مظلوم مسلمانوں کی مدد اور پاکستانی فلاحی تنظیمیں

طارق اسماعیل ساگر ہمارے لیے بڑے ہی محترم ہیں۔ ہم بچپن سے ہی ان کی تحریریں پڑھتے آئے ہیں ۔ ان کی تحاریر اور کتابیں پڑھ کر پاکستان کے لیے کچھ کرنے کا جزبہ اور اور تحریک ملتی ہے. ایک دن قبل کی ساگر صاحب کی ایک تحریر نظر سے گزری جس میں فاضل لکھاری نے بڑے مدلل انداز میں قربانی اور قربانی کے جانوروں کی کھالوں کی تقسیم کو ملک کے اندر ہی محدود کرنے اور فلاحی تنظیموں پر ملک سے باہر اور بالخصوص کشمیر و فلسطین میں قربانیاں کرنے اور قربانی کی کھالوں سے دنیا کے مظلوم مسلمانوں کی مدد و نصرت کرنے پرتنقید کی تھی. ملک کے لیے ان کے جذبات کی ہم قدر کرتے ہیں مگر ہم ان سے کچھ گزارشات کرنا چاہتے ہیں کہ جناب مانا کہ پاکستان میں بہت غربت ہے. بہت سے لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں. مگر ان کا موازنہ کشمیر و فلسطین سے کرنا کسی طور بھی درست نہیں ہے. کشمیر میں ایک سو ستر سال کے ہندو مظالم اور ان کے خلاف چلنے والی آزادی کی تحریک کو اگر ہم ایک سائیڈ پر رکھ کر صرف پچھلے دو مہینے کی بات کریں تو پلڑا پھر بھی بھاری نظر آتا ہے. پچھلے دو ماہ کے کرفیو ، شہادتوں اور لاتعداد زخمیوں کے بعد سے کیفیت یہ کہ کشمیر میں قحط کا سماں ہے. ان کی سب سے بڑی آمدن سیب کی برآمدگی سے ہوتی تھی مگر اس سال اس کرفیو کی وجہ سے بیس ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے ان کشمیریوں کو. اور مسلسل کرفیو سے تمام قسم کے کاروبار اور لین دین کی بندش سے ہونے والا نقصان اس کے علاوہ ہے. ان کے بچے اور وہ خود بھوکے اور پیاسے اپنے مسلمان پاکستانی بھائیوں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں.اسی طرح اگر ہم فلسطین ، شام یا جنگ سے تباہ شدہ دیگر مظلوم مسلمان ممالک کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں کیفیت کچھ اسی طرح کی اور بعض ممالک میں کیفیت اس سے بھی ابتر نظر آتی ہے.

دوسری بات یہ کہ آج جب الحمدﷲ پاکستان کے حالات کچھ ٹھیک ہوئے ہیں اس دفعہ چودہ اگست کے موقع پر ہمیں ہر طرف پاکستانی پرچم لہراتے نظر آئے ہیں. مگر جب کچھ سال پیچھے نظر دوڑاتے ہیں تو کیفیت یہ تھی کہ پاکستان میں ہی کچھ علاقوں میں پاکستانی پرچم لہرانے پر بندش تھی اور لہرانے والے کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا تھا اور اس کے اانجام کو دیکھ کر پھر کوئی ایسی جرآت کرنے کی کوشش نہیں کرتا تھا. وہ دن آج بھی ہمارے دلوں پر گھاؤ کی صورت میں موجود ہیں دل خون کے آنسو روتا تھا. ان حالات میں کچھ لوگ اٹھے اور انہوں نے پاکستان کے صاحب ثروت لوگوں کی مدد سے فلسطین، کشمیر، شام اور دیگر علاقوں میں مظلوم اور بے بس غریب مسلمانوں کے لیے قربانیوں اور دیگر مواقع پر ان کی مختلف طریقوں سے مدد کا سلسلہ شروع کیا تو مناظر یہ تھے کہ بیت المقدس کی سیڑھیوں پر، غزہ میں، شام کے مختلف علاقوں میں، برما و کشمیر میں اور دیگر آفت اور جنگ زدہ علاقوں میں لوگ پاکستان کے پرچم اٹھا کر کھڑے تھے اور ان کے چہروں پر طمانیت بھری مسکراہٹ تھی. اﷲ کی قسم ان علاقوں میں لہراتے پاکستانی پرچم دیکھ کر روح تک سرشار ہوگئی اور دل سے یہ سلسلہ شروع کرنے والوں کے لیے بے شمار دعائیں نکلیں.

اسی طرح تیسری گزارش یہ کہ اسلامی اخوت بھی کوئی چیز ہوتی ہے. اقبال کی اسلامی اخوت کی فلاسفی تو ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ
؂اخوت اس کو کہتے ہیں کہ چبھے کانٹا جو کابل میں
برصغیر کا پیر و جواں بے تاب ہو جائے

اسی اﷲ کے نبی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی احدیث مبارکہ اور تعلیمات بھی ہمیں اسی اسلامی اخوت کا درس دیتی ہی. حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ "مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور یہ سب ایک جسم کی مانند ہیں کہ اگر جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے."تو اسی اسلامی اخوت کا تقاضہ ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں ہم اپنے ان مظلوم مسلمان بھائیوں کو یاد رکھیں اور عید کی خوشیوں میں ان کو بھی شامل کریں.اسی طرح اہل علم حضرات جانتے ہیں کہ دنیا میں پاکستان کی شہرت کشکول کے حوالے سے مشہور ہے(اگرچہ ہمارے حکمران اس کشکول کو بارہا توڑنے کا اعلان کرچکے ہیں) ایسے میں اگر پاکستان سے مدد بیرون ملک جاتی ہے تو ان کے دلوں میں پاکستان اور پاکستانیوں کا کیا تاثر بیٹھے گا. ان کے دلوں سے پاکستان کے لیے نکلنے والی دعاؤں کے مناظر آپ انٹر نیٹ پر ملاحضہ کر سکتے ہیں.اور رہی بات پاکستان کی تو یہ ہمارا گھر ہے. یہی فلاحی تنظیمیں پاکستان کو اپنی ترتیب میں سر فہرست رکھتی ہیں. ملک میں مختلف مواقع میں آنے والی آفتوں میں ان فلاحی تنظیموں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اور دیگر کے کردار کو سبھی اچھی طرح سے جانتے ہیں. اور ہم ان سے یہ امید رکھتے ہیں قربانی کے معاملات میں بھی یہ پاکستان کی غریب عوام کو ضرور یاد رکھیں گے.اسی طرح ہم صاحب ثروت لوگوں سے بھی یہ گزارش کرتے ہیں کہ دل کھول کر ایسی فلاحی تنظیموں کے ساتھ تعاون کا سلسلہ کیا جائے تاکہ ہم عالمی سطح پر مسلمانوں کے جزبہ اخوت کو ماند نہ پڑنے دیں اور اپنے اﷲ کے ہاں بھی سرخرو ٹھہریں.
Muhammad Abdullah
About the Author: Muhammad Abdullah Read More Articles by Muhammad Abdullah: 16 Articles with 11366 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.