صوفیائے اکرام اور انسان دوستی
(Dr. Muhammad Javed, Dubai)
اسلام کی ہمہ گیریت اور انسان دوستی کو عملی طور پہ معاشرے میں متعارف کروانے میں صوفیاء اکرام نے اہم کردار ادا کیا، خصوصاً برصغیر پاک و ہند میں صوفیاء اکرام نے اپنے عملی انسان دوست اور پر خلوص کردار سے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے دلوں میں گھر کیا۔آج انتہا پسندی، عدم رواداری اور تشدد پسندی کے اس ماحول کے تدارک کے لئے ضروری ہے کہ صوفیاء اکرام کے کردار اور ان کی تعلیمات کو معاشرے میں عام کیا جائے۔ |
|
|
اسلام کی ہمہ گیر اور انسان دوست تعلیمات
پہ عمل کر کے انہیں معاشرے تک پہنچانے میں صوفیائے اکرام نے اہم کردار ادا
کیا، حضرت عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں’’تصوف خدا کے ساتھ
اورمخلوق کے ساتھ حسن اخلاق کا نام ہے‘‘ در اصل تصوف ایک ایسی کیفیت اور
عمل ہے جو انسان کی شخصیت سے ’’انا‘‘ کے جراثیم ختم کرتا ہے، جس کا نتیجہ
یہ ہوتا ہے کہ تکبرکی جگہ عجز و انکساری لے لیتی ہے۔ ’’مادیت پرستی ‘‘کے
جراثیم ختم کرتا ہے جس سے لالچ و حرص کی جگہ فیاضی آ جاتی ہے، ’’تنگ نظری‘‘
کے جراثیم ختم کرتا ہے جس سے وسعت نظری پیدا ہو جاتی ہے۔’’متشدد ذہنیت‘‘ کا
خاتمہ کرتی ہے جس سے نرمی اور ملائمت پیدا ہو جاتی ہے۔
صوفیائے اکرام نے لوگوں کا تعلق خالق کائنات سے مضبوط کرنے اور تمام مخلوق
کی خدمت اور اس سے محبت کا پیغام دیا۔ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ صوفیائے
اکرام نے محبت، انسان دوستی اور اعلیٰ روحانی و اخلاقی کردار کے ذریعے یہاں
پہ بسنے والے تمام مذاہب کے دل جیتے۔ اور اسلام کی تعلیمات کو پھیلایا، آج
ہندوستان میں کروڑوں مسلمانوں کا وجود صوفیائے اکرام کی پر خلوص اور انسان
دوست محنت کا ثبوت ہے۔
صوفیاء نے تعلق باللہ اور انسانیت کی خدمت کو معاشرے میں فروغ دیا، ایک طرف
انہوں نے افراد معاشرہ کو بلا تفریق مذہب، تزکیہ روحانی کی تعلیم دی اور
دوسری طرف انہیں انسان دوستی کا سبق سکھایا، یہ سبق انہوں نے صرف درس
وتدریس کی صورت تک محدود نہیں کیا بلکہ اس پہ من و عن عمل کر کے دکھایا،
انہوں نے تمام مخلوق سے محبت کی، کسی سے دل میلا نہیں کیا، کسی سے نفرت کا
اظہار نہیں کیا، محبت پھیلائی، محبت کی دعوت دی، محبتوں سے دل جیتے۔ اور یہ
سارا عمل صرف اپنے خالق کی رضا کے لئے کیا، صوفیائے اکرام کا کردار یہ تھا
کہ اگر اہل اقتدار کی طرف سے کسی قسم کا معاشرے پہ جبر ہوتا تو اس پہ برسر
اقتدار طبقے کو باقاعدہ تنبیہ کرتے، ایک طرح سے خانقاہ نے ایک زمانے میں
حزب اختلاف کا حقیقی کردار ادا کیا، جب بھی بادشاہوں کی طرف سے ایسے
اقدامات کئے گئے جو کہ عوام کے لئے مشکلات کا باعث بنے ان پہ صوفیائے اکرام
