کتب بینی سے کردار سازی تک
(Dr-Muhammad Saleem Afaqi, Peshawar)
تحریر ڈاکٹر محمد سلیم آفاقی
کتب بینی سے کردار سازی تک
کتابیں انسان کی بہترین دوست اور رہنما ہیں۔ یہ نہ صرف علم کا خزانہ ہیں بلکہ انسان کی شخصیت سازی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ کتابیں پڑھنے سے انسان کی سوچ میں وسعت آتی ہے، اس کے الفاظ کا ذخیرہ بڑھتا ہے اور اس کی زبان میں روانی پیدا ہوتی ہے۔ مطالعہ انسان کو مختلف معاشرتی، اخلاقی اور سائنسی موضوعات سے آگاہی دیتا ہے اور اس کی معلومات میں اضافہ کرتا ہے۔ کتابیں انسان کو ماضی کی غلطیوں اور کامیابیوں سے سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں اور اسے حال اور مستقبل کے لیے بہتر فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
کتابیں نہ صرف ذہنی سکون اور تفریح کا ذریعہ ہیں بلکہ یہ انسان کو تنہائی میں بہترین ساتھی بھی فراہم کرتی ہیں۔ مطالعہ سے انسان کی یادداشت اور ذہنی صلاحیتیں بہتر ہوتی ہیں۔ کتابیں انسان کو تحقیق اور جستجو کی طرف راغب کرتی ہیں اور اس میں تجسس پیدا کرتی ہیں۔ ایک اچھی کتاب انسان کے کردار کو سنوارتی ہے اور اس میں اچھائی اور برائی کی پہچان پیدا کرتی ہے۔ مطالعہ سے انسان کی تحریری اور تقریری صلاحیتیں بھی نکھرتی ہیں۔
کتابوں کی بدولت انسان کو دنیا بھر کے علوم، تاریخ، سائنس، ادب اور دیگر شعبہ جات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ ایک قاری نہ صرف اپنے علم میں اضافہ کرتا ہے بلکہ معاشرے کا مفید فرد بھی بنتا ہے۔ کتب بینی سے انسان میں برداشت، رواداری اور مثبت سوچ پیدا ہوتی ہے۔ کتابیں انسان کو وقت کی قدر سکھاتی ہیں اور اسے زندگی میں کامیابی کے راستے دکھاتی ہیں۔کتب بینی نوجوان نسل پر بہت مثبت اثرات ڈالتی ہے۔ یہ نہ صرف ان کے علم میں اضافہ کرتی ہے بلکہ ان کی سوچ میں وسعت، زبان میں بہتری اور تحریری صلاحیتوں کو بھی جلا بخشتی ہے۔ مطالعہ سے نوجوانوں میں تنقیدی اور تخلیقی سوچ پیدا ہوتی ہے، ان کی یادداشت اور توجہ بہتر ہوتی ہے، اور وہ معاشرتی و اخلاقی لحاظ سے بھی مضبوط بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ کتابیں نوجوانوں کو وقت کی قدر سکھاتی ہیں، انہیں سستی اور کاہلی سے بچاتی ہیں اور ان میں خود اعتمادی اور تحقیق کا جذبہ پیدا کرتی ہیں کتب بینی سے اعراض کی صورت میں نوجوانوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کی تخلیقی اور تنقیدی سوچ کمزور ہو جاتی ہے اور ان کی ذہنی صلاحیتیں محدود رہ جاتی ہیں۔- زبان اور الفاظ کا ذخیرہ کمزور ہو جاتا ہے، جس سے اظہار کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔- اخلاقی اور معاشرتی اقدار میں کمی آتی ہے جبکہ نوجوان غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ رویے اختیار کرنے لگتے ہیں۔- وقت کا ضیاع، سستی اور کاہلی بڑھ جاتی ہے، جبکہ موبائل اور انٹرنیٹ پر فضول مشغلے زیادہ ہو جاتے ہیں۔- مطالعہ نہ کرنے سے نوجوانوں میں تحقیق، جستجو اور خود اعتمادی کی کمی پیدا ہو جاتی ہے۔- معاشرتی مسائل کو سمجھنے اور ان کا حل تلاش کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے، جس سے معاشرہ مجموعی طور پر پسماندہ رہ جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا کے اس دور نسل نو کتب بینی کے لئے راغب کیا جائے تا کہ معاشرے میں مثبت روایات پنپ سکیں۔ |
|