نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت کی بھی ضرورت ہے
(Dr. Muhammad Javed, Dubai)
ہمارے ہاں علمی اور فنی حوالوں سے تو تربیت کے لئے ہر شہر گاؤں میں ادارے موجود ہیں یا ان کے قیام کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں لیکن اخلاقی تربیت کا نہ تو ان تعلیمی اداروں میں کوئی نصاب یا عملی نظام موجود ہے اور نہ ہی معاشرے میں ایسے اداروں کی روایت موجود ہے جو اخلاقی تربیت فراہم کرتے ہیں۔ ضروری ہے کہ بچوں کے اندر اعلیٰ اخلاقی اوصاف مثلاً سچائی،ایمانداری،دیانت داری،انسان دوستی،صبر و برداشت،عزم و حوصلہ وغیرہ کے حوالے سے عملی تربیت کے لئے تعلیمی نظام میں نصاب کو شامل کیا جائے اور ہر تعلیمی ادارے کو اس نصاب کا پابند کیا جائے تو اس کے ثمرات قومی سطح پہ نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے علیحدہ تربیتی ادارے بنانے کی بھی روایت ڈالنے کی ضرورت ہے جو بچوں کو اخلاقی تربیت فراہم کریں۔ |
|
|
نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں،
معاشرتی انقلاب اور ترقی کی کوئی بھی تحریک بغیر نوجوانوں کی اعلیٰ تربیت،
تنظیم اور جدو جہد کے کامیاب نہیں ہو سکتی۔نوجوانوں کی تعلیم وتربیت کا
احسن نظام ہی کسی قوم کے اچھے مستقبل کی نوید سنا سکتا ہے ،اگر مشاہدہ کریں
توکردار کی تعمیر اچھی اقدار و اخلاقیات ہی کے مرہون منت ہوتی ہے اسی طرح
اگر بچوں کی تربیت کے لئے انسانی بنیادی اخلاقیات اور اصولوں کی روشنی میں
تربیت کی جائے تو اس سے بچوں میں اعلیٰ اخلاقی اوصاف پیدا ہوں گے۔ بدقسمتی
سے ہمارے ہاں بچوں کی تعلیم پہ زیادہ زور دیا جاتا ہے لیکن تربیت کو نہ تو
اہمیت دی جاتی ہے اور اگر کسی قدر اہمیت ہو بھی تو نہ ہی گھر کی سطح پہ اور
نہ ہی اسکول کی سطح پہ بنیادی انسانی اخلاقیات کے حوالے سے بچوں کی تربیت
کا کوئی مؤ ثر اور عملی نظام موجود ہوتاہے۔
اعلیٰ انسانی قدریں جن میں دوسروں کا خیال رکھنا، ہر ایسے عمل سے اجتناب
کرنا جس سے دوسروں کو کسی بھی طرح، اور کسی بھی سطح کا ضرر پہنچے، اپنے
گردو پیش رہنے والی تمام مخلوقات سے محبت اور مہربانی سے پیش آنا، ہمہ وقت
دوسروں کے لئے رحم کے جذبات رکھنا وغیرہ شامل ہے۔قانون کی پابندی کرنا ،
قانون کا احترام کرنا، ایک دوسرے کا ادب و احترام، شفقت اور محبت در اصل یہ
سب انسانی جوہر ہیں جو کہ بچوں کے اندر پیدا کرنے کے لئے باقاعدہ تربیت کے
نظام کے متقاضی ہیں۔
اب اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو افسوسناک صورتحال سے واسطہ پڑتا ہے،
قانون کی خلاف ورزیوں کے سارے ریکارڈ توڑے جاتے ہیں، انسانی احترام خال خال
ہی نظر آتا ہے، دوسروں کی تکلیف کے احساس سے عاری معاشرہ ہمہ وقت کسی نہ
کسی ایسے عمل میں مصروف نظر آتا ہے جس سے ایک دوسرے کو کسی نہ کسی سطح پہ
تکلیف سے دوچار کیا جائے۔زندگی کے ہر شعبے میں جھوٹ،بد دیانتی،دھو کہ دہی ،
کام چوری جیسی عادات نے بحیثیت مجموعی معاشرے کو کھو کھلا کر دیا ہے۔نوجوان
نسل میں سچائی، ایمانداری، عزت نفس خود اعتمادی کا فقدان نظر آتا ہے۔قومی
