طلاق ثلاثہ :نفاظ یکساں سول کوڈ کا چور دروازہ

ہندوستان میں کچھ خاص نظریات کے حامل افراد گذشتہ عرصہ سے اقدامی انداز میں اپنی باتوں کے نفاذ کے لئے سرگرم عمل ہیں ہر قیمت پر اپنے منصوبوں کو زمینی سطح پر کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں، کبھی بھگواکرن، کبھی سول کوڈ تو کبھی ہندو راشٹر؛ مختلف ناموں اور مختلف پیرایوں اور الگ الگ تدابیر کے ساتھ اپنے منشاء و مقصد کی تکمیل چاہتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان کا یہ خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا، ان کی تمام تدابیر ناکام ہوئیں اور تشدد و تعصب پر مبنی قرار پائیں۔ ہر محاذ اور ہر موڑ پرانہیں منھ کی کھانی پڑی، انہیں پورے طور پر مسترد کردیا گیا، تمام انسانوں نے اتحاد کا ثبوت دیتے ہوئے ملک کو زرد ہونے سے بچایا۔ اب یہ طبقہ اس فکر میں غرق تھا کہ آخر ایسا کون سا حربہ ہے، ایسی کون سی اسکیم ہے جس کے تحت لامذہبیت کا وجود قانون کی کتابوں میں ہو اور ہندوستان کی رنگارنگ مذہبی تہذیب کا جنازہ نکل جائے۔ انیکتا میں ایکتا کا نعرہ ختم ہو اور کچھ خاص افراد کے نظریات کو ہندوستان کا قانون قرار دے دیا جائے، ان کی اس خواہش و آرزو کی تکمیل میں جو قوم آڑے آرہی تھی، جو راستے کا پتھر ثابت ہورہی تھی، جس کے حوصلے اور عزائم متحیر کرنے والے تھے اس قوم کوکس طرح شکست دی جائے، کس طرح عوام کو ان کے خلاف کیاجائے اور کس طرح ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا جائے؟ گائے کے نام پر بھی اس گھاٹی کو پار نہیں کیا جاسکا، آپسی اختلافات اور منافرت بھی اس حکمت عملی کو کامیاب نہ کر سکی۔ اب ضرورت تھی ایسی تدبیر کی جو مسلمانوں کو منتشر کردے، غیر مسلموں کو ان کے خلاف کردے جس کی طرف عوام وخواص متوجہ ہوں، ان کے جذبات بھڑک اٹھیںتاکہ نام نہاد سول کوڈ یعنی لامذہبیت کا نفاذ آسان ہوجائے۔ اس اثناء میں طلاق کے نتائج منظر عام پر لائے گئے جن میں واضح طور پر یہ بات سامنے آئی کہ سب سے زیادہ مسلم خواتین طلاق کاشکار ہوتی ہیں، انہیں ستایا جاتا ہے، ان پر مظالم کی انتہا کی جاتی ہے، لہٰذا اس کا حل کیا ہے؟ بڑی خوبصورتی سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ راسخ کی جارہی ہے کہ سرے سے طلاق کے وجود ہی کو ختم کردیا جائے۔ عجیب منطق ہے دنیا میں نہ جانے کتنے افراد روٹی زیادہ کھانے سے بدہضمی کا شکار ہوکر مر گئے مگر تاریخ انسانیت میں کوئی ایسا طبیب پیدا نہیں ہوا جس نے یہ کہا ہو کہ روٹی کھانا ہی چھوڑ دیا جائے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ جو مذہب سے ناواقفیت کی زندگی گذار رہا ہے، اسے یہ سمجھایا جائے طلاق کھیل نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے جس کا استعمال بوقت ضرورت ہی کیا جائے۔ قرآن کریم کہتا ہے ’’اگر حدود خداوندی کو قائم نہیں کرسکتے تو طلاق ہے‘‘ نمک کی کمی زیادتی پر طلاق دینے والے یقینا عنداللہ ماخوذ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ فرماتے ہیں: ابغض الحلال الطلاق حلال لیکن طلاق ضرورت ہے جس کا زندگی میں اہم کردار ہے اور قرآن کریم سے واضح الفاظ میں ثابت ہے، کسی جاہل، ناچنے والے، دہریئے یا کسی نغمہ نگار کی بکواس کرنے سے حقیقت بدل نہیں سکتی، جسے نہ قرآن کی باریکیوں کا علم، نہ معاشرہ کی اقدار کی فکر، جس کے گھر کا ہر فرد لامذہبیت کا عملی علمبردار ہے، اس کی باتوں کی شریعت میں کیا حیثیت ہے۔ جن فنون میں نہ آپ کو مہارت نہ واقفیت ان میں آپ کی گفتگو حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟ آپ گفتگو کیجئے کہانی پر، فلم پر، موسیقی پر، نغمہ نگاری پر، وہی آپ کا میدان ہے۔ شریعت کے معاملات پر نہیں، ہر شخص ہر معاملہ میں صاحب رائے نہیں ہوتا، آپ اپنے میدان عمل پر کچھ بھی کہئے کون روکتا ہے؟ اگر ایک ڈاکٹر تاریخ کی بات کرتا ہے یا ایک فزیشین سرجن کو صلاح دیتا ہے تو ہر کسی کی زبان پر بلاتامل یہ الفاظ جاری ہوجاتے ہیں کہ صاحب یہ آپ کا میدان نہیں ہے ،پھر شریعت کا کیا ٹھکانہ جو سب سے اہم ہے۔ جو اصحاب اس میدان کے ماہر ہیں، جنہوں نے اس میں اپنی زندگیاں کھپائی ہیں، شب و روزمطالعہ کرکے باریکیوں پر مطلع ہوئے ہیں وہ خود اس معاملہ میں کوشش کریں گے اور حل تلاش کریں گے لیکن قرآن واحادیث پر حملہ برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کسی معاشرہ میں خرابی ہے تو اس کے قوانین کی نہیں افراد کی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔

آئیے آپ کو تصویر کا دوسرا رخ دکھایا جائے عورتوں پر مظالم کا نعرہ لگانے والے آنکھیں کھولیں اور ہندوستان کے منظرنامے کو دیکھیں ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں 24923 زناکے معاملہ درج کئے گئے، کیا یہ عورتوں پر ظلم نہیں ہے؟ کیا یہ عورتوں کے لئے ذہنی جسمانی تکلیف نہیں ہے؟ اس سے بڑھ کر کوئی تکلیف ہوسکتی ہے؟ اس سے بڑھ کر کوئی ظلم ہوسکتا ہے؟ جاوید اختر کی زبان کو اس وقت تالا کیوں پڑا رہا؟ عورتوں کی حمایت کی بات کرنے والے کہاں سوئے ہوئے تھے؟ کیا ان کی زبانوں نے ایسا کوئی قانون اُگلا جیسے طلاق
rahat ali siddiqui
About the Author: rahat ali siddiqui Read More Articles by rahat ali siddiqui: 82 Articles with 84967 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.