اسلام کا نظام عدل اور اس کی خصوصیات

عدل ظلم کی ضد ہے، ظلم کہتے ہیں"وضع الشی فی غیر محل" (کسی شئے کو اس کو اصل مقام سے ہٹاکر دوسری جگہ رکھ دینا )اور عدل کہتے ہیں اس چیز کو اصل مقام پر رکھنا۔

لغوی معنی:
برابر کرنا، سیدھا رکھنا (قاموس الوحید صفحہ ۱۰۵۴)یعنی کسی چیز کو اس طرح تقسیم کرنا کہ ان دو میں میں سے کسی میں ذرا برابر بھی کمی بیشی واقع نہ ہو۔

اصطلاحی معنی :
سید شریف فرماتے ہیں "عدل افراط اور تفریط کے درمیان ایک نقطہ مساوات ہے جو اطراف کو برابر رکھتا ہے اور حق پر آکر رک جاتا ہے "۔(اسلام کا سیاسی نظام ،پروفیسر غلام رسول چیمہ )

عدل کی اہمیت
عدل کو ایک آفاقی حقیقت کا درجہ حاصل ہے دنیا کا کوئی معاشرہ ،خواہ وہ مسلم ہو یا کافر اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔عدل، ظلم کی ٖ ضد ہے جس معاشرے میں عدل نہیں ہوگا وہاں ظلم ہوگا اور ظلم معاشرے کے لیے تباہی کا باعث بنتا ہے۔
ارشاد باری ہے "ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ " 51؀(مائدہ )
(اللہ ہدایت نہیں کرتا ظالم لوگوں کو)

اسلام میں عدل وانصاف پر بہت زور دیا گیا ہے کیونکہ اگر عدل وانصاف نہ ہو تو انسانی معاشرہ درہم برہم اور اس کا امن وسکون ختم ہوجاتا ہے۔ قرآن وحدیث میں کئی مقامات پر عدل وانصاف کو تاکیداً بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد باری ہے "يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰهِ شُهَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ ۡ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا ۭاِعْدِلُوْا ۣ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ " (ما ئدہ)
ایمان والو !کھڑے ہو جایا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو انصاف کی اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو عدل کرو یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ سے اور ڈرتے رہو اللہ سے اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کرتے ہو۔

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا "اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚيَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ " (نحل)
اللہ حکم کرتا ہے انصاف کرنے کا اور بھلائی کرنے کا اور قرابت والوں کے دینے کا اور منع کرتا ہے بےحیائی سے اور نامعقول کام سے اور سرکشی سے تم کو سمجھاتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔

حضوراکرم ﷺ نے بھی اپنے کئی ارشادات عالیہ میں عدل وانصاف کو بیان کیا ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالی اپنے سائے میں جگہ دے گا ان میں سےایک عادل حکمران بھی ہے (بخاری شریف ،کتاب الصلوۃ)

حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا قاضی تین ہیں ایک جنت میں اور دو دوزخی ہیں جس نے حق پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا وہ جنتی اور جس نے حق کو جاننے کے باوجود فیصلہ میں ظلم کیا وہ دوزخی ہے اور جس نے جہالت پر لوگوں کے درمیاں فیصلہ کیا وہ بھی دوزخی ہے (ابو داؤد)اسی طرح بعض روایات میں ہے کہ انصاف کرنے والے روز قیامت، اللہ تعالیٰ کے پاس نور کے منبروں پر ہونگے۔(مسلم شریف،کتاب الامارۃ )

عدل کی تین قسمیں ۔
۱)سماجی عدل :
یعنی وہ عدل جس کا اثر سو سائٹی پرپڑتاہو ،قرآن مجید میں آتاہے " فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْا" (نسا ء )
پس تم نکاح کرو ان عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں، دو دو، تین تین، اور چار چار، لیکن اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم انصاف نہیں کرسکو گے (ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان) تو پھر تم ایک پر ہی اکتفا کر لیا کرو، یا ان باندیوں پر جن کے مالک ہوں تمہارے داہنے ہاتھ۔

