چپ رہواں تے لہو سڑدا۔۔۔۔۔

 ٭’’لارڈسا لسبری‘‘ ملکہ برطانیہ کے زمانے میں برطانیہ کے وزیراعظم تھے ۔اس زمانے میں کا ریا گاڑی کا رواج عام نہ تھا ، وزیراعظم سالسبری اپنی سائیکل پر سوار ہو کر جا رہے تھے ۔ ایک مقام پر وہ سڑک کے غلط رخ سے گزرنے لگے ،سڑک پر متعین ٹریفک کانسٹیبل نے انہیں روکا۔ وزیراعظم لارڈ سالسبری نے کانسٹیبل کو بتایا کہ میں وزیراعظم ہوں اور چونکہ میں عجلت میں تھااس لئے مجھ سے ٹریفک کے ضابطہ کی خلاف ورزی ہوگئی ۔ کانسٹیبل نے جواب دیا کہ میں اپنی ڈیوٹی کوبجا لانے والا کانسٹیبل ہوں ،میرا فرض صرف یہ ہے کہ ٹریفک کی خلاف ورزی نہ ہونے دوں ۔ چونکہ آپ ایک سفید ریش بزرگ ہیں اس لئے میں آپ سے صرف اتنی رعایت کر سکتا ہوں کہ آپ کا چالان نہ کروں ،لیکن اتنا آپ کو بہرحال کرنا پڑے گا کہ آپ واپس جائیں اور جہاں سے سڑک شروع ہوتی ہے ،وہاں سے سیدھی سمت میں آئیں ۔ وزیراعظم نے بلا کسی ’’چون و چرا‘‘ ٹریفک کانسٹیبل کا حکم مان لیا ،نیزاس واقعہ پر ملکہ وکٹوریہ نے خود رابطہ کرکے اس فرض شناس کانسٹیبل کو خراج ِ تحسین پیش کیا اور انعام سے نوازا۔
٭
یہ برطانیہ کے دوسرے وزیراعظم مسٹر بالڈون کا واقعہ ہے ۔وہ ایک کار میں سفر کر رہے تھے ،ایک چوراہے پر کار رُکی ۔ٹریفک کی قطار میں ان کی گاڑی پیچھے تھی ۔راستہ کھلاتو ڈرائیور نے قبل اس کے کہ آگے کی گاڑیاں گزریں،وزیراعظم کی کار آگے نکالنے کی کوشش کی ۔ ٹریفک کانسٹیبل نے فی الفور روکا۔ ڈرائیور نے کہا کہ وزیراعظم کو سرکاری کام کی وجہ سے جلدی ہے ۔ کانسٹیبل نے کہا :’’مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ موٹر نشین کون ہے ۔ قانون کی رو سے ٹریفک قوانین کی پابندی عام شہری اور وزیراعظم دونوں پر لازم ہے ‘‘۔ یہ سن کروزیراعظم نے گاڑی سے اتر کر کانسٹیبل سے معافی مانگی اورڈرائیور کو ہدایت کی کہ وہ ٹریفک کانسٹیبل کے حکم کی تعمیل کرے ۔

مذکورہ بالاواقعات کا اگرہم اپنے حکمرانوں کی طرزِ زندگی سے موازنہ کریں توہمیں یہ ایک خواب ہی محسوس ہوگا۔لیڈر اگر اپنے آپ کو اُصول و ضوابط کے آگے جھکا لے تو ساری قوم اُصول و قوانین کے آگے جھکنے والی بن جاتی ہے اور یہی کسی قوم کی ترقی کاسب سے بڑا راز ہے ۔اگر ہم وطن عزیز کی موجودہ صورتحال دیکھیں اور ان کا دیگر اقوامِ عالم کی تعمیر وترقی سے موازنہ کریں تو ہمارے پاس سوائے ہاتھ ملنے ، ندامت ، شرمندگی ،رسوائی و پشیمانی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا ،مگر کیا کریں ؟ چپ رہیں ؟ جو ہورہاہے ہونے دیں ؟ نہیں ایسا بھی نہیں کر سکتے ، کیونکہ ہمارا مذہب ہمیں وطن سے محبت ،ظلم و زیادتی پر بولنے اور اسے روکنے کی تلقین کرتا ہے ،خاموش رہنے کی نہیں ۔۔۔

ہمارے ہاں ہر چیز کا نظام ’’اُلٹ پلٹ‘‘ ہے،الٹ کا تو شائد علاج ہوجاتا ہے مگر’’اُلٹ پُلٹ‘‘کا نہیں ۔اگر یہ کہا جائے کہ اس نظام کے قصوروار صرف اکیلے ہمارے حکمران ہیں تو یہ غلط بات ہوگی ۔حکمران خود بخود ہی مسلط نہیں ہوتے بلکہ ہم خود انہیں’’ منتخب(ووٹ + دھاندلی کے ذریعہ سے) ‘‘کرتے ہیں ۔ پھرمنتخب ہوکر وہ اگلے پچھلے حساب ’’پورے‘‘کرتے ہیں ،جو ’’کسر‘‘انہیں پچھلے دور میں اپوزیشن میں رہ کر لگتی ہے اسے بھی خوب’’پورا‘‘ کرتے ہیں ،عوام سے گن گن کر’’بدلے ‘‘لیتے ہیں ۔ الیکشن جیتنے کے بعد اپنے ’’چیلوں ،گلوؤں ، جیالوں ، قبضہ مافیاوؤں، دیہاڑی داروں‘‘کو خوب ’’نوازتے ‘‘ہیں ،البتہ نوازنے کا معیار مختلف ہوتا ہے،وہ معیارکچھ یوں ہوتا ہے :

