مئی کے اوائل کے دن تھے․سورج کی تپش سوا
نیزے پر تھی․گرمی سے بچنے کے لئے لوگ اپنے اپنے ٹھکانوں میں دبکے بیٹھے تھے․عامل
بابا کے ڈیرے پہ جہاں ہر وقت آس مندوں اور مریدوں کا تاند ہ بندھا رہتا تھا․وہاں
آج اکا دْکا لوگ نطر آ رہے تھے․عال بابا کے مْرید مصروف نظر آ رہے تھے․عامل
بابا کا خاض ٖخدمت گزا ر شیدا ( مٹی کے کونڈے میں)ہرے رنگ کی بھنگ رگڑ رہا
تھا․ایک خادم عامل بابا کی دائیں طرف بیٹھا ہاتھ سے پنکھا چلا رہا تھا․مریدوں
کا رش کم ہوتے ہوتے بلکل ختم ہو گیا۔
عامل بابا سستانے کا بول کے آستانے میں موجود چھوٹے کمرے کی طرف چلے گئے
شیدا عامل بابا کے لئے ٹھنذی بھنگ لے آیا․جسے ہونٹوں سے لگا کے عامل بابا
نے تب چھوڑا جب وہ بلکل ختم ہو چکی․عامل بابا کی آنکھیں لال ہونے
لگی․سستانے کے عمل کا بول کے بابا ابھی لیٹے ہی تھے․کہ غفورا آستانے کے
احاطے میں داخل ہو تا نطر آیا۔
شیدے نے کہا ۔بعد وچ آں بابے ہوری آرام پے کردے نیں․عامل بابا نے آواز
لگائی آں دے شیدے۔۔۔۔۔۔۔ہاتھ کے اشارے سے عامل بابا نے غفورکو پاس
بلایا․اور کہا بول کیوں آیا ایں؟
غفورے نے عامل باباکے دونوں ہاتھ تھام لئے․بابا جی او مینوں چھڈ کے کسے ہور
نال ویاہ کرن لگی اے۔او کہندی اے توْ پڑھیا لکھیا ئیں۔نا کوئی کم کردا
ایں․بابا جی میں کم نیں کردا۔اس د ا مطبل(مطلب)کی،کہ میں انج ای رہنا․میں
کدے کم نیں کرنا․؟پیار میرے نال تے ویاہ ہور کسے نال۔
میں نیں برداشت کر سکدا۔۔۔۔باباجی تْسی کوئی عمل کرو نا او میرے کول
آجاوے․․ٖغفورے کے ہاتھوں کی گرفت عامل بابا کے ہاتھوں پر اوربھی سخت ہو
گئی․عامل بابا نے آنکھیں بند کر لی․جیسے زیرے لب کچھ پٹرھ رہے ہوں۔عامل
بابا نے جب آنکھیں کھولی وہ لال انگاروں جیسی ہو رہی تھی․عامل بابا: تیرا
کام ہو جائے گا․غفورے کی آنکھیں چمکنے لگی․تْو۰۰۰۳ روپیہ لے کے آ کل۔تیرا
کم ہو جائے گا․عمل کرناں کچھ سامان چاہی دا۔
۰۰۰۳روپیہ ․․․․․․․․․․․غفورے کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا․میں انے پیسے کتھوں
لے کے آوں؟؟
میں دسیا وی اے۔ میں کوئی کم نیں کردا․عامل بابانے ٹکا کے جواب دیا․پیسے
نیں تے جا۔تیرا کم نیں ہوسکدا․غفورے نے منت کی․عامل بابا نے آنکھیں بند کر
کے اْوپر بازو رکھ لیا․یہ اس بات کا اعلان تھا․کہ مزید بات نہیں کریں
گے․غفورا کچھ دیر کھڑا دیکھتا رہا․اورپھر آستانے کے ا حاطے سے با ہر نکل
آیا․کیا کرے کیا نا کرے کچھ سمچھ نہیں آ رہا تھا․گھر واپس آ تے ہی کمرے میں
