نسلی و مذہبی منافرت ہمارے معاشرے میں ایک
ناسور کی طرح پھیل گئی ہے ۔فوری طور پر اس کے سدّباب کی کوشش نہ کی گئی تو
یہ ناسور ہماری اگلی نسلوں میں منتقل ہونے کے قوی امکانات ہیں۔تعلیم شعور
کی بیداری کا سد ذریعہ ہوتی ہے ،بد قسمتی سے ہمارے ملک میں خواندگی کی شرح
اس سطح پر نہیں پہنچی ہے کہ ہم باشعور و تعلیم یافتہ قوم ہونے کا دعوی
کرسکیں ۔عوام میں دینی و دنیاوی شعور کی کمی ہی نسلی ، مذہبی و مسلکی
منافرت کی اصل وجہ ہے۔کیونکہ ہمارا معاشرہ عدم مساوات پر مبنی ہے اور آبادی
کا دباؤ بھی ہے، اسی وجہ سے معاشی ناہمواری بھی پائی جاتی ہے ۔معاشی
ناہمواری کی وجہ سے ہمارے ملک کے بچّوں کی اکثریت تعلیم سے محروم ہے۔معاشی
تنگی سے مجبور والدین کی اکثریت تو اپنے بچّوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجنے
سے گریز کرتی ہے بلکہ ان کو کم عمری میں گھریلو ملازمت پر،بھٹے پر،ہوٹل میں
یا دیگر کاموں پر لگادیا جاتا ہے کہ گھر کی ہانڈی روٹی کا بندوبست ہوتا
رہے۔کچھ بچّے سڑکوں پر ماں باپ کے ساتھ بھیک مانگتے بھی نظر آتے ہیں کہ ان
کا آبائی پیشہ ہی یہ ہے۔جو بچّے تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں وہ بھی
والدین کی مالی حیثیت کے حساب سے ہی اسکول اور دینی مدارس میں داخلہ لیتے
ہیں۔دینی مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ رہائش و خوراک کا بھی بندوبست ہوتا
ہے تو معاشی تنگی سے مجبور والدین اپنے بچّوں کو ان مدارس میں داخل کر کر
اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔یہی حال اسکولوں کاہے،ماں باپ اپنی
مالی حیثیت کے اعتبار سے اسکول کا انتخاب کرتے ہیں نہ کہ معیار تعلیم دیکھ
کر۔جو والدین معاشی دباؤ کی بندش سے آزاد ہوتے ہیں وہ اپنے بچّوں کو بہترین
اسکولوں میں داخلہ دلواتے ہیں او ر بنیادی دینی تعلیم کا بندوبست گھر پر ہی
کرلیتے ہیں،دینی مدارس طلباء کو اپنے مسلک کے مطابق تعلیم دیتے ہیں،جس کی
وجہ سے مذہبی و مسلکی منافرت اپنے عروج پر ہے۔ مسالک کے اعتبار سے دینی
جماعتیں تشکیل پائی ہیں اور اس بنیاد پر ان میں اختلافات کا ہونا کوئی
اچنبھے کی بات نہیں۔اسی طرح سے اسکول بھی کیونکہ طبقاتی سطح پر وجود رکھتے
ہیں تو یہاں سے فارغ التحصیل طلباء کی سوچ میں بھی واضح فرق محسوس کیا
جاسکتا ہے۔ اس طبقاتی نظام و نصاب تعلیم اور مسلکی و مذہبی دینی تعلیم نظام
کی وجہ سے معاشرے میں ہم آہنگی اور دینی و دنیاوی شعورنہ ہونے کے برابر
ہے۔ہمارے ملک میں جمہوریت رائج ہے اور حکمرانوں کا انتخاب،جنرل الیکشن کے
ذریعے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔سیاسی و دینی جماعتیں انتخابات کے
دنوں میں خاص طور پر عوام میں پائی جانے والی تفریق اور دینی و دنیاوی شعور
کی کمی کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں۔عوام جذبات کی رو میں بہہ کر ملکی مفاد
کو پس پشت ڈالتے ہوئے ،اپنی نسل،برادری،زبان اور مسلک کے حساب سے اُن افراد
کو قومی اسمبلی میں بھیج دیتے ہیں جن کا کام ہی عوامی شعور کی کمی کا فائدہ
اٹھانا ہے اور اپنے مفادات کی تکمیل ہے۔یہی وجہ ہے کہ عوام اب تک حقیقی
جمہوریت اور اس کے ثمرات سے محروم ہیں۔آئین پاکستان کا آرٹیکل (25)۔الف۔کے
تحت حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ ریاست پانچ سے سولہ تک کی عمر کے تمام
بچّوں کے لئے مذکورہ طریقہ کار پر جیسا کے قانون کے ذریعے مقرر کیا
جائے۔مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔بحیثیت پاکستانی اگر ہم آئین
پاکستان کے آرٹیکل(۲۵)کی شق الف پر عمل درآمد کا جائزہ لیں تو کوئی بھی
حکمراں اس پر عمل درآمد تو کُجا سنجیدہ ہی نظر نہیں آیا۔نسلی ،مذہبی و
مسلکی منافرت کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ ایسا نصاب و نظام تعلیم تشکیل
دیا جائے جو دینی و دنیاوی تعلیمات کی ضروریات کو پورا کرتا ہواور یکساں
طور پر پورے ملک میں اس کو نافذ کیا جا سکے۔اسی صور ت میں ہم اپنی آئندہ
آنے والی نسلوں کو نسلی،مذہبی و مسلکی منافرت سے دور رکھ سکتے ہیں۔ |