہذب ہے ، جب آپ یہ لفظ زبان سے اد اکرتے ہو تو زیادہ طاقت
لگتی ہے اور ساتھ ہی زیادہ منہ کھلتا ہے ۔صرف یہی نہیں بلکہ جب ’کہ‘کو جب
کوئی دوسرا سننے گاتو اس کواچھا بھی نہیں لگتا، اس کے برعکس لفظ’جی‘کہنے
میں کم طاقت لگتی ہے اور اس کے استعمال سے سننے والوں پر آپ کے تئیں اچھا
تاثر قائم ہوتا ہے“....۔ پروفیسر شبیر حسین شاہ جوکہ ان دنوں گورنمنٹ ڈگری
کالج راجوری کے پرنسپل ہیں، 2006تا2008پونچھ ڈگری کالج میں شعبہ جغرافیہ کے
سربراہ ہواکرتے تھے، موصوف وہ شخصیت ہیں جن سے دوران کالج سب سے زیادہ
متاثر رہا۔ ان کا پڑھانے کاانداز قابل رشک تھا۔ ہمیشہ کچھ غیر معمولی سوچنے
کی صلاح دیتے تھے، وہ اکثر کہتے تھے کہ طالبعلم کے اندر حصول تعلیم کی اتنی
تڑپ ہونی چاہئے جتنا زندہ رہنے کے لئے سانس لینا ضروری ہے۔ان کی دو باتیں
آج تک بھی میرے دل ودماغ میں تازہ دم ہیں۔ جغرافیہ کے پریکٹیکل میں انٹرویو
کے دوران انہوں نے مجھ سے پوچھا’بیٹا آپ کے والد کیا کام کرتے ہیں تو میرے
یہ بتانے پر کہ والد محترم پیشہ سے مزدور ہیں توتو جواب میں انہوں نے
مسکراہتے ہوئے کہا”بیٹا اندھیرے میں بلب جلے تو اس کی روشنی کا مزا ہی کچھ
اور ہوتا ہے، جہاں پہلے ہی 250سے300ولٹیج کے بلب ہوں تو وہاں اگر نیا بلب
لگایابھی جاتا ہے تو اس کی روشنی کوئی خاص فرق قائم نہیں کرتی، لہٰذ ا آپ
اور زیادہ محنت کرنا، اللہ آپ کو زندگی میں ترقی دے اور قابل رشک جگہ پر
پہنچاے“۔ان کے یہ جملے آج بھی میرے کانوں میں گونجتے رہتے ہیں۔’ایجوکیشن
‘کے پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد لون جو کہ ان دنوں گورنمنٹ ڈگری کالج سرنکوٹ
کے پرنسپل ہیں، منفرد شخصیت کے مالک ہیں۔طنزو مزاح، کلاس کے اندر خوشگوار
ماحول پیدا کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ میرے لئے خوش قسمتی تھی کہ
مجھے ان سے گریجویشن سال او ل اور دوئم میں پڑھنے کا موقع ملا۔ پارٹ فسٹ
میں ان کی کلاس آخر یعنی1:20تا2:00بجے ہوا کرتی تھی،عموماًاس وقت ہرکوئی
تھکا ہوتا ہے اور گھر جانے کی جلدی ہوتی ہے لیکن ان کے کلاس میں داخل ہوتے
ہی ہرطالبعلم تازہ دم اور خشاش بشاش ہوجاتا تھا۔ ان کے لیکچر کو کوئی بھی
مس نہیں کرتا تھا ،چاہئے کچھ بھی ہوجائے۔ وہ خاموش رہیں تو تب بھی ہنسی آتی
تھی، وہ کچھ کہیں تو بھی ہنسی سے طلبا وطالبات لٹ پٹ ہوجاتے تھے۔ انہوں نے
جو بھی پڑھایااس میں سے بیشتر آج بھی مجھے یاد ہے۔ ان کے پڑھانے کے بعد
کتاب کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہی محسو س نہیں ہوتی تھی۔ پڑھانے سے قبل وہ
کچھ ایسا لطیفہ یا مذاحیہ بات کرتے تھے جس سے ہر ایک طالبعلم کی توجہ ان کی
طرف 100فیصدمبذول ہوجاتی تھی۔ دوران کلاس بھی یہ عمل جاری رہتا تھا۔ایک
مرتبہ انہوں نے ذرا سنجیدہ اور محتاط لہجہ میں طلبا سے مخاطب ہوتے ہوئے
کہا”بیٹا گریجویشن مکمل کرنے کے بعد تمہیں آگے اندھیرا ہی اندھیرا نظر آئے
گا، اس اندھیرے میں آپ کو روشنی ڈھونڈنی ہے، کالج کی پڑھائی مکمل کرنے کے
بعد ایک زندگی کا اصلی امتحان شروع ہوتا ہے،اس تقابلی دوڑ میں آپ کو کسی
مقام پر پہنچانے میں سخت جدوجہد کرنے ہے“ ۔پروفیسر گردھاری لعل شرما
انگریزی کے پروفیسر تھے جوکہ ڈگری کالج پونچھ کے پرنسپل رہنے کے بعد ان
دنوں ملازمت سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔ انگریزی پڑھانے کا جوان کا انداز تھا وہ
اپنے 18سالہ تعلیمی سفر کے دوران کہیں دیکھنے کو نہ ملا۔ آسان اور عا م فہم
