بچوں کی ضد

 جنگل کے وسط میں واقع ایک دُور افتادہ گاؤں میں جہاں کا ماحول پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا تھا وہاں جنگل کے قانون کے باعث لوگوں کی عقل پر بھی پتھر پڑ گئے تھے۔ اس جنگل میں یوں تو سدا منگل ہی رہتا مگر کبھی کبھی بُدھ کے روز یُدھ کی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی تھی۔اس کے بعد جب جنگل کے مکینوں کی کوئی ان کی سُدھ بُدھ لینے کونہ پہنچتا تو ان کو اپنی بُھولی بسری اوقات یاد آجاتی۔اس پُر اسرار گاؤں میں ہر شخص اپنی دُھن میں مست رہتا اور ارسطو کے تصور المیہ کا عملی مظہر دکھائی دیتا تھا۔گاؤں کے ایک گوشے میں دو معمر بزرگ رہتے تھے جو حرص و ہوس سے دُور رہتے اور اس پُر اسرار علاقے میں رہنے والے لوگوں کی اخلاقی پستی پر آہیں بھرتے تھے اور اپنے تزکیۂ نفس کی صورت تلاش کر تے۔ ان جہاں دیدہ بزرگوں میں سے ایک کا نام میاں گھماں اور دوسرے کا نام میاں نتھا تھا۔یہ دونوں ہم خیال تھے اور مِل کر راز و نیاز کی باتیں کرتے اور ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کر کے دنیا کی بے ثباتی پر آنسو بہاتے۔ گاؤں میں یہ معما کسی کی سمجھ میں نہ آتاتھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے آسُو، گھاسو ،رنگو ،زادو ،کرموں ،گھسیٹا اور عارو کے پاس اس قدر دولت کہاں سے آ گئی۔ یہ نو دولتیے تو فرعون بن گئے تھے اور گرگ آشتی ان کا وتیرہ بن گیا تھا۔ جنگل سے کچھ دُور ایک مربع میل پر پھیلا ہوا بارہ سو سال قدیم شہر خموشاں ’’راہ ِ رفتگاں ‘‘ واقع تھا ۔ اس قدیم اور پُر اسرار قبرستان کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ اس میں بے شمار چڑیلیں ،بُھوت ،ڈائنیں،آسیب ،سر کٹے درندے ،پچھل پیریاں،بد روحیں اور آدم خور مستقل طور پر رہتے ہیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ قدیم قبرستانکئی قسم کے حشرات کا مسکن تھا ان میں کنڈیالے چوہے ،نیولے،سانپ،بچھو،اژدہا،بِجُواورخار پُشت شامل تھے۔ پہاڑوں کے دامن میں خار دار جھاڑیوں اور گھنے درختوں میں گھرے اس قبرستان کے نواحی جنگل میں بھیڑئیے، چیتے ،گیدڑ اور شیر بھی پائے جاتے تھے ۔ داستان گو لوگوں نے اپنی چرب زبانی سے اور افسانہ طرازوں نے خیال آرائی سے اس شہر خموشاں کے بارے میں اِس قدر خوف ناک ماحول بنا دیا تھا کہ کوئی دن کے وقت بھی اس طرف کا رُخ نہ کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس جگہ جرائم پیشہ درندوں،اُجرتی بد معاشوں،لُچوں اور منشیات فروشوں نے اپنی محفوظ پناہ گاہیں بنا رکھی تھیں۔دائمی مفارقت دینے والوں کے سوگوار لواحقین ہر شام کثیر تعداد میں اپنے رفتگاں کو یاد رکھنے کی خاطراُن کے مرقد پر حاضری دیتے اور مقامی رسم کے مطابق اپنے مرحوم عزیزوں کی قبر پر دالیں اور پھول پھیلا کر حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے کہ ان کے اس عطیہ کو جب کیڑے مکوڑے کھائیں گے تو یہ مرحومین کی نجات کا وسیلہ ہو گا۔

