مجھے کینٹ ایریا میں شفٹ ہوئے اڑھائی سال
ہوچکے ہیں ۔مسجد سے ملحقہ محل نما خوبصورت بنگلہ( جسے پیلی حویلی بھی
کہاجاسکتا ہے) میں رہنے والے ایک نوجوان محمد عثمان کو کبھی مسجد میں نماز
کی ادائیگی کے لیے جاتے ہوئے نہیں دیکھا ۔وہ جب بھی دکھائی دیتا ٗ کبھی
پڑھنے جارہا ہوتا یا کبھی اپنی حویلی کے باہر دوستوں سے گپ شپ میں مصروف
نظر آتا ۔ وہ تمام سہولتوں سے آراستہ ایک عالی شان محل میں شہزادوں کی طرح
رہائش پذیر تھا۔ محلے کی اکلوتی مسجد اس کے داداکی عطیہ کی گئی زمین پر
تعمیر ہوئی ٗ جس کی نگہبانی بھی اسی خاندان کے ذمے تھی ۔ وقت گزرتا رہا اس
نوجوان کے بارے میں میرے تصورات میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی ۔ کبھی کبھار
وہ نہایت خاموشی سے میرے پاس سے گزر جاتا۔ میں نے اسے محلے کے کسی بھی فرد
سے بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ وہ اپنی ہی دنیا میں گم زندگی بسر کررہا تھا
۔
وقت گزرتا رہا ۔موسم بدلتے رہے ۔ اچانک وہ ایک دن مسجد میں نظر آیا۔میں
سمجھا شاید وہ غلطی سے ادھر آگیا ہے لیکن جب وہ باقاعدگی سے نماز کی
ادائیگی میں مصروف رہنے لگا تو تجسس کاپیدا ہونا فطری امر تھا ۔ میری نظر
میں وہ نوجوان نہایت شریف النفس ٗ خاموش طبع اور بہت کم گو ہے ۔ ایک دن میں
یونہی مسجد اﷲ کی رحمت کے امام قاری محمداقبال صاحب کے پاس موجود تھاکہ وہ
نوجوان بھی دبے پاؤں چلتا ہوا ہمارے پاس آ پہنچا اور نہایت راز دارانہ
انداز میں سلام کرنے کے بعد قاری صاحب سے کچھ پوچھنے لگا ۔چونکہ میں بھی
وہاں موجود تھا اس لیے مجھ سے اس نے بھی ہاتھ ملایا ۔ جب وہ بات کرکے فارغ
ہوگیا تو ہم دونوں ساتھ ساتھ چلتے گھر کی جانب روانہ ہوگئے۔ ذہن میں اٹھنے
والے سوالوں کا جواب حاصل کرنے کا یہ بہترین موقعہ تھا ۔ میں نے پوچھوں ۔
میں آپ کو گزشتہ اڑھائی سال سے دیکھ رہا ہوں لیکن میں نے آپ کو کبھی مسجد
میں نہیں دیکھا یہ اچانک تبدیلی کیسے ممکن ہوئی کہ آپ اب ہم سے پہلے مسجد
میں نظر آتے ہیں بلکہ آپ کو دیکھ کر ہم اپنی گھڑیوں کا وقت ٹھیک کرتے ہیں ۔
محمد عثمان نے بتایا کہ " میں ایک رات سویا اور خواب میں ٗ میں نے خود کو
خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے پایا ۔ بس وہی لمحہ تھا کہ میری دنیا بدل گئی
سارا دن مجھ پر عجیب کیفیت طاری ر ہی ۔جب میں نماز کی ادائیگی کے لیے
مسجدپہنچا تو دل کو ایسا سکون ملا کہ اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا
