خوش رہنا بھی ضروری ہے۔۔

خوشیاں بکھیریں، خوشیاں پھیلائیں،حقیقی خوشی غم کا تریاق ہے، اپنے ارد گرد جہاں بھی آپ رہتے ہیں ، کام کرتے ہیں، ہمیشہ دوسروں سے مسکرا کے ملیں، ان کے حالات کو جانیں، اگر کسی مشکل میں ہیں تو ان کی مدد کریں، ان کے پاس تھوڑی دیر کے لئے بیٹھیں اور ان کی بات اور مسئلے کو توجہ سے سنیں انہیں اچھے مشورے دیں، یقیناً لوگوں کی تکلیفوں میں ان کا ساتھ دینا، آگے چل کر ایک ایسے اجتماعی عمل کو جنم دے گا جس سے ایک مثبت سماجی تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
انسان صدیوں سے اس کرہ ارض پہ زندگی بسر کر رہا ہے،طرح طرح کے علوم، فلسفے، مذاہب، قوانین، قصے، کہانیاں وجود میں آئیں، سب کا مطمع نظر ایک ہی تھا، کہ انسان کیسے دنیاوی اور اخروی غموں سے نجات حاصل کر سکتا ہے، اور کیسے مادی و روحانی زندگی میں حقیقی خوشی حاصل کر سکتا ہے۔یہ سچ ہے کہ اگر زندگی خوشیوں اور راحتوں سے بھر پور ہے تو انفرادی اور اجتماعی زندگی ارتقاء کا سفر تیزی سے طے کرتی ہے، اور اگر نفرادی زندگی میں خوشی کا کوئی عمل دخل نہ ہو ، غم و الم کے ڈیرے ہوں تو نہ صرف انفرادی سطح پہ ترقی کا عمل رک جاتا ہے، بلکہ اجتماعی زندگی بھی اس سے متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔غم وخوشی کا یہ سلسلہ انسانی معاشرے میں صدیوں سے چل رہا ہے۔ عصر حاضر میں انسانی معاشرے کی صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف ٹیکنالوجی کے ارتقاء نے انسانوں کو مشین بنا کر رکھ دیا ہے، دوسری طرف سیاسی اور معاشی نظاموں نے انسا نی معاشروں کو غم معاش میں مبتلا کر کے ان سے خوشیاں چھین لی ہیں، ایک طرف معاشرے کا ایک مختصر طبقہ اپنے سرمائے کے بل بوتے پر زندگی کی تمام سہولیات سے آراستہ پیراستہ ماحول میں رہ رہا ہے تو دوسری طرف اس کرہ ارض کی اکثریت امن وسلامتی، مناسب صاف ماحول ، مناسب رہائش ، مناسب خوراک، مناسب تعلیم، مناسب علاج اور عزت نفس سے محروم ہے زندگی گذارنے پہ مجبور کر دی گئی ہے، دراصل انسانوں کی خوشیاں ان کی مادی زندگی اور پھر روحانی زندگی کی حالت پہ منحصر ہوتی ہیں۔ اور فی زمانہ انسانی معاشرے میں سیاسی ومعاشی نظام ان دونوں حالتوں کو متاثر کرتا ہے۔جو معاشرہ عدم تحفظ کا شکار ہو، جو معاشرہ بھوک کا شکار ہو، جو معاشرہ ظلم و نا انصافی کاشکار ہو ، تو وہاں خوشیاں کہاں ڈیرے جما سکتی ہیں؟

