فاطمہ بھی ڈرے سہمے احمد کو لے کر سعید کے
برابر میں بیٹھ گئی۔ سعید کو آہٹ محسوس ہوئی تو اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا
طلال بھی اوپر چھت سے واپس نیچے آگیا تھا ۔
سعید بولا اللہ نے بچا لیا ورنہ ان کا شک یقین میں بدل چکا تھا چائے کے کپ
دیکھ کر۔
لگتا ہے کسی نے مخبری کی ہے کیا آپ نے میرا ذکر کسی سے کیا تھا۔ سامنے پڑی
کرسی پر بیٹھتے ہوئے طلال نے بھائی سے سوال کیا
سعید نے ہنکارا بھرا اور کہا نہیں میں نے ذکر تو نہیں کیا تھا لیکن مجھے
یاد پڑتا ہے جب میں سودا لینے بھائی نذیر کی دکان پر گیا تھا تو وہ مجھے
بہت غور سے دیکھ رہا تھا اور سودا باندھ کر دیتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ
بادشاہو اج تو بہت خوش ہو لگتا ہے کسی اپنے کو دیکھ لیا ہے۔ میں مسکرا دیا
تھا اور سودا لے کر آگیا تھا ۔۔
فاطمہ کی سرسراتی آواز آئی کہیں اس نے تو نہیں !!!!
سعید بولا لگتا تو ایسا ہی ہے لیکن یار وہ تو مسلم ہے ہندو ہوتا تو اس پر
شک کیا جا سکتا تھا
طلال کھڑا ہوگیا اور بولا بھائی جان میر جعفر ہر قوم میں موجود ہوتے ہیں
اور مسلمانوں کی بدقسمتی رہی ہے کہ ہم میں ہر دور میں میر جعفر جیسے بے
ضمیر لوگ موجود ہوتے ہیں جو ہماری پیٹوں پر چھرا گھونپتے ہیں ۔ طلال سانس
لینے کے لیئے رکا پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا کہ میں بس اب نکلوں گا
زیادہ دیر رکا تو آپ لوگوں کے لیے مشکلات ہوجائیں گی ۔ فاطمہ بولی بھائی
ٹہر کے جاو ابھی بھارتی فوج ادھر آس پاس موجود ہوگی
سعید نے بھی فاطمہ کا ساتھ دیا ہاں ابھی نہیں جاو کچھ دیر بعد چلے جانا ۔
لیکن تقدیر کے فیصلے کچھ اور ہی ہوتے ہیں جو ہماری سمجھ سے باہر ہوتے ہیں۔
بھارتی فوجی گئے نہیں تھے وہ واپس آئے تھے اور اس دفعہ انہوں نے دروازہ
نہیں کھٹکھٹایا تھا بلکہ دروازہ توڑ کے اندر داخل ہوئے تھے ۔
سعید اپنے گھر والون کے ساتھ اندر کمرے میں موجود تھا صحن خالی تھا اس وقت
سب ہی چونکنے ہوگئے تھے اور طلال نے اس دفعہ لڑنے کی ٹھان لی تھی اور اپنی
گن لے کر اندر کمرے میں ہی پوزیشن سنبھال لی تھی ۔ بھارتی فوجیوں نے بھی
اندر کمرے کی جانب دوڑ لگائی اور اندر داخل ہوتے ہی ان کو طلال کی گولیوں
کا سامنا کرنا پڑا تھا دو بھارتی درندے تو اسی وقت جہنم واصل ہوگئے تھے
تیسرے نے کمرے کے باہر سے ہی فائرنگ شروع کردی۔ طلال کے پاس گولیاں کم تھیں
اس لیئے وہ اندھا دھند فائرنگ نہیں کررہا تھا بلکہ انتظار میں تھا کہ کوئی
سامنے آئے تو اس کو گولیوں سے بھون ڈالے۔ تیسرے کو جب اندر سے کسی قسم کی
مزاحمت کی آواز نہیں آئی تو اس نے اپنے افسر کی ہدایت کے مطابق اندر کمرے
میں قدم رکھ دیا اور طلال جو اسی انتظار میں تھا اس نے ایک ہی فائر میں اس
کو بھی اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا دیا۔ اب بھارتی افسر کے ساتھ چار اور
سپاہی تھے ۔ اندر کمرے میں مجاہدین کے بڑا گروہ معلوم پڑ رہا ہے وہ اپنے
ساتھیوں سے مخاطب ہوا اور چاروں کو اشارا کیا کہ اندر کمرے میں داخل ہوں
اور اندھا دھند فائرنگ کردیں
اس کے ساتھیوں نے ایسا ہی کیا دو تو طلال کی گولیوں کی زد میں آگئے اس
اثنا میں فاطمہ اور احمد بھارتی فوجیوں کی گولیوں کی زد میں آگئے تھے اور
ان معصوموں کا خون زمیں پر بہے رہا تھااور سعید یہ سب کچھ دیکھ کر بےہوش
ہوچکا تھا ایک گولی سنسناتی ہوئی طلال کے بازو میں لگی اور دوسری اس کے
سینے پر کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے طلال کی آنکھیں بند ہوگئیں اور اس کی روح
اپنے رب کے حضور پرواز کرگئی ۔ بھارتی فوجیوں نے اپنے ساتھیوں کی لاشیں
وہاں سے اٹھائیں اور واپس چل دیئے
سعید کو صبح میں ہوش آیا تھا اور ساتھ والے پڑوسی محمد طلحہ نے اس کو اپنے
گھر کی چارپائی پر لٹایا ہوا تھا اس کے ہوش میں آنے کے بعد ہی سب کی تدفین
کی گئی تھی گزشتہ رات بستی میں ایک اکیلا سعید کا گھر نہیں تھا بلکہ بہت سے
گھروں میں بھارتی فوجیوں نے انسانی خون سے اپنی دردنگی کی پیاس بجھائی تھی۔
سعید جو کہ اب اس صدمے سے تھوڑا سنبھل گیا تھا اب وہ سوچ رہا تھا کہ اس کی
زندگی کا مقصد کیا ہے۔ کیا وہ اب بھی اس بات کی خواہش رکھتا ہے کہ وہ کہیں
دور جاکر ایک پرسکون زندگی گذارے ۔ اندر دل سے جواب نفی میں آیا تھا اور
اس نے جان لیا تھا کہ اس کے لوگوں کو اس کی ضرورت ہے وہ چاہا کر بھی یہاں
سے دور نہیں جسکتا کیونکہ اس کے رگوں میں بھی کشمیر کا خون ہے اور کشمیر کا
خون بزدل نہیں ہوتا وہ اپنے بھائی کی طرح بہادر تو نہیں لیکن کشمیر کا بیٹا
ضرور ہے وہ ایک بیٹے ہونے کا فرض ضرور نبھائے گا اور خون کے آخری قطرے تک
جدوجہد جاری رکھے گا اور انشااللہ اس کا احمد نہ سہی کشمیر کے اور احمد
آزادی کی فضا میں سانس ضرور لیں گئے ۔
ختم شد۔۔۔۔۔ |