نے بادشاہوں کو طلب کر کے ان کو تنبیہ کی، سرزنش کی۔ یہی وجہ تھی کہ بادشاہ
جب برسر اقتدار ہوتے تو وہ خانقاہوں کا نہ صرف احترام کرتے تھے بلکہ کوئی
بھی ایسا قدم اٹھانے سے گریز کرتے تھے جس سے معاشرے کے اندر بے چینی پیدا
ہو، لوگوں کے لئے مشکلات پیدا ہوں۔ خانقاہ کے اس کردار کو آج بھی زندہ ہونا
چاہئے۔اور آج بھی برسر اقتدار طبقے کی طرف سے عوام پہ ڈھائے جانے والے
مظالم و استحصال پہ خانقاہوں سے آواز اٹھنی چاہئے۔
عبید اللہ سندھی کا کہنا تھا ’’ہمارے صوفیائے اکرام نے خدا پرستی کی اس
عملی شکل انسان دوستی کو تو اصل دین قرار دیا تھا ان کا تو یہ عقیدہ ہو گیا
تھا کہ جسے صرف اپنے گرو ہ یا جماعت سے محبت ہے اور وہ دوسروں کو جو اس کے
ہم عقیدہ نہیں نفرت سے دیکھتا ہے وہ سچا موحد اور خدا پرست نہیں ہو سکتا۔
وہ اپنی تعلیمات میں اس بات پہ زور دیتے تھے کہ تمام انسانوں کو ’’عیال
للہ‘‘(اللہ کا کنبہ )، سمجھو اور ان کا اپنا عمل بھی اس کا شاہد تھا، لیکن
اس سے یہ خیال نہ ہو کہ انہوں نے صواب و ناصواب اور ثواب و گناہ کی تمیز
اٹھا دی تھی، بے شک و نیکو کار کو اچھا سمجھتے تھے، لیکن غلط کار کا ان کو
نیکو کار سے زیادہ خیال رہتا تھا اور جس طرح ماں اپنے نافرمان بچے کے لئے
زیادہ کڑھتی ہے اور اس کا اسے دوسروں سے زیادہ خیال ہوتا ہے اسی طرح غلط
کار کو سیدھے راستے پر لگانے کے لئے یہ خدا پرست بزرگ تیار رہتے تھے۔‘‘
اللہ کی مخلوق سے محبت اور ان کی عزت کے حوالے سے حضرت عبد القادر جیلانی
رحمہ االلہ علیہ فرماتے ہیں’’کسی مخلوق پر لعنت نہ بھیجے اور ذرہ سے بھی کم
کسی مخلوق کو اذیت نہ دے، کیونکہ یہ بات نیک اور سچے لوگوں کی عادت سے ہے
اور اس کے باعث وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہتا ہے۔ اور آخرت
میں بلند درجے پہ فائز ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ اسے ہلاکت کی جگہوں سے بچائے
گا۔‘‘ مزید فرماتے ہیں’’مخلوق میں سے کسی پر چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا بوجھ
نہ ڈالے،بلکہ دوسروں کا بوجھ اٹھائے،چاہے وہ اس کی ضرورت محسوس کریں یا نہ
کریں۔‘‘
صوفیائے اکرام نے معاشرے کے سرمایہ پرست گروہوں اور اہل ثروت و اقتدار سے
کسی قسم کا لالچ اور امید نہ باندھنے کی تلقین کی ہے، خاص طور پہ دین کا
کام کرنے والوں کو یہ تعلیم دی کہ اپنی دین کی عزت کا خیال رکھیں ایسے
عطیات اور مالی اہانت لینے سے منع کیا جس سے عزت نفس مجروح ہو اور دینی
طبقہ سرمایہ داروں کے سامنے دب کر رہے اور حق بات نہ کر سکے۔غنیۃ الطالبین
میں حضرت عبد القادر جیلانی رحمہ االلہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’ مالدار لوگوں
