سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے وہاں
پر حرم پاک، روضہ رسول ﷺ، صحابہ کرام ؓ کے مزارات و دیگر مقامات مقدسہ ہونے
کے باعث ہر مسلمان کو اس سے عقیدت ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی سعودی
عرب میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں جو سالانہ اربوں روپے کا زر مبادلہ
وطن بھجواتے ہیں کچھ سالوں سے سعودی عرب کے معاشی حالات کے بارے میں
اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ بہتر نہیں ہیں۔ ہزاروں کی تعدا دمیں پاکستانی
وہاں پھنسے ہوئے ہیں جنہیں کئی کئی ماہ کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں۔
ہزاروں کی تعداد کئی سالوں سے معمولی نوعیت کی قانونی پیچیدگیوں کے باعث
جیلوں میں بند ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں آزاد ویزے پر گئے ہوئے پاکستانی در
بدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ ان آزاد ویزوں پر جانے والوں کو سعودی خود لے
کر جاتے ہیں جنہیں کام ملے یا نہ ملے ماہانہ 500سے لیکر 600ریال کفیل کو ہر
حال میں ادا کرنے ہوتے ہیں۔ ایسے بے شمار پاکستانی جو آزاد ویزوں پر وہاں
لاکھوں خرچ کرکے گئے لیکن اب وہاں کے خراب معاشی حالات کے باعث کسمپرسی کا
شکار ہیں۔ نہ وطن واپس آسکتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ذریعہ آمدن ہے ۔
ان تمام تر ناگفتہ بہ صورتحال میں پاکستانی سفارتخانے کی کارکردگی صفرہے۔
وہ پھنسے ہوئے لاچار پاکستانیوں کی مدد نہیں کررہا ۔ صرف حکومت کی جانب سے
زبانی جمع خرچ پہ کام چلایاجارہاہے۔ پاکستانیوں کے اپنے کرتوتوں کے باعث اب
انہیں وہاں کوئی نوکر رکھنے کو بھی تیار نہیں کیوں کہ وہاں پر بھی ان کی
آرام طلبی، عیاشی، جھگڑالو طبیعت ان کی نوکری نہ ملنے کا سبب بن جاتی ہے۔
سعودی میں گذشتہ 35سال تک مقیم ایک پاکستانی دوست سے ہم نے یہ جاننے کی
کوشش کی کہ آخر کیا وجوہات ہیں کہ وہاں پاکستانیوں کو اتنا حقیر سمجھا جاتا
ہے اور وہاں کے معاشی حالات دن بدن خراب کیوں ہوتے جارہے ہیں ؟ انہوں نے
بتایا کہ سعودی عرب جو کہ دنیا کو تیل سپلائی کرنے والا ایک بڑا ملک ہے
2014ء تیل کی قیمت جو کہ 125سے لے کر 127ڈالر فی بیرل تھی سے کافی آمدنی
ہوتی تھی اب گذشتہ دو سالوں میں تیل کی قیمت 37سے 42ڈالر فی بیرل تک مختلف
ادوار میں رہی جس کے باعث تیل فروخت کرنے والے کئی ممالک کی آمدنی بہت کم
ہوگئی لیکن سعودی عرب سمیت ان کے اخراجات میں کمی کی بجائے آئے دن اضافہ
ہورہاہے۔ سعودی عرب میں اس وقت کئی بڑے بڑے منصوبہ جات پر کام ہورہاہے جن
میں مکہ سے مدینہ شریف تک ریلوے لائن ، بلٹ ٹرین ، مکہ حرم پاک کی توسیع
قابل ذکر ہیں جن پر کھربوں ڈالر کی رقم لگائی جارہی ہے ۔ خاص کر حرم پاک کی
توسیع کا منصوبہ کیلئے اور ارد گرد کئی دوکانیں، پلازے، مکانات سعودی حکومت
خریدے گئے جن کو وہاں کی حکومت ادائیگی دوگنا کرتی ہے لوگ وہاں تمنا کرتے
ہیں کہ ہماری جائیداد حرم پاک توسیعی منصوبے میں آجائے تاکہ ہمیں بھی خطیر
رقم مل جائے ۔ ہماری حکومتوں کی طرح نہیں جہاں پر ایک تو ادائیگی کم کی
جاتی ہے دوسرے رقم بروقت ادا نہیں کی جاتی۔ اس منصوبے کے علاوہ ریاض میں
چار پانچ سال سے میٹرو منصوبے پر بھی کام رہاہے۔ اسکے علاوہ تیل کی قیمتوں
میں کمی کے باعث حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی کرے،
لیکن اس قسم کی کوئی صورتحال وہاں پر نہیں ہے۔ شاہی خاندان کے افراد جن کی
تعداد ہزاروں میں ہے کو تیل کی فروخت سے جو رائلٹی ملتی ہے اسمیں کوئی
کٹوتی نہیں کی گئی۔ تاکہ آل سعود میں کوئی ناراضگی یا مخالفت پیدا نہ ہو۔
اسکے علاوہ سعودی عرب ، یمن، شام اور داعش کی جاری جنگ کے باعث جنگی
اخراجات اٹھا رہاہے اور پاکستان ، امریکہ و افریقی دیگر ممالک اسلامی ممالک
