تہمت

 عفیفہ بہت شریف لڑکی تھی۔ باوقار،دیندار، عفت و حیا جیسی صفات کا پیکر تھی۔اپنے نام کی طرح پاک دامن تھی۔وہ مدرسہ میں تعلیم حاصل کرتی تھی اور اس تعلیم نے اسے صحیح معنوں میں مسلم اخلاق و شعار عطا کئے تھے۔

یوں تو وہ مدرسہ کے ہوسٹل میں رہائش پذیر تھی۔۔مگر کبھی کبھی اسکی خالہ اسے چھٹی کے دن اپنے پاس لے آتی تھی اس سے عفیفہ کی بھی دلجوئی ہوجاتی اور خالہ کی بھی۔۔۔

ادھر خالہ کے گھر میں انکی شادی شدہ نند رہتی تھی۔وہ ذرا تیکھے مزاج تھی۔۔۔بات بات پہ بگڑنا انکی دیرینہ عادت تھی۔

اس جمعرات کو اسکی خالہ اسے لینے مدرسہ آئی ، عفیفہ نے سارے اسباق کی کتابیں، دھونے والے کپڑے ساتھ لیے۔اور لاہور کی چاند گاڑیوں میں سوار ہو کر گھر پہنچ گئے۔

عفیفہ نے سب کو سلام کیا،

خالہ برقعہ اتارتے ہی کچن چلی گئی

عفیفہ،۔۔ تم کیا کھاؤ گی،آج تمہاری پسند کا کھانا بناؤں گی۔خالہ نے عفیفہ سے کہا۔

عفیفہ۔۔۔نہیں خالہ۔۔آپ اپنی پسند سے جو مرضی بنا لیں میں سب کھا لوں گی۔۔

دور بیٹھی خالہ کی نند باتیں سن رہی تھی۔اور ناک منہ چڑھا رہی تھی۔وہ عفیفہ کو پسند نہیں کرتی تھی۔۔۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انکا اکلوتا بیٹا جو دوسرے شہر میں ملازمت کرتا تھا وہ دل ہی دل میں عفیفہ کو پسند کرتا تھا اور اپنی ماں سے اپنی پسند کو ذکر بھی کر چکا تھا کہ میں دیندار لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔پر ماں نے سنی ان سنی کر دی اور ہر بار یہ کہہ کر ٹال دیتی کہ وقت آنے پر دیکھا جائے گا۔۔۔اصل میں وہ دیندار طبقے کو پسند نہیں کرتی تھی۔۔۔

ادھر بھولی بھالی عفیفہ ان تمام باتوں سے قطع نظر ،بالکل لاعلم تھی ،اسے تو بس لکھنے پڑھنے کا شغف تھا۔۔اور اپنے حال میں مگن رہتی تھی -

خالہ، خالہ۔۔۔پکارتے عفیفہ آئی

خالہ۔۔کیا ہوا عفیفہ؟؟؟

عفیفہ بولی۔۔۔خالہ میں امی کے فون کا صبح سے انتظار کر رہی ہوں۔ابھی تک نہیں آیا۔۔کیا آپ کی بات ہوئی؟؟

خالہ۔۔نہیں بیٹا۔۔اگر فون آتا تو میں ضرور بتاؤں گی۔۔

یہ سن کر عفیفہ دوبارہ کمرے میں چلی گئی۔

ادھر خالہ کی نند بھی فون کے سرھانے براجمان تھی۔اسے بھی اپنے بیٹے کے فون کا انتظار تھا۔۔(یہ ptclفون کی بات ہو رہی ہے۔جب ایک جگہ سے دوسری جگہ بات کرنا کافی مہنگا تھا۔۔نہ کہ آجکل کے موبائل فون۔۔کہ اب کالز کرنا اتنا مہنگا نہیں)

