قرآن عظیم الشان درس انقلاب
(Dr-Muhammad Saleem Afaqi, Peshawar)
تحریر ڈاکٹر محمد سلیم آفاقی
*قرآن عظیم الشان درس انقلاب*
قرآن عظیم الشان اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب ہے، جو تا قیامت ہدایت،نصیحت،رہنمائی، علم اور روشنی کا سرچشمہ ہے۔ اس کا آغاز سورۃ الفاتحہ سے ہوتا ہے، جسے "ام الکتاب" کہا جاتا ہے اور یہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے۔ اس سورۃ میں اللہ کی حمد، اس کی رحمت، روزِ جزا اور ہدایت کی دعا شامل ہے، جو ہر مسلمان کی زندگی کا منشور ہے۔ قرآن مجید حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ۔ یہ ایک مکمل دستور زندگی ہے۔اس پر عمل کرنے والے دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرتے ہیں جبکہ روگردانی کی صورت میں ناکامی ان کا مقدر بنتی ہے ۔
یہ صرف مذہبی کتاب نہیں، بلکہ تربیت، اخلاق اور کردار سازی کا مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس میں سچائی، عدل، امانت، صبر، شکر، اخلاص، علم اور غور و فکر کی تعلیم دی گئی ہے۔ قرآن مجید نے انسان کو عقل، شعور، علم اور تدبر کی دعوت دی اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی بنیاد رکھی جہاں ہر فرد اپنی صلاحیتوں کو مثبت انداز میں معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرے۔حقوق اللہ و حقوق العباد کا خاص خیال رکھے۔
اسلام کی آمد سے قبل عرب کا معاشرہ غیر مہذب، جاہلانہ اور اخلاقی بگاڑ کا شکار تھا۔ وہاں قبائلی عصبیت، ظلم، انتقام، قتل و غارت، سود خوری، عورتوں پر ظلم، بچیوں کو زندہ دفن کرنا، کمزوروں پر جبر، شراب نوشی اور بت پرستی عام تھی۔ فیصلے ذاتی مفادات اور قبائلی سرداروں کی مرضی سے ہوتے تھے، عدل و انصاف ناپید تھا اور انسانی حقوق پامال کیے جاتے تھے گویا انسانیت سسک رہی تھی۔رب الکائنات نے پوری انسانیت کی رہنمائی کے لئے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا۔جنہوں نے نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور پر قرآن سیکھایا۔
قرآن کریم سیکھنے اور اس پر عمل کرنے سے یہ معاشرہ مکمل طور پر بدل گیا۔ قرآن نے انسانیت، عدل، مساوات، رحم دلی، عفو و درگزر، علم و حکمت، عورتوں کے حقوق، یتیموں اور کمزوروں کی حفاظت، اور توحید کا پیغام دیا۔ اس نے عربوں کے دل نرم کیے، ان کی عقلوں کو پختہ بنایا اور ان کے اخلاق کو بلند کیا۔ عربی زبان و ادب میں بھی انقلاب آیا، افکار و خیالات میں وسعت اور پاکیزگی آئی، اور معاشرت میں عدل و انصاف کا بول بالا ہوا۔
قرآن پاک نے عرب معاشرے میں امن، محبت اور بھائی چارے کی بنیاد رکھی۔ پہلے لوگ معمولی باتوں پر لڑتے، سالوں تک دشمنیاں نبھاتے اور خون بہاتے تھے، مگر قرآن نے انہیں معاف کرنا، صلح کرنا اور ایک دوسرے کی عزت کرنا سکھایا۔ قرآن وسنت نے عورتوں کو عزت دی، یتیموں اور کمزوروں کے حقوق واضح کیے اور عدل و انصاف کو ہر حال میں لازم قرار دیا۔
قرآن نے علم حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ اس کے ساتھ ساتھ سوچنے، سمجھنے اور غور و فکر کرنے کی دعوت دی۔ اس نے انسان کو اپنی ذات اور کائنات پر غور کرنے کی تعلیم دی، جس سے عرب معاشرہ علم و حکمت میں بھی آگے بڑھا۔ قرآن وسنت نے ہر قسم کے تعصب، ظلم، انتہا پسندی اور جاہلیت کی مذمت کی اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جس میں سب کو برابر کے حقوق ملے۔
کلام الٰہی کی تعلیمات پر عمل کر کے عرب دنیا نے ترقی، خوشحالی اور عزت پائی۔ مسلمانوں نے سائنس، طب، فلسفہ، ادب اور فنون میں نمایاں مقام حاصل کیا اور دنیا کو علم و تہذیب کا پیغام دیا۔ قرآن حکیم نے نہ صرف عرب بلکہ پوری انسانیت کو امن، ترقی اور بھائی چارے کا راستہ دکھایا۔
اس مقدس کتاب نے فرد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کی اصلاح پر بھی زور دیا۔ اس نے والدین کی خدمت، رشتہ داروں کے حقوق، ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک، تجارت میں دیانت اور وعدے کی پابندی کو لازم قرار دیا۔ قرآن نے جھوٹ، چغلی، غیبت، حسد اور نفرت سے بچنے کی تاکید کی اور صبر، شکر، عفو و درگزر اور ایثار کو پسندیدہ صفات قرار دیا۔
قرآن نے حکمرانوں کو عدل و انصاف کا حکم دیا اور رعایا کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی۔ اس نے امیر و غریب کے درمیان فرق مٹایا، سب کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا اور معاشرتی مساوات کی بنیاد رکھی۔ قرآن عظیم الشان نے بتا دیا کہ اصل عزت تقویٰ میں ہے، رنگ، نسل، زبان یا قبیلے میں نہیں۔
یوں قرآن کی بدولت عرب معاشرہ دنیا کا بہترین اور مہذب معاشرہ بن گیا۔ آج بھی اگر مسلمان قرآن کی تعلیمات پر عمل کریں تو معاشرتی برائیاں ختم ہو سکتی ہیں اور ہم پھر سے ترقی اور عزت پا سکتے ہیں۔ |
|