تعلیم اور غریب؟

گزشتہ دنوں پنجاب بھر کے تعلیمی بورڈز نے اپنے امتحانی نتائج کا اعلان کیا، سب سے اہم خبر یہی برآمد ہوئی کہ گجرانوالہ اور ملتان بورڈز کی دو لڑکیوں نے 505میں سے صرف ایک ایک نمبر کم لیا، یعنی دونوں نے 504نمبر لے کر پنجاب بھر میں نہ صرف پہلی پوزیشن حاصل کی، بلکہ اس قدر زیادہ نمبروں کا ریکارڈ بھی قائم کردیا۔ ملتان بورڈ کی لڑکی کا تعلق ایک چھوٹے سے قصبے کبیر والہ سے ہے اور اس کے والد کا ایک چھوٹا کا کریانہ سٹور ہے۔ صرف ایک نمبر کم ہونا بھی حیران کن بات ہی ہے، کوئی زمانہ ہوتا تھا جب ممتحن ’’خوشخطی‘‘ کے ضمن میں بھی نمبر کاٹ لیا کرتے تھے، اب شاید نئے زمانے میں جب کہ تختی اور لکھائی سیکھنے کے دیگر لوازمات اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں، خوشخطی کی کوئی اہمیت نہیں رہی، ویسے بھی کمپیوٹر کی اپنی لکھائی ہوتی ہے، لکھنے والا خواہ کوئی بھی ہو، لکھائی ایک جیسی ہوتی ہے۔ گویا اِ ن دونوں بچیوں کو جماعت نہم میں سب کچھ آتا تھا، یہ نہایت ہی خوش کن اور حوصلہ افزا خبر ہے۔ دوسری طرف اسی خبر کا دوسرا اہم اور پریشان کن پہلو یہ ہے کہ پنجاب کے تمام بورڈز کا اوسط نتیجہ 49فیصد سے لے کر 56فیصد تک ہی رہا۔ یوں جانئے کہ امتحان کے میدان میں اترنے والے تقریباً نصف بچوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، یہ الگ بات ہے کہ کسی نے کوئی پیپر چھوڑ دیا، کوئی امتحان دینے نہیں گیا اور کوئی فیل ہوگیا، مگر نتیجہ مایوس کن ہے۔

اس سے قبل جب پنجاب کے تعلیمی بورڈز نے میٹرک کے نتیجے کا اعلان کیا تھا، تو نتائج کے ساتھ ساتھ ایک اور خبر سامنے آئی تھی کہ آرٹس میں پوزیشن لینے والے اکثر بچوں کے والدین بہت غریب لوگ تھے، وہ معمولی کام کرتے تھے، مگر انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم کو ترجیح بنا کر رکھا، اہمیت دی اور بچوں کی محنت رنگ لائی، قسمت نے ان کا ساتھ دیا۔ کالم نویس نے تب بھی ایک خدشے کا اظہار کیا تھا کہ یہی بچیاں جنہوں نے میٹرک میں پوزیشن لی ہے اور ان کے والدین کی غربت کو ہم سب لوگ ایک خوش آئند ایشو بنا کر قلابازیاں لگائیں اور بھنگڑے ڈالے، وہاں جس پریشانی کا اظہار کیاگیا تھا، وہ یہ تھی کہ یہ غریب لوگ میٹرک تک تو پہنچ جاتے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ ہو سکتا ہے انٹر میڈیٹ تک بھی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں، مگر آگے اعلیٰ تعلیم تک غریب کی رسائی ممکن نہیں ہوتی، کیونکہ نیچے تو کسی حد تک تعلیم کے اخراجات کم ہوتے ہیں مگر کالج وغیرہ میں جا کر تعلیم مالی حالت کے ساتھ چلتی ہے۔ حتیٰ کہ یونیورسٹی کی سطح تک اگر کوئی غریب کا بچہ پہنچ گیا تو جانئے کہ وہ اول تو بہت زیادہ غریب ہے ہی نہیں، یا پھر وہ قسمت کا دھنی ہے۔

میرے اس خدشے کا تصور میں حقیقت کا رنگ اس وقت بھر گیا جب میٹرک اور نہم کے چند روز بعد ہی ملتان کی سرکاری یونیورسٹی نے بی اے ، بی ایس سی کے نتائج کا اعلان کیا۔ جن بچیوں نے پوزیشن حاصل کی تھی، ان میں صرف ایک کسان کی بیٹی تھی، باقی کا تعلق کھاتے پیتے گھرانوں سے تھا، یہاں یہ بھی واضح رہے کہ دس میں سے چار کا تعلق سرکاری اور دیگر کا باقی اداروں سے تھا، یہ بھی واضح ہی ہے کہ نجی اداروں میں غریب کا بچہ تعلیم حاصل نہیں کرسکتا۔ جس کسان کا ذکر ہوا ہے، وہ بھی یقینا غربت کے زمرے میں نہیں آتا ہوگا۔ تو تفریق تو میٹرک سے گریجوایشن تک سامنے آگئی۔ گویا غریب کے بچے اول تو پہلی ٹھوکر کھا کر سکول سے باہر ہی گِر جاتے ہیں، سکول جانے کی بجائے ’چائلڈ لیبر‘ وغیرہ کا شکار ہو جاتے ہیں، باقی پرائمری میں رہ جاتے ہیں، اسی طرح گرتے گرتے میٹرک تک اور اوپر مزید کم جاتے ہیں۔ نصیبوں کا لکھا سمجھ کر برداشت کرلیتے ہیں۔

اپنی حکومتیں بھی تعلیم کے میدان میں جتنی کوششیں کرتی ہیں، ان میں زیادہ تر غریبوں کے لئے ہی ہوتی ہیں، بتایا جاتا ہے کہ تعلیم مفت ہے، داخلوں کے لئے میرٹ ہے، اگر امیروں کے لئے صادق پبلک سکول اور ایچی سن ہیں تو غریبوں کے لئے دانش سکول ہیں۔ حالانکہ دانش سکول شرح خواندگی میں ایک فیصد بھی اضافہ نہیں کررہے کہ یہاں چھٹی کلاس سے تعلیم شروع ہوتی ہے۔ حکومتی رویوں اور تعلیمی بورڈز کے نتائج سے یہ بات صاف دکھائی دیتی ہے کہ غریب کے لئے آگے بڑھنے کے تمام راستے بند ہوتے جاتے ہیں، بڑے لوگ افسر اور یہ اُن کے کلرک بنیں گے اور بڑے لوگ سیٹھ اور یہ اُن کے منشی بنیں گے ۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472790 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.