جمعہ کا منجن

منجن بہت اعلیٰ شے ہے ایک زمانہ تھا کہ کوئی بس کوئی لاری منجن بیچنے والوں سے خالی نہیں ہوتی تھی ادھر کوئی سٹاپ آیا ادھر منجن بیچنے والے آن پہنچے ۔۔۔اور پھر وہ پیلے دانتوں کو چمکدار اور بیمار دانتوں کو صحت مند کرنے کے لئے وہ اکثیری نسخہ بتاتے کہ دو چار مسافروں کے ہاتھ خود بخود جیب میں چلے جاتے اور وہ روپے دو روپے کا یہ گوہر نایاب خرید لیتے ،،بعد میں شاید وہ کسی کو دانت دکھانے تو کیا منہ دکھانے کے بھی قابل نہ ہوتے ۔۔۔یہ منجن والے کی ہی فنکاری تھی کہ آج منجن کو لوگ کم اور منجن بیچنے والے کو زیادہ اپنی بول چال میں استعمال کرتے ہیں ۔۔۔۔ جمعہ کو کراچی میں جو کچھ ہوا تو اس نے منجن والے کی یاد دلا دی ۔۔ وہ منجن والا تو پھر بھی کچھ اچھا تھا جو کسی کو برا کہتا نہ کسی کے اچھے برے میں ٹانگ اڑاتا تھا لیکن سولہ ستمبر کو جو کچھ ہوا اس نے دو گھنٹے پہلے مہمند ایجنسی میں ہونے والے خود کش دھماکے کو ہی دبا کر رکھ دیا ۔۔۔ چینلز چھ ،نو اور بارہ بجے کا بیلٹن راؤ انوار راؤ انوار کھیلتا رہا ۔۔۔ تحصیل انبار کی جامع مسجد میں اٹھائیس لاشیں گرنا کوئی معمولی بات نہیں تھی لیکن اسے پلے ڈاؤن کردیاگیا کہ کہیں مزاج یار کو برا نہ لگے ۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور ایم کیو ایم پاکستان کے ترجمان خواجہ آظہار الحسن کے گھر پر چھاپا مارا وہ گھر میں نہیں تھے آئے تو راؤانوار نے انہیں ہتھکڑی لگائی اور لے گئے ۔۔۔ الزام لگایا گیا کہ وہ ٹارگٹ کلرز کی پشت پناہی کرتے ہیں تین مقدمات میں مطلوب ہیں وغیرہ وغیر ہ۔۔۔ گرفتاری کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلنی تھی اور پھیل گئی ۔۔۔ وزیر اعظم نوازشریف نے اس پر لمحوں میں ناراضی کا اظہار کیا۔۔ نئے نئے بننے والے وزیراعلیٰ سیدمراد علی شاہ نے نوٹس لیا ۔۔ایس ایس پی راؤ ملیر کو معطل کردیا ۔۔۔ لیکن خواجہ اظہار الحسن بدستور پولیس کے پاس رہے ۔۔ اس دوران یہ الزام بھی لگا کہ راؤ انوار آصف علی زردای کے خاص آدمی ہیں جس کی مولا بخش چانڈیو نے ایک اچھے مشیر ہونے کے ناتے فوری تردید کردی ۔چانڈیو صاحب نے سیاسی ہاتھ کو مسترد کیا تو ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی سیدہ شہلا رضا کو کوئی اور خفیہ ہاتھ نظر آنے لگا ۔۔ ادھر ایم کیو ایم کو یہ فکر دامن گیر رہی کہ ان کی ساکھ متاثر کی جارہی ہے گرفتار کرنا ہے تو گرفتار کرنے کو تیار ہیں لیکن یہ کون سے طریقہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر کو بغیر کسی پیشگی اجازت کے گرفتار کیا جائے ۔۔۔ بات تو ٹھیک ہے لیکن یہاں آئے روز جب عوام کے حقوق پامال ہوتے ہیں چادر اور چاددیواری کا تحفظ نہیں کیا جاتا تو کون اس کی پروا کرتا ہے لیکن جب ڈاکٹر عاصم ، ایان ،عزیر بلوچ اور دیگر پر ہاتھ پڑتا ہے تو سیاست دانوں کی روحیں پاتال تک کانپ جاتی ہیں اور ایم کیو ایم پر تو ویسے بھی جو برے دن آئے ہوئے ہیں وہ آزمائش کے ہیں لیکن یہی آزمائش شاید انہیں عوام کے مزید قریب بھی کردے اب تو ویسے بھی کراچی اور حیدر آباد کی نظامت اعلیٰ ان کے پاس ہے چار سال ہیں ثابت کریں اور لوگوں کے دلوں میں گھر بنائیں ۔

کراچی میں راؤ اسلم سے راؤ انوار تک کے سفر میں ایک بات جو غیر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ ثانی الذکر کے معاملے میں انگلیاں اسٹیبلشمنٹ کی طرف اٹھنی لگی ہیں اور اگر دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا پوسٹ مشرف ٹریک ریکارڈ تو یہی کہتا ہے کہ وہ سلامتی کے اداروں سے متعلق اپنے سخت روئیے کا اظہار وقتا ً فوقتاً کرتے رہے ہیں ۔۔۔ راؤ انوار کا مہمند دھماکے کے فوری بعد ایکشن میں آنا ۔۔ سندھ کی بڑی شخصیت پر سرعام ہاتھ اٹھانا ، انہیں تھانے لے جانا اور اپنی معطلی کے باوجود یہ کہنا کہ وزیراعلیٰ بھی ٹارگٹ کلرز کے چیف کو رہا نہیں کراسکتے اور یہ کہ ان کی معطلی سے کراچی پر منفی اثرات پڑ یں گے صاف بتاتا ہے کہ ان کے منہ میں ان کی زبان نہیں کسی اور کی زبان ہے یہ زبان کس کی ہے اس کی تحقیقات کرانے کا اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی نے فیصلہ کرنا ہے ۔دیکھتے ہیں سندھ کی یہ دونوں شخصیات کتنی طاقت ور ہیں جو ماسٹر مائنڈ کو بے نقاب کرتی ہیں یا خود اپنے لوہے کا نقاب اتار دیتے ہیں آنکھاس منظر کی منتظر ہے ۔۔۔بہرحال عوام کے ہاتھ کچھ آیا یا نہیں لیکن جمعہ کا منجن خوب بکا ۔۔۔۔۔
Shahzad Iqbal
About the Author: Shahzad Iqbal Read More Articles by Shahzad Iqbal: 65 Articles with 43605 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.