آج کے دور میں ٹرانسپورٹ کے مسائل سے کون واقف نہیں ہے،
ٹریفک جام، شور، دھواں اور آئے روز ایکسڈینٹ نے لوگوں کی زندگی کو بدل کے
رکھ دیا ہے، اس سے طرح طرح کی جسمانی٬ اعصابی اور نفسیاتی بیماریاں مثلاً
ڈپریشن اور ٹینشن عام ہیں۔ صبح لوگ اپنے کام کاج اور سفر کے لئے جب نکلتے
ہیں تو تازہ دم ہوتے ہیں لیکن جب بے ہنگم ٹریفک کے آزار سے گزرنے کے بعد جب
گھر لوٹتے ہیں تو ان کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں۔اس پہ مزید یہ کہ ہمارا ملک
توانائی کے بحران کا شکار ہے آئے دن پٹرول کی کمی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ عام
ہوتی ہے گاڑیوں کی قطاریں پٹرول پمپوں اور سی این جی اسٹیشنوں پہ نظر آتی
ہیں۔ اوپر سے مہنگائی آئے دن پٹرول ڈیزل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو
رہا ہے جس سے لوگوں پہ معاشی بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھتا چلا جا رہا
ہے۔یہ سب کچھ کیوں ہے ،اس لئے کہ ہمارا طرز زندگی درست نہیں ہے،ہم نے
ٹرانسپورٹ کے مسائل کا حل سڑکوں کی کشادگی اور اوور ہیڈ پلوں اور انڈر پاسز
تک محدود کر دیا ہے اگر ہم سوچیں کہ کاروں اور دیگر ذاتی گاڑیوں اور ویگنوں
،بسوں میں بے تحاشہ اضافہ کرنے کی بجائے متبادل بہتر حل ڈھونڈنے کی کوشش
کریں۔تاکہ ایک طرف ہم جسمانی بیماری اور ذہنی دباؤ سے نکل سکیں اور دوسری
طرف معاشی آسودگی بھی حاصل ہو سکے۔خاص طور پہ بڑے شہروں میں اس کی اہمیت
اور بھی زیادہ ہے۔ ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کے ان مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ،متبادل
حل کے طور پہ سائیکل کی سواری بارے سنجیدگی سے سوچا جانا ضروری ہے۔
سائیکل کی سواری کے کئی فوائد ہیں، سائیکل پہ سفر کرنے والے جسمانی طور پہ
صحت مند رہتے ہیں یعنی ہر روز ان کی ورزش ہو جاتی ہے،دوسرا سائیکل کے لئے
بڑی سڑکوں کی ضرورت نہیں ہے اور یہ زیادہ رش اور شور کا باعث نہیں بنتی
ہے۔اور اس کے علاوہ سب سے خاص بات یہ ہے کہ توانائی کے بچاؤ کا بہترین
ذریعہ ہے۔اور یہ ماحول کی آلودگی کا باعث نہیں بنتی۔اور فضا دھواں اور گرد
سے محفوظ ہو جاتی ہے۔
|
|
دنیا کے کئی ممالک نے اپنے ملکوں میں سرکاری سطح پہ ایسے انتظامات کئے ہیں
کہ لوگ زیادہ سے زیادہ سائیکل کا استعمال کریں،ان ممالک میں
چائنا،ہالینڈ،یورپ کے دیگر ممالک،لاطینی امریکہ کے ممالک شامل ہیں۔
سب سے عمدہ مثال لاطینی امریکہ کے ایک شہر بگوٹا کی ہے جہاں مقامی حکومت نے
باقاعدہ سائیکل ٹریک بنائے ہیں جہاں لوگ سائیکل کے ذریعے پورے شہر کا سفر
کر سکتے ہیں۔جگہ جگہ انہوں نے سائیکل پارکنگ کا انفراسٹرکچر بنایا ہے جہاں
سائیکل پارک کر کے خریداری یا دیگر مصروفیات میں شریک ہوا جا سکتا ہے۔اس
روایت کو مزید تقویت دینے کے لئے بگوٹا شہر میں ہر اتوار کو صبح 7بجے سے
لیکر دوپہر2بجے تک120کلو میٹر کی سڑکیں کاروں و دیگر گاڑیوں کے لئے بند کر
دی جاتی ہیں اور شہر کے باشندوں کے لئے جو کہ سائیکل سوار اور پیدل ہوتے
ہیں کے لئے کھو ل دی جاتی ہیں ۔اس طرح تقریباً 2ملین افراد ان سڑکوں پہ آ
جاتے ہیں۔اور سائیکل سواری سے لطف اندوز ہوتے ہیں یہ منظر دیکھنے کے لائق
ہوتا ہے کہ سارا شہر اس وقت ذہنی آسودگی سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے۔اس
