اُردو ہے جس کا نام اُسکا نفاذ نا گزیر کیوں ہے

زبان کسی بھی قوم کی ایک پہچان ہوتی ہے جس سے وہ اپنے قبیلے یا گروہ کی شناخت کا باعث بنتا ہے اور ابلاغ کے لئے آسانی میسر آتی ہے ہر سال مختلف ممالک میں اپنی اپنی قومی زبانوں کے حوالوں سے سیمینار کروائے جاتے ہیں اور اپنی زبان کی ترقی کے لئے کاوشوں کو تیز کیا جاتی ہے مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں پاکستان میں گنگا اُلٹی بہتی ہے یوں تو ہم کو آزاد ہوئے 69سال ہو گئے ہیں مگر اس کے باوجود ہمارا رہن سہن ہماری بول چال سب ہمارے اُوپر راج کرنے والوں ہی کا ہے لفظی طور پر تو ہم آزاد ہیں مگر حقیقی طور پر آج بھی ہمارے اطوار ویسے ہی ہیں !
اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دُھوم ہماری زُبان کی ہے

حضرت داغ دہلوی شائد جوشِ جنون میں یہ شعر فرما گئے کیونکہ ہمیں تو کہیں بھی اُردو کے نفاذ کا وہ حق نظر نہیں آتا جو کہ ہونا چاہئے کیونکہ اُردو ہماری قومی زبان ہے مگر ہمارے ہاں دفتروں میں انگریزی بولی، پڑھی اور لکھی جاتی ہے جس کی بنیادی وجہ ہماری نسل در نسل غلامی کی عادت ہے جو ہماری رگوں میں رچ بس چکی ہے اور اب حال یہ ہے کہ ہم اُردو بولنے والوں کو مہاجر کہتے ہیں جس بناء پر اُردو قومی زبان کم اور نسلی زبان زیادہ لگتی ہے ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں اُردو دوسری بڑی زبان ہے اور بھارت میں دہلی، بِہار، جھاڑکھنڈ، تلنگانہ، اور اُتر پردیش جیسے علاقوں میں اُردو کو دوسری سرکاری زبان ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس کے بر عکس پاکستان جس کی قومی زبان ہی اُردو ہے وہاں پر اُردو کو بطور سرکاری زبان رائج نہ کرنا حکومت پر سوالیہ نشان ہے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد سے لے کر اب تک ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اُردو کا نفاذ نہ ہونا اداروں کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے اس لئے ارباب اختیار اور چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے تاریخی فیصلے اور آئین کے آرٹیکل 251کی رو سے فی الفور اُردو کو بطور سرکاری زبان رائج کیا جائے اور اس معاملے میں اداروں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے ۔ پاکستان میں محتاط اندازے کے مطابق 65 قسم کی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں اس وقت پاکستان میں اردو کے علاوہ بہت سی دوسری مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں قابل ذکر پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو صوبائی سطح پر اور دیگر زبانیں شہری و دیہاتی بنیادوں پر بولی جاتی ہیں جن میں آیر، بدیشی، باگری، بلتی، بھایا، بروہوی، بروشکی، چالیسیوں، ڈومیری، ڈیہواڑی، دھاتکی، ڈوماکی، فارسی، دری، گواربتی، گھیرا، جنگلی۔ کچھی، کالامی، گجراتی، ہندکو، میواتی، کشمیری، ماڑواری، ممینی، اوڈھ، اُڑمڑی، اورلوارکی وغیرہ قسم کی زبانیں شامل ہیں مگر بد قسمتی سے ہم آج تک اپنے آپ کو انگریزکی غلامی سے نکال نہیں پائے اور ہماری سرکاری زبان انگریزی ہی ہے حالانکہ 1962ء کے آئین کے مطابق اردو اور بنگالی پاکستانی کی قومی زبان ہوگی جبکہ 1973 ء کے آئین کے آرٹیکل 251 کی شق نمبر
(1) کے مطابق پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے اوریوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لئے استعمال کرنے کے انتظام کئے جائیں گے۔