سورج غروب ہوتے ہی آسُو، گھاسو،رنگو،زادو،کرموں،گھسیٹااور عارودبے پاؤں ’’راہِ رفتگاں ‘‘کا رخ کرتے۔ان اُٹھائی گیروں کے عفونت زدہ ہاتھوں میں بڑے بڑے بورے ہوتے تھے۔یہ جھاڑو سے قبروں پر بکھری دال،چاول اوراناج سمیٹ لیتے اور اسے ایک بوری میں ڈال لیتے ۔گلاب کے پھولوں کی پتیاں دوسری بوری میں اکٹھی کر لیتے۔گھر پہنچ کر وہ لمبی تان کر سو جاتے جب صبح ہوتی تو دال وغیرہ کو اچھی طرح صاف کرتے اور گلاب کے پُھولوں کی پتیوں کو بھی جھاڑ پُونچھ کر دُھوپ میں سُوکھنے کے لیے زمین پر پھیلا دیتے تھے۔چاول،دالیں اور اناج تو مقامی چڑی مار خرید لیتے اور آہنی پنجروں میں بند طیور کو یہی دانہ دُنکا ڈال کر انھیں قفس کی زندگی سے مانوس کرنے کی سعی کرتے ۔جب کہ حکیم مرگِ نا گہانی گلاب کے پھولوں کی پتیاں عرق گلاب تیار کرنے کی غرض سے خرید لیتااور جاں بہ لب مریضوں کے لیے اس سے آبِ حیات تیار کر کے اپنے لیے رزق کا ذریعہ ڈھونڈ لیتا۔ان سات بے حس،بے ضمیر، ناکارہ ،مفت خور لیموں نچوڑ اور حرام خوراُچکوں نے یہی ذریعہ معاش اپنا رکھا تھا۔ پنجابی لوک ادب کا ذہین پارکھ ، لوک گیتوں اور پنجابی اکھان سے گہری دلچسپی رکھنے والا میاں نتھا اکثر یہ اکھان دہراتا تھا:
تساں بچو بھڑوے ٹبراں توں
جیہڑے دالاں میلدے قبراں توں
ترجمہ:
تم بچ کے رہنا اُن بھڑوے خاندانوں سے
جو دالیں چُرا لیں قبرستانوں سے

کہتے ہیں حرام خور اپنی بُری فطرت اور باطنی خباثت سے اپنے لیے حرام کھانے کے فراواں مواقع تلاش کرنے میں اکثر کامیاب ہو جاتے ہیں۔ راہِ رفتگاں میں رسوائے زمانہ منشیات فروشوں اور اشتہاری مجرموں نے سات کے اس ٹولے کو اپنا ہم نوالہ و ہم پیالہ بنا لیا۔اس پُر اسرار قبرستان میں منشیات کی تیاری ہمہ وقت جاری ر ہتی جب کہ اس کی شہروں کو ترسیل کی ذمہ داری سات احمقوں کے اس ٹولے نے سنبھال رکھی تھی۔ان کی کڑی نگرانی اور مالی امور کی دیکھ بھال کے لیے عادی دروغ گو اور رسوائے زمانہ تلنگا گھونسہ بیابانی ان کے ساتھ رہتا۔جب ان کے پاس دولت کی ریل پیل ہو گئی تو ان ننگ ِ انسانیت درندوں نے قحبہ خانے کی جسم فروش رذیل طوائفوں ثباتی،شعاع،ظلی،روبی،فوزی،تحرو اور پُونم سے راہ و رسم بڑھا لی تھی۔منشیات کی ساری کمائی وہ ان طوائفوں پر بے دریغ لُٹا دیتے۔وقت پر لگا کر گزرتا رہا ۔وقت کی اس عجلت ،بے وفائی اور کج ادائی کو کس نام سے تعبیر کیا جائے کہ جب عالمِ شباب میں ان مُوذیوں کے پاس دولت کی فر اوانی تھی تو انھوں نے کٹھن حالات کے لیے کچھ بچا کر نہ رکھا ۔اس پر طرفہ تماشا یہ کہ جب ان کے اعضا مضمحل ہونے لگے تو جوئے اور سٹے بازی میں وہ زندگی بھر کی کمائی اور سب کچھ ہار گئے۔