۔اب ہر لمحے یہی فکر لاحق رہتی ہے کہ کب نماز کا وقت ہواور میں نمازکی
ادائیگی کے لیے مسجد پہنچوں۔ میرے لیے اب دنیاوی کاموں کی کوئی اہمیت نہیں
رہی ۔ میں سمجھتا ہوں یہ اﷲ تعالی کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے موت
آنے سے پہلے ہی مجھے ہدایت دی۔ میں اس کی باتیں نہایت توجہ سے سن رہا تھا
ٗاس کی باتوں میں بلاکا اعتماداور تجسس تھا ۔وہ ایک ہی سانس میں اپنی دلی
کیفیت بتا رہا تھا ۔" بے شک اﷲ جب کسی کو ہدایت دیتا ہے تو پھر کسی کی جرات
نہیں ہوتی کہ وہ انکار کردے ۔ اﷲ تعالی کا ہی فرمان عالی شان ہے کہ نیکی کی
توفیق بھی میری ہی جانب سے ہے ٗ میں جسے چاہتا ہوں نیکی کی توفیق عطا کرتا
ہوں اور جسے چاہتاہوں اسے صراط مستقیم سے دور رکھتاہوں ۔ اﷲ صرف اسے ہی
اپنے گھر ( مسجد) میں بلاتا ہے جسے وہ پیار کرتا ہے اور جس کو صراط مستقیم
پر گامزن کرکے جنت میں اعلی مقام عطا کرنا چاہتا ہے ۔لیکن جو لوگ نماز کی
ادائیگی میں سستی کرتے ہیں اور مساجد کا رخ نہیں کرتے یا کام میں مصروفیت
کابہانہ بنا کر یہ تصور کرلیتے ہیں کہ آج نہیں تو کل نماز پڑھ لیں گے ۔
لیکن ان کی کل کبھی نہیں آتی ۔حتی کہ موت کا فرشتہ جب سامنے آکھڑا ہوتا ہے
تو پھر کسی کو نماز کی مہلت نہیں ملتی۔ہماری نوجوان نسل کی ایک بری عادت
اوربھی ہے کہ جب کسی کو نماز پڑھنے کے لیے کہا جاتاہے تو وہ یہ کہہ کر
معذرت کرلیتا ہے کہ میرے کپڑے ٹھیک نہیں ہیں ۔گویا وہ پلید حالت میں ہی
سارا دن کام کاج کرتا رہتاہے یا وہ نماز سے بچنے کے لیے جھوٹ بولتاہے ۔
بزرگان دین فرماتے ہیں پلید حالت میں اٹھایا جانے والا ہر قدم اور زندگی کا
گزرا ہوا ہر لمحہ گناہ میں شامل ہوتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے پاکیزگی اورطہارت کو نصب ایمان قرار دیا ہے آپ ﷺ کا ارشاد کہ
پاکیزگی اختیارکرو کیونکہ جس حالت میں انسان روح قبض ہو تی ہے ۔اسی حالت
میں ہی روز قیامت اٹھایا جائے گا ۔اس کے باوجود کہ نماز ہی مسلمان اور کافر
میں فرق پیداکرتی ہے لیکن بے شمار مسلمان بھائی نماز پڑھے بغیر ہی زندگی
گزار لیتے ہیں ۔ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے استفسار کیا ۔ یا رسول ﷺ مجھے
کیسے پتہ چلے گاکہ میری نماز قبول بھی ہوئی ہے یا نہیں ۔ نبی کریم ﷺ نے
فرمایا اگر تمہارا دل اگلی نماز پڑھنے کو بھی کرے تو یہ سمجھ لینا کہ
تمہاری پہلی نماز قبول ہوچکی ہے ۔ کیونکہ اﷲ تعالی صرف اسے ہی اپنے گھر آنے
کی توفیق عطا کرتا ہے جس کو وہ اپنی عبادت کے لائق سمجھتاہے ۔
