کاش اس عید پر ہم اپنی ’’انا‘‘ ذبح کردیتے!

'عیدالاضحی ہم سے ہر سال بار بار یہی مطالبہ کرتی ہے کہ راہِ خدا ہم محض میں جانورکو ہی قربان نہ کریں بلکہ اس کے ساتھ اپنی ’’اناومیں‘‘ کو بھی ذبح کردیں
 اﷲ کے فضل وکرم سے عیدالاضحی کے ایام امن و شانتی ،مسرت و خوشی اور اتحادویکجہتی کے ساتھ گزرگئے ۔کہیں سے بھی کسی ناخوشگوار واقعے کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ہر سال کی امسال بھی فرزندانِ توحید نے بڑے ہی خشوع وخضوع ،خلوص و ﷲیت اور تزک و احتشام کے ساتھ خوش وخرم ہوکر بقرعید منایا۔شہر کی ہر چھوٹی بڑی مسجد اور عیدگاہ میں مسلمانوں کے اجتماعی قافلوں او رامڈتے ہوئے سیلاب کا پرکیف منظر قابل دید اورلائق رشک تھاہر طرف خوشیوں کے شادیانے بج رہے تھے ،اور تکبیروتشریق کی گونجیں ہواؤں میں تحلیل ہورہی تھی،اجتماعی رقت انگیزذکرودعاکامنظر بھی کافی پرکیف تھا جہاں فرزندان توحید کے لبوں سے نکلے ہوئے لفظِ آمین سے ہوائیں لطف اندوز ہورہی تھی،لوگوں کے اندرحرارت ایمانی ،ایثاروقربانی اور سنت ابراہیمی کے جذبات و احساسات کو حد درجہ محسوس کیاگیا۔راہِ خدا میں قربان کئے جانے والے جانوراور بندگانِ خدا کے اعمال و افعال حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کی اس تاریخی قربانی کی یاد تازہ کررہے تھے ،جو آپ نے رب تعالیٰ کی رضا جوئی اور خوشنودی کی خاطر اپنے فرزند عزیز حضرت اسماعیل ذبیح اﷲ علیہ السلام کو راہِ خدا میں قربانی کے لئے پیش کیا تھا ۔ عیدالاضحی کی آمد سے قبل قربانی کو لے کرلوگوں میں کافی جوش وخروش دیکھا گیا،عیدالاضحی کے استقبال وخیرمقدم کے لئے شہروں کو شاہراہوں سے لے کر محلوں ،گلیوں اور گھروں تک سجایا اورآراستہ کیا گیا،بازاروں میں عیدقرباں کی تیاریاں بھی بہت زیادہ گرما گرم اور زوروں پر تھی،جانوروں کی خریداری کا تو کیا کہنا ؟ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی تھی،لیکن اس کے باوجود نیلامی میں لاکھوں تک کی بولیاں لگ رہی تھی۔

بہرِکیف! فرزاندانِ توحید نے عیدالاضحی کی نمازایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ ہوکر ادا کی،مصافحہ ومعانقہ کا ایک دور چلا ،بعدازاں بندگانِ خدانے رب تعالیٰ کی رضا جوئی و خوشنودی کے لئے ،حکمِ خداوندی اور سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے راہ خدا میں جانوروں کی قربانیاں پیش کیں۔یقینا جانوروں کی قربانی راہِ خدا میں پیش کرنا فرمانِ خداوندی کی اطاعت و تکمیل ہے،اس سے کسی کو مجالِ انکار نہیں ہے۔اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قربانیوں کے دنوں میں جانوروں کی قربانی پیش کرنا انتہائی محبوب و پسندیدہ عمل ہے۔اس کے بغیر کوئی بھی عمل اﷲ تعالیٰ کے یہاں مقبول ومحبوبنہیں ہے۔

چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ اﷲ کے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا :اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کے دن انسان کے اعمال میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ خون بہانا ہے اور بے شک وہ جانور قیامت کے دن اپنی سینگوں ،بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اﷲ کی بارگاہ میں مقبول ہوجاتا ہے تو اسے دل کی بھلائی کے ساتھ کرو۔(مشکوٰۃ)