یہاں تک کہ ان کے پاس سر چھپانے کی جگہ بھی باقی نہ رہی ۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ جسم فروش طوائف کو توعین عالم شباب ہی میں عدم کے کُوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لینا چاہیے ۔ طوائف کا بُڑھاپا تو اس کے لیے نرا سیاپا بن جاتا ہے ۔وہ جسم فروش رذیل طوائفیں جن کی چشم و ابرو کے ایک ا شارے پر ان کے دیوانے اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تُل جاتے تھے اب انھیں مانگنے پر کہیں سے بھیک بھی نہ ملتی تھی۔

حالات کی سفاکی سے عاجز آکر سات بھڑووں کا ٹولہ اسی جنگل میں آ پہنچا جہاں سے وہ بڑے شہر کی جانب منتقل ہو گئے تھے۔چالیس سال کے بعد بھی سب کچھ جُوں کا تُوں تھامگر درختوں کی چھاؤں کچھ زیادہ گھنیری ہو گئی تھی۔ اس بار وہ اکیلے نہیں بل کہ اپنی ہم راز طوائفوں کے ساتھ اس قدیم جنگل میں پہنچے تھے۔ساتوں خضاب آلود بُڈھے کھوسٹ بھڑووں نے تو اپنا نسل در نسل کا پیشہ شروع کر دیا اور قبروں سے دانے سمیٹ کر پیٹ کا دوزخ بھرنا معمول بنا لیا۔ساتوں بُوڑھی طوائفیں اب بھکارن بن کر گلی کُوچے میں بھیک ما نگتیں اور متمول خواتین کی اُترن پہن کر تن ڈھانپتیں اور ان کا بچ کھچا کھانا اپنے کشکول میں بھر کر لاتیں ۔مشکو ک نسب کے یہ سات سفہا اور اجلاف و ارذال بھی ان بھکارنوں کے لائے ہوئے کھانے سے اپنے پیٹ کا دوزخ بھرتے تھے۔شادی، بیاہ اور عیدوں کے موقع پر ان مفت خوروں کے دِن پِھر جاتے اور ان کی کٹیا میں چند روز کے لیے ہی سہی روپے ییسے کی ریل پیل ہو جاتی۔

اس سال عید الا ضحیٰ کے دِن میاں گھماں خاصا دِل گرفتہ تھا۔اس کی اہلیہ علیل تھی ،اس کے علاج معالجے پر کثیر رقم خرچ ہو گئی ۔اس کے بعد یہ مریضہ کینسر کے جان لیوا مرض سے جنگ کرتے کرتے زندگی کی بازی ہار گئی۔اس بار اس نے زندگی میں پہلی بار قربانی نہیں کی تھی۔ میاں نتھا بھی مالی مشکلات کا شکار تھا ،اس کا بیٹا کئی ماہ سے بے روزگار تھا اور شہر کے کارخانے میں چھانٹی کے باعث اُسے کارخانے سے فارغ کر دیاگیا۔وہ روزگار کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا رہا تھا ، مالی پریشانیوں کے باعث اس بار وہ عید پر ابھی تک گھر نہیں پہنچا تھا۔سب گھر والوں کو عید کے موقع پر اس کاشدت سے انتظار تھا مگر اس کی جانب سے نہ تو کوئی چٹھی آئی اور نہ ہی کوئی اطلاع ملی۔

قربانی سے ایک دِن پہلے میاں نتھا اپنی بہو اور کم سِن پوتے جس نے ابھی زندگی کی تین بہاریں ہی دیکھی تھیں، کے ہمراہ حسرت و یاس کی تصویر بنا بیٹھا تھا ۔اچانک بچے نے اپنی ماں سے کہا:
’’ قربانی میں تو صر ف ایک دِن باقی رہ گیا ہے ،سب بچوں کے والدین نے قربانی کے جانور خرید لیے ہیں ، ہمار ا قربا نی کا جانور کہا ں ہے ؟‘‘
’’ آ جائے گا تم فکر نہ کرو‘‘ ماں نے بچے کو سمجھاتے ہوئے کہا’’تمھارے والد گھر پر نہیں ہیں اس لیے قربانی کا جانور ابھی نہیں آیا۔‘‘
