اے اﷲ میں حاضر ہوں !

عید قربان سنت ابراہیمی ؑکی بجا آوری کا ایک روح پرور نظارہ ہے یہ ایمان افروز دن اس دن کی تجدید کرتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے فرمان بردار اور اطاعت شعار فرز ندحضرت اسماعیلؑ نے رضائے الہیٰ اور خوشنودی ء خداوندی کی تکمیل کر کے تمام نسل انسانی کے لیے تسلیم و رضا اور اطاعت و استقامت کی لازوال مثال پیش کی اﷲ تعالیٰ کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ حضرت اسماعیلؑ کو ذبیح اﷲ اور حضرت ابراہیم ؑ کو خلیل اﷲ کے القابات سے نوازا گیاکہ ان کے صبرو استقامت اور اطاعت و فرمابرداری کو رہتی دنیا تک شریعت محمدیؐ میں دینی اور ملی شعار اور واجب عبادت کا رکن قرار دے دیا گیا بلاشبہ یوم عید الاضحی مسرت و شادمانی اور رضائے الہیٰ کے آگے بلا چو ن وچراسر بسجود ہونے کا دن ہے اس روز سعید کو تمام مسلمانان عالم اپنے رب العزت کے احکام کے تحت ’’سنت ابراہیمی‘‘ ؑ کی اتباع کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کے حضور ’’قربانی‘‘ پیش کرتے ہیں اور اسی مناسبت سے اس مبارک روز میں دین حق کے پیروکاروں پر انعامات الہیٰ کا نزول ہوتا ہے -

ہمیں فلسفہ عید کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عید صرف زیست کی ہی کھٹنائیوں سے خوشیاں کشید کرنیکا دن نہیں بلکہ در حقیقت خوشیاں بانٹنے کا بھی دن ہے ہر انسان کی خواہش ہونی چاہیے کہ دوسروں تک زیادہ سے زیادہ خوشی پہنچے ،جبکہ ہم نے عید نئے کپڑے پہن کر دو رکعت فرض نماز اپنی اپنی جداگانہ مساجد میں اﷲ تعالیٰ کے حضور نذرانہ عقیدت و سعادت پیش کرنے کے بعد قربانی کا جانور کاٹ کر گوشت کھانے اور باٹنے کا نام رکھ لیا ہے۔ جبکہ عید کا دن آپس میں میل اور ملاقات کا دن ہے یہ قریبی دوستوں اور رشتے داروں سے مل بیٹھنے کا دن ہے یہ محبتیں بانٹنے اور عداوتیں ختم کرنے کا دن ہے یہ دن غریبوں ،محتاجوں اور مسکینوں کو خوشیوں میں شامل کرنے کا دن ہے یہ دن ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر قول وفعل میں فرق ختم کر کے ’’ایاک نعبدو وایاک نستعین ‘‘ کے عملی اقرار کا دن ہے جبکہ ہم رسمً عید مناتے ہیں ہم اقرار کرتے ہیں مگر طریقۂ رسول ؐ پر نہیں چلتے بلکہ ان باتوں اور طریقوں پر عمل کرتے جن کو بعض فرقہ پرستوں نے وضع کیا ہے در حقیقت عید کا دن شریعت محمدی کا اقرار ،صبر و استقامت اور اطاعت و فرمابرداری کا عملی مظہر ہے اور مکمل اطاعت و فرمابرداری ہی ایمان کا لازمی جزو ہے اور یاد رکھیں کہ اﷲ پاک کو صرف ہمارا اخلاص اور نیت چاہیئے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے پاس ہمارا خون اور گوشت نہیں بلکہ ہمارا تقوی پہنچتا ہے ۔

