نوافل کے چکر میں فرائض سے کوتاہی

تقریباً ہر صبح کی طرح آج بھی صبح بھی اجالا کا موڈ خراب تھا۔ وجہ روز کی طرح ایک ہی تھی یعنی مما نے آج پھر تہجد کیلئے نہیں اٹھایا۔ اس بات کو بنیاد بنا کر وہ فجر کے وقت بھی اٹھنے کو تیار نہ تھی۔ اور مستقل اپنی ماں سے زبان درازی کر رہی تھی۔ عالیہ صبح صبح اپنی نو سالہ بیٹی سے الجھ کر گھر میں بد مزگی پیدا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ لٰہذا نمازکے بعد کے ازکار اور پھر ناشتے کی تیاری میں مصروف رہی۔

اجالا کی ماں عالیہ ایک مقامی کالج میں پروفیسر تھی۔ اپنی جاب اور پھر گھر آکر چار چھوٹے بچوں کی ذمہ داریوں میں وہ اس قدر تھک جاتی کہ کبھی تو تہجد میں اٹھنا نصیب ہوجاتا۔ ورنہ فجر کی نماز میں ہی آنکھ کھلتی ، آج بھی ایسا ہی ہوا۔ اور اجالا کا شور شرابا پر تھا۔ اب میں ناشتہ نہیں کروں گی۔

عالیہ بھاگم بھاگ ناشتے کی تیاری ، بچوں کے لنچ کی تیاری، چھوٹے بیٹے کے ڈائپر کی تبدیلی جیسے معاملات سے نمٹ رہی تھی۔ اسکے شوہر احمد نماز کی تیاری کر رہے تھے۔ نماز کے بعد وہ اجالا سے چھوٹے والے بیٹے ابراہیم کا حفظ کا سبق سننے لگے۔ آج اجالا کو اپنا حفظ کا سبق بھی ابو کو سنانے کی جلدی نہ تھی۔ اتنی دیر میں عالیہ نے ناشتہ لگا دیا۔ اب سے ناشتے پر موجود ہیں۔ لیکن اجالا بستر چھوڑنے کو تیار نہیں تھی۔ عالیہ شدید غصے میں آگئی۔ قبل اسکے کہ اجالا کی پٹائی ہو جاتی۔ اﷲ نے عالیہ کو ہمت عطا فرمائی۔ جی ہاں صبر کرنا بڑے حوصلے کا کام ہے۔ اس نے ایک دم خاموشی اختیار کر لی چھ سالہ ابراہیم اور چار سالہ آمنہ کو سکون سے ناشتہ کروایا اور اسکول کے لیے تیار کیا۔ اور اپنے شوہر احمد سے کہ دیا کہ عالیہ آج اسکول نہیں جائے گی کیوں کہ اسے ناشتہ نہیں کرنا اور بغیر ناشتے کے میں اسے اسکول ہر گز جانے نہیں بھیجوں گی۔ اجالا کو اپنے والدین سے ہر گز یہ امید نہ تھی کہ یہ دونوں آج اسے اسکول سے چھٹی کی سزا دے دیں گے۔ کیونکہ گھر کا ماحول اور والدین کا مزاج تعلیم یافتہ اور دین دار تھا ، تمام بچے ماں کے ساتھ جائے نماز بچھا کر اردان ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

اسکول وین کے آنے میں صرف پانچ منٹ باقی تھے۔ احمد نے ابراہیم اور آمنہ کو لیا۔ اور نیچے سڑھیوں کی طرف چل دیئے ، اجالا ابھی بھی منتظر تھی اچانک عالیہ بولی اگر اسکول جانا ہے تو فوراً اٹھو یونیفارم پہنو ، ایک گلاس دودھ پیو اور جاؤ، اجالا نے موقع غنیمت جانا کہ اسکول جانے کی اجازت تو ملی۔ ورنہ چھٹی کی صورت میں حفظ کا سبق کلاس سے پیچھے رہ جاتا۔ اس نے یونیفارم پہنا ، عالیہ جلدی سے دودھ میں شہد ملا کر لائی اسکے بعد بیگ اور لنچ بکس پکڑایا ، اور نیچے دوڑا دیا۔ آخر کار اجالا اسکول چلی گی۔

اسکول سے واپسی پر اجالا بالکل نارمل تھی۔ صبح والی بد تمیزی کا ہلکا سا شائبہ بھی نہ تھا۔ بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلنا اور مما مما کرتے ہوئے عالیہ کے ساتھ روز مرہ معاملات میں تبادلہ خیال جاری تھا۔ تب عالیہ نے موقع غنیمت جانا اسے قریب بلا کر بالوں میں انگلیاں پھیرتے بڑے پیار سے سوال کیا "بیٹا تہجد کی نماز فرض ہے یا نفل؟" جواب ملا مما تہجد کی نماز تو نفل ہے اب ماں کا اگلا سوال تیار تھا۔ ماں کا احترام فرض ہے یا نفل؟ اجالا حیرت سے ماں کو دیکھتے ہوئے بولی والدین کا احترام فرض ہے ہمارے قاری صاحب بتاتے ہیں کہ والدین کو اُف تک کہنا بھی گناہ ہے۔ اب لوہا گرم دیکھ کر عالیہ نے چوٹ لگائی اور آہستہ سے بولی بیٹا آپ نے تہجد کی نفل نماز کیلئے نہ اٹھانے پر فجر کی نماز اور ماں کے احترام جیسے دو فرض چھوڑ دئیے، آپ نے ماں سے بدتمیزی کی ،اتنا سنتے ہی اجالا نے اپنی ماں کے ہاتھ پکڑ لیئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ مما مجھے معاف کر دیں۔ فجر کی نماز تو میں نے اسکول میں ہی قضا پڑھ لی تھی۔ لیکن آپ سے بدتمیزی پر میں بہت شرمندہ ہوں، عالیہ نے اسے سینے سے لگا لیا۔

قارئین آئیے ہم اور آپ سوچیں کہ بہت سے نوافل کے چکر میں کہیں آپ فرائض سے کوتاہی تو نہیں کر جاتے ؟؟
Atiq Ahmed
About the Author: Atiq Ahmed Read More Articles by Atiq Ahmed: 4 Articles with 3756 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.