’’میرے دوست کہہ رہے تھے کہ جو لوگ غریب ہوتے ہیں وہ قربانی نہیں کرتے اور عید کے دِن وہ امیروں کے گھر جا کر قربانی کا گوشت مانگ کر پکاتے ہیں۔‘‘بچے نے آہ بھر کر کہا ،’’امی کیا ہم سچ مچ غریب ہیں اور ہم عید کے دِن بھکاریوں کی طرح گوشت مانگنے کے لیے امیروں کے گھر پر دستک دیں گے۔‘‘
’’نہیں ایسا ہر گز نہیں ،ہم تو بالکل غریب نہیں ۔‘‘ماں نے پُر نم آنکھوں سے کہا ’’ہمارا اپنا ایک کمرہ ہے،گھڑا ہے ،گھڑونچی ہے ،چُولھا ہے ، آٹے کا چٹورا ہے ،روغنی ہانڈی اور صحنک ہے ۔میں روزانہ مٹی کی صحنک میں آٹا گُوندھتی ہوں اور تمھارے لیے اپنے چولھے پر ٹھیکری رکھ کر نیچے اُپلے جلا کر روٹی پکاتی ہوں ۔جو غریب ہوتے ہیں ان کے گھر کا چولھا تک نہیں جلتا۔‘‘
’’پھر ابھی تک ہم نے قربانی کا جانور کیوں نہیں لیا؟‘‘ بچے نے حیرت سے کہا’’ہم کس جانور کی قربانی کریں گے؟‘‘
’’اس بار ہم نے گائے کی قربانی میں حصہ ڈالا ہے ۔‘‘بچے کی ماں نے کہا’’وہ گائے ساتھ والے گاؤں میں ایک مزارع کے گھر میں کھڑی ہے ۔وہاں گائے کے چارے کا اچھا انتظام ہے اور اسے باندھنے کے لیے جگہ موجود ہے ۔‘‘
’’امی سناہے گائے کی قربانی کرنے والے حصہ دار وں کی تعداد سات ہوتی ہے۔‘‘بچہ خوش ہو کر بولا ’’ہر حصہ دار کو بارہ کلو گوشت مل جاتا ہے ۔ہمارے حصے کاگوشت کون لائے گا؟اور قربانی کے دِن یہ گوشت کب تک ہمارے گھر میں پہنچ جائے گا؟‘‘
’’ہاں یہ سچ ہے ۔‘‘ماں نے بچے کو تھپکی دیتے ہوئے کہا’’ کل سہ پہر تمھارے دادا اپنے حصے کا قربانی کاگوشت ساتھ والے گاؤں سے اُٹھا لائیں گے۔‘‘

عید کی نماز پڑھنے کے بعد میاں نتھا سیدھا اپنے دیرینہ ساتھی اور محرمِ راز میاں گھماں کے گھر پہنچا اور اسے تمام باتوں سے آگاہ کیا ۔میاں نتھا کی داستان سُن کر میاں گھماں نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’اس میں پریشان ہونے کی تو کوئی بات ہی نہیں ۔تم اپنے گھر سے گوشت کے لیے بڑی سی ٹوکری اُٹھا لاؤ اوراگر ہو سکے تو کچھ رقم کا بھی بندو بست کر لو۔‘‘
’’میرے پاس تو صرف پانچ ہزار روپے موجود ہیں ۔‘‘میاں نتھا بولا ’’آج قربانی کا دِن ہے تم جانتے ہو کہ نزدیکی قصبے میں کڑاکو قصاب اور آمری چمار کی دُکانیں آج بند ہیں۔ آج تازہ گوشت کہاں سے مِلے گا؟ میرا ضدی اور ہٹ دھرم پوتا بارہ کلو سے کم گائے کے گوشت پر ر اضی نہ ہو گا ۔اگرآج سہ پہر تک گائے گوشت گھر نہ پہنچا تووہ کچھ نہ کھائے گا۔‘‘
’’تم فکر نہ کرو یہ رقم کافی ہے ۔‘‘میاں گھماں نے ہنستے ہوئے کہا’’اب دیر نہ کرو جلدی سے رقم اور ٹوکری لے کر آ جاؤ ۔ایک بات کا خیال رکھنا کہ بچے کو ہر گز ساتھ نہ لانا ورنہ سارا کھیل بگڑ جائے گا۔‘‘
’’میں گھر گھر جا کر گوشت نہیں مانگ سکتا ۔‘‘میا ں نتھاروتے ہوئے بولا ’’دوپہر ہو چُکی ہے ،اب کیا ہو گا ؟‘‘