مسلمانان عالم کے لیے عید قربان دو گونہ خوشیوں کا دن ہے کیونکہ اسی دن مسلمانوں کی اکثریت مکہ مکرمہ میں فریضہ حج ادا کرتی ہے بلاشبہ مسلمانوں کے لیے رمضان المبارک کی طرح یہ مہینہ بھی فضائل کے لحاظ سے اور نزول رحمت خداوندی کیلئے خاص اہمیت کا حامل ہے حج ایک جامع اور مکمل عبادت ہے ،احرام باندھنا اس بات کی علامت ہے کہ ہم نے دنیا سے اپنا تعلق منقطع کر کے اپنی آخرت سنوارنے کا عزم کر لیا ہے اور ہمارا اولین مقصد صرف اور صرف رضائے خداوندی ہے ہم تمام زیب و زینت ترک کر کے اﷲ کے حضور حاضر ہو گئے ہیں کہ جس لباس میں مردہ قبر میں اتارا جاتا ہے اس لباس کو پہن کر آسائشوں کو بھول کر منی ،مزدلفہ اور میدان عرفات میں سر بسجود ہیں اور زبان پر ’’لبیک اللھم لبیک ‘‘ کی صدا ئیں ہے کہ یا اﷲ میں حاضر ہوں تو رحیم و کریم ہے ہمیں معاف فرما اور ہماری زندگیوں کو اپنے احکام اور سوۂ رسول ؐ کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرما ۔اﷲ تعالیٰ بھی اس دن سچے دل سے معافی مانگنے والوں کو معاف فر ما دیتے ہیں ان دنوں امت مسلمہ فریضہ حج ادا کر رہی ہے ،لبیک کی صدا سے فضائیں گونج رہی ہیں ایک پر نور اور روح پرور منظر ہے ،مزدلفہ ،منی اور عرفات ہر جگہ تا حد نظر ’’اﷲ کے مہمان ‘‘ اﷲ کو پکارتے اور سسکتے دکھائی دے رہے ہیں ایک ہی رنگ کے لباس اور ایک ہی خیال ،صرف خدا کا ڈر اور خدا سے بخشش طلب کرنے کی لگن لئے لاکھوں ،کروڑوں انسان سر بسجود ہیں اور ایک ہی پکار ہے ’’حاضر ہوں میں ،اے اﷲ میں حاضر ہوں ‘‘مسجد نمرہ سے جاری ہونے والے خطبہ حج میں بھی اسی عزم کو تازہ کیا جاتا ہے کہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ خدائے باری تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی میں گزارا جائے گا مگر افسوس ہے کہ مسلمان ’’سفر مقدس ‘‘سے واپس آتے ہی ا س عہد کو بھول جاتا ہے جبکہ یہی عہد لیکر دنیا میں آتا ہے اور اسی عہد کو مسلسل تازہ کرتا ہے مگر ذاتی اغراض و مقاصد کی طلب اور چاہت اور وسواس میں مبتلا ہو کرانہی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیتا ہے شاید اسی لیے شیطان نے کہا تھا کہ اے اﷲ ! میں تیرے بندوں کو بہکاؤنگا اور اﷲ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ’’بے شک جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا تیرا بس تو صرف ان پر چلے گا جو تیری پیروی کریں ‘‘ فلسفہ حج اور قربانی ہمیں یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم ’’واقعی‘‘ خدا کے حقیقی بندے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنی دنیاوی کشش اور ذاتی اغراض و مقاصد کی بھوک میں شیطان کا کہا سچ تو نہیں کر چکے جبکہ شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے بھی یہ عہد کیا جاتا ہے کہ اے شیطان ہم تیرے بہکاوے میں کبھی نہیں آئیں گے ہم بھی تجھے کنکریاں مار کر دھتکارتے ہیں اور خود کو اﷲ کی رضا کیلئے خاص کرتے ہیں ۔

اس دور کا یہ بھی المیہ ہے کہ بعض طبقات کی فریضۂ حج کی ادائیگی میں آسائشوں کی اجارہ داری ہے اور ان میں اکثر کو قربانی ،روزہ ،نماز اورحج سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے ان کے مطلوب و مقصود دکھاوا اور نمائش ہوتا ہے کہ وہ خدا کی راہ میں اتنا خرچ کر رہے ہیں اور بعد ازاں میڈیا کوریج کے ساتھ اسے بڑھا چڑھا کر پیش بھی کیا جاتا ہے جبکہ یہی وہ لوگ ہیں کہ جو محلے میں موجود کسی بے کس بیوہ ،کسی مجبوربزرگ ،کسی یتیم بچے ،کسی معذور کو چند ہزار دینا تو درکنار ان کے مانگنے پر بھی انھیں کھری کھری سنا دیتے ہیں جبکہ ان کے پاس ایسے مجبور اور افلاس کے ہاتھوں تنگ افراد کی مدد کے لیے حکومت اور تنظیموں کی طرف سے فنڈ زبھی آتے ہیں مگر یہ عوامی خادم اپنے رویوں میں ہمیشہ ظاہر کر تے ہیں کہ یہ خود زیادہ حقدار ا ور زیادہ مجبور ہیں لیکن جب بات نمودو نمائش کی ہو جیسے شادی بیاہ ،عید قربان ، کسی سیاسی رہنما کی دعوت ،پیر یا گرو کی نذرو نیاز ،سیاسی دعوتیں تو ان کی شان و شوکت اور اخراجات با دشاہوں کو مات کرتے ہیں ۔اس دفعہ بعض ایسے بھی دین کے خدمت گار اور روشن خیال سامنے آئے ہیں جو سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر ایک ماہ سے یہ سبق دیتے رہے کہ قربانی اور حج کے پیسے اگر غریب غربا میں تقسیم کر دئیے جائیں تو بھی یہ دونوں فریضے ادا ہو جائیں گے ،یہ دین فروش وہ ہیں کہ جوایک ملین کا بلو بٹ اور ادائیں دکھاتی ہوئی گائیں خریدتے ہیں اوربہترین گھر اور عمدہ لباس ان کی پہچان ہے اور انہی کی بے حسی اورا صراف کی وجہ سے آج غریب طبقہ مسلسل پس رہا ہے مگر ان کی منافقت اور سٹیٹس کی ہوس ہے کہ ختم ہی ہونے کو نہیں آتی کس قدر بد قسمتی ہے کہ ایسے لوگوں کو آج استحقاق حاصل ہے جو دوسروں کو اطاعت و ثواب بتاتے ہوئے ’’روٹی ‘‘ کے لیے ثواب کا مطلب بھول بیٹھے ہیں یہی وجہ ہے کہ سیاستدان بھی من موجی ہو گئے ہیں اگر اصلاح کرنے والے ٹھیک ہوں تو معاشرہ کبھی انتشار یا بے راہ روی کا شکار نہیں ہوسکتا ان کی اس حرکت کیوجہ سے مستند علماء کرام بھی بہت نالاں ہیں جو کہ کھلے الفاظ میں اس ناراضگی کا اظہار بھی کر رہے ہیں مذہب ایک حساس معاملہ ہے اس پر بحث اور مکالمے ہر ایک کو نہیں کرنے چاہیئے اس معاملے پرپیمرا کو غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے مذہبی منافرت اور تعصب بازی کا نتیجہ ہے کہ عدم برداشت کو فروغ حاصل ہوا اور حادثات اور سانحات کا غم اس عید پر بھی ہمارے ساتھ ہے-