یہ آیت تعدد ازواج سے متعلق ہے جس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سے زائد بیویوں کے مابین عد ل وانصاف قائم نہ رکھ سکتا ہو تو وہ ایک ہی بیوی سے شادی کرے کیونکہ عائلی زندگی کے امن کا دارومدار عدل وانصاف پر ہے۔

۲)قانونی عدل :
عدالتی معاملات کے ہر پہلو میں عدل وانصاف کو برقرار رکھا جائے۔ ان میں پھر کچھ معاملات، تحریری ہوتے ہیں، اور کہیں شہادت کی ضرورت پیش آتی ہے اور اہم ترین مرحلہ فیصلہ کا ہے قرآن کریم میں ان تینوں کے بارے میں رہنمائی ملتی ہے۔

ا۔تحریر ودستاویز کے متعلق حکم :
ارشاد ربا نی ہے"وَلْيَكْتُبْ بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ" (بقرہ )
اور تمہارے درمیان ( دستاویز) لکھنے والا شخص عدل (وانصاف) کے ساتھ لکھے۔
اور اس سے آگے ارشاد ہے " فَاِنْ كَانَ الَّذِيْ عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيْهًا اَوْ ضَعِيْفًا اَوْ لَا يَسْتَطِيْعُ اَنْ يُّمِلَّ ھُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهٗ بِالْعَدْلِ" بقرہ )
پھر اگر وہ شخص کہ جس کے ذمے حق ہے، بےسمجھ، یا کمزور ہو، یا وہ (کسی عذر کی بناء پر) املاء نہ کرا سکتا ہو، تو اس کاولی املاء کرائے، عدل (و انصاف) کے ساتھ۔

ب۔ شہادت کے متعلق :
عام طور پر لوگ شہادت دیتے وقت جانبداری سے کام لیتے ہیں اسلام اس حالت میں عدل وانصاف پر قائم رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔
ارشاد ربانی ہے " وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰي ۚ " (انعام )
، اور جب تم بات کرو تو انصاف کی کرو، اگرچہ وہ شخص رشتہ دار(کے خلاف ) ہی کیوں نہ ہوں

ج۔ فیصلہ کرنے کے متعلق حکم :
ارشاد ربانی ہے "وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ" (نسا ء )
جب تمہیں فیصلہ کرنا ہو لوگوں کے درمیان تو تم فیصلہ کرو عدل (وانصاف) کے ساتھ۔
قرآن مجید نے عدل بین المسلمین نہیں کہا بلکہ بین الناس کہا لہٰذا رنگ ونسل، وطن وزبان اور مذہب ومسلک کا فرق جائز نہیں ہے یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ قانون کی نظر میں سب لوگ یکساں ہیں۔

عہد نبوی کا مشہورواقعہ کہ قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، قریش کو یہ بات ناگوار لگی کہ ان کے قبیلہ کی کسی عورت کا ہاتھ کاٹا جائے انہوں نے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو سفارشی بنا کر بھیجا، حضرت اسامہ نے جب بات کی تو حضوراکرم ﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا اور لوگوں کو ایک خطبہ ارشاد فرمایا "بے شک تم سے پہلے وہ قومیں ہلاک ہوگئیں جو کمزور پر حد جاری کردیتے اور بڑے آدمی کو چھوڑ دیتے تھے خدا کی قسم اگر فاطمہ (میری بیٹی )بھی ایسا کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا"(بخاری کتاب الحدود ،)

۳)اقتصادی عدل:
معاشرہ کے ہر فرد کو اپنی اہلیت کے مطابق جائز اور معاشی جدوجہد کا پورا پورا حق ہے ہر فرد کو قومی وسائل سے اس کا حصہ ملنا چاہیے۔ ایسے قوانین وضع کردیے جائیں کہ جن کی وجہ سے دولت چند ہاتھوں میں جمع نہ ہوسکے۔ اسلام نے دنیا کی ہر چیز کو اللہ کی ملکیت قرار دیا، انسان کی اس پر ملکیت بطور امانت کے ہے تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھا کر اللہ کی بندگی کا حق ادا کرسکے۔

