اے ٹی ایم مشینوں سے رقوم کی چوری

کراچی میں ایک نئے کرائم کا سلسلہ جنم لے رہا ہے اور اب اے ٹی مشینوں سے کسٹمرز کی رقوم چوری ہونے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے عام لوگوں میں شدید پریشانی پائی جاتی ہے۔ دوسری طرف ایف آئی اے کے سائبر کرائم یونٹ نے بھی جدید اور الیکٹرانک طریقے سے چوری کرنے والوں ان گروہوں کے خلاف کام کرنا شروع کردیا ہے ۔ اطلاعات ہیں کہ اب تک متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے جس میں اکثریت آئی ٹی اور کمپیوٹر کے ماہر نوجوانوں کی ہے۔ایف آئی اے سائبر کرائم یونٹ کے افسران کا کہنا ہے کہ اے ٹی ایم مشین سے رقوم چوری کرنے والے ایک چپ کا استعمال کرتے ہیں جس میں کسی بھی کسٹمر کے اے ٹی ایم کارڈ استعمال کرتے وقت اس کا پاس ورڈ اور دیگر کوائف کو اسکین کرکے کاپی کیا جاتا ہے۔ یہ چپ عام طور پر اے ٹی ایم مشین کے اس حصے میں نصب کی جاتی ہے کہ جہاں سے وہ اے ٹی ایم کارڈ استعمال کرنے والے کے کوائف آسانی سے کاپی کر سکے۔عام طور پر اے ٹی ایم کارڈ استعمال کرنے والے اپنی رقوم نکال کر رسید وصول کئے بغیر ہی چلے جاتے ہیں جس سے بھی ان چوروں کو مدد ملتی ہے ۔ جدید دور کی اس الیکٹرانک چوری میں کمپیوٹر اور آئی ٹی کا علم رکھنے والے ماہر لڑکے ہی ملوث ہوتے ہیں۔ جب کوئی بھی کسٹمر اپنے اے ٹی ایم کارڈ سے کوئی بھی رقم نکال کر جاتا ہے تو یہ اے ٹی ایم مشنیوں سے رقوم نکالنے والوں کے گروہ کے کچھ افراد باہر ہی کھڑے ہوتے ہیں وہ اس کسٹمر کے جانے کے فوراً بعد اندر جاتے ہیں اور پھر چپ میں کاپی ہونے والے ڈیٹا کی مدد سے اسی اے ٹی ایم کارڈ کی کاپی تیار کی جاتی ہے اور پھر جعلی اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے اے ٹی ایم مشینوں سے رقوم چوری کی جاتی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اب ان وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ اور یہ بھی ایک طے شدہ امر ہے کہ یہ کام کوئی ایک گروہ نہیں کر رہا۔ ا س واردات میں مختلف گروہ ملوث ہیں تاہم ابھی کراچی کے علاوہ دیگر شہروں میں اس قسم کی وارداتوں کا تناسب نسبتاً کم ہے۔ایف آئی اے کی طرف سے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ عین ممکن ہے کہ ان وارداتوں میں بینک کے ملازمین بھی ملوث ہوں اور مذکورہ طریقے کے علاوہ بھی اے ٹی ایم مشینوں سے رقوم نکلوانے کا کوئی دوسرا طریقہ استعمال کیا جارہا ہو تاہم اس سلسلے میں ابھی تحقیقات جاری ہیں اور کوئی حتمی بات نہیں کہی جارہی ۔ اے ٹی ایم مشینوں سے رقم نکلوانے والے یہ گروہ زیادہ رقم نہیں نکلواتے ان کا ہدف پانچ سے چھ ہزار کی رقم کا ہوتا ہے تاکہ ابتداء میں کسٹمر کو اندازہ ہی نہ ہو سکے کے اس کے اے ٹی ایم کارڈ کی ڈپلی کیٹ تیار کر کے اس سے رقم نکلوانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔پانچ چھ ہزار کی رقم اگر کسی کے اکاؤنٹ میں کم بھی ہوتی تو وہ پہلے تو اسے پتہ ہی نہیں چلتا لیکن جب اس کے علم میں یہ بات آتی ہے کہ اس کے اکاؤنٹ سے پانچ چھ ہزار کی رقم کم ہو چکی ہے تو پھر وہ یہ سوچتا رہتا ہے کہ اس نے یہ رقم کب نکلوائی اور آخر میں عام طور پر وہ خود ہی یہ سوچ لیتا ہے کہ شاید اسی نے یہ رقم نکلوائی ہے جو یاد نہیں آ رہی لہذا وہ اس بات کو بھول جاتا ہے تاہم کچھ لوگ اس کے برخلاف بھی رد عمل ظاہر کرتے ہیں اور ان ہی لوگوں کی شکایات پر ایف آئی اے نے تحقیقات کا یہ سلسلہ شروع کیا ہے۔جیسے جیسے یہ بات عام ہوتی جا رہی ہے عوام بھی اس حوالے سے بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے اگر اس مسئلہ کا فوری طور پر تدارک نہیں کیا گیا تو مستقبل میں بینکنگ کے حوالے سے بھی بہت سے مسائل پیدا ہونے اور اے ٹی مشنیوں کے استعمال میں غیر معمولی کمی کا بھی امکان ہے۔ اس طرح پاکستان میں جدید بینکنگ کے نظام کو بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔
 

Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 68384 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.