اس وقت ہم بھی ایسے ہی معاشرے کے باسی ہیں، جہاں ہمارے حالات روز مرہ زندگی میں ڈپریشن، عدم تحفظ کا احساس، سوچوں کی یلغار، کام کا بوجھ، بیروز گاری وغیرہ ہماری صحت پہ برا اثرا ڈالتے ہیں، ایسی صورتحال میں لوگوں کے لئے خوشی کا ایک ایک لمحہ انتہائی قیمتی قرار پاتا ہے۔اگر خوشی و مسرت کے لمحات میسر نہ آئیں تو انسانی صحت متاثر ہونے لگتی ہے ،خوش رہنے کے لئے ایساماحول بنانا ضروری ہے کہ جس سے انسان کے اندر خوشی پھوٹے۔ اپنے ارد گرد کے ڈپریشن کو کم کرنے کے لئے ہمیں بھی ایسی حکمت عملی اپنانی چاہئے تاکہ ماحول کو خوشگوار بنایا جا سکے، تاکہ ذہن مثبت تبدیلی کے لئے تیار ہو سکیں، اس کے لئے ا پنے چہرے پہ مسکراہٹ رکھنا چاہئے، ہمارے پیارے نبی ﷺ فرماتے ہیں’’ لوگوں سے مسکرا کے ملنا بھی صدقہ‘‘ لہذا دوسروں سے خندہ پیشانی سے ملنا ، ماحول کو خوشگوار بناتا ہے، آپس کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں۔اس سے معاشرے میں خوشیاں پھیلتی ہیں۔عام زندگی میں مل بیٹھ کرہنسنا ہنسانا زندگی کا احساس دلاتے ہیں اور زندگی کو تندرست و توانا رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ڈاکٹر بھوشن گوئیل لکھتے ہیں
’’ہنسنا ایک ایسا درخشاں وصف ہے جو جانداروں میں صرف انسان کے پاس ہے۔ہنسنا،مسکرانا غصہ پر فتح حاصل کراتا ہے۔جو انسان ہمیشہ خوش رہتا ہے وہ سب کو پیارا لگتا ہے۔تندرست رہنا ہے تو دل کھول کر ہنسیں ،ہر روز آئینہ کے سامنے پانچ منٹ مختلف انداز میں ہنسنے کی مشق کریں۔ہنسنے سے تناؤ دور ہوتا ہے ،دل کو تسکین ملتی ہے۔دل کے امراض سے حفاظت ہوتی ہے چہرہ خوبصورت بنتا ہے۔۔۔۔کوشش کیجئے کہ بات کرتے ہوئے ،چلتے ہوئے،بیٹھے ہوئے،کھڑے ہوئے اور ہر وقت آپ اپنے چہرے پر مسکراہٹ رکھیں۔اس سے آپ ہمیشہ مثبت رہیں گے،کیونکہ مسکرانے کی سائنسی(Chemical)بناوٹ میں اس طرح کی تبدیلی ہو جاتی ہے کہ تناؤ میں رہنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ‘‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کے دور میں ہنسی کے ذریعے مریضوں کاباقاعدہ علاج بھی کیا جاتا ہے مثلاً’’ بر طانیہ کے تھیورڈ را چلڈرن ٹرسٹ میں لوگوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ کس طرح مریض بچوں کو ہنسا سکتے ہیں ٹرسٹ کی طرف سے بر طانیہ کے8بڑے ہسپتالوں میں یہ ’’ہنسانے والے معالج‘‘بھیجے جاتے ہیں۔جو ہسپتال کے آؤٹ ڈور میں موجود بچے جو اپنے علاج کے لئے آتے ہیں ان کی حرکات کو دیکھ کر ہنسنے لگتے ہیں پھر یہ لوگ وارڈ میں جاتے ہیں اور علاج کے لئے داخل کئے گئے بچوں ہنسانے کے لئے مزاحیہ باتیں کرتے ہیں لطیفے سناتے ہیں اور ایسی حرکتیں کرتے ہیں جس سے بچے بلا اختیار ہنسنے لگتے ہیں ۔ ‘‘

یونیورسٹی آف میریلینڈ سکول آف میڈیسن کے مطابق ’’ہنسی کا اثر 12سے 24گھنٹے تک قائم رہتا ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہنسی ہومیو پیتھک اور ایلو پیتھک دواؤں سے زیادہ دیرپا اثر کی حامل ہوتی ہے کیونکہ ہو میو پیتھک یا ایلو پیتھک دوا دن میں 3بار لی جاتی ہے جبکہ ایک بار کی ہنسی کا اثر 24گھنٹے رہتا ہے۔‘‘جدید تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ہنسنا صحت کے لئے مفید ہے۔اور کئی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کا باعث بھی ہے۔اس حوالے سے یونیورسٹی آف میری لینڈ میں کی جانے والی ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ہنسنا دل کے لئے مفید ہے۔‘‘ ریسرچ میں150نارمل افراد اور 150ایسے مریضوں سے جن کا بائی پاس ہو چکا ہے یا جنہیں دل کا دورہ پڑ چکا ہے۔کچھ سوالات پوچھے گئے معلوم ہوا کہ دل کے امراض کے شکار افراد بہت کم ہنسا کرتے تھے حتیٰ کہ وہ خوشگوار ماحول میں بھی سنجیدہ رہنے کو ترجیح دیتے تھے گویا کم ہنسنے کی وجہ سے ہی یہ لوگ دل کے امراض کا شکار ہوئے تھے۔‘‘

کیلیفورنیا میں یو سی ایل اے سکول آف میڈیسن میں ڈاکٹر’’ مگر گریٹ سٹبر‘‘ اور ان کی ٹیم نے کینسر اور ایڈز میں مبتلا7سے14سال کے بچوں پر ریسرچ سے ثابت کیا کہ مزاح سنگین بیماریوں کے خلاف دفاع میں معاون ثابت ہو سکتا ہے‘‘ اس سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ ہنسی بیماریوں سے بچاؤ اور علاج کے لئے بہت ضروری عنصر ہے۔