انگریزی میں نصابی سبق کو اس طریقہ سے سمجھاتے تھے کہ اس کو یاد کرنے میں
زیادہ مشقت نہیں لگتی تھی۔علاوہ ازیں وہ وقتاًفوقتاً کالج میں منعقد ہونے
والی تقاریب میں کافی سبق آموز باتیں اور نصیحتیں دیتے تھے، جن کی اہمیت آج
معلوم ہوتی ہے۔ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران بھی متعدد پروفیسر حضرات سے
پڑھنے کا موقع ملا جنہیں5ستمبر کے اس موقع پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
کالج ویونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ لتحصیل ہونے کے بعد صحافت اور وکالت پیشہ
میں قدم رکھا تو اس میں بھی چند شخصیات نے صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم رول
ادا کیا، وہ یوم اساتذہ کے دن خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ ایڈوکیٹ فردوس احمد
ٹاک جوکہ ان دنوں پی ڈی پی سے وابستہ رکن قانون ساز کونسل ہیں، 2010تا2015
کشمیر عظمیٰ/گریٹر کشمیر کے بیوروچیف جموں تھے، نے صحافت کی نہ صرف اے ، بی
اور سی سکھائی بلکہ اس میں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا۔آج صحافتی شعبہ میں
کچھ لکھتا ہوں یاجس مقام پر ہوں تو اس میں ان کا رول ناقابل فراموش ہے۔
بظاہر چہرہ سے وہ سخت گیر ، سنجیدہ شخصیت معلوم ہوتے ہیں لیکن ہمدردی،
سادگی، مدد، رہنمائی میں ان کا جواب نہیں۔کم الفاظ میں بہت بڑی بات کہنے
میں انہیں مہارت حاصل ہے۔ صحافتی پیشہ کا آغاز ایک بہترین پلیٹ فارم سے
کرنے میں ان کا سب سے زیادہ رول رہا۔ شروع شروع میں غلطیوں پر غلطیاں مجھ
سے سرد ہورہی تھیں، ایک دن انہوں نے بھلا کر کہا ”الطاف اخبار میں آپ کی
اچھائیوں کو کوئی نہیں دیکھتا بلکہ یہاں پر آپ کی چھوٹی سی چھوٹی غلطی پر
تنقید ہوگی ،لہٰذا کوشش کرو ¿کہ کم غلطیاں ہوں“۔وہ بہت کم بتاتے تھے لیکن
جو بتاتے وہ بہت ہی پر اثر ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھے ایک خبر کرنے
کو کہا، خبر بنائی تاہم اس میں وہ دم نہیں تھا تو انہوں نے مجھ سے کہاکہ
”صحافت کا فارمولہ 5W'sاور 1Hہے۔ مطلبWhat, when, where, why, whom and
whose. اورHowہے، یہی صحافت ہے“۔قہ صرف صحافت میں ہی نہیں بلکہ وکالت میں
بھی میرے استاد رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ عدالت میں پہلے ہی روز جب بھی ان
کے ساتھ گیاتو انہوں نے مجھے ایک فوجدار ی مقدمہ میں بطور کونسل پیش ہونے
کو کہا۔انہوں نے مجھے بتایاکہ جج صاحب کہ سامنے یہ بات بولنا، مجھے سمجھ
نہیں آرہاکیاکرو ¿ں، پہلا دن اور پہلی مرتبہ جج کے سامنے پیشی پر انہوں نے
میرے چہرے کو بھانپتے ہوئے میرا حوصلہ بڑھایا۔ اس روزClientسے انہوں نے
جوفیس لی تو وہ اس میں سے 300روپے مجھے دیئے اور کہاالطاف یہ آپ کی پہلی
کمائی ہے، وہ 300 روپے آج بھی میں نے محفوظ رکھے ہیں۔وکالت جب شروع کی تو
میرا لب ولہجہ اور انداز ویسا نہیں تھا۔ عدالت احاطہ میں ایک روز کھڑے بات
کررہے تھے، کہ میرا ایک کلاس میٹ وہاں سے گذرا اور مجھ سے سلام ودعا کی۔ اس
کے جانے کے بعد فردوس ٹاک صاحب نے مجھے کہا الطاف یہ تیرا کلاس میٹ ہے، میں
نے کہاہاں تو انہوں نے کہااس میں اور تم میں کتنا فرق ہے، اس کے اندر خود
اعتمادی اور دلیری دیکھی، اس سے سیکھو،وکالت میں ایسا ہونا ضروری ہے۔ سیاست
میں قدم رکھنے کے بعد گرچہ ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ منقطع ہے تاہم صحافت
اور وکالت میں بطور صحافت وہ بہت ہی محترم اور دل کے بہت قریب ہیں۔ وکالت