میں مجلس اختیار کرے تو ان پر اپنی قوت کا ظہار کرے،ان سے لالچ نہ رکھے جو
کچھ ان کے پاس ہے اس کی امید نہ رکھے، اور کسی کو خاطر میں نہ لائے،ان کے
عطیات حاصل کرنے کی خاطر ذلت و رسوائی جیسے امور سے اپنے دین کی حفاظت
کرے۔‘‘ مزید فرماتے ہیں کہ’’لوگوں سے امید اور طمع ختم کر دے،اور جو کچھ ان
کے ہاتھوں میں ہے اس کی لالچ نہ کرے،یہی بہت بڑی عزت ہے‘‘آپ رحمہ اللہ نے
ایک طرف حرص و لالچ نہ رکھنے کی تعلیم دی تو دوسری طرف غیر اللہ سے خوف اور
ہر طرح کی امید نہ رکھنے کی تلقین کی۔ فرماتے ہیں’’توکل یہ ہے کہ غیر خدا
سے نہ امید ہو اور نہ خوف‘‘
حضرت خواجہ معین الدین چشتی(خواجہ غریب نواز ) رحمۃ اللہ علیہ غریبوں
مسکینوں کی مدد و کفالت کے حوالے سے بہت شہرت رکھتے تھے آپ کا فرمانا
تھا’’جس کسی نے نعمت پائی وہ سخاوت کی بدولت سے پائی‘‘ درویش وہ ہے جو کسی
حاجت مند کو محروم نہ لوٹائے‘‘ مزید فرماتے ہیں’’اللہ تعالیٰ کے پاس سب سے
محبوب کون سی صفات ہیں؟ فرمایا : ۱۔ غمگین افرد کی فریاد سننا ۲۔مسکینوں کی
حاجت پوری کرنا۔ ۳۔ بھوکوں کو کھانا کھلانا۔‘‘
حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں ایک عرصہ تک حضرت
خواجہ معین الدین چشتی کی خدمت اقدس میں حاضر رہااس دوران کسی سائل یا فقیر
کوآپ کے در سے خالی ہاتھ جاتے ہوئے نہیں دیکھا، آپ کے لنگر خانے میں روزانہ
اتنا کھانا تیار کیا جاتا تھا کہ شہر کے تمام غربا ء و مساکین خوب سیر ہو
کر کھاتے‘‘
اسی طرح حضرت خواجہ سید محمد نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے
بڑے صاحب کمال متصوف تھے وہ اپنی ریاضت، دعوت تبلیغ کے ساتھ ساتھ انسانوں
کی مدد کرنے سے بھی غافل نہیں ہوئے، وہ انسانوں سے بے حد محبت کرتے تھے، ان
کا لنگر ہمیشہ غرباء و مساکین کے لئے کھلا رہتا تھا، ہزاروں کی تعداد میں
لوگ ان کے لنگر سے کھانا کھاتے تھے، ان کا معمول تھا کہ وہ ہر جمعہ کی نماز
سے پہلے خود خانقاہ کے ساتھ بنے ہوئے لنگر خانے کا معائنہ کرتے، تاکہ جو
کچھ وہاں موجود ہے سب تقسیم کر دیا جائے، ان کے لنگر خانے اور مہمان خانے
میں انتہائی مہمانوازی کے ساتھ آنے والوں کا خیال رکھا جاتا تھا۔ انسان
دوستی کے حوالے سے ان کا رویہ اس قدر اعلیٰ تھا کہ وہ اپنے دشمنوں یا
حاسدوں کے ساتھ بھی محبت والا رویہ رکھتے، ان کو ہمیشہ معاف کرتے، ایک
واقعہ بھی مشہور ہے کہ ایک شخص ان سے انتہائی بغض رکھتا تھا اور ہمیشہ اس
کی کوشش ہوتی کہ آپ کو نقصان پہنچائے، ایک دن آپ نے سنا کہ اس کا انتقال ہو
گیا ہے تو آپ فوراً اس کے جنازہ میں شریک ہوئے۔ اس کے جنازے کے بعد دو رکعت
نفل ادا کئے اور اس کی تمام خطاؤں پہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی اور اس