(2) کے مطابق شق 1 کے تابع انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لئے استعمال کی جا سکے گی جب تک کہ اس کے اُردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہو جائیں۔
(3) قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کئے بغیر ، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم ، ترقی، اور اس کے استعمال کے لئے اقدمات تجویز کر سکے گی۔
تو قارئین کرام پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 251 کی شق نمبر 1مطابق 1988ء تک پاکستان میں اُردو کو بطور سرکاری زبان رائج ہو جانا چاہئے تھا مگر حکومتی نا اہلی کی بناء پراٹھائیس سال کا عرصہ گزرنے جانے کے باوجود یہ مسئلہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے اور اس کا کوئی ٹھوس حل نکلتا نظر نہیں آ رہا۔ حالانکہ اس ضمن میں ’’ تحریک ادارہ فروغ قومی زبان‘‘( مقتدرہ قومی زبان) نے حکومت کو کچھ سفارشات پیش کی تھیں جن کے مطابق:
۱۔ صدر پاکستان 1981 ء میں ایک آرڈیننس جاری کر کے مرحلہ وار اردو کو دفتری اور سرکاری زبان کے طور پر اپنانے کے لئے ایک حکمنامہ جاری کریں۔
۲۔1981 ء کے اختتام تک اُردو زبان میں رودادیں ، مسودہ کی تیاری، اور خلاصہ نویسی کا کام کیا جائے۔
۳۔ 1982ء کے اختتام تک اُردو زبان دفتری امُور میں انجام دینے کا تقریباََ تین چوتھائی کام ہو جائے گا، حکومت کو چاہیئے کہ اُردو ٹائپ مشین کی خریداری کے لئے فنڈ مہیا کرے۔
۴۔ 1983 ء تک کابینہ ڈویژن کے تمام خلاصہ جات اُردو زبان میں تیار کئے جائیں گے اور وفاقی سیکریٹریٹ بشمول ایوانِ صدر کے تمام امور اُردو زبان میں انجام دیے جائیں گے۔
(ب) اُردو بطور ذریعہ تعلیم اپنانے کے لئے سفارشات
۱۔1984 ء کے بعد انٹرمیڈیٹ (ایف اے، ایف ایس سی، آئی کام) پیشہ ورانہ ڈپلومہ ، بی اے، ایم کام، بی ایڈ، ایل ایل بی، کے لئے ذریعہ تعلیم اُردو زبان میں ہو۔
۲۔ 1984 ء کے بعد بی ایس سی، ایم ایس سی، بی ای، ایم اے، ایم کام، ایم ایڈ، بی بی اے، اور ایل ایل ایم کے کے تمام امتحانات اُردو زبان میں ہوں۔
۳۔ 1984 ء کے بعد ایم ایس سی او ر ایم بی اے کے امتحانات بھی اُردو میں منعقد ہوں۔
۴۔یہ بھی سفارش کی گئی تھی کہ مُلک کی ہر ڈویژن میں ایک ماڈل اُردو سکول قائم کیا جائے ، تدریس کی زبان کے طور پر اُردو کے استعمال کو فروغ دینے کے لئے ورکشاپس منعقد کروائی جائیں، تمام پی ایچ ڈی کے مقالات کا اُردو ترجمہ کیا جائے اور تمام نئے مقالات کا ایک خلاصہ اُردو میں دینا ضروری قرار دیا جائے نیز انگریزی ذریعہ تعلیم کے سکولوں کے قیام کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
(ج) مقابلے کے امتحانات میں اُردو کو ذریعہ اظہار بنانے کے لئے سفارشات
۱۔ مقابلے کے امتحانات میں عملی اُردو کا ایک لازمی پرچہ ہونا چاہیئے جس کے کل نمبر 50 ہوں۔
۲۔ اُردو ادب کا ایک اختیاری پرچہ پتعارف کرایا جائے جس کے 200نمبر ہوں۔
۳۔ مقابلے کے امتحانات کے لئے اُردو کو فوری طور پر زبان کے طور پر اپنایا جائے اور تمام پرچہ جات اُردو اور انگریزی میں دیے جائیں۔
قارئین کرام حکومت کو کی گئی ان سفارشات کی روشنی میں مورخہ 06 جولائی 2015 ء کو حکومت پاکستان کی جانب سے ایک مراسلہ جاری کیا گیا جس کے تحت آئین کے آرٹیکل 251 کی رو سے فوری طور پر اُردو کو بطور سرکاری دفتری زبان بنانے کے لئے تمام متعلقہ اداروں کو حکمنامہ جاری کیا گیا جس کے چند نکات ذیل میں ہیں کہ