ایک اور روایت میں ہے کہ’’ اﷲ کے پیارے رسول ﷺ سے صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ یہ قربانی کیا ہے ؟آپ نے فرمایا تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ،صحابہ عظام نے پھر پوچھا کیا اس میں ہمارے لئے اجروثواب ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا :ہربال کے بدلے میں نیکی ملے گی‘‘۔(ترمذی) مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کے قربانی کے دنوں میں اﷲ وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب عمل کوئی نہیں ہے۔

قارئین کرام توجہ فرمائیں !عیدالاضحی کے تمام اموربحسن و خوبی تو انجام پاگئے ،لیکن اب مقام غوروفکر ہے کہ٭ کیا ہم نے رب تعالیٰ کی رضا جوئی وخوشنودی کے لئے محض جانوروں کوذبح کیایاپھرساتھ میں اپنے اندر پرورش پارہے شیطانی جذبات وخیالات،نفسانی خواہشات و شہوات اور کبروانانیت کی بھی بھینٹ چڑھائی؟٭کیا ہم نے آپسی اختلافات وانتشارات،باہمی جنگ و جدال اور عداوت ودشمنی کو قربان کرنے کا عہدوپیمان لیا ؟٭کیا ہم نے بغض و کینہ،جلن و حسد ،غیبت و چغلی اور اسطرح کے جراثیم پالنے والے جسم پر چھری چلائی؟یہ وہ سوالات ہیں جو ہروقت دریچہ ذہن میں گردش کررہے ہیں،جنہوں نے مسلم معاشرے کو ان گنت برائیوں اور تباہیوں کے گڑھے میں ڈھکیل رکھا ہے۔جنہوں نے مسلم معاشرے سے اچھائیوں اورخوبیوں کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔یہاں ہم بات کررہے ہیں خاص طور پر ’’اناومیں‘‘کی، جس کے زہریلے جراثیم معاشرے میں اپنا مضبوط ومستحکم مقام بنا چکے ہیں ،جوہرکہ ومہ کی رگ وپہ میں رچتے اور بستے چلے جارہے ہیں ۔اس ’’اناومیں‘‘کی جنگ میں ایک دوسرے پر سبقت وبرتری لے جانا فخر محسوس کیاجارہاہے۔اس’ اناومیں‘‘کی آگ میں نہ جانے معاشرے کے کتنے افراد جھلسے ہوئے ہیں اس کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا ۔اس ’’اناومیں‘‘کا بھوت معاشرے کے اکثرافرادپرسوار ہو چکا ہے ، چاہے وہ عالم ہے یا جاہل،امیر ہے یا غریب،چھوٹا ہے یا بڑا،حکمراں ہے یا ملازم کسی کابھی اس ’’اناومیں‘‘کے پھیلے ہوئے جال میں پھسنے سے بچ جانا انتہائی مشکل ہوچکاہے۔ اگر غیر جانب دار ہوکر کہا،بولا اور لکھا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہ ہوگاکہ اس ’’اناومیں‘‘ کی دوڑ میں ہمارے علما، روئسا ، سیاستداں،صحافی،قلمکار،اور معاشرے کے بااثر افرادسب سے آگے ہیں،ایک تجز یہ یہ ہے کہ ’’اناومیں‘‘ میں ملوث و مبتلا افراد میں احساسِ ابتری کا غلبہ اس قدر پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے علم وہنر،دولت وثروت،عزت و شہرت اور حسن و جمال میں کسی کو کچھ نہیں سمجھتے ہیں۔انانیت و نخوت کے اثرات توآج کل تو مسجدوں، مدرسوں ،اسکولوں اور کالجوں میں بھی بکثرت دیکھنے کو مل رہے ہیں،معاشرے کا یہ سب سے بڑا المیہ ہوگیا ہے کہ اگر کسی کو اخلاص کی خاطر ان جگہوں کا رکن بنادیا جائے تو وہ اپنے آپ کو منسٹراور ان مقدس جگہوں اور تعلیم گاہوں کو دارالسلطنت تصور کرنے لگتے ہیں ،اپنی پچھلی اوقات کو پس پشت ڈال کر اربابِ علم و دانش سے اکڑکر بات کرتے ہیں ،اسی پر بس نہیں یہاں تک کہ اتراکر چلتے ہیں، اپنے آپ کو پھلے خاں سمجھتے ہیں۔ گویاانانیت و نخوت کے نشے میں اس طرح مدہوش و مخمور ہوچکے ہیں کہ انہیں اپنی عاقبت وآخرت کا خیال تک نہیں رہا،وہ بھول گئے پچھلوں کے واقعات و قصص کہ جن میں فرعون و ہامان ،شداد ونمرود کی عبرت آمیز داستانیں قابل ذکر ہیں ۔انانیت و غرور نے انہیں اس طرح زمیں بوس اور ہلاک و تباہ کردیا کہ آج تلک ان کا انجام نشان ِعبرت بنا ہوا ہے۔جب کوئی اﷲ تعالیٰ کی زمین پر سینہ تان کراور اکڑ کر چلتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس بندے سے سخت ناراضگی کا اظہار فرماتا ہے۔قرآن مجید میں جابجاایسے لوگوں کوسخت وعید سنائی گئی ہے:’’بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔(سورہ نحل،آیت۲۳)
’’اور زمین میں اکڑکر نہ چل کہ نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ لمبائی کو پہنچ سکتا ہے‘‘۔(سورہ اسرائیل،آیت۲۷)
’’اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر‘‘۔ (سورہ لقمان۔آیت۱۹)

