اﷲ رب العزت کا کروڑ ہا بار شکر کہ جس نے
میرے قلم کو اتنی طاقت دی کہ آج لوگوں کی کثیر تعداد اپنے مسائل لے کر میرے
پاس آتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کو قلم کی نوک پر لا کر اربابِ
اختیار تک پہنچایا جائے اور اپنے فرائض منصبی کے ساتھ کلی انصاف کیا جائے۔
حال ہی میں راولپنڈی بورڈ کے میٹرک کے 2016ء کے سالانہ نتائج کا اعلان کیا
گیا۔ اس کے بعد میں نے جھگی میں رہنے والی لڑکی نرگس گل پر کالم لکھا جس نے
1004 نمبر حاصل کئے۔ اس کالم میں خاص بات ’’جھگی‘‘ تھی جس کی وجہ سے جھگی
میں رہنے والی نرگس گل جھگی والی نہ رہی اور کئی لاکھ کی مالک بن گئی مگر
اُس کے بعد کیا ہوا، جس سکول یعنی گورنمنٹ گرلز ہائی سکول نمبر 1 چکوال کی
طالبہ نرگس گل نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اُس سکول میں کئی لڑکیوں نے اُس
سے زیادہ نمبر حاصل کئے یہاں تک کہ 1035 نمبر لینے والی عبداس بتول کا تعلق
بھی اسی سکول سے ہے مگر اُس کا کہیں نام و نشان نہیں۔ چونکہ میری شروع سے
یہ کوشش رہی کہ تحقیقی صحافت پر کام کیا جائے، کبھی بھی ڈرائنگ روم میں
بیٹھ کر قلم چلانے کا نہیں سوچا۔ جب آج کا کالم لکھنے کا ارادہ کیا تو EDO
ایجوکیشن چکوال ڈاکٹر غلام مرتضیٰ کو فون کیا اور اُن سے ضلع بھر میں زیادہ
نمبر لینے والوں کی لسٹ مانگی اور مجھے اگلے 10 منٹ میں اُن کی ای میل
موصول ہو گئی مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس لسٹ میں 1001 نمبر سے
1036 نمبر لینے والوں کے نام اور سکول کا نام تو موجود ہے مگر اس لسٹ میں
گورنمنٹ سہگل ماڈل ہائیر سیکنڈری سکول سہگل آباد کے 1046 نمبر لینے والے
طالب علم احرار احمد ولد نفیس الرحمن سکنہ سرکال مائر کا کہیں نام و نشان
نہیں۔ میں نے پھر EDO ایجوکیشن ڈاکٹر غلام مرتضیٰ کو کال کی تو وہ حیران رہ
گئے متعلقہ سرکاری ملازم کو بلایا تو پتہ چلا کہ وہ بھول گئے۔ جناب یہ
چھوٹی سی بھول نہیں ہے، اب تک نجانے کتنی ای میلز وزیر اعلیٰ پنجاب اور
دیگر اعلیٰ ارباب اختیار تک گئی ہوں گی مگر ان میں احرار احمد کے 1046 نمبر
کا کہیں ذکر نہ ہو گا۔ دُوسرے لفظوں میں احرار احمد نے گورنمنٹ سیکٹر کے
تمام سکولوں میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کئے ہیں، آخر احرار احمد کا کیا
قصور؟ کیا اس کا یہ قصور ہے کہ اس کے والد گذشتہ 7 سال سے وہیل چیئر پر
موجود ہیں اور احرار احمد کی علم حاصل کرنے کی تڑپ اتنی شدید ہے کہ وہ اپنے
گاؤں سے سکول تک پیدل سفر کرتا تھا، کیا اُس کو یہی صلہ ملنا چاہئے تھا کہ
اُس کا نام ای ڈی او ایجوکیشن کی حتمی لسٹ جو کہ مختلف سرکاری اداروں کو
ارسال کی گئی اُس میں نام تک نہ ڈالا گیا، کیا اس غلطی کو معمولی غلطی تصور
کر لیا جائے اور ڈاکٹر غلام مرتضیٰ کی رسماً معافی کو تسلیم کر لیا جائے یا
یہ کہ اس میں جو جو بھی ملوث ہے اس کو قرار واقعی سزا دی جائے، فیصلہ ارباب
اختیار نے کرنا ہے لیکن یہ بات جان لیں کہ یہ معمولی غلطی نہیں ہے۔ یہ
احرار احمد کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہے۔ اس کے علاوہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ
جب 2016ء کے نتائج کا اعلان کیا گیا تو ای ڈی او ایجوکیشن ڈاکٹر غلام مرتضیٰ
ضلع چکوال کا رزلٹ خود میڈیا کے سامنے پیش کرتے اور اُس میں جو جو طلباء و
طالبات امتیازی نمبروں کے ساتھ سامنے آئے اُن کے کوائف میڈیا کو مہیا کئے
جاتے۔ یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ گورنمنٹ سکولوں میں غریبوں کے بچے ہی
تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اگر ٹاپ ٹین کی لسٹ مل جاتی اور اُس کو ڈی سی او
چکوال جناب محمود جاوید بھٹی اور دیگر تعلیمی اداروں کے سربراہان کی