اپنے خاندان اور الیکشن جیتنے والے’’خاص لوگوں ‘‘کو وزیر بنا دیا جاتا ہے ، خاص لوگوں میں وہ افراد شامل ہوتے ہیں جو ان حکمرانوں کی ’’ہاں میں ہاں‘‘ ملائیں ،’’وفادار‘‘،سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کر دیں ،جھوٹ ثابت ہونے پر بھی نہ مانیں اور تمام ’’کارناموں ‘‘کے ہمراز ہوں ۔ ہارنے والے ’’خاصوں‘‘کو مشیراور سینیٹر بنا دیا جاتا ہے ،ان میں بھی تقریباً ’’اخلاقی‘‘طور پر مذکورہ بالا تمام’’خوبیاں‘‘ پائی جاتی ہیں۔ ’’گلوؤں ،قبضہ مافیاؤں‘‘ کومار دھاڑ ،لاتوں گھونسوں،توڑ پھوڑ ،جلاؤ گھیراؤ اور سیاسی مخالفین کو ’’سبق‘‘ سکھانے کے لئے ’’خصوصی فنڈز ‘‘ دئیے جاتے ہیں ۔ جو دیگر ’’معاونین ‘‘ رہ جاتے ہیں ان کو تمام تر ’’سہولیات ‘‘ کے ساتھ کسی ’’کمیٹی ‘‘ کا حصہ بنا دیا جاتا ہے،چند کمیٹی کے سربراہ بن جاتے ہیں اور دیگر ’’خدمت گزاروں‘‘ کونام نہاد کمیٹی میں بطور’’ رکن‘‘ شامل کر لیاجاتا ہے ،کسی کو’’کشمیر کمیٹی‘‘ توکسی کو ’’تحقیقاتی کمیٹی‘‘ ، کسی کے حصے میں ’’نمائندہ خصوصی ‘‘ کا عہدہ آتاہے توکسی کے ہاتھ ’’مشاورتی کمیٹی ‘‘ کا حصہ آتا ہے،کسی کو ادارہ (کرکٹ بورڈ،سٹیل مل ،پی آئی اے ،CAA،ایف آئی اے ،نادرہ وغیرہ )کا ’’سربراہ‘‘ بنا دیا جاتا ہے تو کسی کو بیرون ملک ’’سفیر‘‘ مقرر کر دیا جاتا ہے(جو ملک کی کم اور’’بادشاہ سلامت‘‘ کی ’’سفارتکاری‘‘زیادہ کرتے ہیں) ۔ وہ سرکاری ’’خدمت گزار ‘‘ جن کاالیکشن سے پہلے اور الیکشن کے دوران خصوصی ’’تعاون ‘‘ حاصل کیا جاتا ہے ،ان کو اس ’’تعاون‘‘ کے ’’صلے ‘‘ میں’’ ترقی‘‘ دے دی جاتی ہے ۔ آخر پر جب ’’جیالوں ، چیلوں ،کارکنوں،ووٹر وں اور دیہاڑی داروں ‘‘ کی باری آتی ہے،ان حصے میں’’ووٹ ڈالنا؍ڈلوانا، نعرے لگانا،پوسٹرزاور اشتہارات چسپاں کرنا،جلسہ گاہ میں کرسیاں لگانا،جھنڈے لہرانا،’’اگر مل جائے تو بریانی کھانا‘‘ آتا ہے، ان بیچاروں کو ’’محنت ‘‘ کے مقابلے میں ’’صلہ ‘‘ کم ملتا ہے ،ان کا کام دوسرے ’’خدمت گزاروں ‘‘ کی طرح ’’سدا بہار‘‘ نہیں بلکہ ’’موسمی‘‘ ہوتا ہے اور جب ’’موسم ‘‘ آتا ہے ،ان کی ’’خدمات‘‘ ڈیلی ویجز ملازمین کی طرح ’’ہائیر(Hire) ‘‘ کر لی جاتی ہیں ۔

’’ساڈی واری آئی تے کُگو رو پیا‘‘،سب سے آخر پر بیچاری عوام کی ’’باری‘‘ آتی ہے ،اگر کچھ بچ جائے تو پھراس میں سے’’ کچھ‘‘ ہم عوام کے حصے میں آتا ہے،ویسے عوام کے حصے میں زیادہ تر’’رونا کلپنا،بھوک و افلاس،مہنگائی ،بے روزگاری ، بیماریاں ، قرضے ، تقریریں، وعدے ، گولیاں ، جھوٹ ، جاگیردار ، وڈیرے ، چودھری ،خدمت گزاری ،ہشت گردی ، دھماکے ، اغواء ،فرقہ واریت،لڑائیاں جھگڑے ،غصہ ، پچھتاوا ، ڈپریشن، دانت پیسنا ، ہاتھ ملنا وغیرہ‘‘ہی آتا ہے ۔

کس کس شعبہ کی نشاندہی کریں ،کس کس کو قصووار ٹھہرائیں ،یہاں تو ’’آوے کا آوہ ہی بگڑا ہو اہے ‘‘۔ ہم کیا کریں؟ ہمیں وطن سے محبت ’’چپ‘‘ رہنے نہیں دیتی ہے اور اگر سچ اُگلیں تو پھر’’ لوگ ‘‘ناراض ہو جاتے ہیں ۔۔۔ بقولِ شاعر :
چُپ رہواں تے لہو سڑدا
جے بولاں تے لوک
Dr. Talib Ali Awan
About the Author: Dr. Talib Ali Awan Read More Articles by Dr. Talib Ali Awan: 50 Articles with 89409 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.