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خوشی اور غم ساتھ ساتھ چلتے ہیں ،اسی حسین امتزاج کا نام زندگی ہے ،اس عید پر بھی خوشی مناتے ہوئے یقینا ہم غمگین بھی ہونگے کیونکہ ایک طرف تو مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو کھونے کا غم ہے جو کہ دہشت گردی کی نظر ہوگئے ،کچھ اپنی طبعی موت مر گئے اور اسی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں لڑتے ہوئے جو ہمارے فوجی جوان شہید ہوگئے یہ سب غم ہمارے ساتھ ہیں دوسری طرف امت مسلمہ جن حالات سے دوچار ہے بلا شبہ وہ بھی پریشان کن ہیں ،ایک طرف ہمارے کشمیری بھائی بہن لہو لہو ہیں تو دوسری طرف فلسطین ،شام اور دنیا کے دوسرے ممالک میں مسلمان مظالم کا شکار ہیں ،اگر ہم اپنے ملک کی طرف بھی دیکھیں تو دہشت گردی کا عفریت ابھی بھی ہمیں جھکڑے ہوئے ہیں ،جان و مال کا تحفظ نا پید ہو چکا ہے ،خوف کے سائے چار سو پھیلے ہوئے ہیں ،پشاور اوربلوچستان میں مسلسل دہشت گردی کے واقعات دیکھنے سننے کو مل رہے ہیں ،بھارت کی آئے روز مضموم کاروائیاں بھی نا قابل برداشت ہیں ایسے میں بس دعا ہے کہ اﷲ سبحانہ و تعالی امت مسلمہ کو سکون اور آسانیاں عطا فرمائے تاکہ ہر جگہ مسلم امہ پر چھائے ہوئے غم کے بادل ہٹ جائیں خدا کرے کہ یہ عید ہماری زندگیوں میں وہ خوشیاں لائے جنھیں پھر کبھی زوال نہ ہو مگر ایک بات ارباب اختیار سے ضرور کہونگی کہ عید پر پیغامات جاری کرتے ہوئے ایک مرتبہ ان پیغامات کو بغور پڑھئے گا کیا واقعتا آپ فلسفہ عید کو سمجھ کر سمجھا رہے ہیں یا رسمی طور پر بیانات جاری کر رہے ہیں بلاشبہ آج کے دور میں احکام الہی اور اسوہ رسول ؐ پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے کہ اسی میں ہمارے لیے دنیا و آخرت کو سنوارنے کا راز پنہا ہے اﷲ کے نبی ؐ کے طریقوں کو چھوڑ کر اپنے وضع کردہ طریقے اپنا کر ہم فرقہ بندی اور فتنوں کا شکار ہو کر کمزور ہو رہے ہیں ۔آج کے دن اس پر غور کر کے متحداور اچھے مسلمان بننے کی ضرورت ہے کہ ہماری زبان ہی نہیں ہمارا دل بھی کہہ اٹھے کہ حاضر ہوں میں ۔۔اے اﷲ میں حاضر ہوں !
Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 126 Articles with 90152 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.