میں ایڈوکیٹ جناب حسین احمد صدیقی ، محمد سلیم ملک ، وقار حسین سلاریہ اور
راجیوگورکھا سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور آج بھی سیکھنے کا یہ عمل
جاری ہے۔صحافت کے اساتذہ میں محترم رحمت اللہ رونیال صاحب، عبدالحمید
بانڈے، آصف ٹاک ،ریاض احمد ملک اور تنویر احمد خطیب صاحب بھی قابل ذکر
ہیں۔رحمت اللہ رونیال صاحب نے صحافت کو نکھارنے میں کافی رہنمائی کی۔انہوں
نے خبروں کی سرخیاں لگانے، مختلف خبریں بنانے کا طریقہ بتایا۔ عبدلحمید
بانڈے اور آصف ٹاک کی شفقت، پیار ومحبت اور حوصلہ ہمیشہ ساتھ رہا۔ ریاض
احمد ملک صاحب اس پیشہ کے رموز واوقاف سیکھانے میں پیش پیش رہے۔ محترم
تنویر احمد خطیب صاحب اکثر عالمی، ملکی وریاستی سطح کے متعدد موضوعات کے
بارے میں مطالعہ کرنے کا کہتے ہیں اور اکثر اس بارے پوچھتے بھی رہتے ہیں جس
سے خود بھی ڈر رہتا ہے کہ ہرمعاملہ کے بارے میں جانکاری ہونی چاہئے۔علا وہ
ازیں وہ دیگر کئی نصیحتیں بھی کرتے رہتے ہیں جن کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔سید
امجد حسین شاہ، اکشے آزاد، مجید چوہدری، آرتیو شرما، سمت ہکو نے بھی صحافتی
سفر میں کافی رہنمائی کی۔قرآن کریم کی تعلیم باقاعدہ طور کسی مدرسہ یامسجد
کے بجائے ، اپنے ہی گاو ¿ں لسانہ کے جناب مشتاق احمد صاحب جوکہ پیشہ سے
مزدور ہیں،مگر صوم وصلواة کے پابند،نیک سیرت، خدادوست اور ملنسار ہیں،سے
سیکھی۔ ان کامیں زندگی بھر احسان مند ہوں۔سروال جموںسے تعلق رکھنے والے
’نریندر سنگھ جموال ‘کمپیوٹر کے استاد رہے، ان سے بہت کچھ سیکھا۔کمپیوٹر کی
تعلیم سیکھانے میں ماموں’ظفر اقبال کیری کانگڑہ‘کابھی میں مرہون منت
ہوں۔لسانہ گاو ¿ں کے ہی جناب ماسٹر رفیق صاحب کی رہنمائی، نصیحت اور حوصلہ
افزائی بھی رہی۔استاد کا مطلب صرف یہی نہیں ہوتا کہ جوآپ کو سکول کے اندر
پڑھائے بلکہ ہر وہ شخص ہے جس سے آپ کو کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے، جس سے
آپ روزمرہ زندگی میں مختلف مراحل پر کچھ سیکھتے ہو۔ماں کی کھوکھ سے لیکر
قبر تک سیکھنے کا عمل جاری وساری رہتا ہے، اس دوران سینکڑوں بلکہ ہزاروں
لوگوں سے آپ کچھ نہ کچھ سیکھتے ہو، یہ سبھی لوگ اساتذہ کہلاتے ہیں۔ اللہ سے
دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں اپنے اساتذہ کرائم کی عزت کرنے ان کا
احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔میں اساتذہ کی بے لوث رہنمائیوں ، کرم فر
مائیوں اور ان کی شفقتوں کا رکا منت ہوں۔یہاں یہ ذکر کرتا چلوں کہ 1954میں
بھارت کے سب سے بڑے شہری ایوارڈ ’بھارت رتن‘ انعام یافتہ اور 13مئی
1962تا13مئی 1967تک ہندوستان کے دوسرے صدر جمہوریہ ہند رہے ۔بنیادی طور پر
استاد ہونے کی حیثیت سے ان کے جنم دن 5 ستمبر کو یوم اساتذہ کے طور پر
مناکر انہیں عقیدت پیش کرتے ہیں۔ہندوستانی سماجی ثقافت کے دلدادہ ایک
ماہرتعلیم، عظیم فلسفی اور عظیم مقرر تھے۔ ڈاکٹر رادھاکرشنن نے اپنی زندگی
کے 40 اہم سال ٹیچر کے طور پرگزار دئے۔ ان میں ایک لائق ٹیچر کے سارے گن
موجود تھے۔ سن 1962 میں جب وہ صدر بنے تھے ، اس وقت کچھ شاگرد اوران کے کچھ
مداح ان کے پاس گئے تھے۔ اسی وفد سے بات چیت کے بعدانہوں نے اپنا جنم دن
یوم اساتذہ کے طورپر منانے کی خواہش ظاہر کی تھی جس کا ہی نتیجہ ہے کہ سارے
ملک میں ڈاکٹر رادھاکرشنن کی پیدائش کے دن 5 ستمبر کویوم اساتذہ کے طور پر
منایا جاتا ہے۔ |
|