پنچایت ایک ایسے طریقے کو کہتے ہیں جس میں ایک غیر
جانبدار گروہ فریقین کے تنازعہ کو حل کرنے کے لیے مدد کرتا ہے۔ ثالث مسئلہ
کے حل کے لیے بات چیت کے بعد ایسا فیصلہ سناتا ہے جسے فریقین خوشی سے قبول
کر لیتے ہیں۔ ثالث کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہوتی ہے کہ وہ فریقین کو متفق
اور خوش کرے۔ پنچایت کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ پنچایت کے بہت فوائد ہیں لیکن
اس کے ساتھ ساتھ کچھ نقصانات بھی ہیں۔
پنچایت کا عمل فریقین کے لیے بہت ہی بہتر ہے کیونکہ اس کے بہت زیادہ فوائد
ہیں۔ پنچایتی نظام میں فیصلہ جلدی اور خرچہ کم ہوتا ہے۔ اس نظام کی مدد سے
فریقین وکیل اور عدالت کے چکروں سے بچ جاتے ہیں۔ پنچایتی نظام سے گفتگو
کرنے کے طریقے میں بہتری آتی ہے اور دلچسپ اور دوستانہ انداز میں بات چیت
ہوتی ہے۔ یہ نظام لچکدار ہوتا ہے اور فریقین میں سے کوئی بھی گروہ اسے چھوڑ
کر عدالت کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔ یہ نظام دشمنی ختم کروانے میں اہم کردار
ادا کرتا ہےاور عام طور پر تمام لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں لہذا معاہدوں
کی پاسداری کرتے ہیں۔ پنچایت کا عمل نجی اور رضاکارانہ طور پر سر انجام دیا
جاتا ہےاور اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح مسئلہ حل ہو
جائے۔ پنچایتی نظام امن و انصاف کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔
پنچایتی نظام کے نقصانات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس نظام میں
پیسہ اور وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔اکثر ثالث دینی اور قانونی علم نہیں
رکھتےاور کئی ثالث رشوت لیتے ہیں جس وجہ سے وہ غلط فیصلے کرتے ہیں۔ ہمارے
ملک میں زیادہ تر پنچایتی نظام پر سیاستدانوں نے قبضہ جمایا ہوا ہے جو کہ
غیر جانبدار(Neutral)نہیں ہوتے اور اس کے حق میں فیصلہ سنا دیتے ہیں جو
الیکشن کمپین میں اس کا زیادہ ساتھ دیتا ہے۔کچھ ثالث اپنا اثرو رسوخ
استعمال کرتے ہوئے غیر منصفانہ معاہدوں پر سائن کروا لیتے ہیں۔ پنچایت میں
کیئے گئے فیصلوں کی قانونی حثییت نہیں ہوتی۔ پنچایت میں گالی گلوچ اور
بدزبانی کا استعمال عام ہوتا ہے اور خاص طور پر ثالث گالیاں نکالنا بہادری
سمجھتا ہے۔ پنچایتی نظام میں فیصلے جلدی کر دئیے جاتے ہیں اور اس میں حقائق
کو واضح کرنے کی بجائے مسئلہ کے حل پر زور دیا جاتا ہے۔ پنچایتی نظام کرپشن
اور پارٹی بازی کی وجہ سے رحمت کی بجائے زحمت بنا ہوا ہے۔
ثالث بہترین خصوصیات کا حامل ہونا چا ہیے کیونکہ پنچایتی نظام میں وہ
بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ ثالث کو پنچایت کے عمل کے دوران الرٹ رہنا چاہیے
کیونکہ ہر بات اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور اسے لوگوں کی پریشانی کودل و روح
کے راستے سے محسوس کرنا چاہیے۔ پنچایت کے عمل کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کے
لیے ثالث کو بد اخلاقی یا بد زبانی پر صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کسی مشکل
مسئلہ میں مشورہ لینا بھی اچھے ثالث کی نشانی ہے۔ ایک کامیاب ثالث کا مقصد
فریقین کی رضامندی سے مسئلہ کا حل ہوتا ہے نہ کہ اپنی بات کو لاگو کرنا۔
ثالث غیر جانبدار ہونا چاہیے اسے حق کو دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے نہ کہ
اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو دیکھ کر۔ ثالث کے پاس دینی اور قانونی علم
ہونا چاہیے اور رشوت لے کر غیر منصفانہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ اچھے اخلاق
اچھے ثالث کی پہچان ہوتی ہے۔
امن و انصاف ہر معاشرے کی ضرورت جو پنچایت کے ذریعے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
تمام بڑے ممالک میں پنجایت (Mediation)کی قانونی حثییت ہےاور اکثر ممالک
میں پنچایت کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے تربیتی سنٹرز کا قیام ہو چکا
ہےلیکن پاکستان میں پنچایتی نظام میں برادری ازم اور پارٹی بازی کی وجہ سے
غیر منصفانہ اور ناجائز فیصلے کیئے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی پنچایتی
نظام کو قانونی سرپرستی حاصل ہونی چاہیے اور پڑھے لکھے لوگ ثالث ہونے
چاہییں اور جو ثالث اپنے فیصلوں میں ظلم کرے اسے سخت سے سخت سزا ملنی
چاہیے۔ |