گھس گیا․اور چارپائی پہ چت ـ لیٹ کے کمرے کی چھت گھورتا رہا․طرح ․طرح کے
خیال ستا تے رہے․اْسے کسی اور کے ساتھ سوچ کے ہی اْس کا خون کھولنے لگ
جاتا․اور سو چتے سوچتے پتا نہیں کب اْس کی آ نکھ لگ گئی․ شام کے قریب جا کے
کہیں جاگ آئی․منہ ہاتھ دھو کے اپنے جگری یار ولی کے گھر چلا گیا․ولی کو لے
کے غفور گاؤں کی گلیوں سے دْور میدان میں آ گیا․ غفور نے ساری بات ولی کو
بتائی کہ وہ کیوں پر یشان ہے․․عامل باباساتھ ہونے والی ساری باتیں بھی
تفصیل سے ولی کو بتادی․․تمام باتیں سن کے و لی کچھ دیر کے لئے خاموش
ہوگیا․․بولا بس ا تنی سی بات ۔یارپیسے خرچن دی کی لور اے۔کجھ انج کر کے او
تیر ی نیں تے کسے ہور دی وی نا ہو سکے۔
غفورہونکوں کی طرح ولی کی طرف دیکھنے لگا․یار انج کداں ہوے گا․اْس دے کار
(گھر)والیاں نے تاریخ ڈال دتی اے․او۔ وی ماں دی اڈھی چٹرھ گئی اے․کہندی اے
توْ نکماں ا یں․تے نکماں ای رہنا․
ولی یار میرا دل کردا․ او ہنوں لے کے نس جاواں․یار او گل کرے تے میں اوہنوں
سمجھواں․توْ دس ولی میں کی کراں یار؟ ولی۔او روز سکولے(سکول) جاندی اے
نا۔تے ․کل گل کر لیندے آں۔توْ میرا ویر پریشان نا ہو․کل ہون دے سبھ سیٹ ہو
جاوے گا․ غفورا مطمن سا ہو گیا․کہ ولی نے سوچیا اے تے کجھ نا کجھ تے ہو ای
جاوے گا․
اگلے دن دونوں گلی کی نکڑ پہ کھٹرے اْس کا انتظار کر رہے تھے․گرمیوں کے دن
تھے․گلیاں محلے سنسان پڑے تھے․وہ سکول سے نکلی گھر کے لئے․اس بات سے انجان
کے آگے ولی اور غفور دھاک لگائے بیٹھے ہیں․وہ گلی میں داخل ہوئی․اغفورکو
دیکھ کے ٹھٹک گئی۔سوچنے لگی چپ چاپ گزر جائے گی․جیسے ہی غفورکے پا س سے
گزری غفورنے آگے ہوکے راستہ روک لیاہاجرہ نے غضے بھری نظروں سے غفور کی طرف
دیکھا․ چھوڑ میری راہ غفورے۔ غفور ڈٹ کر کھڑا رہا․ ہاجرہ نے منت کی چھوڑ دے
کوئی دیکھ لے گا․ہ غفور نے ہاجرہ کا ہاتھ پکڑ لیا․ ہاجرہ نے زور دار تھپڑ ہ
غفور کے منہ پر دے مارا․ہ غضے سے غفورکا چہرہ لال ہو گیا․اور ہاجرہ کا ہاتھ
پر اْس کی گرفت اور بھی مضبوط ہو گئی․غفور کی آنکھوں میں انگارے سے جلنے
لگے․ہاجرہ منت کرتی ہاتھ چھوڑنے کے کو شش میں تھی کہ ولی نے آگے بڑھ کے
تیزاب سے بھری بوتل ہاجرہ کے منہ پر اْنڈیل دی․درد سے وہ بلک اْٹھی․غفور ے
نے دھکا دے کر اْسے زمین پر گرا دیا اور ولی کا ہاتھ پکڑ کے بھاگتا بھاگتا
گاؤں کی گلیوں میں کہیں گم ہو گیا۔۔۔۔
ٖٖختم شْد |