کے لئے دعائے خیر فرمائی۔ ایک اور واقعہ بھی مشہور ہے کہ ایک عالم دین
مولانا ضیاء الدین سانامی آپ پہ سماع کی وجہ سے بہت تنقید کرتے تھے، اس
حوالے سے انہوں نے مخالفت میں ایک کتاب بھی لکھ دی تھی۔جب مولانا کا موت کا
وقت قریب آیا تو حضرت نظام الدین ان سے ملنے ان کے گھر پہنچ گئے۔ مولانا نے
جب ان کو اپنے ہاں دیکھا تو شرمسار ہوئے اور اپنے پگڑی حضرت کے قدموں میں
ڈال دی، آپ نے اسے اٹھایا اور انہیں عزت دی، لیکن مولانا ان سے آنکھیں نہیں
ملا سکے۔ ان کی عادت کے بعد جوں ہی حضرت باہر نکلے تو مولانا کا انتقال ہو
گیا، حضرت نے ان کے انتقال پہ فرمایا کہ افسوس ایک ماہر شریعت عالم آج دنیا
سے رخصت ہو گیا۔
عصر حاضر میں جہاں ہر طرف مادیت پرستی کا بازار گرم ہے،معاشرہ انفرادیت
پسندی کے روگ میں مبتلاچکا ہے،تنگ نظری، فرقہ واریت، تشدد اور منافقت نے
ناک میں دم کر رکھا ہے، اس صورتحال میں اولیائے اکرام کی سیرت اور ان کی
تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں ہمیں اپنے کردار کو بھی
جانچنا چاہئے کہ آج ہم سرمایہ پرستی میں کس قدر مبتلا ہو چکے ہیں،غیر اللہ
کا خوف ہمارے دلوں میں موجود ہے، ہوس و حرص نے ہمیں دنیا پرست بنا دیا ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اولیائے اکرام کی سیرت کو اپنا کر ہم بھی بھوکوں
کو کھانا کھلانے والے بن جائیں، انسان دوستی کی بنیاد پہ معاشرہ تشکیل دیں،
کسی سے نفرت نہ کریں، اللہ کی مخلوق کو اس کا کنبہ سمجھ کر اس کی مدد کریں،
ایسے ادارے معاشرے میں تشکیل دیں جن سے مفلوک الحال، پریشان حال افراد کی
دست گیری ہو معاشرہ تنگ دستی اور فساد سے نکلے، محبت اور اخوت کا ماحول
پیدا کریں، نظرئیے، فکر، مسلک سے بالاتر ہو کر سب کو امن و آشتی کا پیغام
دیں، سب کو ساتھ لے کر چلیں، اپنے آپ کو ہمہ وقت دوسروں کی مدد اور خدمت کے
لئے وقف رکھیں یہی سیرت اولیاء ہے۔معاشرتی زندگی میں، انفرادیت کی بجائے
اجتماعیت کی سوچ کو اپنائیں۔ سرمایہ دار طبقے کے آلہ کار بن کر اپنی دینی ،
قومی حمیت کو داؤ پہ نہ لگائیں ذاتی انا کو بنیاد بنا کر دوسروں سے قطع
تعلق کر دینا یا کسی بھی طرح کی نفرت کو فروغ دینا معاشرتی تباہی کا ذریعہ
ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ ہم اولیائے اکرام سے صرف رسمی محبت نہ رکھیں بلکہ
ان کی تعلیمات اور کردار کو پنائیں تاکہ موجود تشدد پسندی، انتہا پسندی اور
مادیت پرستی کے مفاسد کا تدارک ہوسکے۔
آخر میں ڈاکٹر علامہ اقبال کے یہ شعر عرض ہیں جن میں انہوں نے فقیری کو
خراج تحسین پیش کیا۔
مہر ہ مہ و انجم کا محاصب ہے قلندر ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر
اگر جہاں میں میرا جوہر آشکارا ہوا قلندری سے ہوا ہے سکندری سے نہیں۔ |
|