’’وہی ہو گا جو منظورِ خدا ہو گا َ۔‘‘ میاں گھماں بولا’’جلدی جاؤ اپنے ساتھ رقم اور ٹوکری لاؤ۔ہم قربانی کا حلال گوشت خریدکر لائیں گے۔‘‘

دو پہر ڈھل رہی تھی ،سامنے گھنے جنگل کے کنارے پکھی واسوں کی جھگیاں تھیں ۔فضا مین بے شمار زاغ و زغن ،کرگس اور بُوم و شپر منڈلا رہے تھے۔خاردار راستے سے گزر کر اب وہ دونوں ان جھگیوں کے سامنے کھڑے تھے ۔زادو لُدھیک نے کہا :
’’ہمیں معلوم ہے کہ تم یہاں کیوں آئے ہو۔ تمھیں قربانی کاکتنا گوشت چاہیے ؟ ۔‘‘
ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کہ ساتا روہن میں شامل ایک اور گرگ آگے بڑھا اور بولا :
‘‘ہمارے پاس بڑا اور چھوٹا گوشت موجود ہے ۔ہم نے قربانی کا یہ گوشت گھر گھر جا کر بھیک مانگ کر اکٹھا کیا ہے۔‘‘
ظلی بولی ’’ان کو قربانی کے گوشت کا بھاؤ بھی تو بتا دو !ہم نے بھکاریوں کا بھیس بدل کر جس اذیت سے یہ منوں گوشت اکٹھا کیا ہے اس کرب اور تکلیف کا پُور ا معاوضہ ہمیں ملنا چاہیے۔‘‘
’’ہم نے آج بکرے کا صر ف دو من بُھنا ہوا گوشت کھایا ہے ۔‘‘ثباتی نے غرا کر کہا ’’شام کے لیے تین من رکھ لو باقی فروخت کر دو۔‘‘
’’میاں جی ! قربانی کے گوشت کا نرخ کان کھول کر سُن لو۔‘‘ زاہدو لُدھیک نے اپنے گنجی کھوپڑی کو سہلایا اور پھر سامنے پڑے گندگی سے لتھڑے عفونت زدہ جھاڑو سے ایک تنکا نکالا اور اس سے اپنے غلیظ دانت صاف کرتے ہوئے بولا’’ ہم اپنا پیٹ کاٹ کر یہ گوشت فروخت کرتے ہیں۔قربانی کا چھوٹاگوشت تو چھے سو روپے فی کلو ملے گا جب کہ قربانی کا بڑاگوشت تین سو روپے فی کلو یہاں سے دستیاب ہے ۔یہ گوشت ملا جلاہے چھوٹے گوشت میں،بکرا،بھیڑ بکری،مینڈھااور دنبہ وغیرہ سب شامل ہیں جب کہ بڑے گوشت میں گائے ،بیل ،اونٹ ،بھینس اوربھینساشامل ہیں۔ہم نے تو یہ گوشت ہر ذائقے والا جمع کر دیا ہے ۔اب جس کے جی میں آئے وہی اس گوشت کو خرید کر اپنے گھر میں خوش ذائقہ پکوان تیار کر کے شوق سے کھا سکتا ہے ۔‘‘
’’ہم نے بارہ کلو کی ڈھیریاں لگا رکھی ہیں جو تمھیں پسند آئے وہ اُٹھا لو۔‘‘آسو بِلا اپنی میلی کچیلی قمیص کے دامن سے اپنی بہتی ہوئی ناک صاف کرتے ہوئے کفن پھاڑ کو بولا’’اب تک ہم قربانی کے اکٹھے کیے ہوئے
گوشت کی پچاس ڈھیریاں بیچ چکے ہیں صرف چند ڈھیریاں باقی بچ گئی ہیں۔‘‘
’’ہمیں بڑے گوشت کی ایک ڈھیری دے دیں ۔‘‘میاں گھماں نے پریشانی کے عالم میں کہا’’کیا کوئی ڈھیری ایسی نہیں جس میں صر ف ایک ہی جانور کا گوشت ہو ۔‘‘
’’ہاں ! یہ ڈھیری جو ہم نے اپنے لیے الگ کر رکھی ہے اس میں صر ف گائے کا گوشت ہے۔ساتھ والے گاؤں کے جاگیردار نے دو بڑے اور فربہ بیلوں کی قربانی دی اور ہم چودہ بھکاریوں نے وہاں دامن پھیلایا ۔اس نے ہم سب میں سے ہر ایک کو دو کلو فی کس کے حساب سے گوشت دیا تھا۔‘‘