عمل سے دیکھنے والوں میں بھی شوق بڑھتا ہے اور ایک مثبت روایت معاشرے میں
جگہ پا تی ہے۔ ہمارے مقامی حکومتوں کے ادارے اس مثال سے سبق سیکھ سکتے
ہیں۔اور سائیکل سواری کے لئے فضا بنائی جا سکتی ہے۔
لوگوں کو چاہئے کہ چھوٹی چھوٹی ضرورتوں اور مختصر فاصلوں پہ سفر کرنے کے
لئے سائیکل کا استعمال شروع کریں،اگر آپ کا دفتر دو سے تین کلو میٹر کے
فاصلے پہ ہے تو اس کے لئے سائیکل استعمال کی جا سکتی ہے۔اگر لوگ سائیکل کا
استعمال شروع کر دیں تو لا محالہ حکومت بھی مجبور ہو گی کہ ایسے ٹریک
بنائیں جائیں جہاں سائیکل سوار سفر کر سکیں اس سے شہر کی فضا میں خاطر خواہ
تبدیلی بھی آئے گی اور لوگ بھی ٹریفک کے مسائل سے نکل سکیں گے اور ان کی
صحت اور معیشت پہ مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
سائیکل چلانے کی روایت سے معاشرے میں لوگوں کی صحت ،ماحول اور معاشی حالت
پہ مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ،ماہرین کے مطابق درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
۱۔دل کی بیماریوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔
۲۔جسم پر سے زائد چربی ختم ہوتی ہے اور وزن کم ہوتا ہے۔
۳۔ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں اور مسلز لچکدار اور صحت مند رہتے ہیں۔
۴۔جسمانی سٹیمنا بڑھتا ہے اور روزمرہ کے کا موں میں چستی پیدا ہوتی ہے اور
تھکاوٹ کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
۵۔سائیکل چلانے سے تازگی کا احساس ہوتا ہے اور ذہنی دباؤ میں کمی واقع ہوتی
ہے۔
۶۔پھیپھڑے مضبوط ہوتے ہیں اور نظام انہظام بہتر کام کرتا ہے۔
۷۔کینسر اور شوگر کے مرض سے حفاظت میں مدد ملتی ہے۔
۸۔سائیکل چلانے سے تفریح میسر آتی ہے اور دوسروں کے ساتھ اچھا وقت گزارنے
کا موقع ملتا ہے۔جس سے ذہنی آسودگی ملتی ہے۔
۹۔سائیکل چلانا ماحول دوست سرگرمی ہے دوسرے ٹرانسپورٹ کے ذرائع کے مقابلے
میں اس سے ماحول کو نقصان نہیں پہنچتا۔
۱۰۔سائیکل پہ اگر سیر کی جائے تو نئے لوگوں اور نئی جگہوں کے بارے میں
معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
۱۱۔سائیکل سے مقامی علاقے میں آسانی سے سفر کیا جا سکتا ہے۔
۱۲۔سائیکل سے معاشی بوجھ کم ہو جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں عام طور پہ سائیکل سوار کو غریب طبقے کا نمائندہ سمجھا
جاتا ہے۔اور کار یا بڑی گاڑی کے مالک کو امیر طبقے کا نمائندہ سمجھا جاتا
ہے لہذا یہ ایک طرح سے سٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔یہ در اصل ہماری ذہنی کیفیت ہے
جسے بدلنے کی ضرورت ہے دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک جہاں اس طرح کی سوچ
موجود نہیں ہے وہاں امیر غریب کا فرق سائیکل سے نہیں جانچا جاتا بلکہ سب
اسے بے دھڑک استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً چائنا میں حکومت کے بڑے سے بڑے
عہدیدار سے لے کر ایک عام مزدور سب ایک ہی ٹریک پہ سائیکل پہ سفر کرتے
ہیں۔بلکہ ان کے وزراء جب سفر کرتے ہیں تو ان کے جھنڈے سائیکل پہ لگے ہوتے
ہیں۔کیونکہ اس کے فائدے اتنے زیادہ ہیں کہ سارا معاشرہ اس سے مستفید ہوتا
ہے اورلوگوں کی زندگی خوشحال اور صحت مند ہو جاتی ہے۔ہمارے ہاں سائیکل کا