۱۔ وفاق کے زیر انتظام کام کرنے والے تمام ادارے ( سرکاری و نیم سرکاری) اپنی پالیسیوں کا تین ماہ کے اندر اُردو ترجمہ شائع کریں۔
۲۔ وفاق کے زیر انتظام کام کرنے والے ادارے (سرکاری و نیم سرکاری) تمام قوانین کا اُردو ترجمہ تین ماہ میں شائع کریں۔
۳۔ وفاقی حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والے تمام ادارے ( سرکاری و نیم سرکاری) ہر طرح کے فارم تین ماہ میں انگریزی کے ساتھ اُردو میں بھی فراہم کریں۔
۴۔تمام عوامی اہمیت کی جگہوں مثلاََ عدالتوں، تھانوں، ہسپتالوں ، پارکوں، تعلیمی اداروں، بینکوں وغیرہ میں راہنمائی کے لئے انگریزی کے ساتھ ساتھ اُردو میں بھی بورڈ تین ماہ کے اندر آویزاں کئے جائیں۔
۵۔پاسپورٹ آفس، محکمہ انکم ٹیکس، اے جی پی آر، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، واپڈا، سوئی گیس، الیکشن کمیشن آف پاکستان، ڈرائیونگ لائسنس، اور یوٹیلٹی بلوں سمیت تمام دستاویزات تین ماہ میں اُردو میں فراہم کئے جائیں، پاسپورٹ کے تمام اندراجات انگریزی کے ساتھ اُردو میں بھی منتقل کئے جائیں۔
۶۔ وفاقی حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والے ادارے
(سرکاری و نیم سرکاری) اپنی ویب سائٹ website تین ماہ کے اندر اُردو میں منتقل کریں۔
۷۔ پُورے مُلک میں چھوٹی بڑی شاہراہوں کے کناروں پر راہنمائی کی غرض سے نصب سائن بورڈ تین ماہ کے اندر انگریزی کے ساتھ اُردو میں بھی نصب کئے جائیں۔
۸۔ تمام سرکاری تقریبات / استقبالیوں کی کارروائی کا مرحلہ تین ماہ کے اندر اُردو میں شروع کی جائے۔
۹۔ صدر مملکت، وزیر اعظم اور تمام وفاقی سرکاری نمائندے اور افسر مُلک کے اندر اور باہر اُردو میں تقاریر کریں اور اس کام کا مرحلہ وار تین ماہ کے اندر آغاز کر دیا جائے۔
۱۰۔ اُردو کے نفاذ و ترویج کے سلسلے میں ’’ ادارہ فرغ قومی زبان‘‘ کو مرکزی حیثیت دی جائے تا کہ اس قومی مقصد کی بجا آوری کے راستے کی رکاوٹوں کو موثرطریقے سے جلد از جلد دُور کیا جا سکے۔
’’سانجھ سے کچھ تارے نکلے پل بھر چمکے ڈوب گئے
انبر انبر ڈھونڈ رہا ہے اب انہیں ماہِ تمام کہاں
دل پہ جو بیتے سہہ لیتے ہیں اپنی زبان میں کہہ لیتے ہیں
انشاء جی ہم کہاں اور میر کا رنگ کلام کہاں‘‘

ایک بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک طرف تو حکومت ملک میں شرح خواندگی میں اضافے کے لئے ہر ممکنہ کوشش کر رہی ہے مگر شائد یہ بھول کر کہ جن بھی ملکوں نے ترقی کی ہے جدت کی نئی راہیں تلاش کی ہیں اور شرح خواندگی میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ صرف اور صرف اپنی قومی زبان کے بل بوتے پر کی ہیں اس لئے گزارش ہے کہ اُردو کو مرنے سے پہلے آکسیجن مہیا کر دی جائے کہ شائد اُردو کی دم توڑتی ہوئی روح پھر سے تازہ دم ہو جائے اور ہم ٖفخر سے کہہ سکیں کہ
اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دُھوم ہماری زُبان کی ہے
M.Irfan Chaudhary
About the Author: M.Irfan Chaudhary Read More Articles by M.Irfan Chaudhary: 63 Articles with 59530 views I Started write about some serious issues and with the help of your feed back I hope I will raise your voice at the world's platform.. View More