پردہ قرآن وحدیث سے‎

پردہ کو قرآن و حدیث سے واضح کیا گیا ہے
اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایاہے کہ۔۔
ترجمہ کنزالایمان۔اورمسلمان عورتوں کوحکم دواپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اوراپنی پارسائ کی حفاظت کریں اوراپنابناو نہ دکھائیں مگرجتناخودہی ظاہرہے اوردوپٹےاپنے گریبانوں میں ڈالے رہیں اوراپناسنگارظاہرنہ کریں مگراپنے شوہروں پریااپنے باپ یاشوہروں کے باپ یااپنے بیٹے یاشوہروں کے بیٹے یااپنے بھائ یااپنے بھتیجے یااپنے بھانجے یااپنے دین کی عورتیں یااپنی کنیزیں جواپنے ہاتھ کی ملک ہوں یانوکربشرطیکہ شہوت والے مردنہ ہوں یاوہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اورزمین پرپاوں زورسے نہ رکھیں کہ جاناجاے ان کا چھپاہواسنگار اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو سب کے سب اس امیدپر کہ تم فلاح پاو۔
[پارہ ۱۸ سورہ النور آیت ۳۱]
اورارشادفرمایاکہ۔
ترجمہ کنزالایمان ۔اوراپنے گھروں میں ٹھہری رہواوربے پردہ نہ رہوجیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔۔
[پارہ ۲۲ سورہ الاحزاب آیت ۳۳]
وہ اسلام جس نے اپنےماننے والوں کو پردے کا ایسا نظام عطا فرمایا ہے کہ جس میں اسلامی بہنوں کی عزت و آبرو مکمل محفوظ ہے لیکن افسوس اس دورپرفتن میں اسلامی بہنوں نے پردے کی اہمیت کونکارتے ہوے نہ صرف بےپردگی کررہی ہیں بلکہ اس گناہ میں یہ صنف نازک اپنی سہیلیوں کے ساتھ مقابلہ کرتی ہیں یہی بے پردگی ہے جس کی وجہ سے اسلامی بہنیں باہر نکلنےپرخودکوغیرمحفوظ محسوس کرتی ہیں ۔
پردے کا حکم کب نازِل ہوا؟
پردے کا حکْم کب نازِل ہوا؟ اس کے مُتَعَلِّق شیخِ کبیر، علّامہ شہیر حضرت سَیِّدُنا مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی اپنی کتاب سیرت سید الانبیا میں فرماتے ہیں: اِسی سال (یعنی 4ہجری) ذی قعدہ کے مہینہ میں اُمُّ المومنین حضرت زینب بنت جحش رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاکی کاشانَۂ نبوّت میں رُخصتی کے دن مسلمان عورتوں کے لیے پردہ کا حکْم نازِل ہوا۔ بعض عُلَمائے کِرام کا کہنا ہے کہ یہ حکْم 2ہجری کو نازِل ہوا، (مگر )قولِ اوّل (یعنی پہلا قول ہی)راجِح ہے۔[2] اسی طرح حضرت سَیِّدُنا امام ابن حَجَر عَسْقَلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی بھی فتح الباری میں اس حکْم کے نازِل ہونے کے مُتَعَلّق چند اَقوال ذکر کر کے ایک قول کو ترجیح دیتے ہوئے اِرشَاد فرماتے ہیں:ان تمام اَقوال میں سب سے زیادہ مشہور قول یہی ہے کہ پردے کا حکْم 4 ہجری میں نازِل ہوا۔
(فتح الباری،کتاب المغازی،باب غزوۃانمار،۷/۵۳۷،تحت الحدیث:۴۱۴۰)
پردہ و حجاب کیا ہے؟
حِجاب عربی زبان کے لفظ حَجْبٌ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے کسی کو کسی شے تک رسائی حاصِل کرنے سے روکنا اورحِجاب کے مُتَعَلِّق علّامہ شریف
جُرجانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی کتاب التعریفات میں فرماتے ہیں کہ حِجاب سے مُراد ہر وہ شے ہے جو آپ سے آپ کا مقصود چھپا دے۔
(کتاب التعریفات، حرف الحاء، ص ١٤٥)
یعنی آپ ایک شے کو دیکھنا چاہیں مگر وہ شے کسی آڑ یا پردے میں ہو تو اس آڑ یا پردےکو حِجاب کہتے ہیں۔حِجاب کا یہ مفہوم قرآنِ کریم میں کئی مَقامات پر مذکور ہے، جیسا کہ پارہ 23 سورہ ص کی آیت نمبر 32 میں اِرشَادہوتا ہے:
حَتّٰی تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ
ترجمۂ کنزُ الایمان:یہاں تک کہ نگاہ سے پردے میں چُھپ گئے۔
نیز عورتوں کے حِجاب سے کیا مُراد ہے اس کے مُتَعَلِّق حضرت سَیِّدُنا امام ابن حَجَر عَسْقَلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی فرماتے ہیں:عورتوں کے حِجاب سے مُراد یہ ہے (یعنی وہ اس طرح پردہ کریں)کہ مَرد انہیں کسی طرح دیکھ نہ سکیں۔ (فتح الباری، کتاب التفسیر، باب قوله (وَلَوْلَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوۡہُ قُلْتُمۡ)، ٨/٥٨١، تحت الحدیث:٤٧٥٠)
عورت کا مَطلب ہے: مَایُعَارُ فیِ اِظْهَارِہٖ۔یعنی (جسم کا وہ حصّہ)جس کا ظاہِر ہونا قابلِ عار و شَرْم ہو
(مراٰۃ المناجیح ،پردے کے احکام،دوسری فصل، ۵/۱۶)
ایک رِوایَت میں ہے:اَلْـمَرْأَةُعَوْرَةٌ۔ عورت عورت ہے۔(ترمذی،کتاب الرضاع،١٨-باب، ص٣٠٤، حدیث:١١٧٣)
مطلب یہ ہے کہ عورت مردِاجنبی کیلئے سر سے پاؤں تک لائقِ پردہ (یعنی چھپانے کی چیز)ہے.(مراٰۃ المناجیح ،پردے کے احکام،پہلی فصل، ۵/۱۳)
ور چھپایا اسی چیز کو جاتا ہے جس کو غیر کی نظروں سے بچانا مقصود ہوتا ہے اور غیر سے مُراد کون ہے؟ اس کے مُتَعَلِّق اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَادفرمایا ہے:عورت پردے میں رہنے کی چیز ہے،فَاِذَا خَرَجَتْ اِسْتَشْرَفَھَا الشَّیْطَانُ۔یعنی جب وہ باہَر نکلتی ہے تو شیطان اُسے نِگاہ اٹھا اٹھا کر دیکھتا ہے۔(ترمذی،کتاب الرضاع،١٨-باب، ص٣٠٤، حدیث:١١٧٣)
اِسلام نے عورت کو پردے و حِجاب کی صُورَت میں جو عَظَمَت و سربُلَندی عطا کی، عہدِ رسالت کی بُلَند ہِمَّت عورتوں نے اسے اس قدر اپنایا کہ حِجاب آزاد مسلمان عورت کی عَلامَت بن گیا۔
پردہ صرف عورتوں کے لیے ہی کیوں؟
اسلامی زندگی صَفْحَہ 105پر عورتوں کے پردہ کرنے کے پانچ۵اَسباب کچھ یوں تحریر ہیں:
عورت گھر کی دولت ہے اور دولت کو چھپا کر گھر میں رکھا جاتا ہے، ہر ایک کودِکھانے سے خطرہ ہے کہ کوئی چوری کرلے۔اسی طرح عورت کو چھپانا اور غیروں کو نہ دِکھانا ضَروری ہے۔
عورت گھر میں ایسی ہے جیسے چَمَن میں پھول اور پھول چَمَن میں ہی ہَرا بھرا رہتا ہے، اگر توڑ کر باہَر لایا گیا تو مُرجھا جائے گا۔اسی طرح عورت کا چَمَن اس کا گھر اور اسکے بال بچے ہیں،اس کو بلاوجہ باہَر نہ لاؤ ورنہ مُرجھا جائے گی۔عورت کا دِل نِہَایَت نازُک ہے، بَہُت جلد ہر طرح کا اَثَر قبول کرلیتا ہے، اس لیے اس کو کچی شیشیاں فرمایا گیا۔ ہمارے یہاں بھی عورت کو صِنْفِ نازُک کہتے ہیں اور نازُک چیز وں کو پتھروں سے دُور رکھتے ہیں کہ ٹوٹ نہ جائیں۔غیروں کی نگاہیں اس کے لیے مضبوط پتھر ہیں، اس لیے اس کو غیروں سے بچاؤ۔
عورت اپنے شوہر اور اپنے باپ دادا بلکہ سارے خاندان کی عزّت اور آبرو ہے اور اس کی مِثال سفید کپڑے کی سی ہے،سفید کپڑے پر معمولی سا داغ دھبہ دور سے چمکتا ہے اور غیروں کی نگاہیں اس کے لیے ایک بدنُما داغ ہیں،اس لیے اس کو ان دھبوں سے دُور رکھو۔
عورت کی سب سے بڑی تعریف یہ ہے کہ اس کی نِگاہ اپنے شوہر کے سِوا کسی پر نہ ہو، اس لیے قرآنِ کریم نے حُوروں کی تعریف میں فرمایا: قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ ۙ (پ٢٧،الرحمٰن:٥٦)اگر اس کی نِگاہ میں چند مرد آگئے تو یوں سمجھو کہ عورت اپنے جوہَر کھوچکی ،پھر اس کا دِل اپنے گھر بار میں نہ لگے گا جس سے یہ گھر آخر تباہ ہوجائے گا۔
کیا عورتوں کا گھروں میں رہنا ظلم ہے؟
بعض لوگ اِعْتِراض کرتے ہیں کہ عورتوں کا گھروں میں قید رکھنا ان پر ظلم ہے جب ہم باہَر کی ہوا کھاتے ہیں تو ان کو اس نعمت سے کیوں محروم رکھا جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ گھر عورت کیلئے قید خانہ نہیں بلکہ اس کا چَمَن ہے گھر کے کاروبار اور اپنے بال بچّوں کودیکھ کر وہ ایسی خوش رہتی ہیں جیسے چَمَن میں بُلبل۔ گھر میں رکھنا اس پر ظلم نہیں،بلکہ عزّت و عِصْمَت کی حِفَاظَت ہے اس کو قدرت نےاسی لیے بنایا ہے۔بکری اسی لیے ہے کہ رات کو گھر رکھی جائے اور شیر، چیتا اور مُحافِظ کتا اس لیے ہے کہ ان کو آزاد پھرایا جائے، اگر بکری کو آزاد کیا تو اس کی جان خطرے میں ہے اس کو شِکاری جانور پھاڑ ڈالیں گے۔(اسلامی زندگی، ص ۱۰۶، ملتقطاً)
پردہ و حجاب گویا اسلامی شعار ہے۔
پردہ و حِجاب گویا اِسلامی شعار کی حیثیت رکھتا ہے،کیونکہ اِسلام سے قبل عورت بے پردہ تھی اور اِسلام نے اسے پردہ و حِجاب کے زیور سے آراستہ کر کے عَظَمَت و کِردار کی بُلَندی عطا فرمائی ، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَقَرْنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوۡلٰی (پ ٢٢،الاحزاب:٣٣)
ترجمۂ کنزُ الایمان:اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہِلیَّت کی بے پردگی۔
خَلیفۂ اعلیٰ حضرت صَدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سَیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی اس آیتِ مُبارَکہ کے تَحت تفسیر خزائن العرفان میں فرماتے ہیں:اگلی جاہِلیَّت سے مُراد قَبلِ اِسلام کا زمانہ ہے، اُس زمانہ میں عورَتیں اِتراتی نکلتی تھیں، اپنی زینت ومَحَاسِن (یعنی بناؤ سنگھار اور جسم کی خوبیاں مَثَلاً سینے کے اُبھار وغیرہ) کا اِظْہَار کرتی تھیں کہ غیر مَرد دیکھیں۔لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اَعضااچھّی طرح نہ ڈھکیں۔(خزائن العرفان، پ۲۲، الاحزاب،:۳۳، ص ۷۸۰)
اَفسوس! مَوجُودہ دَور میں بھی زمانۂ جاہِلیَّت والی بے پردَگی پائی جارہی ہے۔ یقیناً جیسے اُس زمانہ میں پردہ ضَروری تھا وَیسا ہی اب بھی ہے۔
پردہ و حجاب کے درجات۔
پردہ و حِجاب کے کچھ دَرَجات ہیں۔ چنانچہ،
پہلا درجہ
عورت خود کو گھر کی چار دِیواری اور پردے کا اس طرح پابند بنا لے کہ کسی غیر مرد کی نِگاہ اس پر نہ پڑے، یعنی کوئی غیر محرم اس کے جسم کو تو کجا اس کے لِباس تک کو نہ دیکھ پائے۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَقَرْنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوۡلٰی
(پ ٢٢،الاحزاب:٣٣)
ترجمۂ کنزُ الایمان:اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہِلیَّت کی بے پردگی۔
اسی طرح ایک مَقام پر اِرشَاد ہوتا ہے:
وَ اِذَا سَاَلْتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕپ٢٢،الاحزاب:٥٣)
ترجمۂ کنز ُالایمان:اور جب تم ان سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہَر سے مانگو۔
یہ آیتِ مُبارَکہ اگرچہ اُمَّہَاتُ الْمُومِنِین رضی اللّٰہ تعالٰی عَنْہُنَّ کی شان میں نازِل ہوئی جیسا کہ اس کا شانِ نُزول بیان کرتے ہوئے اِمام بیضاوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں کہ حضرت سَیِّدُنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بارگاہِ نبوّت میں عرض کی: یَا رسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!آپ کی خِدْمَت میں نیک بھی حاضِر ہوتے ہیں اور بد بھی، لہٰذا اُمَّہَاتُ المومنین کو پردے کا حکْم اِرشَاد فرمایئے۔ چنانچہ یہ آیتِ مُبارَکہ نازِل ہوئی۔
(بیضاوی،پ٢٢، الاحزاب)
بَہَرحال سَبَب کچھ بھی ہو پردے کا حکْم نازِل ہونے کے بعد جن صحابیات طیبات رضی اللّٰہ تعالٰی عَنْہُنَّ نے پردے کے اس پہلے دَرَجہ پر عَمَل کرتے ہوئے خود کو گھر کی چار دِیواری تک محدود کر لیا ان میں سے دو۲ کی مثالیں پیشِ خِدْمَت ہیں:
گھر سے جنازہ ہی نکلا۔
ایک بار اُمُّ الْمُومِنِین حضرت سَیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے عرض کی گئی: آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ آپ باقی اَزواج کی طرح حج کرتی ہیں نہ عمرہ؟تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا:میں نے حج و عمرہ کر لیا ہے،چونکہ میرے ربّ نے مُجھے گھر میںرہنے کا حکْم فرمایا ہے۔ لہٰذا خدا کی قسم! اب میں پَیامِ اَجَل(موت)آنے تک گھر سے باہَر نہ نکلوں گی۔ راوی فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا گھر کے دروازے سے باہَر نہ نکلیں یہاں تک کہ آپ کا جنازہ ہی گھر سے نکالا گیا۔(در منثور،پ ٢٢، الاحزاب، تحت الآية:٣٣، ٦/٥٩٩)
جنازے پر کسی غیر کی نظر نہ پڑے۔
اسی طرح مروی ہے کہ حضرت سَیِّدَتُنا فاطِمۃ الزّہرا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے موت کے وَقْت یہ وصِیَّت فرمائی کہ بعدِ اِنتقال مجھے رات کے وَقْت دفن کرنا تاکہ میرے جنازے پر کسی غیر کی نظر نہ پڑے۔
(مدارج النبوت، قسم پنجم، باب اوّل، ذکر وفات فاطمہ زہرا، الجزء الثانی، ص۴۶۱)