کی جو فوجیں سعودی عرب میں براجمان ہیں کے سالانہ اخراجات انکے ذمہ ہیں۔
امریکی فوج تو تشو پیپرز تک کا خرچ وصول کرتے ہیں ۔ سعودی عرب میں جو
کمپنیاں پرائیوٹ کام کررہی ہیں ان کیلئے حکومت نے یہ قانون بنایا ہے کہ وہ
اپنی کمیشن میں سعودی قومیت کے حامل افراد کو ضرور روزگار دے گا۔ سعودیوں
کے بارے میں یہ تاثر کہ وہ کام نہیں کرتے، پوسٹ بھی بڑی مانگتے ہیں، کمپنیو
ں کے مالکان انہیں روزگار دیتے ہیں لیکن انہیں کام وغیرہ کرنا نہیں آتا صرف
تنخواہ وصول کرنے آتے ہیں جسکے باعث کمپنیوں پر اضافی بوجھ پڑتاہے۔
پاکستانیوں کے ساتھ وہاں کی حکومت اور عوام کا رویہ انتہائی گستاخانہ ، ہتک
آمیز اور نفرت پر مبنی کیو ں ہے کہ سوال کے جواب میں معلوم ہو اکہ 1978ء تک
پاکستانیوں کی وہاں بڑی عزت ہوتی تھی۔ ائیرپورٹ پر کوئی چیکنگ نہیں ہوتی
تھی۔ اس زمانے میں حشیش یعنی چرس کا نشہ مقبول تھا۔ پاکستانیوں نے حسب عادت
نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹائر، سول کی جوتیوں کے پیندوں میں چرس کی
سمگلنگ شروع کی، پاکستانیوں نے ہی مخبری کی ، دھڑا دھڑ پکڑ شرو ع ہوگئی۔ ہم
وطنوں نے قمیض کے کالروں، مصنوعی داڑھیوں، ہاتھوں پر پلستر چڑھاکر، چرس،
افیون، ہیروئن کی سمگلنگ شروع کردی جسکے باعث ہم اپنا اعتبار کھو بیٹھے ۔
دوسرے وہاں پر دیگر ممالک جن میں انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، فلپائن کے
لوگ قابل ذکر ہیں لڑائی جھگڑوں اور فارغ اوقات میں آرام طلبی، عیاشیوں کی
بجائے اوور ڈیوٹی کرتے ہیں۔ چھابڑی لگائی، صفائی کاکام کرلیا، استری،
لانڈری، وغیرہ کرکے مال کماتے ہیں جبکہ ہم مال لٹانے کے علاوہ بات بات پر
جھگڑنے پر تیار ہوتے ہیں۔ ہمارے ان رویوں کے باعث سعودی لوگ ہماری بجائے
مذکورہ ملکوں کے لوگوں کو رکھتے ہیں جو ان کی ڈانٹ ڈپٹ بھی برداشت کرتے ہیں
۔ وہاں پر ایک صاحب نے بتایا کہ ایرانی اور افغانی لوگ پاکستانی پاسپورٹ پر
گئے ہوئے ہیں جن کے جرائم بھی ہمارے کھاتے میں پڑجاتے ہیں۔ ایک ایرانی سے
جب یہ سوال کیا کہ آپ اپنے ملک کے پاسپورٹ پر یہاں کیوں نہیں آتے تو اسکے
بقول ایران میں پاسپورٹ کیلئے 2سال کی عسکری تربیت ضروری ہے اس سے بچنے
کیلئے ہم یہاں آکر کراچی و دیگر شہروں سے پاکستانی پاسپورٹ ، شناختی کارڈ
بنوالیتے ہیں ۔ چند ہزار میں یہ کام ہوجاتاہے۔ ہماری حکومت کو اب ہوش آیا۔
اب اس جرم کے خلاف سختی برتی جارہی ہے۔ سعودیہ میں اب صحت، گاڑی، لیبر کے
نام پر انشورنس او رمکتب عمل فیس لازمی ہے جسکا پانچ سے چھ ہزار ریال کا
اضافی بوجھ بھی برداشت کرنا پڑتاہے۔ سعودی عرب کے خراب معاشی معاملات اور
پاکستانیوں کے اپنے اعمالوں کے باعث وہاں ہمارے لئے روزگار کے سلسلے میں
عرصہ حیات تنگ ہے۔ یہاں سے اب پاکستانیوں کو وہاں جانے سے کافی احتیاط اور
احتراز کی ضرورت ہے لیکن وہاں پر جو پاکستانی جیلوں، کیمپوں، بند کمروں میں
بری طرح پھنسے ہوئے ہیں ان کے وہاں سے فوری انخلاء کیلئے ہمارے سفارتخانے
اور حکومت کو فوری ٹھوس اقداما کرنا چاہئیں اور ہمارے ائیرپورٹس، عملہ و
افسران کی ملی بھگت سے جو سمگلنگ ہوتی ہے اسکی روک تھام بھی بہت ضروری ہے۔
بصورت دیگر پاکستانی جو وہاں مقیم ہیں ان کے لئے مزید پریشانیاں پیدا
ہوسکتی ہیں۔میرے چند یونیورسٹی فیلوز جو سعودی عرب میں بڑی اچھی پوسٹوں پر
فائز تھے نے بھی وہاں سے دیگر ممالک میں نوکریاں کرلیں۔ ان کے بقول ہمارے
کرتوتوں کے باعث سعودین ہر پاکستانی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہماری
عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ شہریت وہاں کی ملتی نہیں اسلئے ہم نے شفٹ ہونے میں
ہی عافیت سمجھی۔ پاکستانیوں کا Imageوہاں کیسے بہتر ہوگا۔ یہ ہم سب نے مل
کر سوچناہے اور سعودی حکومت اور شاہی خاندان کو بھی اسلام کے اصول کے مطابق
عیاشیوں، فضول خرچیوں کو چھوڑ کر سادگی کو اپنانا ہوگا۔
|