ارشاد الہی ہے "ان الارض للّٰه "زمین اللہ کی ہے ۔اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا " وللّٰه خز ائن السموات والارض "آسمانوں اور زمین کے خزانے اللہ کے ہیں۔ لہٰذا خرائن اللہ سے ہرفرد کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملنا چاہیے کسی ایک فرقہ کی اجارہ داری نہیں قائم ہونی چاہیے ۔(اسلام کا سیاسی نظام ،غلام رسول چیمہ)

اسلامی تصور عدل اور اس کی خصوصیات
۱)قانون اور عفو کا حسین امتزاج :
معاشرہ میں شریف النفس لوگ بھی موجود ہوتے ہیں اور سرکش وعادی مجرم بھی، کہیں معاف کردینا،سزا دینے سے بہتر ہوتاہے ۔اور کہیں معافی مجرم کو اور دلیر اور جری بنا دیتی ہے۔ ثبوت جرم کے بعد سزا ملتے وقت مجرم پرترس کھانے کو بھی معیوب قرار دیا گیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے "اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۚ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَاۗىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ " (نور )
زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو، ف۱ اور تمہیں ان کے بارے میں اﷲ کے دین کے معاملے میں کوئی ترس نہیں آنا چاہیے۔ اگر تم ایمان رکھتے ہو اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور حاضر رہے ان کی سزا کے اس موقع پر ایک گروہ ایمان والوں کا عبرت پزیری کے لیے۔

البتہ عدل اور عفو کے مواقع الگ الگ ہیں، عفور درگزر نجی معاملہ ہے جبکہ عدل اجتماعی معاملات سے متعلق ہے مقدمہ عدالت میں جانے سے پہلے مدعی معاف کرنے کا اختیار رکھتا ہے لیکن جب معاملہ عدالت میں پیش ہوجائے تو مدعی کا یہ اختیار ختم ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال دور نبوی کا وہ مشہور واقعہ ہے کہ ایک صحابی مسجد نبوی میں سوئے ہوئے تھے کسی شخص نے ان کی چادر چرا لی صحابی جاگے تو حضور اکرم ﷺ کے سامنے مقدمہ پیش کیا ،آپ ﷺ نے ملزم کے اعتراف کے بعد قطع ید کا حکم دیدیا، مدعی کہنے لگا کہ" میں نے اپنے بھائی کو معاف کردیا "لیکن حضور اکرم ﷺ نے فرمایا میرے پاس آنے سے پہلے معاف کردیا ہوتا اب سزا مل کے رہے گی (ابو داؤد شریف )

علاوہ ازین آپ نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ مجرم کو میرے پاس لانے سے پہلے معاف کردیا کرو (ابن ماجہ کتاب الحدود)

۲)استحکام:
اسلامی تصور عدل کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ کسی شخص یا سوسائٹی کا بنایا ہوا نہیں ہے کہ جس میں ترمیم، تنسیخ کا سلسلہ جاری رہے قانون سازی کا اختیار صرف اللہ کو ہے اور اللہ تعالیٰ نے قوانین کتاب وسنت کی صورت میں دیدیے ہیں۔ لہٰذا ان میں کسی کو کوئی تبدیلی کا حق نہیں ہے۔ جبکہ انسانی بنائے ہوئے قوانین کچھ عرصہ بعد تبدیلی کے متقاضی ہوتے ہیں۔

۳)قانونی مساوات :
اسلامی تصور عدل میں اپنے وپرائے،مسلم وغیرمسلم کا کوئی فرق نہیں ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے " وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ" (نسا ء )
، اور جب تم بات کرو تو انصاف کی کرو، اگرچہ وہ شخص رشتہ دار(کے خلاف) ہی کیوں نہ ہوں۔
بلکہ اگر کسی قوم یا جماعت سے دشمنی بھی ہو تب بھی کلمہ انصاف کہو۔
ارشاد بار ی ہے " وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا ۭاِعْدِلُوْا ۣ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى" (ما ئدہ)
اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو١ عدل کرو یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ سے۔

مساوات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آپس کے امتیازات رکاوٹ نہ بنیں، یعنی کسی معزز اور قریبی نے جرم کیا تو نرمی اور لچک پیدا کرلی اور اور کسی کمزور سے وہ غلطی سرزد ہوئی تو حد جاری کردی۔

