عمومی مشاہدہ یہی ہے کہ وطن عزیز پر
جب بھی کڑا وقت آیا ،قوم نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا ۔ لیکن جب اُس کڑے وقت یا
سانحے کے اثرات میں کمی آتی ہے تو اُس کا اثرقومی یکجہتی پر بھی پڑتا ہے
اور اُس میں بھی کمی آجاتی ہے۔جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم ہمہ وقت قومی
یکجہتی کا مظاہرہ کریں تاکہ دشمن دوبارہ ہم کو کسی قسم کی آزمائش میں مبتلا
نہ کرے۔قومی یکجہتی کے فقدان کی وجہ سے ہی آج اقوام عالم میں بحیثیت
پاکستانی ہم کووہ عزت اور مقام حاصل نہیں،جو ہونا چاہئے۔قومی یکجہتی کے
فقدان کے جہاں سیاسی عوامل ہیں، وہیں اُسکے سماجی عوامل بھی ہیں۔سیاسی
عوامل پر سماجی عوامل کا غلبہ ہے ۔کیونکہ جب ہم بازار کا رخ کرتے ہیں تو سب
سے پہلے ہم کو ناجائز منافع کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کسی پھل اور سبزی والے
کے پاس ریٹ لسٹ نہیں ملے گی ۔من مانی قیمتوں پر پھل اور سبزی سارا سال بکتی
ہے اور رمضان آتے ہی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں ،یہی حال دُکان دار حضرات کا
ہے کسی بھی دُکان پر نہ ریٹ لسٹ ہوگی نہ حکومت کی مقرّر کردہ قیمتیں
،غرضیکہ ہر چھوٹے ،بڑے کاروباری فرد کو آزادی حاصل ہے کہ ناجائز منافع خوری
کرے۔اسی طرح دودھ سے لے کر تمام مصالحہ جات میں بلا خوف و خطر ملاوٹ کی
جاتی ہے ۔گدھے ،مردار جانور اور مرغی کا گوشت بازار میں دستیاب ہونا معمول
کی بات ہوگئی ہے۔جعلی ڈاکٹر،حکیم اور عامل سر عام اپنا مکروہ دھندا جاری
رکھے ہوئے ہیں ۔اسی طرح جعلی دواؤں کی بھی بھرمار ہے ۔یہی حال دفاتر کا ہے
سائل جب اپنے کسی بھی جائز کام کے لئے کسی بھی سرکاری دفتر میں جاتا ہے تو
عمومی طورپر بغیر رشوت دئے کا م ہونا مشکل ہوتا ہے۔جب ہم بحیثیت مسلمان اور
پاکستانی بلاکسی خوف کے اپنے مسلمان اور پاکستانی بھائی کا بطور
کاروباری،تاجر ،افسر یا کلرک اس طرح گلا کاٹیں گے توہم کو حکمرانوں سے کسی
بھی قسم کی کوئی شکایت کرنے کا حق حاصل نہیں کہ حکومت عوامی مسائل کے حل
میں دلچسپی نہیں لیتی۔ناجائز منافع خوری ،ملاوٹ،رشوت،بھتہ خوری ،دھوکہ دہی
اور زمینوں پر قبضے سمیت کونسی ایسی سماجی برائی ہے جو ہم میں موجود
نہیں۔یہ تمام برائیاں صرف اس وجہ سے ہیں کہ ہم میں قومی یکجہتی کا فقدان
ہے۔اگربحیثیت پاکستانی ہم کو ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس ہوتاتویہ سماجی
اور معاشرتی برائیاں ہم میں جنم ہی نہ لیتیں۔ سیاسی قیادت بھی عوام میں ہی
سے نکل کر آتی ہے تو جیسے ہم ہوں گے ویسے ہی ہمارے حکمراں ہوں گے ۔قومی
یکجہتی کے نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یکساں تعلیمی نظام کا نہ ہونا بھی ہے۔اگر
ملک میں یکساں تعلیمی نصاب اور نظام ہو تو عوام کے سوچنے کا انداز بھی ایک
جیسا ہوگا۔اسلئے یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو یکساں تعلیمی نصاب
و نظام کے ساتھ تعلیم اور صحت کی سہولیات برابری کی بنیاد پر فراہم کریں
تاکہ ہم میں قومی یکجہتی کا فروغ ہو اورپاکستان میں بھی ایک صحت مند معاشرہ
جنم لے سکے۔ |