کیا پردے کے پہلے درجہ پر عمل صحابیات ہی کا کام تھا؟
پہلے درجہ کے پردے و حِجاب پر عَمَل کرنے والی صحابیات کی سیرتِ طیبہ کا یہ روشن پہلو آج کے دَور کی اِسلامی بہنوں کے لیے عَمَلینَمُونہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر آپ میں سے کوئی یہ سمجھے کہ یہ اِنتہائی مشکل کام ہے اور صِرف صحابیات کے ہی بس کا تھا، اب کسی کے لیے اس طرح کے پردے کا اِہتِمام کرنا ممکن نہیں تو جان لیجئے کہ حقیقت میں ایسا نہیں، کیونکہ تاریخ میں ایسی روشن ضمیر و باپردہ صالحات کا تذکرہ بھی ملتا ہے کہ جن کے دامَن کے دھاگے پر بھی کسی غیر محرم کی نِگاہ نہیں پڑی۔ چنانچہ،
شیخ عَبْدُالحق مُحدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی اَخبارُ الاَخیار میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ خُشک سالی ہوئی، لوگوں نے بَہُت دُعائیں کیں مگر بارِش نہ ہوئی، تو شیخ نظامُ الدِّین ابو المؤیّد رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنی والِدہ ماجِدہ کے پاکیزہ دامَن کا ایک دھاگا اپنے ہاتھ میں لیا اور بارگاہِ ربّ العزّت میں یوں عرض کی:اے اللہ! یہ اُس خاتون کے دامَن کا دھاگا ہے جس پر کبھی کسی نامحرم کی نظر نہ پڑی،مولا اِس کے طُفیل بارانِ رحمت (یعنی رحمت کی بارش) نازِل فرما۔مُحدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں کہ ابھی شیخ نظامُ الدِّین عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالمَتِیننے یہ جُملہ کہا ہی تھا کہ چھما چھم بارِش برسنے لگی۔
(اخبار الاخیار ذکر بعضے از نسائے صالحات،بی بی سارہ،ص۲۹۴)
دوسرا درجہ۔
پردے کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ اگر کسی مجبوری کے تحت گھر کی چار دیواری میں خود کو پابند نہ کر سکیں اور باہَر نکلنا پڑے تو خوب پردے کا اِہتِمام کر کے نکلیں تاکہ کوئی آپ کو پہچان نہ پائے،جیسا کہ حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ عطیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں: شاہِ بنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ہم نو عمر لڑکیوں، حیض والیوں اور پردے والیوں کو حکم دیا کہ عیدَین پر (نماز کے لیے)گھر سے نکلیں مگر حیض والیاں نماز میں شامِل نہ ہوں،بلکہ بھلائی کے کاموں اور مسلمانوں کی دُعا میں شریک ہوں۔ میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!ہم میں سے بعض کے پاس تو جِلْبَاب (برقع یا بڑی چادر) نہیں ۔تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا: اس کی بہن اسے اپنی جِلْبَاب (بڑی چادر کا کچھ حِصّہ)اوڑھا لے۔
(مسلم،کتاب صلاة العیدین، باب ذکراباحة ………الخ، ص٣١٧ ، حدیث:٨٩٠)
صحابیات کا حجاب کیسا تھا؟۔