مساوات کا تیسرا پہلو یہ ہے حاکم اور محکوم کے درمیان (نفا ذ قانون میں )امتیاز نہیں ہونا چاہیے ۔

مساوات کا چوتھا پہلو یہ ہے کہ جتنا جرم ہو اتنی ہی سزا ہو، اس سے زائد نہ ہو جیسا کہ جاہلیت میں اگر کسی معزز قبیلہ کا کوئی شخص قتل ہوجاتا تو کمزور قبیلے کے دو افراد کو قتل کیا جاتا۔

ارشاد باری ہے "وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ۭوَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ ١ (نحل)
اور اگر (حسب موقع) بدلہ لینا ہو (اے مسلمانو!) تو تم اسی قدر بدلہ لو جس قدر کہ تم پر زیادتی کی گئی ہو، لیکن اگر تم صبر سے کام لو تو یقیناً یہ بہت ہی اچھا ہے، صبر کرنے والوں کے لئے۔

۴)جامعیت :
عدل وانصاف کا قیام محض حکومت کا کام نہیں ہے بلکہ معاشرے کے تمام افراد کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے متعلقہ حقوق ہیں ان میں عدل وانصاف کا پہلو مدنظر رکھیں اسلام نے جہاں حاکم وقت کو انصاف کا حکم دیا ہے وہاں امت مسلمہ کو بھی تاکید کی گئی ہے کہ وہ تمام معاملات میں عدل سے کام لے۔

۵)عدلیہ کی بالادستی :
اسلام نے عدلیہ کی بالادستی کا جو تصور پیش کیا ہے دنیا کی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔
حضرت عمر ؓ نے ایک دفعہ کسی سے گھوڑا خریدا اور سوار ہوئے تو گھورا ٹھوکر کھا کر گر پڑا اور زخمی ہوگیا ۔آپ نے گھوڑا واپس کرنا چاہا تو مالک راضی نہ ہوا، معاملہ قاضی شریح کی عدالت میں پہنچا تو اس نے فیصلہ گھوڑے کے مالک کے حق میں کردیا اور حضرت عمر سے کہا کہ امیرالمومنین!جو چیز آپ خرید چکے ہیں وہ آپ کی ہے اگر واپس کرنی ہے تو اسی حالت میں کریں جس میں خریدی تھی، اپنے خلاف فیصلہ سن کر ذرہ بھر بھی محسوس نہیں فرماتے اور انہیں کوفہ کا منصب قضا سونپ دیتے ہیں ۔(العدالۃ الاجتماعیہ از سید قطب شہید ،اسلام اور معاصر سیاسی ومعاشرتی افکار)

حضرت علی ؓ کی زرہ ایک یہودی نے چوری کرلی آپ اس وقت خلیفہ تھے اور قاضی شریح کی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا اور بطور گواہ حضرت حسین اور ایک غلام کو پیش کیا۔

قاضی شریح نے حضرت علی کا مقدمہ اس بنا پر خارج کردیا کہ اسلام نے غلام کی گواہی کو اپنے مالک کے حق میں اور بیٹے کی گواہی کو اپنے باپ کے حق میں قبول نہیں کیا، حالانکہ قاضی شریح خوب جانتے تھے کہ مدعی خلیفہ وقت اور راست باز انسان ہے اور دونوں گواہ بھی عادل ہیں یہودی اس عدل سے اتنا مثاثر ہوا کہ مسلمان ہوگیا۔

عدلیہ کی بالادستی کے دعوے تو عموماً حکومتیں بھی کرتی ہیں مگر جب اس عدل کی زد پر خود پرپڑتی ہے تو کہیں قوانین میں تبدیلی کی جاتی ہے اور کہیں ججوں کو معطل کردیا جاتا ہے یا عدلیہ کے حقوق میں کئی طریقوں سے رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔
ghazi abdul rehman qasmi
About the Author: ghazi abdul rehman qasmi Read More Articles by ghazi abdul rehman qasmi: 31 Articles with 284415 views نام:غازی عبدالرحمن قاسمی
تعلیمی قابلیت:فاضل درس نظامی ،الشہادۃ العالمیہ،ایم اے اسلامیات گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان،
ایم فل اسلامیات بہاء الدی
.. View More