کافی دیر تک جب ان کے بیٹے کا فون نہیں آیا تو وہ بھی گھر سے باہر چلی گئی۔

کچھ دیر بعد۔۔۔۔ > فون کی گھنٹی بجی۔۔ٹرن ٹرن۔۔۔

عفیفہ کمرے سے بھاگی آئی،اور ریسیور اٹھا کر سلام کیا۔۔۔

السلام علیکم۔

دوسری طرف سے اسکی امی کی آواز تھی۔۔عفیفہ باتیں کرنا شروع ہو گئی حال چال پوچھا، آپ کب آئیں گی، میں اداس ہو گئی ہوں، اگلے ہفتے ملنے آ جائیں۔۔۔وہ بہت خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔۔۔بات ختم کر کے وہ کمرے میں چلی گئی۔اسے علم نہیں تھا کہ خالہ کی نند خاموش تماشائی بن کر پیچھے کھڑی ہے۔اس نے آخری باتیں سنیں، جس میں عفیفہ اگلے ہفتے ملنے کا اصرار کررہی تھی، نند کو لگا، وہ اسکے بیٹے سے بات کررہی تھی، وہ تو پہلے موقعہ کی تلاش میں تھی،کہ کب بات کا بتنگڑ بنا کے پیش کرے، اس نے سارے گھر میں ہنگامہ برپا کر دیا،اور الزامات کی بارش کر دی، کہ عفیفہ میرے بیٹے سے بات کررہی تھی، اس سے ملاقات کرنا چاہتی ہے، وہ ہنس ہنس کر باتیں کررہی تھی، وہ تو اچھا ہوا،میں نے اپنے کانوں سے سن لیا، یہ کیسی دیندار ہے، غیر محرم سے باتیں کرتی ہے-

ادھر خالہ مسلسل کہہ رہی تھی کہ اسکے گھر سے فون تھا، مگر انکی نند تو کوئی بات سننے کو آمادہ نہیں تھی، یہی کہہ رہی تھی میں نہیں مانوں گی، جب تک قرآن کی قسم نہ اٹھائے ، عفیفہ کمرے میں آوازیں سن رہی تھی،مگر دروازہ بند ہونے کی وجہ سے صاف آواز نہیں تھی، خالہ کے بار بار سمجھانے پر نہیں سمجھی،اور عفیفہ کے پاس گئی،دھڑام سے دروازہ کھولا اور سیدھا عفیفہ کےپاس بیٹھ گئی، ان کے ہاتھ میں قرآن تھا-

عفیفہ انکو غصہ میں دیکھ کر پریشان ہو گئی، انہوں نے پوچھا، تم ابھی میرے بیٹے سے بات کررہی تھی؟؟؟

عفیفہ گھبرا کر بولی، نہیں تو۔۔۔میں امی سے بات کررہی تھی، اگر آپ کو یقین نہیں تو آپ ان سے بات کر لیں۔۔۔

انہوں نے کہا، مجھے کسی سے نہیں پوچھنا،تم بس قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاؤ، کہ تمہاری میرے بیٹے سے بات نہیں ہوئی۔۔

انکی باتیں سن کر عفیفہ کے اوسان خطا ہو گئے،یہ آپ کیسی باتیں کررہی ہیں۔۔۔

نند بولی، اگر تم سچ بول رہی ہو تو قسم کھا لو۔۔۔

عفیفہ نے کہا، اگر آپ کی ایسے تسلی ہوتی ہے تو میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتی ہوں کہ میری آپ کے بیٹے سے نہ اب ۔۔۔اور نہ ہی پہلے کبھی بات ہوئی ہے۔۔

اسکی قسم سن کر وہ کمرے سے باہر چلی گئی، ادھر عفیفہ دل ہی دل میں اللہ سے باتیں کرنے لگی،کہ اللہ !یہ کیا ہو گیا، میں تو کسی غیر محرم کو دیکھنا پسند نہیں کرتی،اور مجھ پر اتنا بڑا بہتان،لگا کر وہ چلی گئی، دل میں گلے شکوے کررہی تھی، اور زبان سے یہ آیت پڑھ رہی تھی-
> إنما أشكو بثى و حزني الي الله،
> اور سر بسجود ہو گئی،
> ایک پاک دامن عورت کے لئے اس سے بڑھ کر ذلت و رسوائی کی بات اور نہیں ہو سکتی، وہ رات خالہ کے گھر میں رو دھو کر گزاری، صبح ہوتے ہی جامعہ کی راہ لی،اور آیندہ خالہ کی طرف نہ آنے کا عزم کر لیا،

وقت گزرتا گیا،ادھر عفیفہ جامعہ سے پڑھ کر رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئی، لیکن اللہ نے ادھر خالہ کی نند سے بھی انصاف کیا،اسکا اکلوتا بیٹا اسے چھوڑ کر بیرون ملک چلا گیا،وہی شادی کر لی، اور وہ نیم پاگل ہو کر اپنے گھر میں اکیلی رہتی ہے، نہ تو کوئی اسکی بات کو کوئی سنتا ہے، اور نہ ہی اس سے ملنا پسند کرتا ہے، اب ایسے ہی باقی کی زندگی گزرے گی۔۔
یہ ہے اللہ کا انصاف،۔۔۔
پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے کا۔۔۔
Monazza Asif
About the Author: Monazza Asif Read More Articles by Monazza Asif: 2 Articles with 2281 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.