سوچ حقیقی سیاسی شعور کی بجائے انفرادیت پسندی ،مفاد پرستی کے نتیجے میں
اداروں کی بجائے شخصیت پرستی کے روگ میں نوجوان مبتلا نظر آتے ہیں، درست
شعوری تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہر ایک سیاسی بازی گر انہیں اپنے جال میں
پھنسا لیتا ہے ، آج اگر اس معاشرے کی فرسودگی کے پیچھے اگر کوئی حقیقی محرک
ہے تو وہ نوجوان طبقے کی بے شعوری، عدم تربیت اور ان کا مفاد پرستوں کے
ہاتھوں استحصال ہے۔صحیح درست سمت میں تربیت نہ ہونے کی وجہ سے آج نوجوانوں
کوانقلاب کے نام پہ، کوئی اصلاح کے نام پہ، اور کوئی مذہب اور عقیدہ کے نام
،کوئی سیاست اور قومیت کے نام پہ استعمال کرتا ہے،انتہا پسندی، تشدد پسندی،
تنگ نظری، بددیانتی، جھوٹ وغیرہ کی تربیت کا پورا انتظام ہے ۔ اگر نوجوان
اپنی روحانی اصلاح کے لئے کسی مکتبہ فکر کے ساتھ جڑتا ہے تو اسے اتنا تنگ
نظر اور فرقہ پرست بنا دیا جاتا ہے کہ وہ دیگر افراد معاشرہ کو بھی اسی
فرقے کی نظر سے دیکھتا ہے، اسی طرح گوناگوں نظرئیے اور عقائد کے نام پہ
معاشرے میں نوجوانوں کے ذہنوں کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گذارا جاتا ہے
اور انہیں اپنے ذاتی اور گروہی مقاصد کے لئے استعمال کر کے ان کے مستقبل کو
تباہ کر کے انہیں بے یار ومدد گار چھوڑ دیا جاتا ہے۔معاشرے میں ایسے عناصر
سے اپنے بچوں کو بچانے کی ضرورت ہے، یہ اس وقت ہی ممکن ہے کہ جب والدین
شروع ہی سے اپنی اس اہم ذمہ داری کا احساس کریں اور اس پہلو پہ توجہ دیں۔
آج معاشرے کی یہ صورت گری اس وجہ سے ہے کہ بحیثیت والدین، استاد اور حکمران
ہم نے نئی نسلوں کی حقیقی انسانی قدروں اور اعلیٰ انسانی اخلاقیات کی بنیاد
پہ تربیت سے غفلت اور کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے۔کیونکہ کسی بھی قوم کی ا ہم
ترین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی نئی نسل کو اس طرح سے پروان چڑھائے کہ وہ
بحثیت مجموعی قومی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر سکے۔جہاں والدین کی یہ ذمہ
داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو علم کے زیور سے آراستہ کریں وہیں ان کی یہ ذمہ
داری بھی بنتی ہے کہ وہ بچوں میں امانت داری،سچائی،انسان دوستی،محبت
والفت،حب الوطنی غرضیکہ اعلیٰ انسانی اخلاقیات کی تربیت کا بھی خاطر خواہ
انتظام کریں۔یہ بات تجربے سے ثابت ہے کہ انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی
علم کی پیداوار نہیں بلکہ ماحول کی پیداوار ہے یعنی صرف علم کے حصول کے لئے
اداروں میں بچوں کو داخل کر لینے اور بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کر لینے سے ان کے
اندر اعلیٰ اخلاقی قدریں پیدا نہیں ہوتیں بلکہ ایسا عملی ماحول جہاں تربیت
کا عملی نظام موجود ہووہاں بچوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت یقینی بنائی جا
سکتی ہے۔رسول اکرم ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں اخلاقیات کی تربیت کے نظام
اور اصولوں کو ہم نے یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔اسلامی تعلیمات میں علم کی