’’اچھا تم چار ہزار روپے دو اور بارہ کلو کی یہ ڈھیری اُٹھا لے جاؤ۔یہ نو جوان بیلوں کا گوشت ہے جو کچا پپیتا ڈالتے ہی فوراً گل جائے گا۔‘‘ظلی نے جگالی کرتے ہوئے کہا’’نکالو پیسے کچھ اور گاہک بھی آ رہے ہیں وہ دُور جو عورتیں اور ان کے ساتھ مرد دکھائی دے رہے ہیں سب گوشت خریدنے آ رہے ہیں۔ہم غریبوں کے رزق کا سلسلہ اسی طرح چلتا ہے ۔‘‘

میاں نتھا نے چار ہزار روپے گِن کر جھگی میں موجود ساتا روہن کے حوالے کیے اور بارہ کلو گوشت کی ٹوکری اُٹھائے گھر کی جانب چل دیا۔ گھر پہنچا تو اس کا پوتا گائے کے گوشت سے بھری ٹوکری دیکھ کر خوشی سے پُھولا نہ سمایا ۔اس کی ماں نے چولھے میں آگ جلائی روغنی ہانڈی میں گوشت ڈالا اور پکنے کے لیے چولھے پر رکھ دیا۔میاں نتھا پلیٹ میں گوشت ڈالے، پوتے کو کندھے پر اُٹھائے،اُن فاقہ کش غریبوں کے گھر میں گوشت تقسیم کر رہا تھا جنھوں نے اس بار قربانی نہیں کی تھی۔میاں گھماں کے گھر جب گوشت کی پلیٹ لے کر پہنچے تو اس نے بچے کو گلے لگا لیا اور کہا :
’’اﷲ کریم بابا نتھا کی قربانی قبول کرے اور اگلے برس وہ گھر کا پالا ہوا دنبہ قربان کرے۔‘‘

شام کے سائے ڈھل رہے تھے بابا نتھا کے گھر کا دروازہ کھلا ۔اس کا کڑیل جوان بیٹا اس کے سامنے کھڑا تھا ۔اس نے سر پر ایک گٹھڑی اُٹھا رکھی تھی جس سے ٹپکنے والے خون کے قطرے یہ ظاہر کر ہے تھے کہ اس گٹھڑی میں تازہ گوشت ہے۔
’’بابا!میں یہ قربانی کا گوشت لایا ہوں ۔وہیں شہر میں قربانی کا انتظام ہو گیا تھا۔میں نے سوچا کہ جانور لے جانے کے بجائے گوشت ہی لیتا جاؤں۔‘‘
اس دوران بابا نتھا کا پوتا بھی وہاں آ پہنچا اور اپنے باپ کو دیکھ کر اس سے لپٹ گیا ۔باپ کے سر پر گوشت کی گٹھڑی دیکھ کر کہنے لگا:
’’ اس بار ہم نے دو قربانیاں دی ہیں ،دادا جان نے گائے میں حصہ ڈالا تھا اور بارہ کلو گوشت لائے ہیں ۔ ابا جان آپ نے قربانی کے کس جانور میں حصہ ڈالا ہے؟‘‘
’’بیٹے میں نے بکرے میں حصہ ڈالا ہے یوں سمجھو کہ یہ سارے کا سارا بارہ کلوچھوٹا گوشت ہی ہے ۔‘‘
بچہ زور زور سے ہنسنے لگا اور اس نے خوشی سے کہا:
’’ابو!بازی لے گئے انھوں نے بکرے میں حصہ ڈالا۔بکرے کا گوشت زیادہ مزے دار ہوتا ہے۔‘‘
’’ تم سب عجیب بندے ہو !بارہ کلو بڑا گوشت اور بارہ کلو ہی چھوٹا گوشت میں سب گورکھ دھندے سمجھ چُکی ہوں،میں نے تم سب کی پسند کا ہمیشہ خیال رکھا ہے ۔‘‘بابا نتھا کی بہو نے کہا’’اب پسندے تیار ہیں جلدی کرو اور جی بھر کر پسندے کھاؤ۔‘‘
بابا نتھا آگے بڑھا اور اپنے بیٹے سے لپٹ کررونے لگا اور بولا :
’’ یہ سچ ہے کہ آج کل عید کے موقع پر بھی بھکاری انوکھے رندے چلا رہے ہیں مگرتم بچوں کی ضد نے تو ہم بُوڑھوں کو حیران کر دیا ہے چلو مندے کے اِن دنوں میں پسندے ہی غنیمت ہیں۔‘‘
Ghulam Ibn-e- Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e- Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e- Sultan: 277 Articles with 680015 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.