معلوم ہوا عورت کو گھر میں ہی رہنا چاہئے اور اگر کبھی کسی شرعی مجبوری کی وجہ سے گھر سے باہَر نکلنا بھی پڑے تو بغیر پردہ کے بالکل نہ نکلے اور پردہ بھی ایسا کہ جسم کے کسی حِصّے پر کسی کی نگاہ نہ پڑے۔ چنانچہ اُمّ الْمُومِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا اُمِّ سَلَمَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں کہ جب قرآنِ مجید کی یہآیتِ مُبارَکہ نازِل ہوئی:
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزْوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیۡنَ یُدْنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ (پ٢٢، الاحزاب:٥٩)
ترجمۂ کنزُالایمان:اے نبی اپنی بیبیوں اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادروں کا ایک حصّہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں۔
تو اَنصار کی خواتین سیاہ چادر اَوڑھ کر گھروں سے نکلتیں ، ان کو دُور سے دیکھ کر یوں لگتا کہ ان کے سروں پر کوّے بیٹھے ہیں۔(ابو داود،کتاب اللباس،باب فی قوله يدنين عليهن …الخ، ص٦٤٥، حدیث : ٤١٠١، مفهوماً)
گھر سے باہَر نکلنے کی احتیاطیں۔
معلوم ہوا اگر کسی وجہ سے گھر سے باہَر نکلنا پڑے اور شریعت بھی اس کی اِجازَت دیتی ہو تو گھر سے باہَر نکلتے وَقْت خوب خوب پردے کا اِہتِمام کر لیجئے۔ چنانچہ اس سلسلے میں اِسلامی بہنوں کو کن کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے؟شَرعی اِجازَت کی صُورَت میں گھر سے نکلتے وَقْت اِسلامی بہن غیر جاذِبِ نظر کپڑے کا ڈِھیلا ڈھالا مَدَنی بُرقع اَوڑھے، ہاتھوں میں دستانے اور پاؤں میں جُرابیں پہنے۔ مگر دستانوں اور جُرابوں کا کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ کھال کی رنگت جھلکے۔ جہاں کہیں غیر مردوں کی نظر پڑنے کا اِمکان ہو وہاں چہرے سے نِقاب نہ اٹھائے مَثَلاً اپنے یاکسی کے گھر کی سیڑھی اور گلی مَحلّہ وغیرہ۔ نیچے کی طرف سے بھی اِس طرح بُرقع نہ اٹھائے کہ بدن کے رنگ برنگے کپڑوں پر غیر مردوں کی نظر پڑے۔ واضح رہے کہ عورت کے سر سے لیکر پاؤں کے گِٹّوں کے نیچے تک جسم کا کوئی حصّہ بھی مَثَلاً سر کے بال یا بازو یا کلائی یاگلا یاپیٹ یا پنڈلی وغیرہ اجنبی مَرد (یعنی جسں سے شادی ہمیشہ کیلئے حرام نہ ہو ) پر بلااِجازَتِ شَرْعی ظاہِر نہ ہو بلکہ اگر لباس ایسا مَہِین یعنی پتلا ہے جس سے بدن کی رنگت جھلکے یاایسا چُست ہے کہ کسی عُضْو کی ہَیْئَتْ(یعنی شکل و صورت یا اُبھار وغیرہ)ظاہِر ہو یادوپٹّہ اتنا باریک ہے کہ بالوں کی سیاہی چمکے یہ بھی بے پَردَگی ہے۔میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،ولیِ نِعمت، عظیمُ البَرَکت،عظیمُ المَرتَبت، پروانَۂ شَمْعِ رِسالت،مُجَدِّدِ دین ومِلَّت،حامیِ سنّت، ماحِیِ بِدعَت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت، باعِثِ خَیر وبَرَکت، حضرتِ علامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:جو وَضْعِ لباس (یعنی لباس کی بناوٹ) وطریقَۂ پَوشِش( یعنی پہننے کا انداز)اب عورات میں رائج ہے کہکپڑے باریک جن میں سے بدن چمکتا ہے یا سر کے بالوں یا گلے یا بازو یا کلائی یاپیٹ یا پِنڈلی کا کوئی حصّہ کُھلا ہو یوں توسِوا خاص مَحارِم کے جن سے نکاح ہمیشہ کو حَرام ہے کسی کے سامنے ہونا سخت حرامِ قطعی ہے۔
