بے حسی اور تربیت کا فقدان!

مزاحیہ اداکار لاڈلا کا اس عارضی دنیا سے کوچ کر جانا معمول کی ایک خبر ہے کہ ہر کسی نے کوچ کرنا ہے، مگر معلوم ہوا کہ ماضی کا مزاحیہ اداکار کسمپرسی کی حالت میں دنیا سے گیا، اس کو پوچھنے والا کوئی نہ تھا، اس کی ٰخبر گیری کسی نے نہ کی، اس کی تیمارداری کرنے کے لئے کوئی موجود نہیں تھا۔ حتیٰ کہ وہ گمنامی کے گہرے غار میں غائب ہوگیا، وہ دنیا سے گیا تو المیہ یہ ہوا کہ میوہسپتال کے باہر اس کی لاش گھنٹوں لاوارث پڑی رہی، کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی، ہسپتال کی انتظامیہ اپنی معمول کی سرگرمیوں میں مصروف رہی ، جب میڈیا کے ذریعے بات نکلی تو ایک ہلچل سی مچی اور انتظامیہ نے لاش کو کسی محفوظ جگہ پر پہنچایا۔ یہ معاملہ صرف لاڈلا کے ساتھ ہی نہیں ہوا، یہاں بڑے بڑے لوگ جب سکرین یا منظر سے ہٹتے ہیں تو پھر اُن کو پوچھنے یا یاد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا، یوں وہ ہوتے ہوتے گمنامی کے سمندروں میں غرق ہو جاتے ہیں ۔ دنیا میں ان کا نام تو کسی حد تک یاد رہ جاتا ہے، بسا اوقات لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ فرد جس کا تذکرہ ہو رہا ہے، زندہ بھی ہے یا عدم کو سدھار چکا ہے؟

لاڈلا کی کسمپرسی کی حالت میں موت ہماری اجتماعی بے حسی کی عملی دلیل ہے، معاشرے کے وہ لوگ جو اپنی زندگی میں لوگوں میں مقبول تھے، اپنی باتوں سے لوگوں کا دل لبھاتے تھے، جن کی باتیں سن سن کر لوگ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جایا کرتے تھے، انہیں سرآنکھوں پر بٹھایا کرتے تھے، جب وہ کچھ کرنے کے قابل نہ رہے تو یار لوگوں نے انہیں بھلانے میں ذرا بھی تاخیر سے کام نہ لیا، انہیں پیچھے مڑ کے نہ دیکھا۔ لوگ کیا یاد رکھتے، ایسے لوگ تو قومی اثاثہ ہوتے ہیں، ان کو سنبھال کر رکھنا تو حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے، مگر اپنے ہاں یہ عام رواج ہے کہ اگر کسی اداکار کی کسمپرسی اور خراب حالت کا حکومت کو علم ہوگیا تو اس کے علاج کے لئے احکامات جاری کردیئے گئے، مفت علاج کا حکم بھی جاری ہوگیا، دیکھ بھال کے بھی بندوبست ہوگئے، اور جو کسی وجہ سے منظر پر نہ آسکے وہ گمنامیوں کی تاریکیوں میں ہی گم ہو کر رہ گئے۔ دنیا کی بے ثباتی کا یہ عالم ہے، کہ ہم لوگ اپنے ہمسائیگی میں بھی نہیں جانتے کہ یہاں کون رہتا ہے، اس کی مالی حالت کیا ہے؟ اپنے ہاں ہر کوئی بلاوجہ مصروف ہے، وقت کی رفتار اس قدر تیز ہو چکی ہے، کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی مہلت کسی کے پاس نہیں، دنیا حال میں جی رہی ہے یا پھر مستقبل میں، ماضی کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے۔ بیتے وقت کو یاد رکھنے یا یاد کرنے کا وقت کسی کے پاس نہیں۔
 
عید گزری ہے تو چھٹیوں کے بعدا ٓنیوالے اخبارات نے بڑے لوگوں کے بارے میں قوم کو بتایا ہے کہ کس نے کہاں عید پڑھی، وہ کس طرح عوام میں گھل مل گئے، انہوں نے کس طرح لوگوں سے عید ملی، اور یہ بھی کہ اس موقع پر پروٹوکول بھی نہیں تھا۔ خبروں میں یہ بھی بتایا گیا کہ عید پر پردیسیوں کی آمدو رفت کا غیر معمولی رش تھا، ٹرانسپورٹرز نے من مانے کرائے وصول کئے۔ مگر ساتھ ہی حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اس معمول کی کاروائی کے ساتھ اخبارات کی دیگر تمام خبریں بھی معمول کے مطابق ہی رہیں۔ عید کی چھٹیوں میں حادثات کی خبریں بھی جوں کی توں رہیں، قتل و غارت گری کا بازار بھی ویسے ہی گرم رہا، اغوا کی وارداتیں بھی ہوتی رہیں، زہر پی کر جان دینے کی خبریں بھی آئیں۔ کونسی برائی ہے جو عید الاضحی کے مبارک موقع اور حج کے متبرک دنوں میں ہم سے سرزد نہیں ہوئی؟ ہم نے ہر وہ کام کیا جو عام دنوں میں کرتے ہیں، نہ حج کا احترام، نہ قربانی کا جذبہ، نہ مذہبی تہوار کا احساس۔ نہ یہ جاننے کی کسی نے کبھی کوشش کی ہے، نہ کسی نے اس آگاہی مہم پر کام کیا ہے، معاشرے کی تربیت کیسے کی جاسکتی ہے؟ یہ بھاری ذمہ داری کس کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر کسی فرد پر اس ذمہ داری کا بوجھ آتا ہے توکیا وہ اسے قبول کرتا ہے، اسے اٹھانے کے لئے تیار ہے، اس کو نبھا رہا ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ اول گھر، والدین، اساتذہ، معاشرہ، سیاستدان اور حکمران۔ یہ سب ذمہ دار ہیں۔ مگر افسوس کہ سب نے اپنی ترجیحات تبدیل کرلی ہیں، ہر کوئی اپنی دھن میں مگن ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472200 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.