استعمال ہوتا ہے لیکن بہت کم ،اسے بڑھانے کی ضرورت ہے اور اپنے رویوں کو
بدلنے کی ضرورت ہے۔اگر پڑھے لکھے طبقے اور خواتین بھی اسے اپنا لیں تو اس
سے معاشرے میں ایک طرح کی حوصلہ افزائی بڑھے گی ۔
|
|
خواتین کے حوالے سے سائیکل چلانے کی روایت ہمارے ہاں 60ء70ء کی دہائی تک
موجود رہی ہے ۔مثلاً لاہور میں مال روڈ پر اکثر سائیکل سوار لڑکیاں نظر آتی
تھیں اس دور میں کنئیرڈ کالج کی لڑکیاں سائیکل پہ کالج آیا جایا کرتی
تھیں۔اس طرح ان کے گھر والوں کو سپیشل پک اینڈ ڈراپ کے لئے گاڑیوں کا
انتظام نہیں کرنا پڑتا تھا آج یہ روایت ختم ہو چکی ہے اسے پھر سے شروع کرنا
چاہئے۔خاص طور پہ جن بچیوں یا بچوں کے سکول ان کے گھروں کے نزدیکی فاصلے پہ
واقع ہیں انہیں سائیکل کا استعمال کرنا چاہئے اس سے ان کے والدین کا گاڑی
کا خرچ بچ جائے گا اور ان کی صحت اور ماحول پہ بھی اچھے اثرات مرتب ہوں
گے۔اسی طرح سائیکل ان خواتین اور لڑکیوں کے لئے بہترین سواری ہے جو روزانہ
دفاتر یا کالج آتی جاتی ہیں۔اس طرح سے انہیں پبلک ٹرانسپورٹ اور درپیش
مسائل سے چھٹکارا مل جائے گا۔اور ان کے والدین اور یا گھر کے دیگر مردوں کو
انہیں لانے یا لے جانے کی ڈیوٹی نہیں کرنی پڑے گی اور ان کا وقت بچ جائے
گا۔لاہور سائیکل سواری کے لئے سب سے بہترین اور آئیڈیل جگہ ہے اورخاص طور
پہ خواتین کے لئے موزوں ہے اس روایت کو یہاں سے شروع کیا جا سکتا ہے۔اس طرح
پورے ملک کے ہر شہر میں اس روایت کو پھیلایا جا سکتا ہے گاڑیوں کی خواہش کی
بجائے سائیکل کی خواہش ہمارے ٹرانسپورٹ کے مسائل سمیت صحت اور ماحول کے
مسائل سے بھی چھٹکارے کا باعث بن سکتی ہے۔گاڑی خریدنے کے لئے تین سے چار
لاکھ جمع کرنے پڑتے ہیں جب کہ سائیکل دو سے تین ہزار میں آسانی سے خریدی جا
سکتی ہے۔لہذا ضرورت ہے اپنا رویہ اور سوچ بدلنے کی ۔اسی سے ہم ایک مہذب قوم
کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔
اگرچہ کہ لوگوں کو ذہنی طور پہ اس امر کے لئے آمادہ کرنا آسان ہے لیکن اس
کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے وہ یہ کہ لوگ سائیکل کہاں چلائیں؟کیا ہمارا
موجودہ ٹریفک کا بے ہنگم نظام اس کی اجازت دیتا ہے؟کیا اس ٹریفک اور خستہ
حال سڑکوں پہ کوئی جرات کر سکتا ہے سائیکل چلانے کی؟تو یقیناً اس کا جواب
نہیں میں ہو گا اور خاص طور پہ بچوں اور خواتین کے لئے تو یہ اور بھی جان
لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔لہذا یہ پہلو بہت ہی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ
حکومتی ادارے ملک کے شہروں میں سائیکل ٹریک بنائیں۔باقاعدہ سائیکل پارکنگ
کا انتظام کیا جائے تاکہ لوگ اپنی ضرورتوں کے لئے آسانی سے سائیکل پہ سفر
کر سکیں۔اس حوالے سے جن ممالک میں سائیکل ٹریک بنائے گئے ہیں اور کامیابی
سے چل رہے ہیں ان سے رہنمائی لی جا سکتی ہے اس حوالے سے بگوٹا کے ماڈل کو
مشعل راہ بنایا جا سکتا ہے۔لہذا لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مقامی
حکومتوں سے باقاعدہ اصرار کرے کے ماحول کی بہتری اور ٹریفک کے مسائل کے حل
کے لئے سائیکل ٹریک کا جال شہروں میں پھیلایا جائے۔اس سے کئی سماجی ،معاشی
اور ماحولیاتی مسائل پہ قابو پایا جا سکتا ہے۔
|