(فتاوٰی رضویہ، ۲۲ /۲۱۷)
تیسرا درجہ۔
پردے کا تیسرا اور سب سے کم تر دَرَجہ یہ ہے کہ عورت کم از کم اس قدرپردے کا اِہتِمام ضَرور کرے کہ جس قدر رب کی بارگاہ میں حاضِر ہوتے یعنی نماز پڑھتے وَقْت لازِم ہے۔ مُراد یہ ہے کہ نامحرم کے سامنے کم از کم سِتْرِعورت کا خیال ضَرور رکھے۔ چنانچہ،
ستر عورت کیا ہے؟
سلامی بہن کے لیے ان پانچ۵ اَعضا :مُنہ کی ٹکلی ، دونوں ہتھیلیاں اور دونوں پاؤں کے تَلووں کے عِلاوَہ سارا جسم چُھپانا لازِمی ہے۔(در مختار، کتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ص٥٨)
البتّہ اگر دونوں ہاتھ(گِٹّوں تک) ، پاؤں(ٹخنوں تک) مکمَّل ظاہِر ہوں تو ایک مُفْتٰی بِہ قَول پر نَماز دُرُست ہے۔ اگر ایسا باریك کپڑا پہنا جس سے بدن کا وہ حصّہ جس کانَماز میں چُھپانا فَرْض ہے نَظَر آئے یاجِلد(یعنی چمڑی) کا رنگ ظاہِرہو نَماز نہ ہو گی۔(فتاوٰی ھنديه ، کتاب الصلاة ، الباب الثالث فی شروط الصلاة، الفصل الاول، ١/٦٥)
آج کل باریك کپڑوں کا رَواج بڑھتا جارہا ہے، لہٰذا یاد رکھئے!ایساکپڑا پہننا جس سے سِتْرِعورت نہ ہوسکے عِلاوہ نَماز کے بھی حرام ہے۔(بہا رِشريعت ،نماز کی شرطوں كا بيان، ۱/۴۸۰)
جیسا کہ حضرت سیِّدُنا دِحیہ کلبی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتےہیں: ایک مرتبہ رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خِدْمَتِ اَقدس میں سفید رنگ کے مِصری کپڑے لائے گئے جوکہ قدرے باریک تھے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک کپڑا مُجھے عطا کرتے ہوئے اِرشَاد فرمایا:اس کے دو ٹکڑے کر کے ایک سے اپنی قمیص بنا لینا جبکہ دوسرا اپنی بیوی کو دے دینا جسے وہ اپنا دوپٹا بنالے۔ فرماتے ہیں: جب میں واپس مڑا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مُجھےاس بات کی تاکید فرمائی کہ اپنی بیوی کو یہ حکْم بھی دینا کہ اس کے نیچے دُوسرا کپڑا لگا لے تاکہ بَدَن کی صِفَت معلوم نہ ہو۔
(ابو داود،کتاب اللباس، باب فی لبس القباطی للنساء، ص ٦٤٧، حدیث: ٤١١٦)
نیز یہ بھی یاد رکھئے کہ اتنا دَبِیز (یعنی موٹا) کپڑا جس سے بَدَن کا رنگ نہ چمکتا ہو مگر بَدَن سے ایسا چِپکا ہو کہ دیكھنے سے عُضْوْ کی ہَیئَت(ہَے اَتْ یعنی شکل و صورت اور گولائی وغیرہ) معلوم ہوتی ہو۔ایسے کپڑے سے اگرچِہ نَماز ہو جائے گی مگراُس عُضْوْکی طرف دوسروں کو نِگاہ کرنا جائز نہیں۔
(ردالمحتار، کتاب الصلاة، مطلب الی وجه الامرد، ٢/١٠٣)
اور ایسا لِباس لوگوں کے سامنے پہننا بھی مَنع ہے اور عورَتوں کے لیے بدرَجَۂ اَولیٰ مُمانَعَت۔
(بہارِشريعت، نماز کی شرطوں کا بیان، ۱/۴۸۰)
بعض وہ اِسلامی بہنیں جو مَلمَل وغیرہ کی ایسی باریك چادَرنَماز میں اَوڑھتی ہیں جس سے بالوں کی سیاہی(کالک) چمکتی ہے یا ایسا لِباس پہنتی ہیں جس سے اَعضا کا رنگ نظر آتا ہے جانلیں کہ ایسے لِباس میں بھی نَماز نہیں ہوتی۔