بہرکیف اس لمحے مجھے دو واقعات یاد آئے ٗ جسے میں قارئین سے شیئر کرنا
ضروری سمجھتاہوں ۔ یہ تقسیم ہند سے پہلے کا واقعہ ہے۔ جہلم کے نواحی گاؤں
ایک ہندو خاندان آباد تھا ٗ اس گاؤں میں مسلمان اور ہندو مل جل کر رہتے ٗ
غمی و خوشی میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوتے ۔ ہندووں کے بچے مسلم گھرانوں میں اور
مسلمانوں کے بچے ہندووں کے گھروں میں جاکر کھیلتے رہتے ۔ ہندوخاندان کی ایک
کمسن لڑکی اپنے پڑوسی مسلمان گھرانے سے بے حد مانوس تھی ۔ وہ صبح ہوتے ہی
اس لمحے ان کے گھر پہنچ جاتی جب گھر کا ہر فردنماز اور تلاوت قرآن پاک میں
مصروف ہوتا۔ کئی مرتبہ تو ایسا بھی ہوتا کہ ناشتہ بھی اسی گھر میں کرتی ۔
لڑکی بھی قریب بیٹھ کر تلاوت قرآن پاک سنتی رہتی ۔ حتی کہ وہ اس قدر متاثر
ہوئی کہ ایک دن اس نے گھر کی بڑی اماں سے کہا ۔میں بھی پڑھنا چاہتی ہوں ۔
اماں جی نے کہا بیٹی تمہارے والدین ہندو ہیں ٗان کا اپنا الگ مذہب ہے ٗ وہ
کیسے برداشت کریں گے کہ تم مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن پاک پڑھو ۔ لڑکی کا
اصرار مسلسل جاری رہا ۔ایک دن اماں جی نے کہا تم پہلے وضو کرنا سیکھو پھر
قرآنی قاعدے کو ہاتھ لگانا ۔بہت جلدی وہ لڑکی وضوکرنا ٗ نماز پڑھنا اور
قرآن پاک کی تلاوت کرنا سیکھ گئی ۔دن مہینے سال یونہی گزرتے رہے۔ اس ہندو
لڑکی نے قرآن پاک مکمل طور پر پرپڑھ لیا۔ اب وہ روانی سے قرآن پاک کی تلاوت
کرنے لگی ۔اپنی اس کامیابی پر وہ بہت خوش تھی ۔ اب تک یہ بات لڑکی کے
والدین سے مخفی تھی ۔حتی کہ جب ہندوستان کی تقسیم کا وقت آ پہنچا۔ گاؤں میں
جتنے بھی ہندو خاندان آباد تھے انہیں بھارت جانا پڑا ۔ تمام افراد تیار
ہوچکے تو اس لڑکی نے یہ کہتے ہوئے ساتھ جانے سے انکار کر دیا کہ وہ مسلمان
ہوچکی ہے اور وہ پاکستان میں ہی پڑوسیوں کے گھر رہے گی ۔ والدین کو پتہ چلا
کہ ان کی لڑکی مسلمان ہوچکی ہے اور وہ ان کے ساتھ بھارت نہیں جانا چاہتی تو
انہوں نے تھانے میں جاکر رپورٹ درج کروا دی کہ پڑوسیوں نے ہماری لڑکی کو
ورغلا کر زبردستی مسلمان کرلیا ہے ٗ اسے ہمارے ساتھ بھیجا جائے ۔ تھانیدار
اپنے سپاہیوں کے ساتھ اس گھر میں پہنچا جہاں لڑکی نے پناہ لے رکھی تھی ۔
تھانیدار نے تمام معاملات کا جائزہ لینے کے بعد والدین کو کہا کہ لڑکی اپنی
مرضی سے مسلمان ہوئی ہے۔ اس لیے اسے تم زبردستی اپنے ساتھ بھارت نہیں لے
جاسکتے ۔ قصہ مختصر کہ لڑکی کا باپ گاؤں کی پنچایت کے سامنے یہ کہنے پر