اہمیت کے ساتھ ساتھ ایک مربوط تربیت کے نظام کو بھی اہم قرار دیا گیا ہے
کیونکہ کتابیں تو علم دیتی ہیں لیکن تربیت استاد کرتا ہے لہذا بچوں کی
اخلاقی تربیت کے لئے استاد کا ہونا ضروری ہے چاہے یہ کام والدین کریں یا
سکول کے اساتذہ۔تربیت کا مناسب انتظام نہ ہونا اور اس کی اہمیت سے انکار
کرنے کے یہ نقصانات ہیں کہ آج ترقی یافتہ کہلانے والے معاشرے بھی پریشانی
کا شکار ہیں۔ ایک مغربی ماہر تعلیم رچرڈ لکھتے ہیں-
جنگ عظیم دوم کے بعد امریکہ ورلڈ لیڈر کے طور پر ابھر کے سامنے آیا اور
زندگی کے ہر میدان میں قوموں اور افراد نے امریکی فکر اور ثقافت سے اثر
قبول کرنا شروع کیا۔مادی ترقی کی راہ میں مذہب کو رکاوٹ جان کر امریکیوں نے
بائبل اور چرچ کو اپنی زندگی سے نکال دیا۔اخلاقیات کو چونکہ مذہب کا حصہ
مانا جاتا تھا اس لئے مذہب کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کو بھی دقیانوسیت شمار
کیا جانے لگا۔1960ء کی دہائی کے ’’ آزاد خیال والدین‘‘بچوں کو ہر طرح کی
آزادی دینے اور ان پر کسی قسم کی پابندی نہ لگانے پر یقین رکھتے تھے،خواہ
یہ آزادی ان کی ذات سے متعلق امور کے حوالے سے ہو یا پھر معاشرتی معاملات
کے حوالے سے ان کے نزدیک بچوں کو اپنے تمام تر معاملات کے بارے میں آزادی
حاصل ہونی چاہئے۔نتیجتاً انہوں نے ایک ایسی نسل کو پروان چڑھایا ،جس نے نشہ
بازی ،خاندانی انحطاط،خود کشیوں اور بے سکونی کے تمام ریکارڈز توڑ دئیے۔‘‘
اگر صوفیاء کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہر دور میں سیرت رسول ﷺ کی روشنی
میں ایسے اخلاقی تربیت کے مراکز اور خانقاہیں موجود تھیں جہاں اعلیٰ اخلاق
کی تربیت ہوتی تھی۔جہاں صوفیاء اکرام افراد معاشرہ کی بلا تفریق مذہب و ملت
سچائی ،دیانت داری،انسان دوستی ،راست بازی کی تربیت کر تے تھے۔ تصوف تعلق
باللہ کے ذریعے انسانی اخلاقیات پیدا کرنے کا ذریعہ تھا۔ اور اس کے اثرات
افراد معاشرہ کی عملی زندگی پہ پڑتے تھے،لیکن وقت کے ساتھ ساتھ خانقاہوں کی
یہ روح بھی مفقود ہوتی چلی گئی۔
آج بچوں کی اخلاقی تربیت کا انتظام نہایت ہی اہم مسئلہ ہے ہمارے ہاں علمی
اور فنی حوالے سے تو تربیت کے لئے ہر شہر گاؤں میں ادارے موجود ہیں یا ان
کے قیام کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں لیکن تعلیمی اداروں یا گھر کی سطح پہ
اخلاقی تربیت کا باقاعدہ کوئی نظام موجود نہیں اور نہ ہی معاشرے میں ایسے
اداروں کی روایت موجود ہے جو اخلاقی تربیت فراہم کرتے ہیں۔ اس وقت اشد
ضرورت ہے کہ بچوں کی اعلیٰ اخلاقی اوصاف مثلاً سچائی،ایمانداری،دیانت
داری،انسان دوستی،صبر و برداشت،عزم و حوصلہ وغیرہ کے حوالے سے تربیت کے لئے
تعلیمی نظام میں نصاب کو شامل کیا جائے اور ہر تعلیمی ادارے کو اس نصاب کا
پابند کیا جائے تو اس کے ثمرات قومی سطح پہ نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔اور اس
کے ساتھ ساتھ ایسے علیحدہ تربیتی ادارے بنانے کی بھی روایت ڈالنے کی ضرورت
ہے جو بچوں کو اخلاقی تربیت فراہم کریں۔ |
|