پردہ مگر کن سے؟
عورت کا ہر اجنبی بالِغ مرد سے پردہ ہے۔ جومَحرم نہ ہو وہ اجنبی ہوتا ہے، مَحرم سے مُراد وہ مرد ہیں جن سے ہمیشہ کیلئے نِکاح حرام ہو۔ جبکہ مَحارِم میں تین۳ قسم کے اَفراد داخِل ہیں:
نَسَب کی بنا پر جن سے ہمیشہ کے لیے نِکاح حَرام ہو۔
رَضاعت یعنی دُودھ کے رشتے کی بِنا پر جن سے نِکاح حَرام ہو۔
مُصاہَرَت یعنی سُسرالی رِشتے کی وجہ سے جن سے نِکاح حَرام ہو جیسے سُسر کے لیے بہو یا ساس کے لیے داماد۔
(پہلی قسم یعنی)نسبی مَحارِم کے سِوا (باقی)دونوں طرح کے مَحارِم سے پردہ واجِب بھی نہیں اور منع بھی نہیں، خُصُوصاً جب عورت جوان ہویا فتنے کا خوف ہو تو پردہ کرے۔[1]البتہ!سُسرال میں دَیْوَرو جَیٹھ وغیرہ سے کس طرح پردہ کیا جائے؟ سارا دن پردہ میں رَہنا بَہُت دُشوار ،گھر کے کام کاج کرتے وَقت کیسے اپنے چہرہ کوچُھپائے۔
گھر میں رَہتے ہوئے بھی بِالخصوص دَیْوَر وجیٹھ وغیرہ کے مُعامَلہ میں مُحتاط رَہنا ہوگا۔
صحیح بخاری میں حضرت سیّدُنا عُقْبہ بن عامِر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے، پیکرِ شرم وحیا، مکّی مَدَنی مصطَفٰے، محبوبِ خدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: عورَتو ں کے پاس جانے سے بچو۔ایک شخص نے عرض کی:یا رسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!د َیوَرکے مُتَعَلِّق کیا حکْم ہے؟ فرمایا : دَیوَر موت ہے۔
(بخاری ، کتاب النکاح، باب لا یخلون رجل …الخ، ص١٣٤٤، حدیث:٥٢٣٢)
دَیوَر کا اپنی بھابھی کے سامنے ہونا گویا موت کا سامنا ہے کہ یہاں فِتنہ کا اندیشہ زِیادہ ہے۔ مفتیِ اعظم پاکستان حضرتِ وقارِ مِلّت مولانا وقارُ الدّین عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْمُبِین فرماتے ہیں:ان رشتہ داروں سے جو نامَحرم ہیں(پردہ بہت دشوار ہو تو ان سے) چہرہ، ہتھیلی، گٹے، قدم اورٹَخنوں کے علاوہ سِتْر( پردہ ) کرنا ضَروری ہے ،زینت بناؤ سنگھار بھی ان کے سامنے ظاہِر نہ کیا جائے ۔(قا ر الفتاوٰی، ۳/۱۵۱)
بَہَرحال اگر ایک گھر میں رَہتے ہوئے عورت کیلئے قریبی نامَحرم رشتہ داروں سے پردہ دُشْوَارہو تو چہرہ کھولنے کی تو اِجازَت ہے مگر کپڑے ہرگز ایسے باریک نہ ہوں جن سے بدن یا سر کے بال وغیرہ چمکیں یا ایسے چُست نہ ہوں کہ بَدَن کے اَعضا جسم کی ہیئت(ہَے اَت، یعنی صورت و گولائی)
اللہ عزوجل تمام اسلامی بہنوں کو مکمل اسلامی پردہ کرنے کی توفیق عطا فرماے۔۔
آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔
محمد حشیم الدین قادری صدر مدرس
دارالعلوم غریب نواز منڈلہ مدھیہ پردیش انڈیا
رابطہ نمبر 9926714799
 
محمد حشیم الدین قادری
About the Author: محمد حشیم الدین قادری Read More Articles by محمد حشیم الدین قادری: 4 Articles with 18262 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.