نہر زبیدہ …… تحفہ حجاج کرام
(Mufti Muhammad Waqas Rafi, )
یہ دوسری صدی ہجری کا زمانہ ہے ۔ دنیا کے
چپہ چپہ میں اسلام کی کرنیں اپنی تابناک شعاعیں بکھیر رہی ہیں ۔مملکت
اسلامیہ کی باگ ڈور خلیفہ ہارون الرشید کے ہاتھ میں ہے ۔ دنیا کے گوشے گوشے
سے مسلمان بیت اﷲ شریف کا حج کرنے آرہے ہیں ۔ مکہ مکرمہ میں پانی کی شدید
قلت ہے ۔ حجاج کرام اور اہل مکہ پانی کی قلت سے بری طرح دوچار ہیں۔
اسی زمانہ میں جعفر کی لخت جگر ملکہ زبیدہ’’ فریضہ حج ‘‘کی ادائیگی کے لئے
مکہ مکرمہ تشریف لائیں ۔ انہوں نے جب حجاج کرام اور اہل کو پانی کی دشواری
میں سخت مبتلا دیکھا ہ تو انہیں انتہائی قلق اور افسوس ہوا ۔ چنانچہ انہوں
نے اپنے اخراجات سے ایک عظیم الشان نہر کھودنے کا حکم دے کر ایک ایسا فقید
المثال کارنامہ انجام دیا جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
زبیدہ بنت جعفر ہاشمی خاندان کی چشم و چراغ تھیں اور خلیفہ ہارون الرشید کی
چچا زاد بہن تھیں ۔ یہ نہایت ہی خوب صورت اور انتہائی ذہین و فطین تھیں ۔
جب یہ جوان ہوئیں تو خلیفہ ہارون الرشید نے اسی ماہِ ذی الحجہ ۱۶۵ ھ میں
بڑی دھوم دھام سے ان سے اپنی شادی رچالی اور انہیں اپنے نکاح میں لے آئے۔
ملکہ زبیدہ نے جب مکہ مکرمہ میں پانی کی قلت کے سبب حجاج کرام اور اہل مکہ
کو درپیش مشکلات اور دشواریوں کا اپنے آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو انہوں نے
مکہ مکرمہ میں ایک نہر بنانے کا ارادہ کیا ۔ اس سے پہلے بھی وہ اہل مکہ
کاخوب مالی تعاون کرچکی تھیں اور خوب مال و دولت سے نوازچکی تھیں اور حج و
عمرہ کے لئے آنے والے مہمانوں کے ساتھ تو ان کا سلوک غایت درجہ فیاضانہ تھا
۔ اب نہر کی کھدائی کا منصوبہ سامنے آیا تو مختلف علاقوں سے انتہائی ماہر
قسم کے انجینئر بلائے گئے ۔ مکہ مکرمہ سے 35 کلو میٹر شمال مشرق میں
’’وادیٔ حنین‘‘ کے ’’جبال طاد‘‘ سے نہر نکالنے کا پروگرام بنایا گیا ۔ ایک
نہر جس کا پانی ’’جبال قرا‘‘ سے ’’وادیٔ نعمان‘‘ کی طرف جاتا تھا اسے بھی
’’نہر زبیدہ‘‘ میں شامل کرلیا گیا ، یہ مقام عرفات سے 12کلو میٹر جنوب مشرق
میں واقع تھا ۔ علاوہ ازیں منیٰ کے جنوب میں صحراء کے مقام پر ایک تالاب
’’بئرِ زبیدہ‘‘ کے نام سے تھا جس میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا تھا ، اس
سے سات کاریزوں کے ذریعہ پانی نہر میں لے جایا گیا ، پھر وہاں سے ایک چھوٹی
نہر مکہ مکرمہ کی طرف اور ایک عرفات سے مسجد نمرہ تک لے جائی گئی۔ اس عظیم
منصوبے پر 17لاکھ دینار خرچ ہوئے ۔
ملکہ زبیدہ نے انتہائی پرخلوص شوق و جذبہ کے ساتھ یہ نہر کھدوائی تھی ۔ وہ
حجاج کرام اور اہل مکہ کو پانی کی دشواریوں سے نجات دلانا چاہتی تھیں اور
یہ کام انہوں نے محض اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر انجام دیا تھا ۔ اس بات
کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ جب اس نہر کی باقاعدہ منصوبہ بندی ہونے لگی تو
اس منصوبہ کا ایک منتظم انجینئر ملکہ زبیدہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آکر
کہنے لگا : ’’ آپ نے نہر کے جس منصوبہ کا حکم دیا ہے اس کے لئے اچھے خاصے
اخراجات درکار ہوں گے ، کیوں کہ اس کی تکمیل کے لئے بڑے بڑے پہاڑوں کا سینہ
چیرنا پڑے گا ، چٹانوں کو توڑنا پڑے گا ، ان کے نشیب و فراز کی مشکلات سے
نمٹنا پڑے گا اور سیکڑوں مزدوروں کو رات دن ایک کرکے محنت کرنی پڑے گی تب
کہیں جاکر نہر کی کھدائی کا منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچے گا ۔‘‘ یہ سن کر
ملکہ زبیدہ نے جو جواب دیا وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔ ملکہ نے فرمایا
: ’’ اس منصوبہ کو شروع کردو چاہے کلہاڑے کی ایک ضرب پر ایک دینار خرچ ہی
کیوں نہ آتا ہو۔‘‘
اس طرح جب نہر کا منصوبہ اپنی تکمیل کو پہنچ گیا تو منتظمین اور نگران
حضرات نے تمام تر اخراجات کی تفصیلات ملکہ زبیدہ کی خدمت میں پیش کردیں ۔
اس وقت ملکہ دریائے دجلہ کے کنارے واقع اپنے محل میں ٹہل رہی تھیں ۔ ملکہ
نے وہ تمام کاغذات لیے اور انہیں کھول کر دیکھے بغیر ہی دریا میں ڈال دیا
اور کہنے لگیں: ’’ الٰہی ! مجھے دُنیا میں کوئی حساب کتاب نہیں لینا ٗ تو
مجھ سے قیامت کے دن حساب کتاب نہ لینا ۔‘‘
ملکہ زبیدہ نے یہ عظیم الشان کارنامہ انجام دے کر حجاج کرام کی خصوصاً اور
اہل مکہ کی عموماًپانی کی قلت کے سبب درپیش مشکلات کا مسئلہ حل کردیا۔
ملکہ زبیدہ کی وفات جمادی الاولیٰ ۲۱۶ ھ میں بغداد میں ہوئی ۔وفات کے بعد
کسی نے آپ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا : ’’ اﷲ تعالیٰ نے تہمارے ساتھ کیا
معاملہ فرمایا؟ ۔‘‘ کہنے لگیں: ’’اﷲ تعالیٰ نے میری بخشش فرمادی ۔‘‘ پوچھنے
والے نے پوچھا : ’’ آپ نے نہر کھدواکر حجاج کرام اور اہل مکہ کو پانی کی
فراوانی سے مالا مال جوکردیاتھا لہٰذاآپ کی بخشش تو ہونی ہی تھی ۔‘‘ کہنے
لگیں : ’’ نہیں نہیں! جب نہر والا عمل پیش ہوا تو اﷲ تعالیٰ نے مجھ سے
فرمایا : ’’ یہ کام تو تم نے خزانے کے پیسوں سے کروایا تھا ، اگر خزانہ نہ
ہوتا تو نہر بھی نہ بنتی ، یہ بتاؤ تم نے میرے لئے کیا عمل کیا ہے ؟۔‘‘
ملکہ کہنے لگیں : ’’میں تو گھبراگئی کہ اب کیا بنے گا ؟ مگر اﷲ تعالیٰ نے
مجھ پر مہربانی فرمائی اور مجھ سے فرمایا کہ : ’’ تمہارا ایک عمل ہمیں بہت
پسند آیا ۔ وہ یہ کہ ایک مرتبہ بھوک کی حالت میں تم دسترخوان پر بیٹھی
کھانا کھا رہی تھی کہ اتنے میں ہمارے منادی (مؤذن) نے اﷲ اکبر اﷲ اکبر کہہ
کر اذان دینا شروع کی اور تمہیں میری طرف بلایا اس وقت تمہارے ہاتھ میں
لقمہ تھا اور تمہارا دوپٹہ سر سے سرکا ہوا تھا ، تم نے لقمہ نیچے رکھا اور
پہلے اپنے سر کا دوپٹہ ٹھیک کیا اس کے بعد تم نے وہ لقمہ کھایا ۔چونکہ تم
نے ہمارے نام کا ادب اور احترام کیا اور شرم سے اپنا سر ڈھانپ لیا اس لئے
ہم نے تمہاری مغفرت کردی۔ |
|