جادو جنات اور علاج قسط نمبرA13

*کتاب:شریر جادوگروں کا قلع قمع کرنے والی تلوار*
*مئولف: الشیخ وحید عبدالسلام بالی حفظٰہ للہ*'
*ترجمہ: ڈاکٹر حافظ محمد اسحٰق زاھد*-
*مکتبہ اسلامیہ*
*یونیکوڈ فارمیٹ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان*

اہل کتاب کے جادوگر کا حکم:
امام ابو حنیفہؒ کہتے ہیں کہ ساحر اہل کتاب بھی واجبُ القتل ہے، کیونکہ ایک تو اس سلسلے میں وارد احادیث تمام جادوگروں کو شامل ہیں جن میں اہل کتاب کے جادوگر بھی آ جاتے ہیں اور دوسرا اس لئے کہ جادو ایک جرم ہے جس سے قتلِ مسلم لازم آتا ہے اور جس طرح قتلِ مسلم کے بدلے میں ذمی کو قتل کر دیا جاتا ہے، اسی طرح جادو کےبدلےمیں بھی اسے قتل کر دیا جائے گا۔ (المغنی:ج10،ص115)
امام مالکؒ کہتے ہیں کہ ساحرِ اہل کتاب واجبُ القتل نہیں ہے، اِلا یہ کہ وہ جادو کے عمل سے کسی کو قتل کر دے تو اسے بھی قتل کر دیا جائے گا۔
اور امام شافعیؒ کا مسلک بھی وہی ہے جو امام مالکؒ کا ہے۔ (فتح الباری:ج10،ص236)
امام ابن قدامہؒ نے بھی امام مالکؒ و امام شافعیؒ کے مذہب کی تائید کی ہے، نیز کہتے ہیں کہ آنحضورﷺ نے لبید بن اعصم کو قتل نہیں کیا تھا حالانکہ اس نے آپﷺ پر جادو کیا تھا، سوساحرِ اہل کتاب واجب القتل نہیں، لیکن اس کے جادو کے عمل سے کوئی آدمی قتل ہو جائے تو اسے قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے گا۔ اور اس بات کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اہل کتاب کو شرک کی وجہ سے قتل نہیں کیا جاتا حالانکہ شرک جادو سے بڑا جرم ہے، تو جادو کے جرم پر بھی ساحرِ اہل کتاب واجب القتل نہیں ہو گا۔ (المغنی:ج10،ص115)
کیا جادو کا علاج جادو سے کیا جا سکتا ہے؟
1۔ امام ابن قدامہؒ کہتے ہیں:
“جادو کا توڑ اگر قرآن سے کیا جائے یا ذکر اذکار سے یا ایسے کلام سے کیا جائے جس میں شرعاً کوئی قباحت نہ ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اگر جادو کا علاج جادو سے کیا جائے تو اس بارے میں احمد بن حنبلؒ نے توقف کیا ہے۔” (المغنی:ج10،ص114)
2۔ حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں:
“رسول اکرمﷺ کا یہ فرمان: ﴿ النشرۃمن عمل الشیطان ﴾
“جادو کا توڑ شیطانی عمل ہے”۔۔۔۔۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جادو کا علاج اگر خیر کی نیت سے ہو تو درست ہے ورنہ درست نہیں ہے۔”
حافظ ابن حجر نے مذکورہ بالا حدیث بحوالۂ احمد اور ابوداؤد ذکر کرتے ہوئے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ (الفتح:ج10ص233)
ہم سمجھتے ہیں کہ جادو کے علاج کی دو قسمیں ہیں:
1۔ جائز علاج، جو قرآنِ مجید اور مسنون اذکار اور دعاؤں سے ہوتا ہے۔
2۔ ناجائز علاج، جو شیطانوں کا تقرب حاصل کر کے اور انہیں مدد کےلئے پکار کر جادو ہی کے ذریعے ہوتا ہے، اور یہی علاج آپﷺ کی مذکورہ حدیث سے مراد ہے، نیز ایسا علاج کیسے درست ہو سکتا ہے جبکہ آپﷺ نے جادوگروں کے پاس جانے سے روکا ہے اور ان کی باتوں کی تصدیق کرنے کو کفر قرار دیا ہے!!