ہنسنے اور خوش رہنے سے انسانی ذہن اور اعصاب پہ بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس سے ان کا ذہن جسمانی اور دیگر پریشانیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا،آج معاشرے میں بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جو ڈپریشن کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور ان کا علاج خوش رہنا ہے، مثلا دل کی بیماریاں، شوگر ودیگر نفسیاتی بیماریاں شامل ہیں۔ ہنسی ایک ایسا آلہ ہے جو جسم کی تکلیفوں کا احساس کم کر دیتا ہے۔یہ ایسی دوا ہے جس کے لئے پیسوں کی ضرورت نہیں ہوتی اور جو زندگی جینے کی خواہش میں اضافہ کرتی ہے زمانے کی ترقی کے ساتھ مسائل میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ایسے میں حالات کا مقابلہ کرنے اور زمانے سے قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لئے انسان کاذہنی و جسمانی طور پر صحت مند ہونا ضروری ہے اور جب صحت برقرار رکھنے کا ایک مفت و مفید ذریعہ ہمارے پاس موجود ہو تو ہمیں اس سے ضرور استفادہ کرنا چاہئے۔اور اپنے گرد و پیش میں ایسا ماحول ہمیشہ رکھنا چاہئے جہاں ہنسی کے پھول بکھرتے رہیں۔

یقیناًہنسنا اور مسکرانا، خوشیاں بکھیرنا ہماری صحت کو بہتر بناتا ہے ، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ خوشی کی اس حقیقی کیفیت کو اگر ہم اپنے اندر محسوس کریں جو نہ صرف ہمیں جسمانی طور پہ صحت مند رکھے بلکہ ہمیں روحانی سکون بھی عطا کرے۔حقیقی خوشی وہ ہوتی ہے جو روح میں اتر جائے، اس حقیقی خوشی کے لئے نہ صرف انسانوں کے چہروں پہ ہر وقت مسکراہٹ لائی جائے بلکہ ان کے دکھ سکھ میں شریک ہو کر ان کے چہروں پہ دائمی مسکراہٹ کا اہتمام بھی کیا جائے، اس تنگدستی، پریشان حالی، اور بے انصافی کے ماحول میں دوسرے پریشان حال لوگوں کی مدد کر کے وہ روحانی خوشی حاصل کی جا سکتی ہے جو نہ ہی کسی مزاحیہ ماحول سے ملتی ہے اور نہ ہنسنے ہنسانے کے عمل سے ۔ اگر ہم اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو بہت سے لوگ کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا نظر آتے ہیں، ہمیں ان کے پاس جانا چاہئے، ان کی اپنی استطاعت کے مطابق مدد کرنی چاہئے، یہ مدد کسی بھوکے کو کھانا کھلا کے بھی ہو سکتی ہے، کسی کا بوجھ اٹھا کے بھی ہو سکتی ہے، کسی کی مالی مدد کر کے بھی ہو سکتی ہے، ہسپتال میں کسی مریض کو دوا دلا کے بھی ہو سکتی ہے، کسی بیمار کی عیادت کر کے بھی ہو سکتی ہے، کسی سے اچھی گفتگو کر کے بھی ہو سکتی ہے، کسی کو درست راستہ بتا کے بھی ہو سکتی ہے، کسی زخمی کو ہسپتال پہنچا کر بھی ہو سکتی ہے، کسی کی عزت بچا کے بھی ہو سکتی، کسی کو انصاف دلا کے بھی ہو سکتی ہے۔اپنی گلی یا محلے میں صفائی کا اہتمام کر کے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہر وہ عمل جس سے آپ دوسروں کے چہروں پہ مسکراہٹ لا سکتے ہیں اور انہیں سکون مہیا کر سکتے ہیں وہ عمل آپ کو حقیقی خوشیوں سے ہمکنار کرتا ہے۔ یقیناً دوسروں کے دکھ درد بانٹنے والا ہی در اصل حقیقی خوشی اورروحانی سکون حاصل کرتا ہے۔ہمیں اس حقیقی خوشی کے حصول کے لئے ضرور کوشش کرنی چاہئے یہ تجربہ کر کے دیکھا جا سکتا ہے ،کبھی کسی پریشان حال ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کر کے دیکھیں، اس کے چہرے پہ پیدا ہونے والی خوشی آپ کو حقیقی خوشی سے ہمکنار کر دے گی۔

خوشیاں بکھیریں، خوشیاں پھیلائیں،حقیقی خوشی غم کا تریاق ہے، اپنے ارد گرد جہاں بھی آپ رہتے ہیں ، کام کرتے ہیں، ہمیشہ دوسروں سے مسکرا کے ملیں، ان کے حالات کو جانیں، اگر کسی مشکل میں ہیں تو ان کی مدد کریں، ان کے پاس تھوڑی دیر کے لئے بیٹھیں اور ان کی بات اور مسئلے کو توجہ سے سنیں انہیں اچھے مشورے دیں، یقیناً لوگوں کی تکلیفوں میں ان کا ساتھ دینا، آگے چل کر ایک ایسے اجتماعی عمل کو جنم دے گا جس سے ایک مثبت سماجی تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136278 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More