مجبور ہوگیا کہ اگر یہ لڑکی اپنی مرضی سے مسلمان ہوئی ہے تو ہم اسے دوبارہ
ہندو مذہب میں آنے پر مجبور نہیں کریں گئے لیکن یہ ہماری لخت جگر ہے اس کے
بغیر ہم بھارت نہیں جاسکتے ۔ پنچایت کے معززین کے کہنے پر لڑکی کو ہندو
خاندان کے سپرد کردیاگیا ۔جو بہت محبت کااظہار کرتے ہوئے اسے اپنے گھر لے
گئے ۔ گھر پہنچ کر والد نے اس لڑکی کا گلہ دباکر ماردیااور نہایت خاموشی سے
گڑھا کھود کر اسے دفن کردیااور مشہور کردیا کہ وہ لڑکی اپنے ماموں کے ساتھ
بھارت چلی گئی ہے ۔ یہ کا م انجام دینے کے بعد وہ ہندو خاندان رات کے
اندھیرے میں گاؤں چھوڑ کر بھارت چلاگیا۔ اس واقعے کے بعد جب بھارت سے
مسلمان ہجرت کرکے پہنچے تو ایک مسلمان خاندان کو ہندووں کا خالی ہونے والا
گھر رہنے کے لیے الاٹ ہوگیا ۔ یہ بات بہت حیران کن تھی کہ بطور خاص ایک
کمرے سے خوشبو کے جھونکے اٹھتے ہوئے محسوس ہوتے ۔کبھی کسی کے قرآن پڑھنے کی
آواز سنائی دیتی ۔ کبھی آہیں اور سسکیوں کی آواز بلند ہوتی ۔ ایک نہیں کتنے
ہی خاندان اس گھر کو آسیب زدہ سمجھ کر وہاں سے رخصت ہوئے ۔پھر گاؤں کے معزز
ین نے فیصلہ کیا کہ جس کمرے سے یہ آوازیں اور خوشبو آتی ہے اسے کھود کر
دیکھاجائے ۔جب کھدائی کی گئی تو اس لڑکی کی نعش نکلی۔ مرنے کے بعد بھی جس
کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی تھی اور اس کے ہونٹوں پر قرآن پاک کی تلاوت جاری
تھی جسے کان لگا کر سنا جاسکتا تھا ۔یہ منظر سب کے لیے حیران کن تھا چنانچہ
اس لڑکی کا جسد خاکی وہاں سے نکال کر قبرستان میں دفن کردیا گیا۔لیکن خوشبو
اور تلاوت کی آواز پھر بھی اس کی قبرسے آتی رہی۔ بے شک اﷲ جیسے ہدایت دیتا
ہے اور اسے اپنی مقدس کتاب پڑھنے کی توفیق عطا کرتاہے ۔مرنے سے پہلے اس
لڑکی کی زبان پر قرآنی آیات تھیں جومرنے کے بعد بھی جاری تھیں۔
اسی طرح ایک اور واقعہ چکوال کے نواحی قصبے "میانی "میں پیش آیا ۔وہاں ہندو
خاندان میں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام والدین نے کرشن لال رکھا ۔ اس بچے
نے ہوش سنبھالا تو اسے سکول میں داخل کروادیاگیاجہاں مسلمانوں بچوں کے ساتھ
اس کا اٹھنا بیٹھنا زیادہ تھا۔یکم مارچ 1938 ء کی رات وہ ہندو لڑکا حسب
معمول اپنے گھر میں سویا ۔ اس نے خواب میں خود کو بیت اﷲ شریف کے سامنے
کھڑا ہوا پایا ۔سامنے سید الانبیاء حضرت محمد ﷺ دیوارکعبہ سے ٹیک لگائے
جلوہ افروزتھے ۔ آپ ﷺ کے ارد گرد صحابہ کرام اجمعین تشریف فرما تھے ۔نبی
کریم ﷺ کی قدم بوسی کرتے ہوئے وہ قریب بیٹھ گیا ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہو
کیسے آنا ہوا ۔ اس نوجوان نے کہا میں مشرف بہ اسلام ہونے آیا ہوں ۔ یہ سن
کر حضور ﷺ کا پرنور چہرہ مسرت سے چمک اٹھا۔پھر اس ہندو لڑکے کا ہاتھ اپنے
ہاتھوں میں لے کر چند قرآنی آیات پڑھیں اورفرمایا جاؤ اب تم مسلمان ہوچکے
ہو۔یہ الفاظ ادا ہو ئے ہی تھے کہ خواب ختم ہوگیا اور منظر بدل گیا ۔ اس
خواب کے بعد اس نوجوان کی دلی کیفیت بہت مختلف تھی ۔اس پر نورانیت اور
روحانیت کا اثر دکھائی دے رہا تھا لیکن اس نے اپنے جذبات و احساسات
گھروالوں سے مخفی رکھے اور سکول سے واپسی کے بعد ایک عالم دین مولانا
عبدالرؤف کے پاس جاپہنچا اور تمام صورت حال سے انہیں آگاہ کیا ۔مولانا نے
مبارک دیتے ہوئے کہا ۔رات کو اﷲ تعالی سے راہ ہدایت کی دعا کرکے سویا کرو ۔
کہانی تو کافی طویل ہے لیکن مختصر بات یہ ہے کہ ہندوخاندان کا وہ لڑکا"
کرشن لال " خاندان بھر کی مخالفت کے باوجود نہ صرف مسلمان ہوا بلکہ پروفیسر
غازی احمد کے نام سے مشہورہوا ۔ ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کرنے کے
بعد اس نے گورنمنٹ کالج بوچھال کلاں میں بطور پروفیسر ملازمت بھی کی اور
2010ء کو دنیا سے رخصت ہوا۔
یہ واقعات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جب اﷲ کسی کو راہ ہدایت پر گامزن کرنا
چاہتا ہے تواس کے اسباب خود بخود پیدا فرمادیتا ہے ۔ وہ صرف کن کہتا ہے کہ
ہوجا اور وہ جو چاہتا ہے وہ ہوجاتاہے ۔ محمد عثمان نامی نوجوان جو پہلے
غفلت اور سستی کی زندگی بسر کررہا تھا اﷲ تعالی کو اس پر رحم آگیا جس نے
اسے خواب میں اپنا مقدس گھر "خانہ کعبہ"دکھاکر اس کی دلی کیفیت ہی بدل ڈالی
۔ اب جب وہ نماز فجر سے پہلے رات کے اندھیرے میں گھر سے نکل کر مسجد کی
جانب جاتا ہوا مجھے دکھائی دیتا ہے تو دل خوش ہوجاتاہے ۔بے شک اﷲ ہر چیز پر
قادر ہے وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے صحیح راستے سے
بھٹکتا رہنے دیتا ہے ۔لیکن وہ لوگ ہمیشہ راہ ہدایت پر گامزن رہتے ہیں جو
اپنے رب سے اس کی دعا مانگتے ہیں ۔مسلمان صرف کلمہ پڑھنے کا نام ہی نہیں ہے
بلکہ یہ ایمان کی بنیاد ہے جس پر ہر انسان اپنے اعمال سے عمارت تعمیر کرتا
ہے ۔ اعمال کی عمارت جس قدر مضبوط ہوگی اسی قدر آخرت میں انسا ن اجر عظیم
عطا ہوگا اور وہ مسلمان جو دنیا میں صرف کاروبارکرنے اور مساجد سے دور رہنے
کے لیے آتے ہیں وہ اسی طرح جنت سے بھی دور ہی رہیں گے کیونکہ کامیابی اسی
راستے پر چل کر ملتی ہے جو نبی کریم ﷺ نے ہمیں دکھایا اور بتایا ہے ۔ |