امام ابن قیمؒ نے بھی جادو کے علاج کی یہی دو قسمیں ذکر کی ہیں اور ان میں سے پہلی کو جائز اور دوسری کو ناجائز قرار دیا ہے۔
کیا جادو کا علم سیکھنا درست ہے؟
1۔ حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں:
“اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿ اِنَّمَا نَحۡنُ فِتۡنَۃٌ فَلاَ تَکۡفُرۡ ﴾ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جادو کا علم سیکھنا کفر ہے۔” (فتح الباری:ج10،ص225)
2۔ ابن قدامہؒ کا کہنا ہے:
“جادو سیکھنا اور سکھانا حرام ہے، اور اس میں اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، سو اسے سیکھنے اور اس پر عمل کرنے سے آدمی کافر ہو جاتا ہے خواہ اس کی تحریم کا عقیدہ رکھے یا اِباحت کا۔” (المغنی:ج10،ص106)
3۔ ابو عبداللہ رازیؒ کہتے ہیں:
“جادو کا علم برا ہے نہ ممنوع ہے، اور اس پر محقق علماء کا اتفاق ہے، کیونکہ ایک تو علم بذات خود معزز ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿ قُلۡ ھَلۡ یَسۡتَوِیۡ الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَالَّذِیۡنَ لاَ یَعۡلَمُوۡنَ ﴾ (کہہ دیجئے: کیا عالم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟) اور دوسرا اس لئے کہ اگر جادو کا علم حاصل کرنا درست نہ ہوتا تو اس میں اور معجزہ میں فرق کرنا نا ممکن ہوتا، سو ان دونوں میں فرق کرنے کےلئے جادو کا علم سیکھنا واجب ہے، اور جو چیز واجب ہوتی ہے وہ حرام اور بری کیسے ہو سکتی ہے؟” (ابن کثیر:ج1،ص145)
4۔ حافظ ابن کثیرؒ امام رازی کے اِس مسلک کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“رازی کا کلام کئی اعتبارات سے قابل مؤاخذہ ہے جو درج ذیل ہیں:
1۔ ان کا یہ کہنا کہ جادو کا علم حاصل کرنا برا نہیں، تو اس سے ان کی مراد اگر یہ ہے کہ جادو کا علم حاصل کرنا عقلاً برا نہیں، تو ان کے مخالف معتزلہ اس بات سے انکار کرتے ہیں، اور اگر ان کی مراد یہ ہے کہ جادو سیکھنا شرعاً برا نہیں، تو اس آیت ﴿ وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوْ االشَّیَاطِیْنُ۔۔۔۔۔ ﴾ میں جادو سیکھنے کو برا قرار دیا گیا ہے، نیز صحیح مسلم میں رسول اکرمﷺ کا فرمان یوں مروی ہے:
“جو بھی کسی جادوگر یا نجومی کے پاس آیا اس نے شریعتِ محمدیہ سے کفر کیا۔”
اور سنن اربعہ میں آپﷺ کا دوسرا فرمان یوں آتا ہے:
“جس نےگرہ باندھی اور اس میں جھاڑ پھونک کی تو گویا اس نے جادو کیا۔”
2۔ ان کا یہ کہنا کہ جادو سیکھنا ممنوع بھی نہیں اور اس پر محقق علماء کا اتفاق ہے تو مذکورہ آیت اور حدیث کی موجودگی میں یہ ممنوع کیسے نہیں؟ اور محقق علماء کا اتفاق تو تب ہو جب اس سلسلے میں ان کی عبارات موجود ہوں، تو کہاں ہیں وہ عبارات؟
3۔ آیت ﴿ قُلْ ھَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ﴾ میں جادو کے علم کو داخل کرنا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ اس میں صرف علم شرعی رکھنے والے علماء کی تعریف کی گئی ہے۔
4۔ یہ کہنا کہ “جادو اور معجزہ کے درمیان فرق کرنے کےلئے علم جادو حاصل کرنا واجب ہے، کیسے درست ہو سکتا ہے جبکہ صحابہ کرامؓ تابعینؒ اور ائمہ کرام جادو کا علم نہ رکھنے کے باوجود معجزات کو جانتے تھے اور ان میں جادو میں فرق کر لیتے تھے۔” (ابن کثیر:ج1،ص145)
5۔ابو حیان البحر المحیط میں کہتے ہیں:
جادو کا علم اگر ایسا ہو کہ اس میں ستاروں اور شیاطین جیسے غیراللہ کی تعظیم ہو اور ان کی طرف ایسے کام منسوب کئے جائیں جنہیں صرف اللہ ہی کر سکتا ہے، تو ایسا علم حاصل کرنا بالاجماع کفر ہے، اور اسی طرح اگر اس علم کےذریعے قتل کرنا اور خاوند بیوی اور دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنا مقصود ہو تو تب بھی اسے حاصل کرنا قطعاً درست نہیں، اور اگر جادو کا علم وہم، فریب اور شعبدہ بازی کی قسم سے ہو تو بھی اسے نہیں سیکھنا چاہئے کیونکہ یہ باطل کا ایک حصہ ہے، اور اس کے ذریعے کھیل تماشہ اور لوگوں کا دل بہلانا مقصود ہو تو تب بھی اسی سیکھنا مکروہ ہے۔” (روائع البیان:ج1،ص85)
جاری ہے.....
imran shahzad tarar
About the Author: imran shahzad tarar Read More Articles by imran shahzad tarar: 43 Articles with 42492 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.