گلشن حدید کراچی
(Syed Muhammad Ishtiaq, Karachi)
سنہ 2003میں ہمارے ایک دوست نے اپنے
گھر گلشن حدید میں دعوت پر بلایا تو پاکستان اسٹیل سے ملحقہ آبادی گلشن
حدید کی رونق اور اسٹیل ٹاؤن کی خوبصورتی اور ہریالی دیکھنے کا فیملی سمیت
اتفاق ہوا۔بیگم اور بچوں کو گلشن حدید اور اسٹیل ٹاؤن کچھ زیادہ ہی پسند
آیا۔گھر پہنچتے ہی سوال داغ دیا کہ کیا ہم وہاں رہائش اختیار نہیں کرسکتے ۔گلشن
حدید اور اسٹیل ٹاؤن کی خوبصورتی اور گھروالوں کی خواہش کو مدّنظر رکھتے
ہوئے میں نے شہر کے وسط میں ذاتی رہائش ہونے کے باوجود اسٹیل ٹاؤن شفٹ ہونے
کا فیصلہ کیا۔گلشن حدید کراچی ایئرپورٹ سے 25 کلومیٹر دور واقع ہے۔گلشن
حدید فیز 1اور2 میں کل ملا کر6500چھوٹے بڑے گھر ہیں۔162567نفوس پر مشتمل
آبادی ہے۔آبادی اور رقبے کے لحاظ سے پورے پاکستان میں کسی بھی علاقے سے
زیادہ اسکول ہونے کا اعزاز بھی گلشن حدید کو حاصل ہے۔ اسی طرح کئی مارکیٹیں
ہیں ضروریات زندگی کی ہر چیز بآسانی دستیاب ہے ۔صحت کے حوالے سے بھی
سہولیات موجود ہیں۔اسی طرح اسٹیل ٹاؤن بھی8126 ایکڑ پر 20000 ہزار نفوس پر
مشتمل آبادی ہے ۔اسکول اور کیڈٹ کالج موجود ہیں اسی طرح کرکٹ،ہاکی اور
فٹبال کے لئے اسٹیڈیم اور گراؤنڈ موجود ہیں۔اسٹیل ٹاؤن میں تمام سہولیات سے
آراستہ گیسٹ ہاؤس بھی موجود ہے ۔آفیسرز کلب اور کمیونٹی سنٹر بھی ہیں ۔آفیسرز
کلب میں سماجی تقریبات اور ملاقاتیں ہوتی ہیں اسکے علاوہ لائبریری ،جم ،اسکواش
و ٹینس کورٹ کے علاوہ بچوں اور بڑوں کے لئے سوئمنگ پول بھی ہیں۔اسی طرح
کمیونٹی سنٹر میں بھی نوجوان لڑکے لڑکیوں کی تعلیمی صلاحیتوں میں بہتری
لانے کے لئے کورسز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔100 بیڈ پر مشتمل ایک ہاسپٹل بھی
موجود ہے 2004 میں شفٹ ہونے کے بعدہم سب بہت خوش تھے کہ کتنے ہی اچھے پر
رونق اور پر فضا مقام پر اﷲ تعالی نے ہم کو رہنے کا موقع عطا کیا ہے لیکن
اب2016 میں جب ہم گلشن حدید اور اسٹیل ٹاؤن میں رہنے والے خواتین و
حضرات،نوجوانوں اور بچوں کے چہروں کو دیکھیں تو بے رونقی،پژمردگی اور
مایوسی نظر آئے گی۔کاروباری حضرات بھی پریشان ہیں ظاہر ان سب چیزوں کی
بنیادی وجہ اسٹیل مل کی زبوں حالی ہے۔ جب سے اسٹیل مل کے حالات خراب ہوئے
تو اسٹیل مل سے منسلک ہر گھر اور کاروبار کے حالات بھی خراب ہوگئے۔ماں باپ
نے بچوں کی اعلی تعلیم کے حوالے سے جو خواب دیکھے تھے سب ادھورے رہ گئے۔اب
تو صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ 5 ماہ کی تنخواہ حکومت کو ادا کرنی ہے۔ 2009 سے
تنخواہوں میں ایڈہاک اضافہ نہیں کیا گیا ہے ۔طبّی سہولیات کا تقریبا خاتمہ
ہوچکا ہے ۔لیکن حکومت کی بے حسی ناقابل فہم ہے۔"کیا حکومتیں ملکی اداروں
اور انکے ملازمین کے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہیں؟پیشتر اسکے پانی سر سے اونچا
ہوجائے ،حکومت وقت کو چاہئے کے ملک کے واحد فولاد ساز ادارے کے حوالے سے
جلد از جلد کوئی فیصلہ کرے ،جس میں اسٹیل مل اور اس کے ملازمین کی فلاح و
مفاد پوشیدہ ہو ،تاکہ ملازمین ،انکے اہل خانہ اور جن لوگوں کا کاروبا راور
مستقبل اسٹیل مل سے وابستہ ہے سُکھ کا سانس لیں۔ |
|