دیوار پیچھے پروان چڑھی محبت
(Sardar Ashiq Hussain, Islamabad)
|
آسٹرائیڈ ملٹن Astrid Melton کا تعلق
مشرقی جرمنی اور گیری والٹر Gary Walterکا تعلق مغربی جرمنی سے تھا۔ دونوں
کے خاندان1961 کے بعد مشرقی اور مغربی جرمنی میں منقسم ہو گئے تھے۔ جرمنی
کے دونوں حصوں کے درمیان کشیدگی تھی۔ دیوار برلن منقسم خاندانوں کوباہم
ملنے سے روکتی تھی۔ تقسیم ہونے والے شہریوں کے لئے ایک دوسرے سے ملنا آسان
نہ تھا۔آسٹرائیڈ ملٹن اور گیری والٹر کی شادی کا فیصلہ ہو چکا تھا مگر شادی
میں دیوار برلن حائل تھی، کوششوں کے بعد6 اپریل 1987ء کو آسٹرائیڈ ملٹن اور
گیری والٹر کی شادی دیوار برلن کے دونوں طرف ایک گیٹ پر ممکن ہو سکی ۔
مصنفہ آسٹرائیڈ ملٹن نے اپنی کتاب Behind the Wall میں دیوار برلن سے تقسیم
ہونے والے خاندانوں کے دکھ اور اس مہم کا احاطہ کیا ہے جس کے نتیجے میں
انسانوں کو تقسیم کرنے والی دیوار پاش پاش ہوئی ۔ ملٹن اور گیری اب مشرقی
یا مغربی جرمنی میں نہیں بلکہ جرمنی میں رہتے ہیں اب ان کے راستے میں کوئی
دیوار برلن حائل نہیں ۔مشرقی جرمنی میں 1989 کے موسم گرما میں عوام آزادیوں
کے لئے سڑکوں پر اسی طرح نکل آئے تھے جس طرح ان دنوں کشمیری سڑکوں پر ہیں ۔
ان مظاہروں کے نتیجے میں 9 نومبر 1989 میں عوام نے 28 سال سے برلن کو دو
حصوں میں تقسیم کرنے والی دیوار کو منہدم کر دیا گیا جس سے جرمنی کے دو
حصوں کے ملاپ کا راستہ ہموار ہوا۔ دیوار برلن ٹوٹ گئی تو منقسم ا فراد ایک
دوسرے سے ملنے میں آزاد تھے۔ ہر طرف خوشیاں امڈ ائیں تھیں۔ آسٹرائیڈ ملٹن
اور گیری والٹرہر سال 6 اپریل کو شادی کی سالگرہ اور9 نومبر کوجرمنی ایک
ہونے کی خوشی مناتے ہیں۔ جبکہ دوسرے جرمن شہری 1961 کے بعد سے برلن شہر کو
28 سال تک دو حصوں میں تقسیم رکھنے والی 15 کلو میٹر طویل دیوار برلن کی
جگہ پر 'روشنی کی دیوار 'نامی تقریب منعقد کرتے ہیں ۔۔ملٹن اور گیری عام
شہری تھے مگر ایک بڑی مہم کے محرک بنے تھے۔ جنوبی ایشیا میں ریاست جموں و
کشمیر کئی حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ بھارت کے زیرانتظام جموں و کشمیر ہے
اور دوسرا بڑا حصہ پاکستان کے زیرانتظام آزادکشمیر ہے۔ 1947ء کی تقسیم کے
موقع پر ریاست جموں و کشمیر کے ہزاروں خاندان 720 کلومیٹر طویل جنگ بندی
لائن کے آر پار تقسیم ہو گئے تھے۔ مظفرآباد سے سرینگر 183 کلومیڑ کا فاصلہ
ہے لیکن اس فاصلے کو طے کرنے کے لیے نصف صدی سے زیادہ عرصے تک انتظار کرنا
پڑا ہے۔ یہ سڑک، جو دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ پہاڑوں کے بیچوں بیچ گزرتی ہے
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو بھارتی زیر انتظام کشمیر سے ملاتی ہے۔ یہ
سڑک کشمیر پر ہندو ڈوگرہ حکمرانی کے دور میں اٹھارویں صدی کے آخر میں تعمیر
کی گئی تھی۔ سرینگر اور راولپنڈی کے درمیان 1947 میں اس وقت آمد و رفت بند
ہوگئی تھی جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر پہلی جنگ
ہوئی۔ اس سے قبل کشمیر کو برصغیر کے ساتھ ملانے والی یہ واحد سڑک تھی جو
پورا سال آمد ورفت کے لیے کھلی رہتی تھی ۔سن دو ہزار پانچ میں بس سروس کے
آغاز تک ستاون برسوں میں اس سڑک کے ذریعے کوئی آر پار نہیں جا سکا۔ ، بس
سروس کے نتیجے میں کئی خاندانوں کا ملاپ ممکن ہوا۔ آٹھ جولائی کو عسکری
کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد حالات نے پلٹا کھایا اور کشمیریوں کو
ایک بار پھر ظلم کی چکی میں ڈال دیا گیا۔ان کی تکلیف و مصائب پر آزاد کشمیر
میں ان کے بھائی بھی پریشان ہیں ان کی مدد کرنا چاہتے تھے مگر ایسا عملاً
ممکن نہیں ہے ۔ اسی دوران 30 اگست 2016 کوملٹن اور گیری کے خواب کی طرح ایک
اور خواب نے شمالی کشمیر کے شمالی ضلع بانڈی پورہ میں جنم لیا۔ مظفر آباد
کی فوزیہ گیلانی اور بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر پولیس کے ایک افسر
اویس گیلانی کی شادی بانڈی پورہ کے ڈاک بنگلے میں انجام پائی۔ فوزیہ گیلانی
اور اویس کا خاندان بھی 1947ء میں آزادکشمیر و مقبوضہ کشمیر میں تقسیم
ہواتھا۔ اویس اور فوزیہ کا خاندان ایل او سی کے اس پر کرناہ میں مقیم تھا
1947ء میں کرناہ مظفر آباد کا حصہ تھا۔ اویس گیلانی کے والد شبیر گیلانی اس
گیلانی خاندان کے واحد شخص تھے جو کرنا میں رہ گئے باقی سب مظفر آباد آگئے
تھے۔ فوزیہ اور اویس کے خاندانوں نے منقسم خاندانوں کے ملاپ کے لئے جو خواب
دیکھا تھا اس کا انجام 30 اگست کو سامنے آیا مگر کئی تعبیریں باقی ہیں۔
شادی کی تقریب کے موقع پر بھارتی فوجیوں نے آنسو گیس، پیلٹ گن کی فائرنگ کا
تحفہ دیا حتیٰ کہ فوزیہ گیلانی 72 گھنٹے تک بانڈی پورہ کے ڈاک بنگلے میں
محصور رہیں۔ حالات ایسے ہیں کہ کشمیر میں بارود کی بو، گولیوں کی گھن گرج
سے پورا کشمیر متاثرہے۔ فوزیہ گیلانی شادی سے دو ہفتے پہلے سری نگر
مظفرآباد بس سروس کے ذریعے بھارت کے زیر انتظام کشمیر پہنچ گئی تھی۔ ریاست
کے نامساعد حالات کی وجہ سے ان کی شادی تین بار ملتوی کی گئی۔NUML اسلام
آباد سے ایجوکیشن پلاننگ اینڈ مینجمنٹ میں ماسٹر کرنے والی فوزیہ گیلانی
اور جموں کشمیر یونیورسٹی سری نگرسے ماسٹر کرنے والے اویس گیلانی شادی کے
بندھن میں تو بندھ گئے ہیں مگر ان کے لئے آر پار آنا جاناآسان نہیں۔ فوزیہ
کی خواہش تھی کہ وہ ایک بار جنت نظیر کشمیر کے تاریخی سیاحتی مقامات چشمہ
شاہی، پری محل، کوہ مران اور نہرو پارک کی سیر کرے، جھیل ڈل کے شکارے میں
سواری کرے ۔ اسکی خواہش پوری ہوئی سیر کرائی گئی جبکہ جھیل ڈل میں شکارے کی
سواری بھی۔ چشمہ شاہی اور پری محل کے دورے کے دوران فوزیہ نے اس خواہش کا
بھی اظہار کیا ہے کہ ایسا وقت آئے جب خاندانوں کو تقسیم کرنے والی خونی
لکیر ختم ہو جائے کشمیر کے اس حصے کے لوگ بھی یہاں آ سکیں۔ انہیں پتہ چلے
کہ چشمہ شاہی، پری محل میں کیا کشش ہے۔ ملٹن اور گیری کی طرح فوزیہ اور
اویس کی شادی نے بھی ایک نئے خواب کو جنم دیدیا ہے اور وہ خواب یہ ہے کہ
دیوار برلن کی طرح لائن آف کنٹرول بھی ختم ہو جائے تاکہ منقسم جرمنوں کی
طرح منقسم کشمیری بھی باہم مل سکیں۔ ملٹن اور گیری کی طرح اویس اور فوزیہ
بھی ایک بڑی تحریک کا محرک بن کر دوسروں کی مشکلات ختم کرسکتے ہیں۔ یہ
انسانی تاریخ کا ایک بڑا المیہ ہے کہ ایل او سی آرپار سینکڑوں خاندان منقسم
ہیں، بھائی بھائی سے الگ، ماں بیٹے سے اور میاں بیوی سے، اپنے لوگوں کی
جدائی کی تکلیف اور بچھڑ جانے کا غم کوئی اپنا ہی جانے، یہ درد وہی محسوس
کرسکتا ہے جسکی ماں اسکردو میں گزر چکی ہو اور اس کی موت کی خبر کئی سالوں
بعد اس کے بیٹے کو مل جائے۔ یہ دکھ وہی محسوس کر پائے گا جو ابراہیم ثانی
کو جانتا ہے جسے گلگت سے لداخ میں اپنے والدین سے ملاقات میں چوالیس سال لگ
گئے تھے لائن آف کنڑول صرف علاقوں کو تقسیم نہیں کرتی باہمی رشتوں، جذبات
کو بھی تقسیم کرتی ہے۔ٹیٹوال سیکٹر میں دریا کے آر پار منقسم خاندان ایک
دوسرے کو دیکھنے آتے ہیں ایل او سی انہیں ملنے نہیں دیتی بس لوگوں کے
آنسووں کو دیکھا کرتی ہے میں ان کی درد بھری کہانیاں سن کر اپنے آپ سے سوال
پوچھتا رہتا ہوں ان بدقسمتوں کی زندگی میں 9 نومبر جیسا دن کب آئے ؟ |
|