اسی طرح احادیث مبارکہ میں غروروگھمنڈ کرنے والوں کی مذمت اس طرح کی گئی ہے:
جو شخص اﷲ عزوجل کے تواضع وانکساری کرے گا،اﷲ تعالیٰ اس کوبلند فرمادے گا۔وہ خود کو چھوٹا سمجھے گا مگر اﷲ تعالیٰ تمام انسانوں کی نگاہوں میں اس کو عظمت والا بنادے گااور جو شخص گھمنڈ اور تکبر کرے گا۔اﷲ تعالیٰ اس کو پست کردے گاوہ خود کو بڑا سمجھے گامگر اﷲ تعالیٰ اس کو تمام انسانوں کی نظر میں کتے اور خنزیر سے زیادہ ذلیل بنادے گا۔(مسند امام احمدبن حنبل)

نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ :جنت و دوزخ نے اپنے رب کے حضور میں جھگڑا کیا۔جنت نے کہا:اے رب!کیا حال ہے کہ مجھ میں کمزوراور گرے پڑے لوگ ہی داخل ہوگے اور دوزخ نے کہا کہ مجھ میں تو داخلے کے لئے متکبروں کو خاص کردیا گیاہے۔(صحیح البخاری)

متذکرہ بالا قرآن و احادیث کی روشنی میں یہ اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ انانیت وغرور گناہ عظیم اور رب کے ناراضگی کا سبب ہے،ساتھ ہی ساتھ جہنم میں لے جانے والا عمل بھی ہے۔لہذا اس گناہ عظیم اورانانیت و نخوت سے خود بھی بچنا اور معاشرے کو بھی بچاناہم سب کی یہ اولین ذمہ داری ہے ۔عیدالاضحی ہم سے ہر سال بار بار یہی مطالبہ کرتی ہے ہم محض اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جانوروں کو ہی قربان نہ کریں بلکہ اس کے ساتھ میں اپنی ’’اناومیں‘‘ کو بھی ذبح کردیں دراصل یہی قربانی کا اصل مقصد ہے ۔اپنے اندر سے ’’اناومیں‘‘کو دودھ سے مکھی کی طرح باہر نکال پھینکنے کی اشد ضرورت ہے۔ آج بھی وقت ہے کہ ہم جانوروں کی قربانی کے ساتھ ساتھ رب تعالیٰ کی رضاجوئی وخوشنودی کی خاطر اپنی انا کو بھی ذبح کردیں ۔یقینا سماج و معاشرے کی تمام برائیوں کا خاتمہ ہوجائے گا ۔اب کیا ؟عیدِقرباں کے ایام تو گزرگئے لیکن ہمارے لئے یہ سوال یقینا چھوڑگئے کہ:
کاش اس عید پر ہم اپنی’’ انا‘‘ذبح کردیتے
جو بات بات پہ ’’میں میں‘‘ کیا کرتی ہے
Mohsin Raza
About the Author: Mohsin Raza Read More Articles by Mohsin Raza: 16 Articles with 22875 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.