مولاناامام بخش صہبائیؔ دہلوی :انقلاب ۱۸۵۷ء کے ایک مظلوم سپاہی
(Ata Ur Rehman Noori, India)
مولاناامام بخش صہبائیؔ دہلوی (شہادت
۱۲۷۳ھ/۱۸۵۷ء)کا سال ولادت ۳۔۱۸۰۲ء کے آس پاس قرار دیاجاتاہے۔صہبائیؔ
کاسلسلۂ نسب والد کی طرف سے حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ اور والدہ کی طرف
سیدناغوث اعظم رحمۃ اﷲ علیہ سے ملتاہے۔امام بخش صہبائیؔ کو ’’معمائی‘‘بھی
کہاجاتاتھاکہ انھیں فنِ معمہ میں خاص ملکہ حاصل تھا۔آپ مولانا عبداﷲ خاں
علوی کے شاگرداور اردوزبان کے مشہور شاعر ہونے کے ساتھ کئی کتابوں کے مصنف
بھی تھے۔ آپ نے تین بادشاہوں شاہ عالم ثانی،اکبرشاہ ثانی اور بہادر شاہ
ظفرکا زمانہ دیکھا۔سرسید احمد خاں (متوفی مارچ ۱۸۹۸ء)نے اپنی مشہور کتاب
’’آثار الصنادید‘‘کی ترتیب میں صہبائیؔ سے مددلی تھی ،جس کا انہوں نے
اعتراف بھی کیا ہے اور اپنی کتاب میں ان کابڑاتفصیلی اور والہانہ ذکر بھی
کیاہے۔
مولاناالطاف حسین حالی نے لکھاہے کہ صہبائی کی نظم ونثراور دیگررسائل اور
شروح تین جلدوں میں چھپ کرشائع ہو چکی ہیں۔(یادگار غالب،ص۲۳)
بابائے اردومولوی عبدالحق نے ذکرکیاہے کہ ’’ان کی کتابیں نصابِ تعلیم میں
داخل تھیں ۔(مرحوم دہلی کالج،ص۱۶۲)
غالبؔ نے جہاں اپنے معاصرین کاذکر کیاہے ،وہاں صہبائی کو بھی یاد
کیاہے،کہتے ہیں
مومن و نیر و صہبائی و علوی و انگاہ
حسرتی اشرف و آزردہ بود اعظم شاہ
امام بخش صہبائیؔ جلد ہی فارسی کے ایک قادرالکلام شاعر،صاحب طرزانشاپرداز،
دقیقہ رس شارح اور نکتہ بیں محقق کی حیثیت سے مشہور ہوگئے۔فنونِ شعر اور
علمِ عروض وقافیہ میں انھوں نے مہارت حاصل کرلی،یہی وجہ ہے کہ اس دور کے
تمام تذکرہ نگاروادبانے ان کی اُستادی اور قادرالکلامی کالوہاماناہے۔مفتی
صدرالدین آزردہؔ،مولانافضل حق خیر آبادی،غالبؔ،شیفتہؔ اور دیگر اکابراُن کی
فارسی دانی کے بڑی حد تک قائل تھے۔ ۱۸۴۰ء میں لفٹننٹ گورنردہلی نے مفتی
صدرالدین آزردہؔ کی نشان دہی پر آپ کو دہلی کالج میں فارسی زبان کا استاذ
مقرر کیا۔مرزاغالبؔ اور صہبائیؔ میں گہری دوستی تھی۔مفتی آزردہؔ اور علامہ
فضل حق خیر آبادی کے گھر تقریباً روزانہ ہی صہبائی ؔ جایاکرتے تھے جہاں علم
وفضل اور شعروادب کی محفلیں ہروقت آراستہ رہاکرتی تھیں۔مولاناصہبائیؔ
انگریز مخالف ذہن رکھنے کے ساتھ انقلابیوں اور مجاہدوں کے ساتھ ہمدردی
رکھتے تھے۔اور قلعۂ معلی کی مجلسوں اور بعض مشوروں میں شریک ہواکرتے
تھے۔۱۸۵۷ء میں انگریزوں نے آپ کے محلہ کوچہ چیلان دہلی سے ایک بارچودہ
سوآدمیوں کوگرفتار کرکے راج گھاٹ (نئی دہلی)جمناکنارے گولیوں کانشانہ بنا
دیا ۔ انھیں میں مولاناصہبائیؔ بھی تھے۔آپ کے گھر سے اکیس افراد شہید کیے
گئے۔
مولاناصہبائی ؔکے بھانجے مولاناقادر علی بیان کرتے ہیں:’’میں صبح کی نماز
اپنے ماموں مولاناصہبائیؔ کے ساتھ کٹرہ مہرپرور کی مسجد میں پڑھ رہاتھاکہ
گورے دَن دَن کرتے آ پہنچے۔پہلی رکعت تھی کہ امام کے صافے سے ہماری مشکیں
کس لی گئیں۔․․․․․پھانسیوں کی بجائے باغی گولیوں کانشانہ بن رہے تھے۔مسلح
سپاہیوں نے اپنی بندوقیں تیارکیں۔ہم تیس چالیس آدمی ان کے سامنے کھڑے تھے
کہ ایک مسلمان افسر نے ہم سے آکرکہاکہ موت تمہارے سرپرہے گولیاں تمہارے
سامنے ہیں اور دریاتمہاری پشت پرہے۔تم میں جولوگ تیرناجانتے ہیں وہ دریامیں
کودپڑیں۔میں بہت اچھاتیراک تھامگرماموں صاحب یعنی مولاناصہبائیؔ اور ان کے
صاحبزادے مولاناسوزؔ تیرنانہیں جانتے تھے۔اس لیے دل نے گوارہ نہ کیاکہ ان
کو چھوڑ کراپنی جان بچاؤں۔لیکن ماموں صاحب نے مجھے اشارہ کیااس لیے میں
دریامیں کود پڑاپچاس یاساٹھ گز گیا ہوں گاکہ گولیوں کی آوازیں میرے کانوں
میں آئیں اور صف بستہ لوگ گرکرمرگئے۔‘‘(۱۸۵۷ء پس منظر وپیش منظر،ص۳۰۲)
راقم الدولہ ظہیردہلوی اپنی کتاب ’’داستان غدر‘‘میں لکھتے ہیں ـ:’’اس محلہ
کے چودہ سو آدمی گرفتار کرکے راج گھاٹ کے دروازے کے دریاپر لے جائے گئے اور
انھیں بندوقوں کی باڑھیں ماردی گئیں اور لاشیں دریامیں پھنکوادی
گئیں۔عورتوں کایہ حال ہواکہ گھروں میں سے نکل کربچوں سمیت کنوؤں میں
جاگریں۔چیلوں کے کوچہ کے تمام کنویں لاشوں سے پٹ گئے تھے ۔ ‘‘ (چند ممتاز
علمائے انقلاب۱۸۵۷ء ،ص۱۵۲)
اس المناک شہادت کی خبرسن کر حضرت مفتی آزردہؔ کا دل تڑپ اٹھاااور زبان بے
اختیارپکار اٹھی کہ
کیوں کر آزردہؔ نکل جائے نہ سودائی ہو
قتل اس طرح سے بے جرم جو صہبائی ہو
اکبرالٰہ آبادی کہتے ہیں:
نوجوانوں کو ہوئیں پھانسیاں بے جرم و قصور
ماردیں گولیاں پایاجسے کچھ زور آور
وہی صہبائی جو تھے صاحب قول فیصل
ایک ہی ساتھ ہوئے قتل پدر اور پسر |
|