وہ صحن میں کتاب ہاتھ میں لیے بیٹھی تھی مگر اس کی نظر
اونچے بلند پرواز کرتے پرندوں پہ تھی۔جو ہوا سے اٹھکیلیاں کر رہے تھے ۔اس
کی نگاہوں میں تجسس اور ہونٹوں پہ الوہی مسکراہٹ تھی۔مجھے بھی اڑنا ہے
اونچا اور اونچا وہ بڑبڑائی۔اماں کے دال چنتے ہاتھ تھم گئے ۔ منعم ۔انہوں
نے پکارا۔مگر منعم کی پرواز بہت اونچی تھی ۔پر کھولو اونچا اڑو اس نے ایک
اڑتے ننھے کوے کو سرگوشی کی۔۔ماں نے قریب آکر اسے ہلایا ۔ماں صدقے کیا ہو
گیا ؟ آآہمم جج جی اماں وہ چونکی۔پتر کیا ہوگیا تجھے؟کچھ نہیں اماں ۔
شکل دوپہری سکول سے آتی ہے میری دھی کل بابا جی سے تعویز لا کے دوں گی اپنی
دھی رانی کو۔اماں نے اس کا ماتھا چوما۔ارے میری بھولی اماں کچھ نہیں ہوا
مجھے منعم نے مسکرا کر فکر مند ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔
وقت بیتتا گیا اور منعم کے خواب جواں ہوگئے پاک آرمی میں شمولیت کا خواب
شرمندہ تعبیر ہوا آج فلائٹ لیفٹنٹ منعم خان کی پہلی مشقی پرواز تھی طیارے
کی بلندیوں کے ساتھ ساتھ اس کے خواب بھی پرواز کر رہے تھے۔اچانک ریڈیو کے
ٹرانسمیٹر سے سگنل نشر ہونے لگے۔ دشمن نے غیر اعلانیہ جنگ مسلط کر دی تھی
اور اسے لوٹ آنے کی تاکید کی تھی۔مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی ایک فائیٹر
طیارہ ملکی حدود پار کر چکا تھا اس کی راہ میں منعم کا طیارہ حائل تھا منعم
خالی ہاتھ تھی اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیسے اسے روکے ۔پھر ایک دم
اسے ایک خیال آیا اور اس نے کلمہ پاک کا ورد کرتے ہوئے اپنا طیارہ دشمن
طیارے سے ٹکرا دیا ۔دشمن کے نیست ونابود ہوتے ہی منعم نےبھی اپنی جان ۔جان
آفریں کے سپرد کر دی۔ |