موجودگی میں پیش کیا جاتا تو میرے خیال میں یہ ایک مثبت قدم ہو سکتا تھا
لیکن ایسا نہ ہو سکا، جیسے جیسے صحافی بھائیوں کے پاس معلومات آتی گئی تو
اُن کا قلم چلتا گیا اور جن کی خبریں اخبارات کی زینت بن جائیں اُن کو کسی
حد تک پذیرائی بھی مل گئی لیکن میں اس لسٹ کو دیکھ رہا تھا کہ اس تمام تر
میڈیا مہم میں اعبدس بتول 1035 نمبر، متحدہ فاطمہ 1036 نمبر، بسمہ زہرا
1034 نمبر، ارسلان احمد 1034 نمبر کا کہیں نام و نشان نہیں، آخر ان بچوں کا
کیا قصور؟ صحافی بھائیوں نے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں احسن انداز میں
پوری کرنے کی کوشش کیں اصل گڑ بگڑ ای ڈی او ایجوکیشن کی طرف سے ہوئی جو یہ
کالم آنے تک حتمی فہرست کو شائع نہ کر سکے اور یقینا یہ سستی اور کاہلی
ہمارے سرکاری دفاتر کی گھٹی میں شامل ہو چکی ہے۔ یہ تنخواہ اپنے کام کی
نہیں لیتے بلکہ چند گھنٹے دفتر میں گذارنے کی لیتے ہیں، اگر کام کی تنخواہ
لیتے تو پھر اتنی بڑی سستی اور نااہلی دیکھنے کو نہ ملتی کہ 1046 نمبر لینے
والے طالب علم احرار احمد کا لسٹ میں نام ہی شامل نہیں۔ میں ارباب اختیار
کی توجہ ایک اور اہم مسئلے کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ اگر ایک
گورنمنٹ ہائی سکول کے طلباء و طالبات کی تعداد 300 ہے جس نے میٹرک کا
امتحان دیا اور اُس میں سے اگر ایک نے اچھے نمبر لئے اور خبروں کا مرکز بن
گیا مگر باقی 299 بچے بُری طرح ناکام ہوئے یا بمشکل پاس ہو سکے تو پھر
دیکھنا یہ ہے کہ رزلٹ اچھا رہا یا انتہائی بُرا۔ کیا ایک بچہ یا بچی باقی
299 بچوں کے رزلٹ پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور کیا باقی 299 بچوں کو پڑھانے
کے لئے اساتذہ موجود نہیں تھے اور کیا ایک بچہ جس نے اتنے اچھے نمبر لے لئے
کیا وہ سب کی نمائندگی کر رہا ہے۔ نتائج کا تناسب تمام طالب علموں کی بنیاد
پر لگایا جاتا ہے اور خصوصاً ایسے سکول کہ جو گذشتہ کئی سالوں سے اچھے
نتائج نہیں دے رہے اور اُن کے پاس تعلیم کا ستیاناس ہو رہا ہے اُن کا قبلہ
درست کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف اور اُن کی
پیشہ وارانہ ٹیم تعلیم کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ وہ تعلیم
پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اس لئے ضرورت اس امر
کی ہے کہ ہم سب مل کر اپنی اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں پوری کریں۔ کسی
بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ جب تعلیم
کا دیا سب تک پہنچ جائے گا پھر یقینی طور پر روشنی کی کرن نظر آئے گی اور
معاشرے میں پھیلنے والے جرائم کی شرح میں یقینا کمی واقع ہو گی چونکہ تعلیم
انسان کو شعور دیتی ہے اور تعلیم سے ہی قومیں بنتی اور بگڑتی ہیں۔ اگر ہر
گاؤں تک معیاری اور سستی تعلیم عام ہو جائے تو یقینی طور پر معاشرے کے بناؤ
کے لئے یہ ایک احسن اقدام ہو سکتا ہے۔ تعلیم سے دُوری کا مطلب معاشرے کو
اندھیرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ ہمیں پاکستان کو پڑھا لکھا پاکستان بنانا
ہے اور اپنی آنے والی نسل کو ایک ایسا خوشحال پاکستان دے کر جانا ہے جس میں
لٹریسی ریٹ 100 فیصد ہو اور اس خوبصورت پاکستان میں کوئی ایک بچہ بھی ایسا
نہ ہو جو یہ کہے کہ میں وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کر سکا۔ اگر
ہم سب تعلیم کے ساتھ مخلص ہو جائیں تو یقینی طور پر بہت سارے مسائل پر خود
بخود قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ چونکہ اس وقت ضرورت ہے پاکستان کو
تعلیم کی۔ ایک ایسی تعلیم کی جو دُنیا کی تعلیم کے ساتھ مقابلہ کر سکے۔
ایسی تعلیم کی کہ جو واقعی پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکے۔ اﷲ
تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ |